عظیم خوبیوں کے مالک: مولانا واضح رشید حسنی ندویؒ

وسیم اکرم ندوی

ہر نفس کو موت کا مزا چکھنا ہے۔ موت سے کسی کو مفر نہیں۔ جو بھی اس دنیائے فانی میں آیا ہے، اسے کبھی نہ کبھی دنیائے لافانی کی طرف منتقل ہونا ہے۔ مگر بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں، جن کے جانے کے بعد ایک خلا محسوس ہوتا ہے۔ اُن کی زندگی ایک روشن ستارے کی طرح ہر ایک کے دلوں کو روشن کرتی ہے۔ اُن کی ذات ایک ضیا پاش کرن کی طرح ہوتی ہے، جس سے ہر ایک تازگی اور گرمی محسوس کرتا ہے۔ وہ ایک روشن ماہتاب جیسے ہوتے ہیں، جن سے بھٹکا ہوا مسافر اپنی رہ گزر کو روشن کرلیتا ہے۔

16؍ جنوری 2019 کو ایک غم واندوہ ناک خبر پوری دنیا میں سنی گئی۔ یہ خبر ایسے عالم ربانی کے متعلق تھی، جو علم کا کوہِ گراں، عظیم مربی ومحسن، صاحب بصارت وبصیرت، فکرو آگہی سے بھر پور، کم گو، سادہ مزاج، متواضع، حیا وسادگی کے پیکر، بے لوث خادم، خاموش مجاہد، قلم کے سپاہی، باکمال صحافی، ماہر لسانیات اور بھی بہت سی خوبیوں کے مالک، استاذ الاساتذہ حضرت مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی ؒ کی ذات گرامی تھی۔ مولاناؒ کی پیدایش 10؍ اکتوبر 1935ء تکیہ کلاں، رائے بریلی، یوپی میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اپنے وطن رائے بریلی میں حاصل کی۔ مزید تعلیم کے لیے دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ میں داخلہ لیا۔ یہاں سے 1951ء میں فضیلت یعنی شعبۂ تخصص عربی ادب سے فارغ ہوئے۔ اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ سے انگریزی میں پوسٹ گریجویشن کیا۔ فراغت کے بعد اپنی عملی زندگی کی ابتدا آل انڈیا ریڈیو دہلی کے شعبۂ عربی میں بہ حیثیت مترجم و اناؤنسر کی۔ یہاں مولاناؒ نے 1953ء سے 1973ء تقریباً 20؍ سال تک اپنی خدمات پیش کیں۔

1973ء میں مولانا واضح رشید حسنی ندویؒ سرکاری ملازمت چھوڑ کر درس و تدریس کے لیے دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ آگئے۔ ان کا تقرر عربی زبان وادب کے استاد کی حیثیت سے ہوا۔ کئی سال تک عمید کلیۃ اللغۃ العربیۃ و ادابھا بھی رہے۔ 2006ء میں مولانا ڈاکٹر عبداللہ عباس ندویؒ کی وفات کے بعد ندوۃ العلماء کے معتمد تعلیم بنائے گئے۔ تاحیات پوری ذمے داری اور حسن وخوبی کے ساتھ اپنا فریضہ انجام دیتے رہے۔ جب معتمد تعلیم کی ذمے داری سنبھالی تو اپنی تنخواہ سے بھی دست بردار ہوگئے۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء کی مسجد سے متصل مہمان کے ایک چھوٹے سے کمرے میں قیام رہتا۔ قیام کے دوران ہونے والے مصارف بھی خود ہی برداشت کرتے، حتی کہ رہائش کا کرایہ بھی ادا فرماتے تھے۔

