مولانا محمد ایوب اصلاحی: ایک استاذ و ادیب

 دلشاد حسین اصلاحی

(منیجر ماہ نامہ پیش رفت نئی دہلی)

 ۳۰؍ جون کو لگ بھگ ۳ بجے مولانا عبدالسلام اصلاحی صاحب نے فون پر اطلاع دی کہ مولانا ایوب اصلاحی صاحب  ۲ بجے اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ’’انّ للہ و انا الیہ راجعون‘‘مرحوم کئی ماہ سے ایسی حالت میں تھے کہ غذا وغیرہ بھی پائپ سے جاری تھی فی الحال داخل اسپتال تھے۔ نقاہت و حالت ظاہری سے اب یہ احسا س ہو چلا تھا کہ مولانا کسی بھی وقت ہم سے جدا ہو سکتے ہیں۔ بہر حال شدنی اور ہونی ہو گئی۔ مولانا عمر طبعی گزار کر  اپنے مالک حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ ان کی روح کو اپنی رحمت بیکراں سے سر شار کرے۔ آمین

مجھے دو ہم نام استاذوں کی شاگردی کا شرف حاصل ہے۔ پہلے مولانا محمد ایوب اصلاحی جیراجپوری استاذ مرکزی درسی گاہ اسلامی رامپور، دوسرے صاحب تذکرہ استاذ گرامی مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ۔ میں نے اپنے ان دونوں استاذوں میں جو چیزمشترک پائی وہ یہ تھی کہ خدا نے ان کی شخصیت میں ایک مشفقانہ رعب ودیعت فرمایا تھا میرے احساس کے مطابق یہ چیز نفسیاتی لحاظ سے شخصیت کے کردار کی سلابت پر دلیل ہے۔ کیوں کہ سامنے  والا اگر ان سے قریب ہوتا ہے تو وہ ان کی طبیعت کی نرمی او ر شفقت کے فرحت بخش احساس سے دو چار ہوتاہے۔ او ر پھر ایسے اشخاص کا بے دام اسیر و گروید ہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ اسی طرح کا رعب استاذ مولانا احتشام الدین اصلاحی کی شخصیت میں بھی خاکسار نے محسوس کیا۔

مولانا کاسراپاکچھ یوں تھا کہ دراز قد، سانولا رنگ، بھری داڑھی سفید لباس، علی گڑھ کٹ پاجامہ، کھڑے کالر کی قمیص کف دار آستین، سر پر سفید اصلاحی ٹوپی، سردی کے موسم میں شیروانی کا اضافہ رہتا، ٹھنڈک کی شدت کے وقت ایک اونی لوئی تہہ کرکے کاندھوں پر ڈال لیتے، شیروانی یا قمیص کی جیب میں عموماًدو قلم موجود رہتے۔ کشادہ پیشانی اور ہنس مکھ چہرہ تھا۔ مدرسہ کے اندر تہہ بند پہنے میری آنکھوں نے ان کو نہیں دیکھا۔ پیروں میں چرمی یا پوش نظر آتے، چال بڑی متین کالا ہینڈ بیگ ہاتھ میں حمائل کئے مدرسہ آتے جاتے دیکھے جاتے۔ چال میں سنجیدگی اور فروتنی محسوس ہوتی، کلاس یا مجلس میں ہوتے تو تبسم و ہنسی سے دہن کو عار یانہ ہوتا۔ جملے تو ایسے جیسے تول کر بول رہے ہوں، زبان شستہ و پاکیزہ ہوتی۔ کبھی کبھی دوران تدریس فصیح دیہاتی زبان استعمال کر کے زیر درس چیزوں کے مفاہیم کی گھتیاں بھی سلجھاتے اور ہنسی کے فوارے بھی چھوڑتے۔ مولانا کے مزاج میں ظرافت کی شان نمایاں تھی۔

