یوم جمہوریہ کا یہ جشن اور دستوری تقاضوں کی پامالی 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں 26 جنوری کو 70 واں یوم جمہوریہ منایا گیا۔ یعنی اُس آئین کے نفاذ کے جشن میں ہم سب شامل ہوئے، جس میں ہر برس کی طرح اِس سال بھی تمام ریاستوں نے آئین کی پاسداری کے تئیں یقین ظاہر کیا اور آپس میں مل کر جمہوریہ ہندکی یکجہتی، آئینی تقاضو ں کی تکمیل اورجمہوری قدروں کو استحکام بخشنے کا عہد کیاگیا۔ سچ ہے کہ آئین پر عمل پیرا ہو کر ہی تمام شہریوں کے خوابوں کی تعبیر ممکن ہے لیکن گزشتہ برسوں کی طرح اس بار بھی یوم جمہوریہ کی تقریبات راجدھانی دہلی میں پریڈ، جھاکیوں، جوانوں کے کرتب، راج پتھ پر فوجی طاقت کے مظاہروں، اسکولی بچوں کے ثقافتی پروگراموں، پدم انعامات کے لئے چنندہ ہستیوں کے ناموں کے اعلان، بہادری کے غیر معمولی کارناموں کیلئے فوجیوں اور بچوں کو اعزازات سے نوازے جانے کے ارد گرد ہی رہیں۔ البتہ اس سال گاندھی جی کی ایک سو پچاسویں سالگرہ ہے۔ شاید اسی مناسبت سے جھاکیوں میں ان کی زندگی کا رنگ غالب رہا۔

سال در سال منائے جا رہے یوم جمہوریہ میں اب وہ بنیادی احساس پیچھے چھوٹتا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے بھارت ریپبلک بن پایاتھا۔ یعنی آئین کے نفاذ کا مقصد کیا تھا، یہ بات عام لوگوں کے ذہن سے اوجھل ہوتی جا رہی ہے۔ اسی کی وجہ سے ملک میں ایک کے بعد ایک ایسے واقعات ہو رہے ہیں جن سے آئین کی روح مجروح ہورہی ہے۔ یہ اس وقت ہے جب عوامی نمائندے اپنی رکنیت کی بحالی اور عہدے پر فائز ہونے سے پہلے حلف لیتے ہیں کہ ہم بھارت کے شہری اپنی جمہوریت میں مکمل یقین رکھتے ہیں، اپنے ملک کے آئینی تقاضوں کو پورا کریں گے۔ آزادانہ اور غیر متعصبانہ عمل کے ذریعہ ہر شہری کے ساتھ منصفانہ رویہ اپنائیں گے۔ مذہب، ذات، جماعت اور زبان کسی طرح کے تحفظات سے پاک رہیں گے لیکن عملی صورت کیا ہے؟ ہمارے وزرا، عوامی نمائندے ایک مذہب کے خلاف نفرت انگیز تقریریں کرتے ہیں۔ کہیں مذہب تو کہیں ذات کو نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن پھر بھی سماج کے بڑے طبقہ میں اسے لے کر کوئی ہلچل دکھائی نہیں دیتا۔