مولانا واضح رشید حسنی ندویؒ متعدد خوبیوں کے مالک تھے۔ اس چھوٹی سی تحریر میں ان سب کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ مولاناؒ کو قرآن سے بے حد شغف و تعلق تھا۔ رمضان کے علاوہ روزانہ دو پارے پڑھنے کا معمول تھا۔ جب بینائی بے حد کم زور ہوگئی تو فجر کی نماز کے بعد اکثر دیکھا کہ مولانا کسی نہ کسی طالب علم سے قرآن سن رہے ہیں۔ درمیان میں کبھی قاری کو روک دیتے، آیت پر غور کرتے اور کبھی ایک ہی آیت کو دوسری بار پڑھنے کی گزارش کرتے۔ اس دوران ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مولاناؒ کسی دوسری دنیا میں غرق ہیں۔ اُن پر ایک کیفیت طاری ہے۔

مولانا واضح رشید حسنی ندویؒ باجماعت نماز کے بھی بے حد پابند تھے۔ ایسا کیوں نہ ہو؟ مولاناکی تربیت ہی ایک ایسے خاندان میں ہوئی تھی، جو صاحب علم وفضل وکمال تھا۔ مولانا خود فرماتے ہیں : بچپن سے ہی مجھے نماز کے پابند رہنے کا عادی بنایا گیا۔ گھر کی خواتین نماز کے وقت ہمارے پاس آتیں، جب تک ہم نماز کی تیاری نہ کرلیتے اور مسجد کا رخ نہ کرلیتے، تب تک وہ کھڑی رہتیں اور نماز کی ترغیب دیتی رہتیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ میں نماز کا پابند ہوں۔ مولاناؒ فرض کے ساتھ ساتھ نوافل کا بھی خوب اہتمام کرتے تھے۔

مولانا واضح رشید حسنی ندویؒ طلبہ کے لیے باپ جیسے شفیق اور بہترین مربی تھے۔ ان کا نمایاں وصف یہ تھا کہ طالب علم کو علمی اعتبار سے آگے بڑھانے کی فکر کرتے۔ طلبہ کی تربیت و رہ نمائی کرتے۔ ہمیشہ اپنے شاگردوں کی تحریروں کو سراہتے اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے۔ جہاں تک ممکن ہوتا، ان کی تحریروں کو کارآمد بنا دیتے۔ ان کی تربیت و رہ نمائی میں بے شمار طلبا وفضلا نے لکھنے کا سلیقہ سیکھا۔ قلم وقرطاس سے اپنا رشتہ استوار کیا۔ ایسے بے شمار مصنف اور قلم کار ہیں، جنھوں نے مولاناؒ کی رہ نمائی میں بڑے اہم کام انجام دیے ہیں۔ اس دور میں یہ وصف خال خال ہی نظر آتا ہے۔ بے جا بات چیت اور لغو کاموں سے ہمیشہ پرہیز کرتے تھے۔ بلاضرورت بہت کم بولتے تھے۔ کسی کی برائی، حقارت، عیب جوئی اور ریاسے کوسوں دور رہتے تھے۔ مولانا کی تحریریں ہزاروں صفحات پر مشتمل ہیں، مگر کبھی بھی کسی پر بے جا تنقید نہیں کی۔

عربی زبان وادب مولانا واضح رشید حسنی ندویؒ کا خاص میدان رہا ہے۔ اس بات کا ثبوت مولانا کی تصانیف سے بھی ہوتا ہے۔ مولانا کا شمار عربی زبان کے ماہر، نقاد اور صاحب طرز انشا پرداز ہوتا تھا۔ صحافت سے بھی گہرا تعلق تھا۔ زبان وادب کی خدمات کے اعتراف میں انھیں صدرجمہوریہ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ آپ کی تحریر رواں اور ادبی چاشنی سے پُر، زبان میں بے ساختگی اور برجستگی کے ساتھ ساتھ سنجیدگی بھی تھی۔ اسلوب ایسا کہ نازک سے نازک فکری، سیاسی اور اجتماعی مسائل بڑی سلیقہ مندی اور دل آویزی کے ساتھ اپنے قلم کی نوک سے تحریر کرجاتے تھے۔ آپ لفاظی اور تکرار سے بے حد اجتناب کرتے تھے۔ اس کی تعلیم دیتے تھے کہ ایک ہی بات کو پیش کرنے کے لیے بھاری بھرکم الفاظ کا استعمال، تشبیہات واستعارات کا پل باندھنے کے بہ جائے اس کی اصل روح پر توجہ دینا چاہیے۔