ہمیں مولانا سے عربی دوم سے کسب فیض کرنے کا موقع ملا وہ تفسیر و ادب کے استاذ تھے اعلیٰ درجات میں ان سے قرآن پڑھا مگر عربی دوم میں ادب منثور جس طرح وہ پڑھاتے تھے انہی کا حصہ تھا۔ امثا ل آصف الحکیم جانوروں کی زبانی کہانیاں اور کلیلۃ و دمنہ کے قصے جس انداز میں انہوں نے پڑھائے وہ منظر آج بھی آنکھوں کے سامنے ترو تازہ ہے۔ جسمانی حرکات و سکنات جس کو انگریزی میں Body Language  کہتے ہیں جہاں سبق کی تفہیم میں جان ڈالتی تھی وہیں سبق کو دلچسپ بنانے میں بڑی کارگر ہوتی۔ تفسیر کے درس میں حتی المقدور اصلاحی نہج کو اپناتے اور تفاسیر سے استفادہ کرنے کی تشویق پید اکرتے۔

کامیاب استاذ کی ایک خاص خوبی اور پہچان یہ بھی ہے کہ وہ جسمانی سزا سے گریز کرے۔ مولانا کی تدریس میں یہ استادی ہم نے خوب دیکھی ہے۔ کبھی ان کے ہاتھ میں ’’مولا بخش ‘‘سرزنش کے لئے نظر نہیں آئے۔ پھر بھی کلاس کنٹرول میں رہتا اور پڑھائی کا ماحول متاثر نہ ہوتا۔ کلاس کا ہر ہر طالب علم انکی آنکھوں کے کیمرے کی زد میں رہتا۔ اگر ان کی چشم متجسس نے کسی کو تاڑ لیا کہ وہ ذہناًدرس سے غائب ہے یا مطالعہ کر کے نہیں آیا ہے پھر تو ان کا اندازفہمائش اس قدر تیکھا اور چوکھا ہوتا کہ ان کا ہدف تلملا اٹھتا۔ الفاظ اور جملوں کے نشتر کے حملوں سے گردن اوپر نہ اٹھتی۔ طالب علم دل ہی دل خدا جانے کتنی با رتوبہ کر چکا ہوتا۔ دوسرے محظوظ ہوتے اور وہ غریب شرمسار اس طنز میں ابتذال کا شائبہ تک نہ ہوتا۔ بر خوردار، اے میاں، بھائی صاحب، جیسے الفاظ کو ان کا لہجہ کاٹ دار بنا دیتا تھا۔ دوسرے طلبہ بھی نصیحت پکڑتے اور محتاط رہتے کہ مبادا ان کو کبھی اس گھڑی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

طلبہ پر فرداً فرداً ان کی نظر رہتی وہ ان کی صلاحیتوں سے بھی آگا ہ ہوجاتے اور پھر ان کی اسی صلاحیت کوپروان چڑھانے کے لئے ان کو حسب موقع متوجہ کرتے، ترغیب دلاتے اور سراہتے تھے۔ اس طر ح کی نظر اور خلوص اگر اساتذہ میں موجود ہو تو وہ اپنے طلبہ کو ترقی کے زینے طے کراتے اور ان کے درمیان احترام و وقار پاتے ہیں۔ میں عربی اول کا طالب علم تھا مدرسہ میں ایک تقریری مقابلہ ہوا مسجد میں پروگرام ہو رہا تھا میں نے ’’اتحاد ‘‘کے موضوع پر تقریر تیار کی تھی  باوجود مشق کے جب پیش کرنے کا وقت آیا تو پیر کانپ رہے تھے مولانا اسٹیج پر تشریف فرما تھے۔ میری یہ حالت دیکھ کر با بار تحسینی کلمات کہہ کہہ حوصلہ بڑھاتے رہے۔ یہ ان کا خاص انداز تربیت تھا اس طرح وہ ہمت افزائی اور مہمیز کر کے آگے بڑھنے پر آمادہ کرتے۔

