ہندو ووٹوں کا انضمام اور استحکام بی جے پی کے لئے باعث مسرت

آسام میں کانگریس کی حماقت اور غلط حکمت عملی سے فرقہ پرستوں کی جیت

بھارتیہ جنتا پارٹی کی خوشی اور اس کی مسرت کی وجہ یہ ہے کہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج اس کی توقع کے تقریباً مطابق ہوئے ہیں۔ بی جے پی آسام میں کانگریس کو اقتدار سے ہٹانے کی خواہش رکھتی تھی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے حکومت سازی کی آرزو مند تھی، اس کی یہ خواہش اور آرزو پوری ہوئی۔ بھاجپا چاہتی تھی کہ تاملناڈو میں ڈی ایم کے اور کانگریس کا اتحاد کامیاب نہ ہو۔ جے للیتا دوبارہ بر سر اقتدار آئیں۔ یہ بھی ہوا جس سے بھاجپا کو یک گونہ اطمینان ہوا۔ مغربی بنگال میں بھاجپا کی پہلی خواہش تھی کہ ممتا بنرجی کو اقتدار کی کرسی تک پہنچنے میں دس پندرہ سیٹوں کی جو کمی ہو وہ بھاجپا اگر کامیاب ہوکر آئے تو اس کی حمایت کرے، مخلوط حکومت بنے تو شامل ہو اور شمولیت نہ بھی ہو تو باہر سے ہی حمایت کرے۔ دوسری تمنا یہ تھی کہ اگر بھاجپا کی سیٹیں کم یا زیادہ آئیں تو کوئی بات نہیں مگر کانگریس اور لفٹ کا اتحاد کامیاب نہ ہو۔ مغربی بنگال میں بھاجپا کی پہلی آرزو تو محترمہ ممتا بنرجی کی زبردست اکثریت سے کامیاب ہونے کی وجہ سے خاک میں مل گئی مگر اس کی دوسری آرزو پوری ہوئی کہ اس کے دو بڑے دشمن کانگریس اور لفٹ کے اتحاد کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔
مغربی بنگال میں بی جے پی کو 2014ء کے لوک سبھا الیکشن میں 16.8 فیصد ووٹ ملے تھے۔اس الیکشن میں 10.2 فیصد ووٹ ملے ۔ اس کے 7 فیصد ووٹ ترنمول کانگریس کو ٹرانسفر ہوگئے۔ کانگریس کے دو فیصد ووٹ ترنمول کانگریس کی طرف منتقل ہوئے۔ لفٹ کو لوک سبھا الیکشن میں 29.6فیصد ووٹ ملے تھے ۔ اس الیکشن میں 26.1 فیصد یعنی 3.5 فیصد ووٹ لفٹ کے کم ہوگئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کانگریس کیلئے جو لفٹ نے سیٹیں مخصوص کی تھیں وہاں اس کے اپنے ووٹ بھی کانگریس کے حق میں منتقل ہوئے جس کی وجہ سے کانگریس لفٹ سے بھی زیادہ سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ جبکہ ووٹ کی حصہ داری لفٹ کو 26.1 فیصد اور کانگریس کو 12.3 ہے۔ اس طرح کانگریس کو اتحاد سے فائدہ پہنچا ہے جبکہ لفٹ نقصان (Loser) میں رہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کانگریس کے کارکن نظم و ضبط سے محروم ہیں جبکہ لفٹ کے کیڈرس نظم و ضبط کے لحاظ سے کانگریس کے مقابلے میں بہتر ہیں۔ اگر چھ سات مہینے پہلے اتحاد ہوا ہوتا اور اتحاد کی مشترکہ کوششوں اور جدوجہد کا مظاہرہ ہوتا تو شاید اتحاد کی یہ درگت نہیں بنتی اور نہ ہی لفٹ کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا۔
جہاں تک ریاست کیرالہ کا معاملہ ہے وہاں مارکسی پارٹی کو اس کی توقع سے کہیں زیادہ سیٹیں ملی ہیں اور اسے بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ کانگریس اپنی بدعنوانی اور غلط حکمت عملی سے ناکام ہوئی ہے۔ وہاں ہر پانچ سال میں حکومت بدلتی ہے، اس لئے کانگریس کیلئے یہ زیادہ پریشانی کا باعث نہیں ہے، البتہ کیرالہ میں لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کو 10.3 فیصد ووٹ ملے تھے جو بڑھ کر 10.7 ہوگئے ہیں اور BDJS سے اتحاد کی وجہ سے دونوں کے ووٹ 14.6 فیصد ہوگئے ہیں جو کانگریس اور لفٹ دونوں کیلئے تشویش کا باعث ہے۔ یہاں بی جے پی اس سے زیادہ کی تمنا نہیں رکھتی تھی۔ ایک حد تک اس کی یہ تمنا بھی پوری ہوئی۔ پڈوچیری مرکز کے تحت تاملناڈو سے متصل علاقہ ہے ۔ یہاں کانگریس اور ڈی ایم کے کا اتحاد کامیاب ہوا۔ بی جے پی کا یہاں کوئی رول نہیں تھا۔ اس لئے یہاں کے نتیجہ انتخاب سے نہ اسے خوشی ہوئی اور نہ غم۔
اگر ٹھیک سے جائزہ لیا جائے تو حقیقت حال یہ ہے کہ بھاجپا کی آسام میں اتحاد کی وجہ سے جیت ہوئی ہے اور کانگریس کی ہار عدم اتحاد کی وجہ سے ہوئی ہے۔ کانگریس کا ووٹ فیصد اب بھی سب سے زیادہ ہے یعنی 31 فیصد ہے جبکہ بی جے پی کا 29.5 فیصد ہے۔ لوک سبھا میں جو فیصد 36.6 تھا اس میں کمی واقع ہوئی ہے۔ جناب بدرالدین اجمل کی پارٹی اے آئی یو ڈی ایف کو 13 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ اگر کانگریس اور اے آئی یو ڈی ایف کا ووٹ جوڑا جائے تو 44 فیصد ووٹ ہوتے ہیں جبکہ اتحاد کا مجموعی ووٹ 41.5 فیصد ہے۔ آسام میں اتحاد کی جیت ہوئی اور انتشار کی ہار ہوئی۔ بہار سے بی جے پی نے جو سبق لیا تھا اسے یاد تھا ۔ اس کے مطابق اس نے وہاں حکمت عملی طے کی۔کانگریس کو جو سبق بہار سے ملا تھا اس نے اسے فراموش کر دیا تھا جس کی وجہ سے اس کو شکست خوردگی کا منہ دیکھنا پڑا۔ ترون گگوئی اگر چہ کانگریس کے لیڈر ہیں مگر وہ اپنی بیوی بچوں کی وجہ سے مجبور محض ہیں۔ بیوی بچوں کا تعلق بوڈو نسل سے ہے جس کی وجہ سے ان کا خاندان بوڈو کی پارٹی بی پی ایف سے قریب ہے۔ یہی سبب ہے کہ گگوئی بدرالدین اجمل کو پہچاننے سے بھی انکار کرتے تھے۔ اتحاد کی بات آئی تو گگوئی نے کہاکہ کون بدرالدین اجمل؟ دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ موصوف نے ہاتھ ملانے کی کوشش نہیں کی۔ کانگریس کی مرکزی قیادت بھی کمزور ہونے کے سبب گگوئی خاندان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی۔ کانگریس کیلئے بدرالدین اجمل سے ہاتھ ملانے میں ہچکچاہٹ کی ایک وجہ قابل فہم ہے وہ ہندو ووٹروں کی ناراضگی جس کی وجہ سے فرقہ پرستوں کے اتحاد کو مزید فائدہ ہوسکتا تھا۔

