مرشد الامت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی

شاہ اجمل فاروق ندوی

        ندوے میں علم و عمل کے جو آفتاب و ماہ تاب رہے ہیں، اُن میں ایک بڑا نام محدثِ جلیل علامہ سید حلیم عطا شاہ سلونوی کا بھی ہے۔ علم کا پہاڑ تھے، لیکن ایک کام یاب مدرس نہ تھے۔ مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندوی نے بھی لکھا ہے کہ اُن کی ذاتِ گرامی سے اصل فائدہ ہم اساتذہ اٹھاتے تھے۔ علامہ حلیم عطا کے ایک صاحب زادے مولانا شاہ شبیر عطا سلونوی ندوی تھے۔ وہ بھی پوری طرح اپنے والدِ گرامی کی ڈگر پر تھے۔ کتب خانے کے کتب خانے پی گئے تھے۔ تقریباً چار دہائیوں تک رمضان کے آخری عشرے میں ندوے کی مسجد میں اعتکاف فرماتے رہے۔ جب تک وہ باحیات رہے، میرا معمول تھا کہ رمضان میں تکیہ کلاں، رائے بریلی حاضری کے ساتھ ایک دن ندوے میں بھی ٹھہرتا اور شاہ صاحب سے مستفید ہوتا۔ ایک مرتبہ دہلی سے لکھنؤ پہنچا اور  صبح سے شام تک شاہ صاحب کے پاس رہا۔ دورانِ گفتگو انھوں نے فرمایا: ’’اطلاع ملی ہے کہ حضرت مولانا رابع صاحب کے چوٹ لگ گئی ہے۔ تم  رائے بریلی جا رہے تو میرا سلام کہنا اور دہلی واپس ہوتے ہوئے یہاں آؤ تو آکر مجھے حضرت کی خیریت بتا دینا۔‘‘ میں نے حکم کی تعمیل کی اور واپسی میں حاضر خدمت ہو کر بتایا کہ الحمد للہ اب حضرت والا خیریت سے ہیں۔ شاہ صاحب نے فرمایا: ’’وہ اللہ کے چہیتے بندے ہیں۔ گناہ وناہ تو اُن سے ہوتے نہیں۔    جو کچھ معمولی خطائیں ہوجاتی ہوں گی، اللہ تعالیٰ انھیں اسی طرح کی تکالیف سے صاف کر دیتا ہے۔‘‘ مجھے اکثر شاہ صاحب کی یہ بات یاد آتی ہے۔ آج کل کچھ زیادہ ہی۔

        ماشاء اللہ مرشد الامت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کی عمر مبارک نوے سال ہوچکی ہے۔ اس میں سے ستر سال سے زائد عرصہ تعلیم و تعلم، تصنیف و تالیف، انتظام و انصرام، وعظ و تلقین، اصلاح و ارشاد اور قیادت و سیادت میں گزرا ہے۔ ۱۹۹۹م میں مفکر اسلام کی رحلت کے بعد شوریٰ کے متفقہ فیصلے سے ندوے کی کمان سنبھالی۔ ۲۰۰۲م میں فقیہ الامت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی وفات کے بعد اپنی غیر موجودگی کے باوجود آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر عالی مرتبت بنائے گئے۔ اس کے بعد بار بار صدر منتخب ہوتے رہے۔ رابطۂ عالم اسلامی، عالمی رابطہ ادب اسلامی، آکسفورڈ یونی ورسٹی اسلامک  سینٹر، دارالعلوم دیوبند، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ، دارالمصنّفین اعظم گڑھ، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا، آل انڈیا ملی کونسل، دینی تعلیمی کونسل، کل ہند تحریک پیامِ انسانیت اور نہ جانے کتنے اداروں سے مختلف حیثیتوں سے وابستگی رہی ہے۔ آج بھی سب کی رہ نمائی اور سرپرستی فرماتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک آدھ سال پہلے تک اپنی پیرانہ سالی اور مستقل انتظامی و علمی مصروفیات کے ساتھ کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک دعوتی اسفار بھی فرماتے رہے۔ غرض یہ کہ سات دہائیوں کا طویل عرصہ پوری سرگرمی کے ساتھ گزارنے کے باوجود آج تک اُن کے مبارک دامن پر بد دیانتی، بے ایمانی، مالی خرد برد، ڈانٹ ڈپٹ، چیخ پکار، جوڑ توڑ اور کھینچ تان کا کوئی ایک داغ بھی نہیں ملتا۔