 یہ دنیا دار المکافات بھی ہے۔ یہاں جو جیسا بوئے گا ویسا کاٹے گا۔ کسی کی راہ میں کانٹے بچھا کر اس سے پھول کی بارش کی تمنا کرنا فضول ہے ایک معصوم بچہ بھی عزت نفس کا حا مل ہوتا ہے۔ مولانا اس چیز کا نہ صرف خیال رکھتے تھے بلکہ چھوٹوں سے بھی اخلاق سے پیش آتے تھے۔ وہ اپنے اساتذہ کا کیسا احترا م کرتے تھے اس کا میں چشم دید گواہ ہوں واقعہ یہ کہ ایک روز اچانک میں نے اپنے رامپور کے استاذ ماسٹرخلیل الرحمن صاحب کو مدرسہ میں دیکھامسجد کے سامنے کھڑے تھے اور کئی سینئر اساتذہ ان کے سامنے دستہ بدستہ موجود تھے مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ یہاں بھی استاذ رہ چکے ہیں ملاقات کے لئے آگے بڑھاتو خود انہوں نے نام لے لے کر بتایا فلاں فلاں میرے شاگرد ہیں۔ نام لیتے وقت ان کا لہجہ بڑا فاخرانہ تھا۔ گویا اپنے شاگردوں پر ناز کر رہے تھے شام کو ہم بھی انہیں رخصت کرنے سرائے میر تک ساتھ گئے مولانامرحوم بھی ہمراہ تھے۔ پونا پوکھرسے دونوں کا راستہ الگ ہو رہا تھا مولانا مرحوم نے اپنے بیگ سے چند غیر ملکی قلم اور ایک ناخن تراش بڑے عاجزانہ اور تلمیذانہ سعادت مندی کے ساتھ ان کی خدمت میں پیش کئے اور سلام کر کے اپنے راستے پر چل پڑے۔ ہم ماسٹر صاحب کے ساتھ اسٹیشن والے راستے پر چل دئے۔ ایک اور والہانہ منظر دیکھنے کو ملا جیسے ہی اسٹیشن سے نکلے تھانے کے سامنے مولانا محمد شعیب اصلاحی (بینا پارہ) استاذ درسگاہ ثانوی سائیکل پر سوار سرائے میر کی طرف سے آرہے تھے ماسٹر خلیل الرحمن صاحب کو دیکھتے ہی جھٹ سائیکل سے اتر پڑے چند قدم دور ہی سائیکل چھوڑ دی اور ماسٹر صاحب سے بغل گیر ہو گئے طبیعت نے عجیب خوشگوار انبساط محسوس کیا۔ یہ استاذ اور شاگردوں کا والہانہ احترام و سعادت مندی دیکھ کر بات سمجھ میں آئی کے ماسٹر صاحب کیوں اپنے ان بوڑھے بوڑھے شاگردوں پر ناز و فخر کا اظہار کررہے تھے۔ ماسٹر خلیل الرحمن صاحب نے مدرسہ سے کسب فیض کیا تھا اور یہاں انگریزی کے معلم تھے۔ رامپور میں انہوں نے ہمیں ابتدائی عربی پڑھائی تھی۔

 مولانا ہی کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ تھا کہ مجھے بزم خطابت کے پروگراموں سے دلچسپی اور لگاؤ پیدا ہو گیا اور پھر آگے چل کر مجھے بزم خطابت اولیٰ کا معتمد بنا دیا گیا۔ میری مرضی کے علی الرغم مجھے جب معتمد بزم خطابت چنا گیا تو میں نے اعتراض کیا۔ صدر مدرس صاحب نے کہاکہ مولانا ایوب اصلاحی صاحب انجمن طلبہ کے صدر ہیں تمہیں جو کچھ کہنا ہے ان سے کہو۔ میں نے معذرت نامہ ان کے قیام گاہ پر جاکر پیش کیا مولانانے بڑے نرم انداز میں سمجھا کر واپس کر دیا اور ذمہ داری اد اکرنے کی تلقین فرمائی۔

مولانا مرحوم کے سائے عاطفت میں طالب علمانہ سات برس کے علاوہ تین سال تک مدرسہ میں تدریس کی خدمت انجام دینے کا بھی موقع ملا۔ خوش قسمتی سے میرے انٹر ویو کی ٹیم میں مولانا احتشام الدین اصلاحی اور مولانامرحوم دونوں شریک تھے انہیں حضرات نے انٹرویو لیا۔ مولانا کو میرے مدرسہ چھوڑنے کا بھی بڑاقلق ہو اتھا۔

مولانا جب بغرض علاج دہلی تشریف لائے تو اکثر ان سے ملاقات کی سعادت ملتی رہی۔ ملنے والوں کو دیکھ کر کھل اٹھتے۔ آنے والوں سے ہنس ہنس کر ڈھیروں باتیں کرتے رہتے۔ واقعات سناتے ہنساتے شاگردوں کو ان کا وہ انداز یاد آ جاتا جو وہ کلاس میں کلیلہ و دمنہ پڑھاتے وقت اختیار کرتے مولانا عبد السلام اصلاحی کے ہمراہ میں اکثر حاضر ہوتا تھامولاناعبدالسلام اکثر ان کے زمانہ معلمی کے دیہاتی جملے و فقرے سناتے تو وہ ہنس کر ’’ارے ہاں ‘‘ کہہ دیتے۔ ان کا انداز تکلم بڑی دل ربائی رکھتا تھا۔