جمہوری نظام حکومت اپناتے ہوئے یہ امید کی گئی تھی کہ عوام اپنی حکومت خود منتخب کریں گے تو ان کی پریشانیاں ختم ہوں گی، لیکن عوامی بھلائی کی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے وقت کبھی بھی جمہوری قدروں کو اہمیت نہیں دی گئی۔ ذات اور طبقات کی آبادی کے لحاظ سیاسی جماعتیں اپنے منصوبہ بناتی ہیں۔ سیاست میں عوامی مدوں کی جگہ پولرائزیشن نے لے لی ہے۔ پالیسی سازی میں بھی اس کا اثر صاف دکھائی دیتا ہے۔ سیاست عوام کے مسائل کو خطاب کرنے کے بجائے اقتدار پر قابض ہونے کا ذریعہ بن گئی ہے۔ راج تنتر ہی پرجا تنتر بن گیا ہے۔ ’ہم بھارت کے لوگ‘کی اجتماعیت ہی آئین اور جمہوریت کی روح ہے۔ اس لئے ہمارا آئین مذہب، زیان، ثقافت، تہزیب، علاقہ، صنف سے اوپر اٹھ کر ہر ایک شہری کے مفاد میں کام کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے ہی اقتدار کی کنجی عوام کے ہاتھ میں دی گئی۔ اگر کوئی حکمران تانا شاہ بن جائے اور ان مقاصد کو پورا نہ کرے تو عوام اس کو بدل سکیں۔ ستر سالوں میں ملک کی سیاست راج شاہی کی طرح ہو گئی ہے۔ ہر سیاسی جماعت وعدہ کرتی ہے کہ ہم آئے تو یہ دیں گے، وہ دیں گے۔ راجہ مہا راجاؤں کی طرح۔ کوئی بھی عوام کے ساتھ بیٹھ کر ان کی ضرورت کے لحاظ سے یا سروے کر کے یہ نہیں بتاتا کہ کس علاقے یا کن طبقات کیلئے کیا کام کرنے کا اس کا منصوبہ ہے۔ اسی بناء پر عام آدمی کا انتخابی سیاست میں شامل ہو کر پالیسی سازوں کی جماعت میں بیٹھنا آج بھی اتنا ہی مشکل ہے جتنا صدیوں پہلے کسی عام آدمی کا کسی راجہ کی بیٹھک میں جگہ بناناہوا کرتاتھا۔

صدر جمہوریہ ہند رام ناتھ کووند کے یوم جمہوریہ کے موقع پر قوم کے نام خطاب کو اس تناظر میں دیکھیں تو انہوں نے ایسے معاشرے کی تعمیر پر زور دیا ہے، جس میں ہر شخص کی ترقی کیلئے تمام طرح کی مراعات حاصل ہوں۔ سب کو ساتھ لے کر چلنے کے جذبہ کا احساس بھارت کی ترقی کا بنیادی منتر قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک کے وسائل پر سب کا یکساں حق ہے۔ ترقی کے دائرے میں ملک کے ہم سب لوگ شامل ہیں۔ ملک کی عملی صورتحال صدر جمہوریہ کے بیان کے منافی ہے۔ یہاں قدرتی وسائل کی تقسیم میں علاقائی تعصب، ذہنی تحفظات اور نسلی تفرقات کا بول بالا ہے۔ آکسفام کی تازہ رپورٹ کے اعداد وشمار چونکانے والے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بھارت کے ٹاپ دس امیروں کا ملک کی 77 فیصد ملکیت پر قبضہ ہے۔ 2018 میں غریبوں کی سالانہ مالیت محض تین فیصد بڑھی ہے تو ملک کے امیروں کی مالیت میں 39 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ امیر اور امیر، غریب اور غریب ہوتے جا رہے ہیں۔ امیری غریبی کا فاصلہ دن بہ دن بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

زمینی سطح پر اس نابرابری کے نتائج خوفناک ثابت ہورہے ہیں۔ 26 فیصد نومولود بچے عدم تغذیہ کا شکار ہیں۔ 35 فیصد آبادی کی روزانہ آمدنی دنوں دن کم ہو تی جارہی ہے۔ وہ فاقہ کشی کو مجبور ہیں۔ ترقی کے تمام دعووں کے باوجود یہ بھی سچائی ہے کہ انسانی زندگی کی سہولیات فراہم کرنے میں اب بھی ہم دنیا کے پسماندہ ملکوں کی قطار میں کھڑے ہیں۔ آزادی کے اتنے دنوں بعد بھی تمام شہریوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہے۔ آج بھی ناخواندگی کا بد نما داغ ہمارے لئے باعث ندامت ہے۔ سماجی برائیوں پر قابو پانے کی کسی کو فکر نہیں ہے۔ وہیں بے روزگاری کی وجہ سے نوجوانوں کا ذہن و فکر مفلوج ہو رہا ہے۔ مذہبی فرقہ پرستی اور نسلی امتیاز کا حال یہ ہے کہ دلتوں سے بھی گئی گزری حالت میں ہونے کے باوجود مسلمان حکمرانوں کی عدم توجہی کا شکار ہیں۔

