ہوش میں آؤ، گاندھی کے نظریات بھی قتل ہوچکے

ڈاکٹر عابد الرحمن

یہ ہماری غلط فہمی ہے کہ گاندھی مر نہیں سکتا۔ یہ بھی غلط فہمی ہے کہ گاندھی ہر ہندوستانی کے دل میں زندہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ناتھورام نے گاندھی کے جسم سے جان نکالی تھی لیکن وہ ان کے وژن کو نہیں مار سکا تھا یہ بات بھی اب پرانی ہو چکی ہے۔ گاندھی جی کے قتل کے بعد سے ان کے خیالات اور نظریات کو بھی مختلف طریقوں سے قتل کر نے کی کوششیں مسلسل ہوئی ہیں اور اب ان کے قاتل گوڈسے کے حواری اپنی ان مذموم کوششوں میں پوری طرح کامیاب ہو چکے ہیں۔ گاندھی جی کی تذلیل و تحقیر اور ان کے قاتل کی جئے جئے کار میں ڈھٹائی اسی بات کا مظہر ہے۔ گاندھی جی نے ساری زندگی عدم تشدد کا پرچار کیا اور آخر تک اسی پر قائم رہے۔ ان کے نزدیک عدم تشدد صرف کسی کو جسمانی اور ذہنی ضرر پہنچانے سے باز رہنا نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کسی کو نقصان پہنچانے کا خیال بھی دل میں نہیں لانا۔ وہ مذہبی رواداری اور ہندو مسلم بھائی چارہ اور یکجہتی کے بھی بہت بڑے حامی تھے لیکن مہاتما قرار دئے جانے کے بعد بھی ان کے ان نظریات اور افکار کے مخالفین کی بھی کمی نہیں تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ ’ مجبوری کا نام مہاتما گاندھی ‘ یہ مقولا ان کے مخالفین ہی نے بنایا ہے کہ گاندھی جی کی حیثیت کم کی جاسکے اور تحریک آزادی میں ان کی قیادت کوملک کے عوام اور ان مخالفین کی مجبوری گردانہ جائے۔

آج گاندھی جی کے قتل کے ستر برس بعد ہم کہاں کھڑے ہیں اس پر غور کیجیے۔ ملک میں گاندھی جی کی حیثیت کیا ہوگئی ہے اس پر غور کیجئے، یوں تو گاندھی جی کو مہاتما باپو اور بابائے قوم کہا جا تا ہے ہر طرف گاندھی گاندھی کیا جا رہا ہے، ان کی تعلیمات اور افکار کی تعریفیں کی جارہی ہیں اور انہیں ساری دنیا کے لئے مشعل راہ قرار دیا جا رہا ہے لیکن ملک میں جس طریقے سے ان تعلیمات اور نظریات کا گلا گھوٹا گیا اس کے لئے کچھ نہیں کیا گیا کسی بھی حکومت نے گاندھی کے نظریات کو بڑھاوا دینا تو دور انہیں بچانے کی بھی کوشش نہیں کی، آج ملک میں گاندھی جی کی حیثیت نوٹ پر بنی ایک خاموش علامت سے زیادہ نہیں رہی اسے بھی لوگ مجبوری ہی کہہ رہے ہیں، اب تو انہیں نوٹ سے بھی اتار پھینکنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ آج کا ہندوستان گاندھی جی کے نظریات سے بہت دور پہنچ چکا ہے۔ ملک کی گنگا جمنی تہذیب، مختلف مذہبی گروہوں میں بھائی چارگی کا جذبہ اوررواداری تو کب کی خاکستر ہوچکی ہے۔ اس ضمن میں قانون نے جو ایک روک بنائے رکگی تھی اب وہ بھی ٹوٹ چکی ہے۔ اب اس ضمن میں کھلم کھلم قانون شکنی ہونے لگی ہے بلکہ اس طرح کی قانون شکنی کو حب الوطنی کہا اور سمجھا جا رہا ہے تابوت کی آخری کیل تو یہ ہے کہ حکومت و انتظامیہ کی طرف سے اس طرح کی قانون شکنی کر نے والوں کی در پردہ پشت پناہی ہوتی نظر آ رہی ہے۔ گاندھی جی کا نظریہء عدم تشدد تو اس بری طرح مجروح کیا جارہا ہے کہ خدا کی پناہ۔ بر سر اقتدار ہر خاص آدمی کے منھ سے تشدد ابلا پڑ رہا ہے، کہیں ہاتھ کاٹنے کی باتیں ہو رہی ہیں تو گردنیں اڑانے کی۔ یہی نہیں بلکہ مذہب کے نام انتہا درجے کے تشدد کے عملی مظاہرے بھی بڑی بے شرمی کے ساتھ ہو چکے ہیں اور افسوس کی بات کہ عوام و خواص کے معدودے چند کے سوا سبھی اس تشدد کے حامی نظر آرہے ہیں۔ شاید ہی ملک کا کوئی گوشہ ایسا بچا ہو جہاں گاندھی جی کے نظریہء عدم تشدد کو کھلم کھلم قتل نہ کیا گیا ہو۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب سیاسی لوگوں کی کارستانی ہے جو اپنے مفادات کے لئے سماج میں مذہبی منافرت کا بازار گرم کرتے ہیں، لیکن سیاسی لوگوں کی یہ کارستانی اب سماج میں اتنی اندر تک پیوست ہو چکی ہے کہ ملک کا ہر مذہبی لسانی اور علاقائی گروہ ایک دوسرے کا دشمن بن چکا ہے اور اس میں بھی جہاں بات ہندو مسلمان کی آتی ہے تو پورا ملک ایک ساتھ ایک طرف ہو کر مسلمانوں کو الگ تھلگ ڈال دیتا ہے گویا سماج میں ایک بہت بڑی خلیج پیدا ہو چکی ہے جسے پاٹنا انتہائی مشکل نظر آرہا ہے۔ سیاسی لوگوں کی یہ کارستانی سماج میں اتنی عام ہو گئی ہے لوگوں کے دماغوں میں اس قدر بیٹھ گئی ہے کہ اب انہیں مذہبی تشدد اور منافرت کے عملی اظہار کے لئے کسی سیاسی اکساہٹ کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ لوگ خود بخود اپنے طور پر تشدد پر اتر آرہے ہیں۔ حالات کی خطرناکی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ آج جو لوگ اس سب کی مخالفت کرتے ہیں، اس کے خلاف جد و جہد کرتے ہیں گویا گاندھی کے نظریات کی بات کرتے ہیں انہیں ملک دشمن قرار دیا جا رہا ہے، پریشان کیا جارہا ہے، دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ملک میں یہ جو سب کچھ ہو رہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اب گاندھی جی کے نظریات افکار وژن بھی مار دئے گئے۔ پچھلے کچھ سالوں سے گاندھی جی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کی جو جئے جئے کار ہو رہی ہے اب یہ جو گاندھی جی کے دوبارہ قتل کا جو مظاہرہ کیا گیا وہ دراصل اعلان ہے کہ ستر سال پہلے ہم نے جس گاندھی کی جان لی تھی اب اس کے نظریات کو بھی قتل کردیا۔

جو لوگ اس خوش فہمی یا غلط فہمی میں مبتلاء ہیں کہ گاندھی مر نہیں سکتا ان کے نظریات نہیں مارے جاسکتے انہیں چاہئے کہ گاندھی اور فلسفہء گاندھی کو زندہ کر نے کی سعی میں جٹ جائیں، اس پر آشوب دور میں گاندھی کی ضرورت پہلے کے مقابلے کہیں زیادہ ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