مولانا  بہت اچھے معلم و مربی تھے۔ انہوں نے استقلال کے ساتھ فراغت کے بعد مطالعہ کیا تھا خود کہا کرتے تھے کہ میں پڑھنے میں بہت تیز نہیں تھا’’ لشتم پشتم‘‘(یہ انہی کالفظ ہے)پا س ہو جاتا تھا۔ ممکن ہے یہ بیان ان کی منکسرانہ طبیعت کی وجہ سے ہو کیوں کہ ان کی تدریس تو ان کے ’’لشتم پشتم‘‘کا ساتھ نہیں دیتی تھی۔ اور پھر انہوں نے جو دور پایا وہ مدرسہ کا سنہرا زمانہ تھاوہ ابتدائی عمر سے مدرسہ سے وابستہ رہے ہیں بلکہ ان کے بارے میں یہ کہنا زیادہ درسست ہوگا کہ ان کی تعلیم و خدمات کا دائرہ ’’اولہ و آخرہ‘‘مدرسہ ہی ہے۔

اللہ نے مولانا مرحوم کو تقریر و تحریر دونوں کا ملکہ وافر مقدار میں عطا فرمایا تھا۔ ادبیت، زبان کی سلاست و روانی، الفاظ کی فراوانی، لہجہ کا زیروبم ان کی تقریر و تحریر دونوں میں دکھتاہے۔ جب بولتے تو موتی رولتے ان کے خلوص و گداز کا حال یہ تھا کہ اکثر اسٹیج پر ان کی آنکھیں ڈبڈبا جاتیں۔ اشہب قلم جب رواں ہوتا تو صفحہ قرطاس پر گل بوٹے کھلتے چلے جاتے۔ موضوع کوئی بھی ہو قلم کی رفتار متاثر ہوتی نظر نہیں آتی۔ ’’متاع قلم‘‘اس کا بین ثبوت ہے کتاب ہاتھ میں لیجئے تو رکھنے کو دل نہ چاہے۔ تحریر میں ان کی خوبی کی دو اسباب میں نے نوٹ کئے ہیں اول یہ کہ مولانا پڑھتے زیادہ تھے جس کا انہوں نے ’’متاع قلم‘‘میں کئی جگہ تذکرہ بھی کیا ہے۔ اور یہ شوق زمانہء طالب علمی ہی سے ان کی ’’طبیعت ثانیہ‘‘بن گیا تھا۔ علاوہ ازیں ان کا ذوق انتہائی بالیدہ اور نگاہ انتقاد بڑی گہری تھی۔ چیزوں کی تہہ میں پہنچ کر ان کا شعور نتائج اخذ کرتا تھا۔ دوسرا سبب و خوبی یہ تھی کہ وہ متعلقہ موضوع کے ابعاد پر گہرا غور وفکر کرتے رہتے تھے۔ موضوع سے متعلق خام مواد ان کے ذہن میں جب تک تپ کر کندن نہ بن جاتا ان کا قلم صفحہ قرطاس پر نہ انڈیلتا۔

’’متاع قلم ‘‘کی تحریر یں متنوع موضوعات پر محیط ہیں اور سب کی سب علمی اور معلوماتی ہیں۔ اگر کوئی ’’سر پھرا‘‘کبھی مدرسہ کی تاریخ رقم کرے گا تو اس کتاب کے حوالہ اس کو جا بجا دینے پڑیں گے۔ اگر کوئی جویائے علم تحقیقی کا م کا بیڑا اٹھائے گا تو مدرسہ کے تعلق سے اس کتاب کی معلومات ایک سنگ میل کی خدمت انجام دیں گی اور مولانا کی نثری خوبیوں کی تحسین کئے بغیر نہ رہے گا، جنکی ادبیت مسلم ہے۔ بہت زیادہ تو نہیں ان کے نثرکے چند شہ پارے قارئین مضمون کی نذر کرنے کو جی چاہتا ہے کہ اس کے بنا یہ تحریر ناقص ہی رہے گی۔ ’’مادر مہربان کے نام‘‘سے جوتحریرسپرد قلم کی ہے وہ بڑی وجد انگیز، جذباتی، خلوص و محبت سے کس قدر لبریز ہے، جو کتاب کا انتساب بھی ہے،ملاحظہ فرمائیں :

