ڈاکٹر محمد اسلم پرویز: اردو میں سائنسی موضوعات کی اہم شخصیت

ڈاکٹر امام اعظم

(ریجنل ڈائریکٹر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی)

        ڈاکٹر محمد اسلم پرویز تخلیقی عمل کے اعجاز سے مختلف الجہات معانی کے باترسیل امکانات سے سرفراز کرنے والے قلم کار کا نام ہے۔ ان کی تحریریں نامیاتی وحدت اور تجسیم کاری کے معیار پر پوری اترتی ہیں۔ اردو میں عام طور پر جمالیاتی سرشاری کا تجربہ فراہم کیا جاتا ہے لیکن جناب اسلم پرویز نے نباتاتی لب و لہجہ کا انوکھا بانکپن عطا کیا ہے۔ متنوع اور مصور تلامذات کا ایک سرچشمہ ہے جو ان کی تحریر میں بہتا نظرآتا ہے۔ سائنسی اور قرآنی طرحِ نو کی دریافت کی کوشش ان کی اہم خصوصیت ہے۔ جہاں تک ان کی تقریر کی بات ہے، وہ بلند آہنگ لہجہ اختیار نہیں کرتے بلکہ زیرِ لبی سے کام لیتے ہیں جو فطرت کی آواز سے ہم آہنگ ہے۔

        اردو میں سائنسی موضوعات پر جن قلم کاروں کی تخلیقات معتبر مانی جاتی ہیں، ان میں ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کا نام نمایاں ہے۔ موصوف ایک Renowned Plant Scholar ہیں جنھوں نے تسلسل سے عام فہم زبان میں سائنس کی گتھیوں کو سلجھا کر روشن باب کھولے ہیں، جن میں شناخت کے عوامل ہیں اور تخلیقی، تحقیقی اور فکری رویے ہیں۔ ان کے موضوعات متنوع ہوتے ہیں۔ فضائی کثافت، آبی کثافت، خوراک کا مسئلہ، بڑھتی ہوئی آبادی پر روک، پٹرول او رجنگلات جیسے اہم موضوعات کے ساتھ سورج، توانائی، چاند، ستارے اور ان سبھی آشنا و ناآشنا موضوعات پر انھوں نے مضامین اور کتابیں لکھی ہیں جن سے واسطہ عام انسانوں کو روز پڑتا ہے۔ وہ بوٹانی (نباتات) کے استاد رہے ہیں لیکن اردو میں لکھ کر سرمایۂ علم و ادب میں اضافہ بھی کرتے رہے ہیں۔

        ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نومبر ۱۹۸۲ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ نباتات سے وابستہ ہوئے جہاں انھوں نے تدریسی خدمات انجام دیں۔ پھر ذاکر حسین کالج، دہلی سے وابستہ ہوئے جہاں ۲۲؍ سال شعبے میں وہ استاد رہے۔ اپریل ۲۰۰۵ء میں اسی کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے اور اپنی تدریسی و انتظامی زندگی کا بڑا حصہ یہاں گزارتے ہوئے اکتوبر ۲۰۱۵ء میں اس وقت یہاں سے علیحدگی اختیار کی جب انھیں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (حیدر آباد) کے شیخ الجامعہ کے عہدۂ جلیلہ پر فائز کیا گیا۔ ۲۰؍اکتوبر ۲۰۱۵ء کو انھوں نے اس عہدے کا چارج لیا۔ واضح ہو کہ موصوف مارچ ۱۹۹۸ء تا جون ۱۹۹۹ء مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے دہلی ریجنل سینٹر میں تاسیسی ریجنل ڈائریکٹر بھی رہ چکے تھے۔ اس دوران دیگر علمی و سماجی خدمات سے بھی ان کی وابستگی رہی۔ ۱۹۹۴ء میں وہ ’اسلامک فاؤنڈیشن فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ ‘سے تعلیمی / ماحولیاتی رضاکار کے طور پر وابستہ ہوئے۔ جون ۲۰۱۳ء میں انھوں نے ’یمنا قرآنک ایجوکیشن ٹرسٹ ‘کی بنیا د ڈالی اور اب بھی بحیثیت ڈائریکٹر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ قرآن، سائنس اور ماحولیات کے تعلق سے وہ ہمیشہ سے سرگرمِ عمل رہے ہیں اور دنیا کے بہت سے ممالک میں اس موضوع پر خطاب بھی کرچکے ہیں۔

