غلط شیعی نظریات اور مولانا مودودی کا موقف

محی الدین غازی

اس تحریر کو پیش کرنے کا محرک یہ ہے کہ سوشل میڈیا میں بعض حلقوں کی طرف سے بڑے زور وشور سے پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ مولانا مودودی شیعی نظریات کے سلسلے میں نرم گوشہ رکھتے تھے، بعض لوگ تو کھلے عام صریح لفظوں میں انہیں شیعہ اور رافضی بھی لکھتے ہوئے تردد محسوس نہیں کرتے ہیں۔ اس مضمون میں ایسے سب لوگوں کو اپنے رویے پر دیانت داری کے ساتھ نظر ثانی کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔

دوسرا بڑا مقصد ان لوگوں کو اصل حقیقت سے باخبر کرنا ہے، جو اللہ کے دین سے محبت رکھتے ہیں اور صرف اسی لئے مولانا مودودی سے بھی تعلق خاطر رکھتے ہیں، ان کی دینی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور ان کے دینی مشن سے قلبی لگاؤ رکھتے ہیں، مگر مخالفوں کے پروپیگنڈے کی وجہ سے حیران وپریشان رہتے ہیں، اور واقعی جاننا چاہتے ہیں کہ شیعی نظریات وعقائد کے تعلق سے مولانا مودودی کا حقیقی موقف کیا تھا۔

مولانا مودودی کی کتابیں پڑھتے ہوئے مجھ پر یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوگئی کہ مولانا نے جس طرح دنیائے انسانیت اور مسلم امت میں رائج طرح طرح کے غلط نظریات پر تنقیدیں کیں، اسی طرح غلط شیعی نظریات کا بھی بہت شدت سے تعاقب کیا ہے، اور جہاں بھی انہیں مناسب موقع نظر آیا انہوں نے ان نظریات پر کھل کر تنقید کی اور بہت مدلل اور سخت تنقید کی۔ کہیں بھی کسی طرح کی مداہنت کا راستہ اختیار نہیں کیا۔

اگر کوئی مولانا کی تمام تحریروں سے ایسی تمام تنقیدیں الگ نکال لکر جمع کرے تو بلاشبہ ایک ضخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مولانا کی دیگر کتابوں کے علاوہ ان کی مشہور زمانہ تفسیر تفہیم القرآن میں اہل تشیع کے غلط نظریات پر جتنی تنقیدیں ہیں بہت کم تفسیروں میں ملیں گی۔ میں یہاں تفہیم القرآن سے اختصار کے ساتھ چند مثالیں ذکر کروں گا:

پہلی مثال:سورۃ فتح کی آیت (29) کی تفسیر میں مولانا لکھتے ہیں: ایک گروہ اس آیت میں منھم کی من کو تبعیض کے معنی میں لیتا ہے اور آیت کا ترجمہ یہ کرتا ہے کہ ”ان میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے” اس طرح یہ لوگ صحابہ پر طعن کا راستہ نکالتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ اس آیت کی رو سے صحابہ میں بہت سے لوگ مومن وصالح نہ تھے۔ (اس کے بعد مولانا نے اس غلط خیال کی تردید میں طویل اور مدلل گفتگو کی ہے) (تفہیم القرآن جلد ششم، ص 65)

دوسری مثال:سورہ احزاب کی آیت (6) کی تفسیر میں لکھتے ہیں: یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن مجید کی رو سے یہ مرتبہ تمام ازواج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے جن میں لا محالہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی شامل ہیں۔ لیکن ایک گروہ نے جب حضرت علی وفاطمہ رضی اللہ عنہما اور ان کی اولاد کو مرکز دین بنا کر سارا نظام دین انہیں کے گرد گھمادیا، اور اس بنا پر دوسرے بہت سے صحابہ کے ساتھ حضرت عائشہ کو بھی ہدف لعن وطعن بنایا، تو ان کی راہ میں قرآن مجید کی یہ آیت حائل ہوگئی جس کی رو سے ہر اس شخص کو انھیں اپنی ماں تسلیم کرنا پڑتا ہے جو ایمان کا مدعی ہو۔ آخر کار اس مشکل کو رفع کرنے کے لئے یہ عجیب وغریب دعوی کیا گیا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کی ازواج مطہرات میں سے جس کو چاہیں آپ کی زوجیت پر باقی رکھیں اور جسے چاہیں آپ کی طرف سے طلاق دے دیں۔

(اس کے بعد مولانا نے طبرسی کی کتاب الاحتجاج سے ایک روایت نقل کی اور اس کو رد کرتے ہوئے لکھا): اصولی روایت کے اعتبار سے تو یہ روایت سراسر بے اصل ہے ہی، لیکن اگر آدمی اسی سورۃ احزاب کی آیات 28، 29 اور51،52 پر غور کرے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ روایت قرآن کے بھی خلاف پڑتی ہے۔ کیونکہ آیت تخییر کے بعد جن ازواج مطہرات نے ہر حال میں رسول اللہ ﷺ کی رفاقت کو اپنے لئے پسند کیا تھا ، انہیں طلاق دینے کا اختیار حضور کو باقی نہ رہا تھا۔

