ہندوستانی مسلمان صرف گلف ممالک میں ہی کیوں جاتے ہیں؟

ڈاکٹر عمیر انس

بیرون اسفار کرنے والے حضرات ایک بات محسوس کرتے ہونگے کہ آج ہندوستانی نوجوان تمام ممالک میں اچھی، چھوٹی، درمیانی نوکریوں میں بڑی تعداد میں کام کرنے جا رہے ہیں، پنجابیوں نے کناڈا اور امریکہ کو اپنا مرکز بنا رکھا ہے، گجراتی افریقہ، انگلینڈ، میں ہیں تو تاملوں نے ملیشیا ، انگلینڈ میں اپنی پکڑ بنا رکھی ہے، آندھرا پردیش، تمل ممبئی اور بنگالیوں نے امریکہ کو اپنا مرکز بنا رکھا ہے، ان سب میں ایک مشترک بات یہ ہےکہ یہ سبھی لوگ وہاں جاتے ہیں  وہاں کے شہری بھی بنتے ہیں لیکن اپنے ملک سے رابطہ بہت گہرا رکھتے ہیں! آج ملکی سیاست میں امریکی ہندوؤں کا اثر یہ ہےکہ آر ایس ایس اپنے لیے حمایت حاصل کرنے کے لیے امریکہ اور کناڈا میں خوب سرگرمیاں کر رہی ہے۔

اب۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان کہاں جا رہے ہیں؟ آپ سبھی کا پہلا جواب ہوگا گلف ممالک، لیکن ساتھ میں یہ بھی کہیں گے کہ وہ یہاں بغیر کسی مستقبل کے رہ رہے ہیں، بغیر شہری حقوق، بغیر مالکانہ، حقوق اور ظالم اور بد اخلاق کفیلوں کے رحم وکرم پر رہ رہے ہیں، چنانچہ گلف میں رہنے والا مسلمان کتنی بھی ترقی کر لے ملکی سیاست میں اسکا اثر اور رسوخ محدود ہے رہے گا!

کیا مسلمانوں کو صرف گلف ممالک کی طرف ہی رخ کرنا چاہیے؟ کیا انکا دور کا فائدہ صرف گلف ممالک جانے میں ہے؟ مجھے اس معاملے میں شک ہے، حالیہ دنوں میں قازقستان کی ایئر آستانہ سے سفر کے دوران دیکھا کہ پوری فلائیٹ یوپی، پنجاب، اور ہریانہ کے نوجوانوں سے بھری ہے، سب قازقستان یا دوسرے سنٹرل ایشیا کے ممالک میں کام کرنے جا رہے ہیں، اندازہ ہوا کہ ان میں مسلم نوجوانوں کی تعداد بہت کم ہے، کئی نوجوانوں کو روسی اخبارات پڑھتے دیکھا، کچھ کمپنیوں کے بارے میں گفتگو کرتے رہے۔

اپنے جرمنی قیام کے دوران اور متعدد یورپی اسفار میں میرا بغور مشاھدہ ہے کہ مسلم نوجوان ان ممالک میں نوکری کی غرض سے بہت ہی کم تعداد میں آرہے ہیں! انگلینڈ میں بھی۔ہندوستانی مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے اور اکثریت شروعات کے دور میں جانے والوں کی ہے، امریکہ اور آسٹریلیا کی طرف بھی کچھ یہی حال ہی، باقاعدہ اعداد و شمار کے ساتھ بھی گفتگو کی جا سکتی ہے لیکن اسکی ضرورت نہیں ہے۔

یہ سبھی کو معلوم میں ہے کہ گلف اور عرب ممالک کے علاوہ جہاں کہیں بھی ہندوستانی جارہے ہیں وہاں وہ بہت کامیاب ہیں، انکی تنخواہیں بہت زیادہ ہیں، شہری سہولتیں زیادہ ہیں، فیملی کو لانے رکھنے اور بچوں کی تعلیم کے لیے زیادہ بہتر سہولتیں ہیں، پھر شہریت لینے اور وہاں کے نظام کا حصہ بننے کے امکانات بھی خوب ہیں، ہندوستانی نژاد کے ممبر پارلیمنٹ اور وزیروں کی تعداد امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، کناڈا اور کیریبین ممالک میں دیکھی جا سکتی ہے۔

اب سوال یہ ہےکہ ہندوستانی مسلمانوں کو صرف گلف ممالک میں ہی دھکیلنے کی کیا ضرورت ہے، کون ہے جو انہیں صرف انہیں ممالک میں رکھنا چاہتے ہیں، کیا خود مسلمان ہی نہیں چاہتے کہ زیادہ بہتر مستقبل والے ممالک کا رخ کریں؟ یا یہ وجہ ہےکہ مسلمانوں میں یورپی ممالک  دوسرے ممالک میں جانے کے لیے زیادہ معلومات نہیں ہے، اسکے لحاظ سے skill development کی کوشش نہیں ہو رہی ہے؟ کیا ہماری حکومت یا غیر مسلم ممالک کی حکومتیں ہندوستانی مسلمانوں کو نوکری دینے کے معاملے میں کچھ تحفظ رکھتے ہیں؟