        سائنسی مضامین پر مشتمل ان کی تین کتابیں ’’سائنس کی باتیں ‘‘، ’’سائنس نامہ‘‘ اور ’’سائنس پارے‘‘ شائع ہو کر ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کرچکی ہیں۔ قرآن اور علم کے رشتے کو اجاگر کرنے والی ان کی کتاب ’’قرآن، مسلمان اور سائنس ‘‘ کے تین ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں نیز اس کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کی سائنسی مضامین میں دلچسپی کے حوالے سے معروف صحافی سہیل انجم نے لکھا ہے  :

’’… انھوں نے پرانی کتابوں کے مارکیٹ سے اردو میں ترجمہ شدہ روسی کتابیں جو کہ میر پبلی کیشن سے شائع ہوتی تھیں، خرید کر پڑھنا شروع کیا۔ لیکن ان کو ترجمہ شدہ کتابوں میں کوئی لطف نہیں آتا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ اوریجنل چیزیں پڑھنے کو ملیں۔ اسی درمیان انھوں نے سائنس پر مضمون نگاری شروع کی اور ان کا پہلا اردو مضمون ۱۹۸۲ء میں ’’قومی آواز‘‘ میں شائع ہوا۔ ‘‘(’’ماہنامہ سائنس کی سلور جبلی ‘‘  مطبوعہ’’تمثیل نو‘‘ شمارہ جولائی ۲۰۱۷ء -جون ۲۰۱۸ء  ص:۲۵۸)

        ۱۹۹۲ء میں موصوف نے ’’انجمن فروغِ سائنس‘‘کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا اور اسی کے تحت ان کی ادارت میں اردو ماہنامہ ’’سائنس ‘‘ (اجراء : فروری ۱۹۹۴ء) شائع ہو رہا ہے۔ اس ماہنامہ کے ۲۳؍ سال (۱۹۹۴ء -۲۰۱۷ء ) کے تمام شماروں کے مشمولات کا اشاریہ ڈاکٹر محمد کاظم  (شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی ) نے ۲۰۱۷ء میں ترتیب دیا ہے۔

  ان کی کتاب ’’سائنس پارے ‘‘ پر نوبل انعام یافتہ سائنس داں پروفیسر عبدالسلام نے اپنی رائے اس طرح دی ہے  :

’’اردو میں سائنسی لٹریچر کی فراہمی اس بر صغیر کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ … مجھے بے حد خوشی ہے کہ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز اردو میں عام فہم سائنسی مضامین نہ صرف یہ کہ پابندی سے لکھ رہے ہیں، بلکہ ان کی تحریروں نے سائنس کے تقریباً سبھی جدید موضوعات کا احاطہ کیا ہے۔ بلاتامل یہ کہا جاسکتا ہے کہ اردو میں سائنسی صحافت کو از سر نو زندہ کرنے میں اس نوجوان نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ …‘‘

   ڈاکٹر خلیق انجم ( سابق جنرل سکریٹری، انجمن ترقی اردو ہند ) ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کی کتاب ’’سائنس کی باتیں ‘‘ پر رائے دیتے ہوئے رقم طراز ہیں  :

’’… اردو والوں میں سائنس کے مختلف شعبوں میں ماہرین کی تعداد بہت کم ہے اور جو ہیں وہ اپنی مادری زبان، اردو کی طرف سے احساسِ کم تری میں کچھ ایسے مبتلا ہیں کہ اردو میں نہیں بلکہ انگریزی میں لکھنا پسند کرتے ہیں۔ … اردو زبان میں اسلم صاحب جیسے ذہین، محنتی اور باصلاحیت نوجوان کی آمد پر ہمیں لال قالین بچھا کر ان کا استقبال کرنا چاہئے۔ ‘‘

  ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کے وائس چانسلر بننے پر جناب شاہد صدیقی (ایڈیٹر ’’نئی دنیا‘‘ دہلی) لکھتے ہیں  :

’’… حیدر آباد میں قائم اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدہ پر ایک قابلِ اردو اور ملت کی ہمدرد شخصیت کا تقرر عمل میں لایا گیا ہے جو یونیورسٹی کیلئے بہت کچھ کر سکتے ہیں کیونکہ اردو ذریعۂ تعلیم کے مقاصد کے ساتھ قائم کی گئی یونیورسٹی کو ایک ایسی شخصیت دی گئی جو اردو داں بھی ہے اور اردو کی ترویج و اشاعت کیلئے ان کا شاندار ریکارڈ موجود ہے۔ … ‘‘  (’’گواہ ‘‘اردو ویکلی حیدر آباد  ۳۰؍ اکتوبر -۵؍نومبر ۲۰۱۵ء )

  معروف طنز و مزاح نگار ڈاکٹر عابد معز (حیدر آباد) نے ان کی تقرری پر اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا ہے  :