’’باپ کا سایہ نہ رہا۔ ماں نے آنکھیں موند لیں۔ صاحب لوح و قلم نے لکھا :اسے ایسی مامتا کی آ غوش عطا کی جاتی ہے، جس کا دامن شفقت بچپن، جوانی یہاں تک کہ بڑھاپے میں بھی نہ چھوٹے گا۔ سو آج تک وہ سایہ عاطفت مجھے حاصل ہے۔ اس کے دامن کی راحت بخش ہوائیں مجھے ابھی تک میسر ہیں۔ میری ماں !تو کتنی مہربان ہے،تیرا خون جگر میری شریانوں میں دوڑ رہا ہے۔ عقل، علم اور دین تیرے قدموں تلے ملے،دل تیرے لئے سراپا سپاس ہے،تیرا وجود خدا سلامت رکھے۔ تیرا سایہ سدا باقی رہے‘‘۔ (متاع قلم ص۵)

ایک کلیدی خطبہ کا اقتباس دیکھئے کس انداز میں کلام اللہ کاتعارف کرایا ہے۔

’’اللہ اللہ قرآن حکیم اور اسکی آیات مبین!!الفاظ کی فصاحت، کلام کی بلاغت، جملوں کی سلاست، معانی کا نظا م، فواصل کا ترنم، اسالیب کا پیچ وخم، اصوات کا زیرو بم۔ خطاب میں عتاب،کبھی شعلہ کبھی شبنم، دریا کی روانی، آبشار کا شور، برق صاعقہ کی کڑک چمک، قوس و قزح کی رنگینی، وحی آسمان کے اس بہار آفرین و سحروانگیز ماحول میں اپنے شب و روز گزاریے‘‘۔ (ایضا ً  ص۸۳)

ایک اقتباس ’’ذکر رفتگاں ‘‘کے ایک خاکے ’’مولانا عبد الرحمن ناصر اصلاحی ‘‘سے جن لوگوں نے ناصر صاحب کو دیکھا ہے وہ محظوظ ہو لیں جن لوگوں نے نہیں دیکھا وہ اس تاج محل کی ایک جھلک تصور میں محسوس کر لیں۔ ’’ناصر صاحب کی شخصیت نہایت دلچسپ، دلکش، جلا ل وجمال کی جامع تھی، کہیں فولاد، کہیں بریشم سے لگتے۔ میں کبھی سیدھا سلطان پو ر٭گیا تو احسن مستقیمی کے والد پوچھتے کہ ناصر صاحب سے ملاقات  ہوئی اور پھر فرماتے جو سیدھا آئے اوران سے نہ ملے تو گویا وہ آگرہ گیا اور تاج محل نہ دیکھا‘‘۔ (ایضاً ص۵۳)

مولانا حقیقی معنوں میں ایک اچھے ادیب تھے اگر وہ اس زاویہ سے اپنے قلم کو مزید متحرک و رواں رکھتے تو نہ جانے صفحہء قرطاس پر کتنے گوہر بکھیر دیتے، مگر انہوں نے اپنے قلم کو اتنا استعمال نہ کیا جتنا وہ کر سکتے تھے۔ ان کا مطالعہ گہرائی و گیرائی کا حامل تھا۔ وہ بالیدہ ادبی ذوق رکھتے تھے۔ شعر فہمی کا اعلیٰ مذاق ان کے اندر پایا جاتا تھا یہی نہیں ان کے اندر شعر گوئی کی بھی بھر پور صلاحیت تھی، ان کی جو چند غزلیں متاع قلم میں شامل ہیں اس کا بین ثبوت ہیں میرا گمان و قیاس تو یہ ہے کہ اس میدان میں ان کا اور بھی ذخیرہ ہوگا ممکن ہے ان کی وفات کے بعد اس کی چھان بین ہوسکے۔ اگر میرے اس حسن ظن کے مطابق ان کے تحریری سرمایہ میں کچھ شعری تخلیقات دستیاب ہوں تو ان کے پسماندگان کو منظر عام پو لانے سے گریز نہ کرنا چاہئے۔ ممکن ہے زندگی میں مرحوم نے اپنی انکساری و خاکساری کے سبب پیش کرنا مناسب نہ سمجھا ہو کیوں کہ ناموری ان کی طبیعت کا خاصہ نہ تھی۔