مولانا واضح رشید حسنی ندویؒ کی ہر تحریر ان کی جودت فکر کی آئینہ دار تھی۔ اس لیے کہ ان کا مطالعہ بے حد وسیع تھا۔ عالم اسلام کے حالات پر ان کی خاص نظر تھی۔ صلیبی اور استعماری طاقتوں کی ریشہ دوانیوں اور چال بازیوں سے خوب واقف تھے۔ ان کی عربی کتاب قضایا الفکر الاسلامی: الغزو الفکری (عالم اسلام پر فکری یلغار) اس کا بہترین نمونہ ہے۔ ان کی تحریروں میں جوش کے بہ جائے ہوش کا عنصر غالب تھا۔

مولانا واضح رشید حسنی ندویؒ کو مسئلۂ فلسطین سے خاص دل چسپی تھی۔ اس کو تمام مسلمانوں کا مسئلہ سمجھتے تھے۔ اس سیاق میں صہیونیت کی چال بازی، سازش اور مکاری کو بے نقاب کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’مسجد اقصیٰ کا مسئلہ صرف عربوں کا مسئلہ نہیں۔ یہ دنیا کے تمام مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ فلسطین کے بارے میں تو کہا جاسکتا ہے وہ عربوں کا مسئلہ ہے اور اس میں عربوں کی کوتاہی کو بہت دخل ہے، کیوں کہ اسرائیل کا قیام یوں ہی عمل میں نہیں آگیا۔ یہودی مکر وفریب ایک حقیقت ہے، لیکن اس مکروفریب، عیاری ومکاری سے یہودی کوئی بڑا فائدہ نہیں اٹھاسکے، نہ کبھی وہ غالب قوم رہے، ہمیشہ مارے مارے پھرے۔ دنیا میں کہیں انھیں عزت اورسربلندی نہیں ہوئی، اگر مکر سے کسی کو فائدہ پہنچتا تو مکار آدمی ہمیشہ کام یاب ہوتا، بلکہ ایسا نہیں ہے۔‘‘ (مسئلہ فلسطین، سامراج اور عالم اسلام، ص:۷)

مغربی قائدین کا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اغراض ومقاصد کو واش گاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’مغربی قائدین پوری طرح یہ بات سمجھ چکے ہیں کہ ان کے سامراجی اغراض ومقاصد اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتے، جب تک مسلمانوں کا قرآن وحدیث سے تعلق ختم نہ کردیا جائے، چناں چہ ان لوگوں نے اس مقصد کے حصول کے لیے درج ذیل طریقے اختیار کیے۔ مثلاً:

1۔ فصیح عربی زبان کے خلاف مہم چلانا، دینی مدارس کی تحقیر کرنا، علما کے بارے میں بدگمانی پیدا کرنا۔

2۔ قرآن وحدیث اور فقہ اسلامی کے تئیں ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا کرنا۔

3۔ قرآن وحدیث میں علمی وتاریخی مسائل کو کھڑے کرنا۔

4۔ محمد رسولﷺ کی ذات کو نشانہ بنانا اور صحابہ کرام کو مجروح کرکے ان پر سے اعتماد کو ختم کرنا۔

5۔ اسلامی تاریخ کو مسخ کرنا، مسلمانوں کے کارناموں پر پردہ ڈالنا، مختلف مسلکوں کے ماننے والوں میں کش مکش پیدا کرنا اور غلط خیالات رکھنے والوں کی تائید اور ان کی مالی مدد کرنا۔