’’… ڈاکٹر اسلم پرویز اعلیٰ ظرف انسان ہیں۔ ایسے اردو والے نہیں جو اردو کی روٹی کھا کر اسے نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ اردو کی خدمت کر کے خود نقصان اٹھا لیتے ہیں۔ ‘‘   (ایضاً )

        ڈاکٹر سیّد فاضل حسین پرویز مدیر ’’گواہ‘‘ حیدرآباد کا ماننا ہے  :

’’… چوں کہ سائنس کے اہم ترین شعبہ سے ان (ڈاکٹر محمد اسلم پرویز) کا تعلق ہے، اس لیے حقیقت پسندی ایسے افراد کی پہچان ہوتی ہے۔ حیات بخش ’’سنجیونی‘‘ کہاں چھپی ہوتی ہے، اور اس کا استعمال کیسے کیا جانا چاہیے، وہ جانتے ہیں۔ ‘‘   (ایضاً )

        ڈاکٹر موصوف کی سائنسی موضوعات سے دلچسپی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب تک وہ ۴۰۰؍ سے زائد سائنسی نگارشات قلم بند کرچکے ہیں نیز چار ریاستوں کے نصابی کتب میں ان کے ابواب شامل ہیں۔ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کے سائنسی نکات ذکر و فکر کے لحاظ سے شعور و آگہی سے بھرپور ہوتے ہیں۔ وہ معلومات بہم پہنچا کر نئی قدروں اور موشگافی کے متحرک کردار کے امین بنتے ہیں اور اطلاقی طریق کو عصر سے روشناس کرتے ہیں۔ انھوں نے جدید اضافی سیاق میں صحت مند اشکال کو نئی کثیر الوضع سائنسی ادبیت بخشی ہے۔ اسی لیے ان کی تحریر معتبر اور قابلِ قدر قرار پاتی ہے۔ حیاتیاتی تسلسل کو انھوں نے مثبت ردِ عمل سے واضح کیا ہے۔ شاہد و ناظر منظر بن کر اپنے چاروں طرف کے منظرنامے کو خود کے اندر جذب کیا ہے اور ظاہری و باطنی ردِ عمل کو روئیدگی، نوازشِ فطرت اور پُرتحرک انسانی رشتوں سے عبارت کیا ہے۔ اسی لیے ان کے یہاں وضاحت اور قطعیت ملتی ہے۔ میں اس مختصر سی تحریر کا اختتام اپنی اس نظم ’’ بصارتِ فکری ‘‘ پر کرتا ہوں  :

ادب میں پھر نگارِ ساختیت

۔

معانی ساز لفظوں کی صداقت

سرِ لوح و قلم فکری بصارت

۔

پسِ موضوع نباتاتی حقیقت

جنونِ عشق ہر عنواں میں پنہاں

۔

گلوں کی وادیاں ہوں یا بیاباں

ہر اک شئے ہے بہ مثلِ حسنِ تاباں

۔

شرار و سنگ بھی تخلیقی عنواں

بڑے مبہم ہیں اجمالی اشارے

۔

چھپے ہیں خاک میں بھی چاند تارے

تھے آب و گل بھی رخشندہ کنارے

۔

دھنک آوردہ تحقیقی نظارے

خرد سازی کے سائنسی حوالے

۔

وقارِ عزم کے روشن ستارے

کہاں ملتے ہیں اب ایسے جیالے

۔

جو فن میں ڈال دے فکری اجالے

نیا گوشہ، نئی تاریخ سازی

۔

’قرآنی‘ آیتوں کی سرفرازی

زباں کو بخش دی وہ دل نوازی

۔

سخن کو مل گئی جدت طرازی

مبارک آپ کو ’پرویز اسلم‘

۔

سدا قائم رہے یہ عزمِ پیہم

دعا مقبول ہوجائے یہ اعظمؔ

طلسمِ عزم ہو کچھ اور محکم

1 تبصرہ
  1. عبیدالرحمن کہتے ہیں

    ڈاکٹر اسلم پرویز صاحب علیگڑھ کے حبیب ہال میں میرے سائڈ روم پارٹنر رہے ہیں.. انکی تدریسی خدمات سے کئی نسلیں فیضیاب ہؤی ہیں… ڈاکٹر صاحب نہایت منکسرالمزاج اور نیک انسان کی حیثیت سے جانے جاتے تھے… سائنسی موضوعات پر انکی کتابیں نظر نواز ہؤئی ہیں… یہ کتابیں اردو کے لئے کسی خزانے سے کم نہیں…

تبصرے بند ہیں۔