’’متاع قلم‘‘میں شامل غزلوں کے چند اشعار ایسے ہیں جن پر میری نگاہ کئی اعتبار سے جاکر ٹھہر گئی باربار ان کو پڑھتا رہا اور محظوظ ہوتا رہا۔ زبان و بیان اور سلاست کے حسن نے اپنی طرف متوجہ کیا۔ مثلاً:

ہم کو جن سے وفا کی تھی امید

ان کے ہی تیر بے خطا نکلے

اس کا مضمون کوئی اچھوتا اور نیا نہیں ہے مگر یہاں ’’تیر بے خطا‘‘کا استعمال ’’تیر نیم کش‘‘کی خلش کی طرح مزہ دیتاہے۔ اگر پرانے مضمون کو نئے انداز میں خوشنما طور پر باندھا جائے تو انداز واسلوب کی نیرنگی کے باعث شعر دل و دماغ سے چپک کر رہ جاتا ہے یہ دو شعر بھی اسی نوعیت کے ہیں۔

  مجھے شکوہ تھا بے وفائی کا 

آپ ہی کیوں نہ باوفا نکلے

کیا نکالوں بھڑاس میں اپنی

آپ دیرینہ آشنا نکلے

٭ناصر صاحب کا وطن ایک مردم خیز گاؤں جو بانی مدرسہ محمد شفیع ؒ،اختر احسن اصلاحی، پرواز اصلاحی،مولانا صدرالدین اصلاحی اور خلیل الرحمن اعظمی کا وطن بھی ہے ان کی طبیعت کا رنگ شاعری کے حوالہ سے اگر دیکھا جائے تو اس میں ’’حزن‘‘کا عنصر اور طنز کا تیکھا پن شدت سے محسوس کیا جا سکتا ہے،یہ اشعار اسی کی غمازی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

خامہ فرسا جو ہوئی طبع رواں آج مری

روح شاداں بھی نہیں، شمع فروزاں بھی نہیں

چارہ گر!آپ علاج غم دوراں کیجئے

 ہم خراب رہِ الفت کا تو درماں بھی نہیں

ایک’’مکھوٹا پوش‘‘منصف کے رو برو فریاد کرنے پر یہ پچھتاوا کہ

ہم بہت روئے کہ فریاد بھی کیوں اس سے کی

عدل کا بھیس بدل ظلم کا خوگر نکلا

مولانا استاد اور شاگرد کے متعلق ایک جملہ کہا کرتے تھے کہ’’استاد کا سب سے بڑا ناقد اس کا شاگرد ہوتا ہے‘‘۔ یہ جملہ بڑا عملی ہے۔ طلبہ شرارت میں اساتذہ کے نام رکھتے ہیں جو ان کے محاسن و معائب کی عکاسی کرتے ہیں، تاہم حقیقت یہ ہے کہ اچھا اور مخلص استاذ ہمیشہ اپنے شاگردوں کے دل میں جگہ بنائے رکھتا ہے۔ اس کی جھڑکیاں بھی بطیب خاطر برداشت ہی نہیں کی جاتیں بلکہ ان میں ایک لذت محسوس ہوتی ہے۔ ان کی ذات شاگردوں کے درمیان ایک مشفق و مہربان استاد ہی کی رہی،مولانا مرحوم کاایک شعر جزوی تصرف کے ساتھ پیش کرنے کی جرات اس لئے کر رہا ہوں کہ تصرف کے بعد ان کی شخصیت، کردار، خلوص ومحبت،اور ان کے اخلاق کریمانہ کی صیحح عکاسی ہو جائے گی۔

کیا عجب رنگ دل ربائی ہے

طور جتنے ہیں ’خوشنما‘ نکلے

لفظ ’بدنما‘کے استعمال نے شعر میں طنز کی کاٹ پیدا کر دی ہے میں نے اپنے مطلب کے لئے اس لفظ کو’خوشنما‘سے بدل دیا ہے کیوں کہ میری نظر میں ان کی شخصیت بڑی دل ربا اور خوش کن اس محرف شعر ہی کے مصداق تھی۔ اللھم اغفرہ وارحمہ و ادخلہ الجنۃ۔

تبصرے بند ہیں۔