گؤ ماتا سے اُم الخبائث تک تباہی ہی تباہی

ڈاکٹر سلیم خان

اترپردیش میں ۲۰۱۳ ؁ کے اندر  ایک  بھیانک فساد  رونماہوا جس میں ۶۳ لوگ مارے گئے اور ۵۰ ہزار سے زیادہ لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا۔ اس وقت مرکز میں کانگریس کی اور اترپردیش میں سماجوادی پارٹی کی سرکار تھی۔ ان فسادات کے بعد قومی انتخاب میں کانگریس ۲۱ سے ۲ پر اور سماجوادی پارٹی ۲۳ سے ۵ پر پہنچ گئی  جبکہ   اس کا فائدہ اٹھاکر ۲۰۰۹ ؁ میں  ۱۰ نشستیں جیتنے والی   بی جے پی  ۲۰۱۴ ؁ کے اندر اترپردیش کی  ۷۱ نشستوں پر کامیاب  ہوگئی۔یوپی  کے وزیراعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ کا آبائی وطن اتراکھنڈ ہے۔ وہاں پر  تو ۲۰۱۴ ؁ میں  بی جے پی تمام جماعتوں کا مکمل صفایہ کرکےصفر سے پانچ پر پہنچ گئی۔   فی الحال ان دو صوبوں میں زہریلی شراب پی کر جان گنوا نے والوں کی تعداد ۱۰۹ افراد ہوچکی ہے۔ اتر پردیش  کے کشی نگر اور سہارنپور ضلع میں مرنے والوں کی تعداد۷۷ اور اتراکھنڈ میں ۳۲ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کا   ۲۰۱۹ ؁ کے انتخابی نتائج پر کیا اثر پڑتا ہے کیونکہ فی الحال اتر پردیش، اتراکھنڈاور مرکز تینوں مقامات پر بی جے پی برسرِ اقتدار ہے۔

اس آفت ناگہانی  کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گئوماتا کی فکر میں غلطاں و پیچاں یوگی سرکار نے اُم الخبائث کی جانب سے آنکھیں  بند کررکھی تھی۔ ان لرزہ خیز ہلاکتوں کے بعدوہ ہوش میں  آئی ہے اور اس نے ریاست بھر میں شراب مافیا کے خلاف کارروائی کاآغازکیا ہے۔ پولس کی کاروائی کے دوران ہزاروں لیٹر غیر قانونی شراب تلف کی جاچکی ہے۔ محکمہ آب کاری نے۲۹۷مقدمات  درج کرکے ۱۷۵ افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔اسی کے ساتھ  حکومت نے کئی پولس اہلکاروں کے خلاف کارروائی شروع  کردی ہے۔ ضلع سہارنپور میں ہی ۱۰ پولس اہلکاروں کو معطل کیا جا چکا ہے۔ حکومت زہریلی شراب کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف قومی سلامتی قانون نافذ کرنے پر غور کر رہی ہے۔ یوگی سرکار کا یہی  شیوہ گورکھپور اسپتال میں بچوں کی ہلاکتوں کے بعد سامنے آیا تھا  کہ اول تو وہ خواب خرگوش میں گرفتار رہی اور  پھرسرکاری اہلکاروں کے خلاف محاذ کھول دیا۔ اس وقت ڈاکٹرنشانے پر تھے اب پولس  ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت   کیکوئی ذمہ داری نہیں ہے؟ کیا اس کا کام صرف بھاشن بازی اور انتخاب جیت کر موج مستی کرنا ہے؟

زہریلی شراب سے ہونے والی ان  اموات کے لئے سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے بجا طور پریوگی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ حزب اختلاف کی جانب سے لگاتار  توجہ دہانی کے  باوجود لاپرواہی کا الزام لگایا ہے۔ اکھلیش کے مطابق  حکومت کا وقت پر نوٹس نہ لینا ظاہر کرتا ہے کہ وہ شراب کے غیر قانونی کاروبار میں کسی نہ کسی طرح ملوث ہے کیونکہ  یہ  دھندہ حکومت کی سرپرستی کے بغیر پھل پھول  نہیں  سکتا۔ اکھلیش کا اصرار ہے  یوگی آدتیہ ناتھیہ اعتراف کر لیں  کہ وہ ریاست کو نہیں سنبھال سکتے۔یوگی جی تو یقیناً ایسا نہیں کریں گے لیکن کم ازکم عوام کو یہ ادراک ہو جانا چاہیے کہ اس نے مرکز اور صوبے میں نااہل  کمل کا پھول کھلا کر جو بھول کی تھی  وہ اس کی بھاری قیمت  چکانی پڑ رہی ہے تاکہ مستقبل میں اس سے احتراز کیا جاسکے۔