        مہاراشٹر کے ایک بڑے عالم نے مجھے بتایا کہ وہ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی سے بیعت تھے۔ اس کے بعد کسی کے مرید نہ ہوئے۔ ایک مرتبہ

 مرشد الامت کی بمبئی تشریف آوری کے موقعے پر ایک سیٹھ صاحب نے ندوے کے لیے بڑی رقم پیش کی۔ حضرت نے اسے خود لینے سے انکار فرما دیا اور اپنے رفقاء سے فرمایا کہ ترسیلِ زر کا طریقہ کار بتا دیں۔ آج کے دور میں ایسی احتیاط دیکھ کر وہ محترم عالمِ دین سخت متاثر ہوئے اور حلقہ ارادت میں      داخل ہوگئے۔

        مفکر اسلام کی وفات کے بعد رابطۂ عالم اسلامی کی دعوت پر مرشد الامت مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ پانچ ستارہ ہوٹل کی ایک منزل پر کویت کے عظیم تاجر شیخ عبداللہ علی مطوع اور مرشد الامت کے ٹھہرنے کا نظم تھا۔ سرکاری مہمانی میں پانچ ستارہ ہوٹل میں قیام اور وہ بھی شیخ مطوع کے ساتھ۔ کوئی اور ہوتا تو کیا کیا نہ کر ڈالتا۔ مرشد الامت نے میزبانوں سے معذرت کی اور اپنے رفیقِ دیرینہ مولانا ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی کے گھر پر قیام کو ترجیح دی۔

        تمل ناڈو کے ایک سفر میں جہاں مرشد الامت کا پروگرام ہونا تھا، وہاں ایک غیر مسلم کی دادا گیری چلتی تھی۔ وہ پروگرام نہیں ہونے دینا چاہتا تھا۔ جیسے تیسے پروگرام شروع ہوا۔ اِدھر مرشدِ پاک مائک پر تشریف لائے اور اُدھر وہ غیر مسلم جلسہ گاہ میں داخل ہوا۔ منتظمین کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ وہ شخص اسٹیج سے کافی قریب پہنچا اور خطیب کو دیکھ کر رُک گیا۔ بس پھر کیا تھا؟ نگاہِ مردِ مومن اپنا کام کرچکی تھی۔ وہ شخص بیٹھا حضرت کا چہرہ تکتا رہا۔ بعد میں کئی لوگوں سے کہا کہ ایسا نورانی چہرہ کسی انسان کا نہیں ہوسکتا۔ یہ مہاپرش تو دیوتا لگتے ہیں۔

        ایسے نہ جانے کتنے واقعات مجھ جیسے ادنیٰ منتسب کے حافظے میں موجود ہیں۔ اس طرح کے واقعات سے عوام تو دور کی بات ہے، اساتذہ و    طلبۂ ندوہ بھی واقف نہیں۔ کیوں کہ مرشد الامت اپنی دھونس جمانے والوں میں نہیں ہیں۔ گلا پھاڑ پھاڑ کر اپنی حصول یابیوں کا تذکرہ کرنے والوں میں نہیں ہیں۔ لوگوں کو پکڑ پکڑ کر اپنا اعتراف کرانے والوں میں نہیں ہیں۔ شہرت کی بھوک اور نام و نمود کی پیاس سے ہزاروں میل دور ہیں۔ حضرات حسنین (رضی اللہ عنھما) کی پاکیزہ زندگیوں کا حقیقی نمونہ اور مفکر اسلام کے سچے جانشین ہیں۔ جب ملت اسلامیہ ہندیہ کے سر سے حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب قاسمی، امیر شریعت مولانا سید منت اللہ رحمانی، مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی، عارف باللہ مولانا قاری سید صدیق احمد باندوی، محی السنۃ مولانا شاہ ابرارالحق حقی کا سایہ اٹھ گیا اور معاصرین میں فقیہ الاسلام قاضی مجاہد الاسلام قاسمی، خطیب الاسلام مولانا محمد سالم قاسمی، امیر شریعت مولانا سید نظام الدین اور عارف باللہ مولانا افتخار الحسن کاندھلوی بھی دنیا سے چلے گئے، تو اب جو واحد متفق علیہ اور مستند ترین ذاتِ گرامی باقی ہے، وہ مرشد الامت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کی ہی ذاتِ بابرکات ہے۔