اس کے بعد مولانا لکھتے ہیں: علاوہ بریں ایک غیر متعصب آدمی اگر محض عقل ہی سے کام لے کر اس روایت کے مضمون پر غور کرے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ انتہائی لغو اور رسول پاک ﷺ کے حق میں سخت توہین آمیز افترا ہے۔ رسول کا مقام تو بہت بالا تر وبرتر ہے، ایک معمولی شریف آدمی سے بھی یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنی وفات کے بعد اپنی بیوی کو طلاق دینے کی فکر کرے گا اور دنیا سے رخصت ہوتے وقت اپنے داماد کو یہ اختیار دے جائے گا کہ اگر کبھی تیرا اس کے ساتھ جھگڑا ہو تو میری طرف سے اسے طلاق دے دیجیو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ اہل البیت کی محبت کے مدعی ہیں ان کے دلوں میں صاحب البیت کی عزت وناموس کا پاس کتنا کچھ ہے، اور اس سے بھی گزر کر خود اللہ تعالی کے ارشادات کا وہ کتنا احترام کرتے ہیں۔ (تفہیم القرآن جلد چہارم ص72 اور 73)

تیسری مثال: سورۃ احزاب کی آیت (33) کی تفسیر میں مولانا لکھتے ہیں: ایک گروہ ہے جس نے اس آیت کی تفسیر میں صرف اتنا ہی ستم نہیں کیا ہے کہ ازواج مطہرات کو ‘اہل البیت’ سے خارج کرکے صرف حضرت علی وفاطمہ اور ان کی اولاد کے لئے اس لفظ کو خاص کردیا، بلکہ اس پر مزید ستم یہ بھی کیا ہے کہ اس کے الفاظ ”اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کردے” سے یہ نتیجہ نکال لیا کہ حضرت علی وفاطمہ اور ان کی اولاد انبیاء علیہ السلام کی طرح معصوم ہیں۔ (آگے اس خیال کی تفصیلی تردید ہے) (تفہیم القرآن جلد چہارم ص93)

چوتھی مثال: سورۃ احزاب کی آیت (59) کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں: ضمنا ایک اور مضمون جو اس آیت سے نکلتا ہے وہ یہ کہ اس سے نبی ﷺ کی کئی بیٹیاں ثابت ہوتی ہیں، کیونکہ اللہ تعالی فرمارہا ہے "اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں سے کہو” یہ الفاظ ان لوگوں کے قول کی قطعی تردید کردیتے ہیں جو خدا سے بے خوف ہو کر بے تکلف یہ دعوی کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کی صرف ایک صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا تھیں اور باقی صاحبزادیاں حضور ﷺ کی اپنی بیٹیاں نہ تھیں بلکہ گیلڑ تھیں۔ یہ لوگ تعصب میں اندھے ہوکر یہ بھی نہیں سوچتے کہ اولاد رسول کے نسب کا انکار کرکے وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کررہے ہیں اور اس کی کیسی سخت جواب دہی انہیں آخرت میں کرنی ہوگی۔ (آگے اس خیال کی تفصیلی دلائل کے ساتھ تردید کی ہے) (تفہیم القرآن جلد چہارم ص130)

رسائل ومسائل میں ایک جگہ مولانا اس سوال کا مفصل جواب دیتے ہیں کہ دینی معلومات کا مرجع صرف اہل البیت کیوں نہ ہوں؟ اسی میں ایک جگہ لکھتے ہیں: عقل کسی بھی طرح یہ باور نہیں کرسکتی کہ تیئس سال کے دوران میں جو عظیم الشان کام نبی نے سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کی شرکت و رفاقت میں سر انجام دیا اور جسے لاکھوں آدمیوں نے اپنی آنکھوں سے ہوتے دیکھا، اس کے متعلق معلومات حاصل کرنے میں صرف آپ کے گھر والوں پر ہی حصر کرلیا جائے اور ان بہت سے دوسرے لوگوں کو نظر انداز کردیا جائے جو اس کام میں شریک ہوئے اور جنہوں نے اسے دیکھا۔ حالاں کہ حضور ﷺ کے گھر والوں میں سے خواتین کو اگر موقع ملا ہے تو زیادہ تر آپﷺ کی خانگی زندگی دیکھنے کا موقع ملا ہے اور مردوں میں ایک حضرت علی ؓ کے سوا کوئی دوسرا ایسا نہیں ہے جسے آپ ﷺ کی رفاقت کا اتنا موقع ملا ہو جتنا حضرت ابو بکر صدیقؓ، عمرؓ، عثمانؓ، ابن مسعودؓ اور دوسرے بہت سے صحابہ کرام کو ملا۔ پھر آخر محض اہل بیت ہی پر حصر کرلینے کی کونسی معقول وجہ ہے؟ اس سوال کو رد کرنے کے لیے بآلاخر ایک گروہ کو یہ کہنا پڑا کہ گنتی کے چند آدمیوں کے سوا باقی تمام صحابہ معاذ اللہ منافق تھے۔ مگر یہ بات صرف وہی شخص کہہ سکتا ہے جو تعصب میں اندھا ہوچکا ہو۔ جسے نہ اس بات کی پروا ہو کہ تاریخ اس کی تمام خاک اندازیوں کے باوجود کس طرح اس کے قول کوجھٹلا رہی ہے اور نہ اس امر کی پروا ہو کہ اس قول سے خود سرکار رسالت مآب اور آپؐ کے مشن پر کیسا سخت حرف آتا ہے۔ (رسائل ومسائل جلد دوم ص 261,262)