یوگی جی کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں گائے اور مسلمانوں کے سوا کوئی اور نظرہی نہیں آتا۔ اس لیے انتظامیہ مسلمانوں پر گئوکشی کا الزام لگا کر انہیں پریشان کرتا رہتا ہے لیکن اب ایک ایسا مسئلہ سامنے آگیا جس کا  اسلام یا مسلمانوں سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ہندوتواوادیوں نے جس طرح گائے کے گوشت کو حرام کررکھا ہے اسی طرح اسلام میں شراب کی ممانعت  ہے۔ اس لیے یہ کاروبار اور اس کا شکار  ہونے والوں میں مسلمانوں کو تلاش کرکے سزا دینا یوگی جی کے لیے بہت مشکل سمسیا  بن گیا ہے۔ یوگی جی نزدیک  کسی ہندو کو سزا دلوانا مہا پاپ ہے۔ یوگی جی حکمت عملی یہ ہے کہ اگر اپنے ہندو رائے دہندگان کا بھلا نہیں کرسکتے تو کم از کم  سزاسے بچا کر ان کو خوش رکھا جائے ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ مظفر نگر فساد سے جڑے ۳۸ مقدمات  واپس  لینے کی سفارش کی جاتی۔حکومت کا کام مجرمین کو  سزا دلوانا ہے کہ ان کی رہائی کا راستہ صاف کرنا۔اس طرح ان مقدمات میں ملوث ۱۰۰ ملزمین کی خلاصی ہوجائے گی۔ وہ لوگ رہا ہونے کے بعد کمل پر مہر لگائیں یا نہ لگائیں لیکن دنگا فساد ضرور کریں گے۔

 سیاست  کی دنیا میں اپنے مخالف  مظاہرین کے خلاف بھی  مقدمات درج کردیئے جاتے ہیں لیکن یہ الزامات دفع ۴۴ کی خلاف ورزی، راستہ روکنا یا نعرے بازی کے نہیں بلکہ ڈکیتی، آگ زنی، مذہبی مقام کو ناپاک کرنے اور مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے ہیں۔ مقدمات واپسی کے بعد مغربی یوپی کے بی جے پی رکن پارلیمانسنجیو بالیان  کا بیان  اس  گھناونی سیاست  کی چغلی کھاتا ہے۔ بالیان نے  یوگی آدتیہ ناتھ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہندو ہونا کوئی جرم نہیں ہے، میں ان کے لیے ہمیشہ لڑوں گا اور میں وزیر اعلیٰ کا شکرگزار ہوں کہ انھوں نے کیس کو واپس لینے کا فیصلہ لیا‘‘۔اس بیان سے ظاہر ہے کہ  یہ  ان  بے قصورغریبوں پر قائم شدہ  مقدمات نہیں ہیں جو وکلاء کی فیس ادا نہیں کرسکتے۔ ان میں تو ہندو مسلمان دونوں ہوسکتے ہیں  لیکن یہاں ووٹرس کے جذباتی استحصال کا معاملہ ہے۔

اتر پردیش میں آج کل ایسی اندھیر نگری ہے کہ جب ہاپوڑ میں ہجومی قتل کا واقعہ پیش آتا ہے تو پولس اس کو موٹر سائیکل حادثہ قرار دے کر رفع دفع کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس سنگین معاملہ میں ایف آئی آر درج کرانے کے لیے بھی عدالت عظمیٰ سے رجو ع کرنا پڑتا ہے۔ عدالت کی مداخلت کے باوجود بھی اطمینان بخش کارروائی نہیں ہوتی  تومجبوراً  متوفی قاسم کے بیٹے  کو پھر سے سپریم کورٹ میں یہ مطالبہ کرنا پڑتا  ہے کہ معاملے کی جانچ اتر پردیش سے باہر کی ایس آئی ٹی سے کرائی جائے۔ اس عرضی پر سماعت کرتے ہوئے عدالت نے اترپردیش پولس کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کرے تب بھی  بے حس  سرکار کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ اس کے برعکس مظفر نگر جہاں واقعی ایک موٹر سائیکل کا حادثہ ہوا تھا  اس کو لڑکی سے چھیڑ چھاڑ کا نام دے کر فرقہ پرستی کو ہوا دی جاتی ہے اور کھاپ پنچایت بلا  کر فساد بھڑکا دیا جاتا ہے۔