ریزرویشن کے دستوری حق سے بھی انہیں محروم رکھا گیا ہے۔ انہیں وہ فائدہ نہیں مل پاتا جو ان جیسا ہی کام کرنے والے غیر مسلموں کو حاصل ہے۔ حکومت ان کے تحفظ کو بھی یقینی نہیں بنا پائی ہے۔ یوم جمہوریہ کے موقع پر دارالعلوم دیوبند کے ذریعہ طلبہ کو جاری کی گئی ہدایات قابل ذکر ہیں۔ ہدایات میں طلبہ سے کہا گیا تھا کہ وہ یوم جمہوریہ کے دن بلا کسی ضرورت ہاسٹل سے باہر نہ جائیں، اگر باہر جانا پڑے تو حالات کو دیکھتے ہوئے وہ کسی بحث و مباحثہ کا حصہ نہ بنیں، ٹرین میں سفر نہ کریں۔ جشن منانے کے دن اگر کوئی مذہبی اداراہ اپنے طلبہ کو اس طرح کی ہدایت دیتا ہے تو یہ آئین پر بڑھتے خطرے کی طرف اشارہ ہے۔

آئین نا انصافی کے خلاف آواز اٹھانے کا حق دیتا ہے لیکن کیرالہ میں پادری فرینکو ملککل پر عصمت دری کا الزام لگانے والی نن کی حمایت کرنے والی پانچ ننوں پر مشنری آف جیسس کی جانب سے کاروائی کی جارہی ہے۔ چار کا تبادلہ کیا جا چکا ہے اور پانچویں نن روز کو نوٹس دے کر 26 جنوری کو جالندھر آ کر مشنری منڈل کو اپنی صفائی دینے کو کہا گیا۔ سوال یہ ہے کہ جمہوری ملک میں مذہبی چابک چلنا چاہئے یا پھر آئین کے مطابق فیصلہ ہونا چاہئے۔ وہیں سبری مالہ مندر کا معاملہ بھی آئین، قانون اور انصاف کا مذاق اڑانے والا ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود خواتین کو مندر میں داخل ہونے کیلئے جدوجہد کرنی پڑی۔ جو دو خواتین مندر میں داخل ہوئیں ان میں سے ایک کنک درگا کو اپنے آئینی حق کو استعمال کرنے کیلئے تکلیفیں اٹھانی پڑ رہی ہیں۔ یہ اس وقت ہے جبکہ بھارت کی آئین ساز کمیٹی میں پندرہ خواتین شامل تھیں۔ ان کے نام کچھ اس طرح ہیں درگا بائی دیش مکھ، راج کماری امرت کور، ہنسا مہتا، بیگم اعجاز رسول، امو سوامی ناتھن، سچیتا کرپلانی، دکشیانی ویلیودھن، رینوکا رے، پنریما بنرجی، عینی مسکیرینی، کملا چودھری، لیلا رائے، مالتی چودھری، سروجنی نائیڈو اور وجے لکشمی پنڈت۔ ان عظیم خواتین کی قربانیوں کے باوجود آج بھی ملک میں خواتین کو اپنے حق کیلئے جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔

ہمارا آئین 26 نومبر 1949 کو مکمل ہو گیا تھا لیکن اس کے نفاذ کی تاریخ 26 جنوری 1950 متعین کی گئی۔ جنگ آزادی میں اس تاریخ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ 26 جنوری 1930 کو پہلی مرتبہ ترنگا لہرایا گیا تھا اور اسی دن مکمل آزادی کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔ آئین کو اس دن نافذ کرنے کے پیچھے اکابرین کا مقصد یہ تھا کہ عوام میں مکمل آزادی کا احساس پیدا ہو۔ آئین کی خلاف ورزی ملک کے لئے قومی شرم کی بات ہے۔ کیونکہ اس کی خلاف ورزی کرنے والا ہر واقعہ ہماری جمہوریت کو کمزور کرتا ہے۔ اس کو نظر انداز کرنا اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مارنے جیسا ہے۔ کیا ہمارے اکابرین نے آئین کے نفاذ کا مقصد یہی سوچا تھا؟ اگر نہیں تو ہمیں اپنے آئین کی حفاظت، اس کے تقاضوں کی پاسداری اور اس پر عمل پیرا ہونے کو یقینی بنانا ہوگا۔ ورنہ یوم جمہوریہ کے موقع پر قوم کے نام خطاب، جھانکیاں، پریڈ، انعام واعزاز اور جشن سب بے معنیٰ ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