شیعوں کی علانیہ دشنام طرازی پر حکومت کی جانب سے پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں: اس معاملے میں سنیوں اور شیعوں کی پوزیشن میں ایک بنیادی فرق ہے جسے ملحوظ رکھ کر ہی فریقین کے درمیان انصاف قائم کیا جاسکتا ہے۔ وہ یہ کہ شیعہ جن کو بزرگ مانتے ہیں وہ سنیوں کے بھی بزرگ ہیں۔ اور سنیوں کی طرف سے ان پر طعن وتشنیع کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا ۔ اس کے برعکس سنیوں کے عقیدے میں جن لوگوں کو بزرگی کا مقام حاصل ہے ان کے ایک بڑے حصہ کو شیعہ نہ صرف برا سمجھتے ہیں بلکہ انہیں برا کہنا بھی اپنے مذہب کا ایک لازمی جز قرار دیتے ہیں۔ اس لئے حدود مقرر کرنے کا سوال صرف شیعوں کے معاملے میں پیدا ہوتا ہے۔ انہیں اس بات کا پابند کیا جانا چاہئے کہ بدگوئی اگر ان کے مذہب کا کوئی جزو لازم ہے تو اسے اپنے گھر تک محدود رکھیں پبلک میں آکر دوسرون کے بزرگوں کی برائی کرنا کسی طرح بھی ان کا حق نہیں مانا جاسکتا۔ میرا یہ خیال ہے کہ اس معاملہ کو اگر معقول طریقے سے اٹھایا جائے تو خود شیعوں میں سے بھی تمام انصاف پسند لوگ اس کی تائید کریں گے (رسائل ومسائل حصہ سوم ص 378)

یہ چند مثالیں ہیں، ورنہ مولانا مودودی کی ایسی بہت سی تحریریں ہیں جو اس طرح کے غلط پروپیگنڈے کو دفع کرنے اور یہ واضح کرنے کے لئے بہت کافی ہیں کہ مولانا مودودی ہرگز شیعیت کے حامی نہیں بلکہ در حقیقت غلط شیعی نظریات وخیالات کے سخت مخالف اور زبردست ناقد تھے۔

اس ضمن میں مولانا کی کتاب خلافت وملوکیت کا تذکرہ چھیڑنا بے محل ہے، اس لئے کہ وہ شیعہ سنی موقف سے بالکل ہٹ کر ایک تحقیقی کاوش ہے، جس کے بعض مقامات پر اگر بعض سنیوں کو اعتراض ہوسکتا ہے، تو یقینا اس کے بیشتر حصے سے شیعوں کو اختلاف ہوگا۔

درحقیقت مولانا مودودی ممکنہ حد تک تکفیر سے بچتے ہوئے دعوت وتبلیغ اور افہام وتفہیم کے قائل تھے، اسی لئے وہ پورے شیعہ سماج پر کفر کے فتوے لگانے کے بجائے ان کے غلط نظریات اور غلط رویوں پر ٹھوس اور مدلل تنقیدیں کرتے تھے، تاکہ خود انہیں بھی اپنے موقف پر نظرثانی کرنے کا موقع اور ترغیب ملے۔

ان تحریروں سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ مولانا مودودی ہرگز اس تصور اتحاد امت کے قائل نہیں تھے، جس میں شرط یہ ہو کہ دوسروں کے غلط نظریات کے سلسلے میں چشم پوشی اور مداہنت کا رویہ اختیار کیا جائے۔

1 تبصرہ
  1. وصی احمد کہتے ہیں

    محی الدین غازی ۔صاحب سے میرا ذاتی تعلق توجّه نهیں لیکن رفیق منزل اور ایس آءی او کے وقت سے
    میں ان کی تحریروں سے واقف هوں ۔محترم غازی صاحب نے ایک ایسے موضوعات پر قلم اٹهایا هے
    جس پر بهت کم لکها گیا هے ۔آپ نے مولانا کی صحیح
    راے قااءیین کے سامنے پیش کی هے ۔سبحانالله۔۔

تبصرے بند ہیں۔