مظفر نگر فساد کے مقدمات کی پیروی کرنے والے سرکاری وکیل آشیش کمار تیاگی کے مطابق ۲۰۱۳ ؁  میں  چند نوجوانوں کے بیچ موٹر سائیکل کی ٹکر کے بعد جھگڑا ہو گیا تھا۔ اس میں دونوں طرف  کےتین  نوجوان ہلاک ہوئے۔ ان میں سے ایک  گورو کے باپ نے جان سیٹھ کوتوالی میں کوال کے مجسم، مزمل، فرقان، ندیم، جہانگیر، افضل اور اقبال کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرایا تھا۔ وہیں دوسرے مقتول  شاہنواز کے والدنے سچن اور گورو کے علاوہ ان کے ۵ اہل خانہ  کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی۔ گورو اور سچن کا قتل اور فساد میں ملوث ۷ مسلم نوجوانوں کو تو مقامی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی اور دولاکھ جرمانہ بھی لگایا لیکن شاہنواز کے قاتلوں کو ابھی سزا نہیں ملی۔  یوگی اور بالیان کو نہ  شاہنواز کے اہل خانہ سےہمدردی ہے اور نہ سچن و گورو کے قتل میں ملوث ملزمین سے  اس لیے کہ وہ مسلمان ہیں۔ ان کا مقدمہ واپس نہیں ہوگا اس لیے کہ ان کی  آنکھوں پر زعفرانی عینک چڑھی  ہوئی ہے۔

یوگی جی کے نزدیک شراب سوم رس ہوسکتی ہے مگر مذہب اسلام نے اسے حرام قرار دیا ہے۔ روشن خیال حضرات اس کو دین حنیف کی دقیانوسیت قرار دے کر مذاق اڑاتے ہیں لیکن اب تو  شراب کے دلدادہ مغرب بھی  اعدادو شمار کی روشنی میں شراب کے نقصانات کا اعتراف کررہا ہے۔ اقوام متحدہ  کے مطابق  دنیا بھر میں ہر سال ۳ کروڈ ۳۰ لاکھ  اموات کا سبب شراب نوشی ہوتا ہے لیکن ۲۰ تا ۳۹ سال کی عمر میں ہونے والی ہلاکتوں میں یہ شرح بڑھ کر۲۵ فیصد ہوجاتی  ہے۔ طبی تحقیقات کا انکشاف ہے کہ یہ ام الخبائث جملہ  ۲۰۰ بیماریوں  کو  جنم دیتی ہے۔ اس کے علاوہنشے کی حالت  میں ڈرائیونگ، تشدد، بدسلوکی  اور مختلف النوع نفسیاتی و ذہنی عارضوں کا سبب بھی شراب ہوتی ہے۔ اس سے لت سے فرد کے ساتھ پورا گھر تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔

 شرابیوں سے عشاریہ ۵ فیصد  ٹیکس وصول کرکے گائے کی سیوا کرنے والی یوگی سرکار موت کے بعد  ان کو دولاکھ  معاضہ دے رہی ہے اور زیرعلاج لوگوں کو ۵۰ ہزار روپئے بانٹ رہی ہے۔ بعید نہیں کہ آگے چل کربی جے پی والے  مظفر نگر کی طرح ووٹ اور نوٹ کے لیے  شراب بنانے والوں کے خلاف بھی مقدمات واپس لے لیں۔ مودی جی مہا گٹھ بندھن کو مہا ملاوٹ کہتے ہیں لیکن ملاوٹ والی شراب کی تباہی  پر خاموش ہیں۔ سیاست میں فرقہ پرستی کی ملاوٹ اور زہریلی  شراب سے کم  تباہ کن نہیں  ہے۔ اس نے یوگی جی کے بھگوا پیراہن کا پاکھنڈ تار تار کردیاہے۔   کاش کے یوگی جی گئو ماتا کے ساتھ ساتھ ام الخبائث کی جانب بھی توجہ دیتے تو اس رسوائی سے بچ جاتے۔ یہ اتفاق ہے  کہ مقدمات واپسی کی درخواست اور عمر قید کی سزا میں دو دن کا وقفہ تھا اور اس کے دودن کے بعد  ہی شراب سے ہلاکتوں کا سلسلہ چل پڑا۔ کیا اس میں مشیت کا کوئی اشارہ موجود ہے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