عربی زبان وادب کی خدمت: صدارتی ایوارڈ اور مولانا امینی

نایاب حسن

خبر ہے کہ عربی زبان وادب کی نمایاں خدمات کے عوض استاذِمکرم مولانانورعالم خلیل امینی صدارتی ایوارڈکے لیے نامزد کیے گئے ہیں، یہ ایوارڈ حکومتِ ہندکی جانب سے ہر سال ایک یااس سے زائدچیدہ لوگوں کو دیاجاتاہے اور یہ عربی کے علاوہ فارسی، سنسکرت اور ہندوستان کی دیگر علاقائی زبانوں میں بھی دیاجاتاہے، مولاناکاانتخاب2017ء کے لیے ہواہے، ان کے علاوہ دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر نعمان خان اورایک دیگرصاحب بھی ہیں۔ مولانا امینی کو گزشتہ چالیس سالوں کے دوران دیوبند سے تعلیم حاصل کرنے والے ہزاروں علماوفضلاتوجانتے ہی ہیں، اس کے علاوہ دیگر اربابِ علم و ادب اور عالمِ عربی واسلامی کے باذوق و اصحابِ فکر و قلم بھی ان سے اچھی طرح متعارف ہیں۔

اس ایوارڈکے لیے مولاناکا انتخاب بہت پہلے ہونا چاہیے تھا، کہ وہ اس کے پرفیکٹ حق دار تھے، مگر اب انتخاب ہونا بھی ہم جیسے ان کے شاگردوں کے لیے یقیناً خوش آیندہے اور ہم دل کی گہرائیوں سے استاذگرامی کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ (خاص کرعربی زبان و ادب کے پس منظر میں)زبان کیا ہوتی ہے اور ادب کیاہے؟اس کا صحیح شعورمولاناامینی سے مل کر، ان کے پاس بیٹھ کر اورانھیں پڑھ کر ہوتا ہے، عربی زبان و ادب ان کا اوڑھنا بچھوناہے، ان کا ادبی ذوق نہایت نفیس، نستعلیق اورلطیف ہے اور مخصوص قسم کی دلکشی رکھتاہے، ان کے لب و لہجے سے عربی زبان کا شکوہ جھلکتا؛بلکہ چھلکتاہے، انھیں دیکھے ہوئے کئی سال ہوئے، مگر ان کا چہرہ یاان کی باتیں ذہن کے کینوس پر ہویداہوں، تواپنے چہرے پر ایک عجیب فرحت و انبساط کی لہر دوڑجاتی ہے، مولاناامینی عربی زبان کے عاشقِ زارہیں، اس زبان کے تئیں ان کی بے مثال محبت کااثران کی عملی زندگی اور ان کے عادات و اطوارپربھی پایاجاتاہے، وہ عربی الفاظ کے اَعماق میں اترکر لکھتے اورسیاسی و سماجی یاعلمی موضوع پر لکھتے وقت بھی زبان کا حسن اور بیان کی دل آویزی اسی طرح قائم رکھتے ہیں، جیسے کسی ادبی موضوع پر لکھتے وقت ان کے یہاں یہ خصائص پائے جاتے ہیں، اگر آپ عربی زبان و ادب کے مزاج داں ہیں، توان کے بہت سے مضامین کو پڑھتے ہوئے آپ پر کیف و سرورطاری ہوجائے گااورآپ کا ادبی ذوق ووجدان جھوم اٹھے گا۔

مولاناامینی کا تدریسی سٹائل بھی درسِ نظامی میں رائج طریق ہاے تدریس سے یکسر جداگانہ ہے، ان کے پاس جس بندے نے بھی عربی پڑھی ہوگی، وہ بھلے ہی عدمِ ممارست کی وجہ سے اس زبان کابہت ماہر نہ ہو؛لیکن اس کے اندر اتنی صلاحیت توضرور پیدا ہوجاتی ہے کہ ذراسی توجہ کے بعد عربی لکھنے اور بولنے میں اس کاہاتھ اور زبان رواں ہوسکتے ہیں، وہ لفظوں کوان کے حقیقی پس منظراور حقیقت وماہیت کوسامنے رکھ کر برتتے اوراسی کی تعلیم بھی دیتے ہیں، ان کی کتاب’’مفتاح العربیہ‘‘دیوبند سمیت برصغیرکے سیکڑوں مدارس وجامعات میں پڑھائی جاتی ہے اور غیرعربی داں افراد کو عربی سکھانے کے حوالے سے نہایت کامیاب ہے۔ ان کی عربی صحافت بھی دیارِعجم کی روایتی عربی صحافت سے قطعاً الگ ہے، آپ ’’الداعی‘‘کے ان کے اداریے پڑھیں، تواس کا بخوبی اندازہ ہوگا، برصغیر سے جو عربی رسالے نکلتے ہیں، وہ عموماً’’تبرکا‘‘شائع ہوتے ہیں؛ لہذاان کے مشمولات کوبھی بے تکلف ’’تبرکات‘‘ کے درجے میں رکھاجاسکتاہے، مگر ’’الداعی‘‘اس معنی میں منفردہے کہ اسے اس کے ظاہری سراپاواندرونی موادکے اعتبار سے کسی بھی عالمی مجلے کے برابرمیں رکھاجاسکتاہے، اس میں معروف ومشہور عربی واسلامی اہلِ قلم کے فکر انگیزمقالات شائع ہوتے ہیں، ان کے علاوہ مولاناامینی کااداریہ ملک و دنیا، بہ طورِ خاص عالمِ اسلام کے سلگتے موضوعات کا بے لاگ، سنجیدہ اور واقعیت پر مبنی تجزیہ پیش کرتاہے۔ ’’الداعی‘‘میں ان کا ایک خاص کالم’’اشراقہ‘‘ہے، جس میں وہ اپنے علمی و عملی تجربات کی روشنی میں زندگی کے حقائق و اسباق پر بڑا دلچسپ، دلنشیں اور ادبیت سے معمور تبصرہ کرتے ہیں۔