مغربی پریس نے موضوعی تحقیق کے نام پر قرآن، حدیث، اسلامی تاریخ، دعوت اسلامی، مسلمانوں کے طرز زندگی اور اسلامی تہذیب وتمدن پر ایسے مضامین اور تحقیقات شائع کیں، جو اسلام کے بارے میں دلوں میں نفرت اور ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا کریں اور یہ مضامین اور تصنیفات اعلیٰ تعلیم کے نصاب درس میں شامل کی گئیں۔ صرف یورپین یونی ورسٹیوں ہی میں نہیں، بلکہ اسلامی ملکوں کی تعلیم گاہوں میں بھی۔‘‘ (نظام تعلیم تربیت: اندیشے، تقاضے اور حل، ص: ۴۰،۴۱)

ایک دوسری جگہ مسلم ممالک کی حالت ِ زار اور اسلام بے زاری کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اسلامی سرگرمیوں، مذہبی تحریکوں اور اسلامی جماعتوں کے قیام پر پابندیاں بہت سے اسلامی ممالک میں عرصے سے عائد ہیں، لیکن ایک نئی چیز جو گزشتہ سالوں سے سامنے آئی ہے، وہ ہے مساجد، قرآنی مکاتب اور تلاوت قرآن یا مذہبی اسباق کے لیے تشکیل کردہ مذہبی تنظیموں پر پابندی، اخباری رپورٹوں کے مطابق تیونس میں زین العابدین کے عہد میں حکومت نے سرکاری مراکز ودفاتر سے قریب مساجد کی تالہ بندی کے احکام صادر کیے۔ ۔۔۔۔۔ اسی طرح مسلم ممالک میں شرآمیز، اشتعال انگیز کتاب چوں اور اخبارات ورسائل کی کھلی آزادی ہے، لیکن اسلامی لٹریچر اور عظیم علمائے اسلام کی کتابوں کی اجازت نہیں ہے، کیوں کہ اقتدار پر قابض طبقے کے نزدیک ان سے تشدد کا مزاج پیدا ہوتا ہے۔‘‘ (نظام تعلیم تربیت: اندیشے، تقاضے اور حل، ص: ۵۶،۵۷)

مولانا واضح رشید حسنی ندویؒ مختلف اعلیٰ مناصب اور عہدے پر بھی فائز رہے۔ ایک طرف دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ کے معتمد تعلیم تھے تو دوسری طرف عالمی رابطۂ ادب اسلامی برصغیر کے جنرل سکریٹری تھے۔ پندرہ روزہ عربی رسالے ’الرائد‘ کے چیف ایڈیٹر اور ماہ نامہ ’البعث الاسلامی‘ کے شریک مدیر تھے۔ المعہد العالی للفکر الاسلامی، لکھنؤ کے مشرف اعلیٰ، مجلس تحقیقات ونشریات اسلام، لکھنؤ کے جنرل سکریٹری اور مرکزالامام ابی الحسن الندوی، رائے بریلی کے سربراہ تھے۔

مولانا واضح رشید حسنی ندویؒ سیکڑوں مقالوں اور تحریروں کے علاوہ کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ میری معلومات کی حد تک مولانا کی عربی تصانیف کی تعداد پچیس ہیں۔ اردو میں آپ کی سات کتابیں ہیں۔ تین کتابوں کا اردو سے عربی میں ترجمہ بھی کیا ہے۔ عربی میں ان کی مشہور ومقبول تصانیف میں تاریخ الادب العربی (العصر الجاہلی)، تاریخ الادب العربی (العصر العباسی)، تاریخ النقد العربی، مصادر الادب العربی، الدعوۃ الاسلامیۃ ومناھجھا فی الھند، الامام احمد بن عرفان الشھید، الی نظام عالم جدید، ادب اھل القلوب، قضایا الفکر الاسلامی: الغزو الفکری جیسی کتابیں بے حد اہم ہیں۔ اردو تصانیف میں محسن انسانیتﷺ، نظام تعلیم وتربیت، سلطان ٹیپو شہید ایک تاریخ ساز قائد شخصیت اور مسئلہ فلسطین، سامراج اور عالم اسلام امتیازی حیثیت رکھتی ہیں۔ قضایا الفکر الاسلامی: الغزو الفکری اور الی نظام عالم جدید کے متعلق کسی نے سچ کہا ہے : ’’بلاشبہ یہ قلب سلیم اور فکر مستقیم کا نمونہ ہے۔‘‘ درحقیقت مولانا کی تصنیف وتالیف کی زبان عربی ہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی تصانیف عربی زبان میں زیادہ اور اردو میں کم ہیں۔