میرا خیال ہے کہ یہ سبھی اسباب کار فرما ہیں، مجھے لگتا ہے کہ اللہ نے مسلمانوں کے لیے رزق اور تعلیم کے حصول کے لیے دنیا بھر میں تلاش کی تعلیم دی ہے، اچھے مواقع کا حصول اور اچھے تجربات سے فائدہ اور اسکے ذریعے مختلف تہذیبوں، زبانوں اور ممالک میں اسلامی تہذیب کا مثبت تعارف یہ سبھی مقاصد ایک ساتھ حاصل ہوتے ہیں، اسکی ایک مثال بنگلہ دیشی مسلمان ہیں جو بڑی تعداد میں معمولی معمولی نوکریاں اور معمولی پیش کرنے یورپ بھر میں پھیلے ہوئے ہیں، ترکی اور غیر خلیجی عرب ممالک کے مسلمانوں کی بات دوسری ہے، انکی اکثریت یہاں بین الممالک معاہدوں کے ذریعے آئی ہے۔

 میرا خیال یہ ہےکہ ہندوستانی مسلمانوں اور خاص طور پر غریب اور کم علم مسلمانوں کے لیے گلف ممالک سب سے پہلی پسند ہیں، اس کمزوری کی انہیں جو۔قیمت ادا کرنی پڑتی ہے وہ بہت زیادہ ہے، لیکن پڑھے لکھے، تاجر، اور پروفیشنل افراد بھی صرف گلف ممالک پر منحصر رہیں تو اچھی علامت نہیں ہے، ہاں جہاں کہیں بھی بہتر تنخواہیں ہیں وہاں جانا۔چاہیے لیکن ایک ساتھ ساتھ دوسرے سماجی، تعلیمی اور فیملی کے فائدے دیکھنے چاہیے، اسکا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ کناڈا، امریکہ اور آسٹریلیا میں نوکری کرنے والے کم علم ہندوستانیوں کی اولادیں اور گلف میں کام کرنے والے کم علم ہندوستانیوں کی اولادیں دونوں میں کون زیادہ بہتر طریقے سے آگے بڑھ رہے ہیں؟

میری گفتگو کا مقصد بالکل یہ نہیں ہے کہ مسلمان ہندوستان چھوڑ کر باہر جائیں، یا یہاں کی شہریت چھوڑیں، لیکن جن مواقع کے استعمال سے آپکے پڑوسی ترقی کر رہے ہیں اور آپکے بچے پیچھے رہ جا رہے ہیں ان مواقع کے استعمال میں کیا حرج ہے جب کہ اس میں دیگر بہت سے سیاسی، سماجی، اور دینی فائدے ہیں، مثلاً جاپان میں چند دہائیوں پہلے اسلام سے لوگ ناواقف تھے، آج جاپانیوں کی ایک اچھی تعداد داخل اسلام ہے، چین کی اسلام دشمنی کا کیا حال سنایا جائے لیکن یہ دشمنی تبدیل ہو سکتی ہے اگر مسلمان مزدور، پروفیشنل، طلبہ، اور تاجر چین کی طرف بھی رخ کریں! مسلمان نوجوانوں کو یورپی زبانیں، روسی، چائنیز، اور جاپانی، زبانیں سیکھنے کے لیے توجہ دینا چاہیے، خاص طور پر جو نوجوان بہت زیادہ competitive نھیں ھیں انہیں غیر ملکی زبان سیکھ کر فوراً اچھی نوکریاں پانے کا بہت امکان ہے۔

دبے الفاظ یہ بات بھی کہ دینے کا دل کرتا ہے کہ کہیں نہ کہیں مسلمان رسک لینے سے ڈرنے لگے ہیں، امکانات کی طرف کوشش کرنے کی بجائے محفوظ اور مامون لیکن کم فائدے مند مواقع کی طرف جلدبازی کرنے لگے ہیں، ہر مسلمان اپنی تجارت سب سے پہلے مسلمانوں کے ہی درمیان کرنا چاہتا ہے، غیر مسلم محلوں میں مسلمانوں کی دکانیں، خدمات محدود ہیں، ہمارا بین الاقوامی رابطہ بھی صرف گلف ممالک تک رہ گیا ہے اور ملک میں بھی ہمارے معاشی تعلقات مسلمانوں میں ہی محدود ہوتے جا رہے ہیں، یہ رجحان میرے خیال میں صحتمند ہے اور نہ طویل مدتی حکمت عملی میں ملی مفادات کے لیے فائدے مند!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