فکرفردا- کیا شخص تھا اوروں کے لیے جیتاتھا

احمدجاوید

شام کوخبرآئی کہ ایدھی فاؤنڈیشن کے بانی عبدالستار ایدھی کی طبیعت ایک بار پھربگڑگئی ہے اوران کو لائف سپورٹ پررکھاگیاہے، یہ کوئی غیرمتوقع خبر نہیں تھی، پچھلے کئی ماہ سے وہ کراچی کے سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی میں زیرعلاج تھے، ان کے گردوں نے کام کرناچھوڑ دیاتھا، حالت نازک تھی اور ان سے باربار علاج کے لیے بیرون ملک چلنے کی گزارش کی جارہی تھی لیکن وہ ایسا کر نے سے انکار کررہے تھے۔ رات کے کوئی بارہ بجے ہمارے ایک نوجوان دوست اور صحافی عمر عبدالرحمن جنجوعہ نےاپنے فیس بک اکاؤنٹ پر اطلاع دی کہ انسانیت کے ماتھے یہ درخشاں ستارہ ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گیا، خبرتو یہ بھی غیرمتوقع نہ تھی کہ وہ کوئی ۸۸سال کے تھے جوبرصغیر میں لوگوں کی اوسط عمر سے بہت زیادہ تھی، اتنی عمرہمارے ملکوں میں کم ہی لوگ پاتے ہیں لیکن یہ سنتے ہی ایک دم دل بھرآیاکہ ڈاکٹر عبدالستار ایدھی کی موت ایک شخص کی موت نہیں ، سچ مچ ایک دنیا کی موت تھی، چندبچوں کے باپ یا ایک خاتون کے خاوند کی موت نہیں، یہ ہزاروں لاکھوں بچوں کے باپ اور ہزاروں بے سہاراعورتوں، ضعیفوں اور لاوارثوں کے سرپرست کی موت تھی۔یہ اس شخص کی موت تھی جو انساینت کے ماتھے کا سب سے درخشاں ستارہ تھا، ایساستارہ جس کے ٹوٹ جانے سے ایک جہان میں اندھیراچھاجائے۔

یہ کوئی چھ سات سال پہلے کی بات ہے، یونیسکو نے اپنے مدن جیت سنگھ انعام برائےفروغ رواداری وعدم تشدد کے لیے عبدالستار ایدھی کو منتخب کیا تھا، یونیسکوکے سفیرخیرسگالی عالمی شہرت یافتہ ہندوستانی مصنف، مصوراورسفارت کار مدن جیت سنگھ حیات تھے اور ان دنوں نئی دہلی میں تھے۔ ساؤتھ ایشیافاؤنڈیشن میں ان سےملاقات کے دوران ہم نے اس کا ذکر کیا کہ آپ کے نام پر قائم یونیسکو کاایوارڈ ایک پاکستانی مخیرکو دینے کا اعلان کیاگیاہےتو پہلے تو وہ حیران ہوئے کیونکہ وہ نہ تو ایوارڈ کی جوری میں شامل تھے اور نہ ابھی تک اس فیصلے کی آفیشیل اطلاع ان تک پہنچی تھی لیکن میں نے ایدھی مرحوم کا نام لیا تو ان کی خوشی کی انتہانہ رہی ، ان کے چہرے کی کیفیت اور آنکھوں کی چمک قابل دید تھی۔میں سمجھتاہوں کہ یہ عبدالستار ایدھی ہی تھےجن پرہندوستان کا ایک اتناعظیم سفارتکار بھی اس طرح فخرکرسکتاتھاجس کے نام پریونیسکو نے انعام قائم کیاتھا ۔مدن جیت سنگھ کے الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں ۔انہوں نے برجستہ کہا تھا’انسانیت اس پر ہمیشہ نازکرےگی، اس دنیا میں بے سہاروں اورمظلوموں کا اتنا بڑامحسن باربار پیدا نہیں ہوتا‘۔