asam
آسام کے بارے میں کانگریس کی سینئر قیادت بیحد غیر مطمئن ہے کیونکہ سینئر قیادت کی طرف سے جو بھی تجاویز آسام کیلئے دی گئی تھیں وزیر اعلیٰ ترون گگوئی اور راہل گاندھی نے انھیں نظر انداز کردیئے جس کی وجہ سے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ ایک تجویز یہ تھی کہ الیکشن سے بہت پہلے ہی گگوئی کی جگہ کسی اور کو وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھا جائے کیونکہ گگوئی تین بار ریاست کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ ان کے خلاف بہت سے الزامات ہیں۔ ان کے اندر اقربا پروری بھی آگئی ہے اور ضعیفی بھی۔ دوسری تجویز یہ تھی اے جی پی اور اے آئی یو ڈی ایف کے ساتھ اتحاد قائم کیا جائے۔ دونوں سیاسی جماعتیں کانگریس کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنے کی خواہش مند تھیں۔ کانگریس کے مقامی لیڈر بسوا شرما بھی اس کے حق میں تھے۔ جب ان کی تجویز نہیں سنی گئی تو کانگریس سے منحرف ہوگئے اور بی جے پی میں نہ صرف شامل ہوئے بلکہ بی جے پی کے خاص منصوبہ ساز ہوگئے۔ ان کا ایک ہی مقصد تھا گگوئی کو کرسی سے بے دخل کرنا اور راہل گاندھی کی قیادت کو بے معنی اور غیر متعلق کر دینا۔ شرما کی دونوں خواہشیں پوری ہوئیں۔ کانگریس کی مرکزی قیادت کو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو کانگریس کیلئے آسام جیسی صورت حال دیگر ریاستوں میں بھی ہوسکتی ہے۔ کانگریس کی بدعنوانی اور قیادت کی کمزوری کی وجہ سے ہی آج فرقہ پرستوں کی ملک میں حکومت ہے۔ اگر کانگریس گہرائی سے اپنا جائزہ نہیں لیتی تو بی جے پی کے خلاف خاص اپوزیشن پارٹی کی حیثیت سے بھی محروم ہوسکتی ہے۔ بی جے پی کا نعرہ ’کانگریس مکت بھارت‘ ہے۔ پانچ ریاستوں کے انتخابات کے نتائج سے اسے بہت کچھ حوصلہ ملا ہے۔ 2015ء اس کیلئے مایوس کن تھا۔ رواں سال اس کیلئے کانگریس کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے حوصلہ افزا ہے۔ وہ پھر 2014ء کی پوزیشن بحال کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے جو نہ صرف کانگریس کیلئے بلکہ ملک اور انسانیت کیلئے خطرہ کا باعث ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