جس بزم میں صہبا ہو، نہ ساغر ہو، نہ خم ہو

رندوں کو تسلی ہے کہ اُس بزم میں  تم ہو

        جی چاہتا ہے کہ مرشد الامت کے حضور نیازمندانہ عرض کروں :

        اے مرشد امت! موجودہ دور میں آپ کی ذاتِ گرامی ملت اسلامیہ ہندیہ کے سروں کی آخری چادر اور آزمائشوں کے متلاطم سمندر میں آخری جزیرہ ہے۔

        مرشد امت! آپ نے ستر سال سے زائد مدت جس احتیاط و تقویٰ کے ساتھ گزاری ہے، وہ حال و مستقبل میں امت کی قیادت کے لیے ایک   بے مثال نمونہ ہے۔

        مرشد امت! اکیسویں صدی میں ہاتھ میں سب کچھ ہوتے ہوئے آپ نے فقر و غنا کی جو مثال قائم فرمائی ہے، وہ قرونِ اولی کے اولیاء و اتقیاء کا عکسِ جمیل ہے۔

        مرشدامت! گزشتہ دو دہائیوں سے آپ مسلمانان ہند کی جو حکیمانہ قیادت فرما رہے ہیں، وہ تاریخِ حکمت و تدبر کا روشن باب ہے۔

        مرشد امت! آپ کی شخصیت امت کے لیے ایک نایاب دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے، کیوں کہ اس کرہ ارض پر آپ کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے، جس نے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کو دیکھا ہو۔

        مرشد امت! آپ کی شخصیت مسلمانان ہند کے لیے گزشتہ صدی کی ملّی تاریخ کا سب سے مستند حوالہ ہے، کیوں کہ آپ نے صدی کے قائدِ اعلیٰ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کے ساتھ خلوت و جلوت اور سفر و حضر میں سب سے زیادہ وقت گزارا ہے۔

        مرشد امت! آپ کی خاموش اور نازک مزاج ذات علم و حکمت کا وہ وسیع و عریض آسمان ہے، جس کے سامنے دن رات چیخنے چلانے والے گِدھوں اور کووں کی کوئی اوقات نہیں۔

        مرشدامت! آپ کی خاموشی میں سمندر کا وہ سکوت ہے، جس کے سامنے شور شرابا کرنے والے نالے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔

        مسلمانان ہند آپ کے احسان مند ہیں اور الحمد للہ ان کی اکثریت احسان فراموش نہیں ہے کہ آج آپ کی پیرانہ سالی میں آپ سے کَنّی کاٹنے لگے اور آپ کے احسانات کو بھلا کر میر جعفر اور میر صادق جیسے غداروں کی فہرست میں اپنا نام لکھوانے لگے۔ ہم اپنی بے حیثیتی کے باوجود بارگاہِ ایزدی میں دعا گو ہیں کہ ہماری عمریں بھی آپ کو لگ جائیں اور آپ کا مبارک سایہ امت کے سروں پر تادیر قائم رہے۔ ہمیں یقین ہے کہ کسی شریر کی شرارت، کسی احسان فراموش کی احسان فراموشی، کسی فتنہ پرور کی فتنہ انگیزی، کسی بدنیت کی بدنیتی اور کسی فرعون مزاج کی فرعون مزاجی آپ کو کبھی کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گی، کیوں کہ سرور کائنات علیہ السلام کے ذریعے ہمیں خالقِ کائنات کا یہ اعلان پہنچا ہے کہ جس نے میرے کسی پیارے سے دشمنی رکھی، تو میری طرف سے اُس کے لیے اعلانِ جنگ ہے۔

        مرشد امت! اللہ آپ کا اقبال بلند فرمائے۔

تبصرے بند ہیں۔