مولانا واضح رشید حسنی ندویؒ کے معاصر مولانا ڈاکٹر سعیدالرحمان اعظمی ندوی نے مولاناؒ کے متعلق اپنے جن تاثرات کا اظہارکیا ہے، وہ بے حد اہم ہیں۔ اس لیے کہ آپ نے مولانا مرحوم کو کئی دہائیوں تک دیکھا اور برتا ہے۔ لکھتے ہیں :

’’ان پر افراد سازی کی فکر غالب تھی۔ انھوں نے کئی نسلوں کی تربیت کی اور ان کو عربی کا اچھا انشا پرداز بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس فن میں کمال عطا فرمایا تھا۔ عربی زبان وادب کی تدریس ان کا شروع ہی سے موضوع تھا، وہ زبان کے رموز سے آشنا تھے اور اسی کے مطابق تربیت کرتے تھے۔ وہ کم گو تھے، لیکن ان کی گفتگو میں بڑی معنویت ہوتی تھی۔ وہ اردو، انگریزی اور عربی کئی زبانوں میں مہارت رکھتے تھے۔ اس لیے تینوں زبانوں کی صحافت پر گہری نظر تھی۔ عالمی حالات پر ان کا مطالعہ بڑا گہرا تھا۔ وہ درجنوں کتابوں کے مصنف تھے۔ فکری موضوعات پر ان کی کئی کتابیں ہیں۔ یورپ کے تعلیمی نظریات سے واقف تھے۔ اس کے عروج وزوال کی تاریخ کا انھوں نے خوب مطالعہ کیا تھا، جس کی جھلک ان کی گفتگو میں نمایاں تھی۔‘‘

اس عبارت سے مولانا ؒ کی گونا گوں شخصیت کا اندازہ اچھی طرح لگایا جاسکتا ہے۔

راقم کو مولانا واضح رشید حسنی ندویؒ سے باقاعدہ پڑھنے کا شرف حاصل نہیں ہوا۔ اس لیے کہ مولانا کی گھنٹی عالیہ درجات میں تھی، مگر دارالعلو م کے دورِ طالب علمی میں آپ سے کچھ استفادے کا موقع ضرور ملا، البتہ مولانا واضح رشید حسنی ندوی کے اکلوتے صاحب زادے، ادیب و انشا پرداز مولانا جعفر مسعود حسنی ندوی سے استفادے کا موقع ملا۔ مولانا سے تقریباً تین سال تک حدیث، ادب اور انشا پڑھنے کا موقع ملا۔ خارجی اوقات میں بھی مولانا سے شخصی استفادہ کیا ہے۔ آپ اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل اور فکر وتدبر کی دولت سے مالا مال ہیں۔ آپ کی تحریروں میں اپنے عظیم باپ کی طرح ہوش کا عنصر غالب ہے۔ یقینِ کامل ہے کہ استاد گرامی اپنے والد ماجد کے نامکمل کاموں کو مکمل کریں گے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا واضح رشید حسنی ندویؒ کے کاموں کو قبولیت سے نوازے اور انھیں جنت الفردوس عطا کرے۔ آمین!

تبصرے بند ہیں۔