’’الی رحمۃ اللہ‘‘بھی اس رسالے کاخاص کالم ہے، جس میں مولاناامینی ماضی قریب میں وفات پانے والے کسی بڑے اور نمایاں صاحبِ فکر و علم کی سوانح وخدمات پر خاص مضمون لکھتے ہیں، گزشتہ چار دہائیوں میں انھوں نے بہت سی قومی و بین الاقوامی شخصیات پرلکھاہے، ان کے اس قسم کے مضامین میں بھی ایک خاص انفرادیت پائی جاتی ہے، شستہ ورفتہ زبان وبیان میں وہ کسی بھی شخصیت پرمکمل شرحِ صدرکے ساتھ لکھتے ہیں اور محض تاثرات نہیں پیش کرتے یاخاکہ نگاری سے کام نہیں چلاتے؛بلکہ متعلقہ شخصیت کے بارے میں ایسی بنیادی معلومات بھی فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جن کی وجہ سے ان کے مضمون کی حیثیت حوالہ جاتی ہوجاتی ہے، تین چار سال قبل شائع ہونے والی ان کی کتاب’’پس مرگ زندہ‘‘میں ایسی ہی 37؍شخصیات کا احاطہ کیا گیا ہے، اس کتاب کے بیشتر مضامین عربی زبان سے ہی اردومیں منتقل ہوئے ہیں۔ عالمِ اسلام، بالخصوص مسئلۂ فلسطین پر مولاناامینی کا مطالعہ بڑاعمیق ہے، بہ طورخاص گزشتہ چالیس سالوں کے دوران بلادِ قدس میں جوکچھ سانحات رونما ہوئے ہیں، وہ سب انھیں اس طرح مستحضرہیں، گویاوہ ان کے چشم دیدگواہ ہوں، یقین نہ ہوتو، توان کی کتاب’’فلسطین في انتظار صلاح دین‘‘یااس کے اردو ورژن کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔

عربی اوراردو دونوں زبانوں میں مضمون نگاری کیسے کی جاسکتی ہے، اس پر ان کی کتاب’’حرفِ شیریں‘‘شہرتِ عام رکھتی ہے، اس کے علاوہ سال، دو سال قبل عربی انشاومضمون نگاری کی تربیت پرعربی میں بھی ان کی دوکتابیں آئی ہیں۔ عربی رسم الخط میں خطِ رقعہ اپنے مخصوص جمال و حسن کی وجہ سے خاص کشش رکھتاہے، مولاناامینی کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ نہایت ہی خوش خط ہیں اور خط رقعہ تواور بھی خوب صورت لکھتے ہیں، سوطلباکو سکھانے کے لیے انھوں نے’’خط رقعہ کیسے سیکھیں؟‘‘نامی ایک کتاب بھی لکھی ہے، جس سے ہزاروں طلبانے استفادہ کیاہے اور کررہے ہیں۔

مولاناکاایک بڑاکارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے بغیر کسی صلہ و ستایش کی تمناکیے اکابرِ دیوبندمیں سے کئی اہم مصنفین جیسے مولانامحمد قاسم نانوتوی، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی وغیرہما کی کتابوں کو عربی زبان میں منتقل کرکے ان کی افادیت کا دائرہ وسیع کیاہے۔

بہر کیف مولاناامینی ان لوگوں میں سے ہیں، جنھوں نے عربی زبان وادب کو بہ طورپروفیشنProfession نہیں، بہ طورپیشن  Passion اختیارکیاہے؛لہذاان کی تحریروں میں کہیں بھی تصنع نہیں؛بلکہ اس زبان کے تئیں والہانہ پن ہے، شیفتگی ہے، وارفتگی ہے، حسن و دلکشی ہے، علمیت ہے، افادیت ہے، وسعتِ فکر و نظرہے اور عمقِ مطالعہ و مشاہدہ ہے۔ مولاناامینی کی ذات وصفات میں دلچسپی کے اوربھی دسیوں پہلوہیں، جن پربہت کچھ لکھاجاسکتاہے، مگرفی الحال اتناہی!

تبصرے بند ہیں۔