  غالباً ان ہی دنوں کی بات ہے۔ صحافیوں کے ایک گروپ نے ایدھی مرحوم سے ملاقات کی تھی۔یہ تین دوست تھے جن میں مشہورکالم نگاراور ایکسپریس ٹی وی کے مقبول عام ٹاک شو’ کل تک‘ کے اینکر جاوید چودھری بھی شامل تھے۔انہوں نےاس ملاقات کے دوران ان سے یہ خواہش ظاہر کی کہ ان کو انسانیت کی بے لوث خدمت کے ان کاموں سے جوڑ لیں جو ایدھی فاؤنڈیشن پاکستان اور دنیا کے مختلف ملکوں میں انجام دیتاہے۔یہ بلاشبہ ان کی عظمتوں کو ملک کے ان نامور صحافیوں کاایک سچا خراج عقیدت تھا۔کوئی اور ہوتا تو فخروانبساط کے جذبات سے سرشارہوجاتا لیکن یہ عبدالستار ایدھی تھے جنھوں نے پوری سنجیدگی کے ساتھ ان سے کہاتھا۔’ ہم جو کام کررہے ہیں ، یہ تو کوئی بھی کرسکتاہے،لیکن آپ لوگ جوکچھ کرتے اور کرسکتے ہیں وہ ہرکس و ناکس نہیں کرسکتا لہذا ہمارا مشورہ تو یہ ہے کہ آپ جہاں ہیں وہیںانسانیت کی خدمت کریں ۔اس میں کوئی کمال نہیں ہے کہ کسی لاوارث لاش یا لاوارث بچہ کے لیے آپ نے سڑک کے کنارے دامن پھیلایااور لوگوں نے اس میں رقوم ڈال دیں۔یہ تو کوئی بھی کرسکتا ہے۔‘ یہ اس شخص کی عظمت ، اس کی سادگی،عاجزی اور انکساری تھی جس کانام گنیزبک آف ورلڈ رکارڈ میں دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس قائم کر نے کے لیے درج ہے، جسے عوامی فلاح کے کاموں کے لیے رامون میگسیسے ایوارڈ(۱۹۸۶) سے نوازاگیا، جسے لینن امن ایوارڈ سے سرفرازکیاگیا اور جسے روٹری انٹرنیشنل نے پال ہیرس فیلودے کراس کی عظمتوں کا اعتراف کیا۔یاد آتا ہے کہ ان کی بات سن کر صحافی دوستوں کی گردنیں جھک گئی تھیں اور جاوید چودھری نے اپنے ایک کالم میں تفصیل سے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھاتھاکہ انسان کی عظمت یہ ہے کہ وہ بنی نوع انسان کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو پہچانے اور عبدالستار ایدھی نے اس فرض کو جس طرح پہچانا ہے کاش! ہم آپ بھی پہچانیں۔

 ایدھی ۱۹۲۸ء میں متحدہ ہندوستان کی ریاست گجرات(بھارت) میں بانٹواکے مقام پر پیدا ہوئے۔ ان کے والد کپڑا کے تاجر تھے۔ متوسط طبقہ سے تعلق تھا۔صرف گیارہ سال کی عمرمیںننھے ایدھی پراپنی ماں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری آگئی ۔وہ شدید قسم کے ذیابیطس میں مبتلا تھیں۔یہ پہلاواقعہ تھاجس نے چھوٹی عمر میں ہی اپنے پرایوں کی مدد اور خدمت کرنے کا درس ان کو دیااور یہی جذبہ ان کے لیے کامیابی کی کنجی بن گیا۔وہ کہتے تھے کہ غموں اور دکھوں نے ان کی تربیت کی اوران کوحکمت و دانائی سے دی۔تقسیم ہند کے بعد۱۹۴۷ء میںہجرت کرکے وہ کراچی میں آئے تو زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لیے ان کو سخت مشقتوں کاسامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے ٹھیلے پردکان لگائی، پھیری لگائے، بوجھ ڈھونے کا کام کیا،کپڑے کی دکان کی ، کپڑے کی ہول سیل مارکیٹ میں ایجنسی چلائی لیکن یہ سماج کے تئیں ان کا احساس ذمہ داری تھاجو کسی بھی حال میں ان کو کبھی خدمت خلق سے غافل نہیں ہونے دیتاتھا۔ جن دنوں وہ ٹھیلے پرپھیری لگاتےتھے، حادثے کے شکار ایک شخص کو اسپتال لے جانے کے لیے دیرتک پریشان رہنے کے بعدمجبوراً اپنے ٹھیلے سے وہ اسے اسپتال لے گئے ،کسی موٹر کی زد میں آجانے والےایک زخمی شخص کے تئیں سماج کی بے حسی نے ان کو اس دن بے چین کیا توپھر یہ سوچ کرکہ ہم تنہا کیا کرسکتے ہیں وہ ہماری آپ کی طرح بیٹھ نہیں گئے، ایک وقت آیا کہ اپنے ایک تاجر دوست عثمان غنی کی مدد سے ایک گاڑی خریدی، خود ڈرائیوری سیکھی اور پھر دن بھروہ شہر میں چکر لگاتے پھرتے، زخمیوں کو اسپتال اور لاوارث لاشوں کو ان کی آخری منزل کو پہنچاتے، مسلم غیرمسلم، اپنے پرائے کی کوئی تمیزوتفریق ان کے یہاں روانہ تھی۔ ۱۹۵۱میں انہوں نے اپنی جمع پونجی سے ایک چھوٹی سی دکان خریدی اور اسی دکان میں ایک ڈاکٹر کی مدد سے چھوٹی سی ڈسپنسری کھولی جنہوں نے ان کو طبی امداد کی مبادیات سکھائیں۔ خودایک ایسی سادہ طرز زندگی اپنایا جس میں دوجوڑے سے زائدلباس کی بھی گنجائش نہیں تھی ۔اسی ڈسپنسری کے سامنے بنچ پر ہی سو لیتے تھے تاکہ بوقت ضرورت فوری طور پر مریضوں اور ضرورت مندوں کی مدد کو پہنچ سکیں۔۱۹۵۷ء میں کراچی میں بہت بڑے پیمانے پر فلو کی وبا پھیلی جس پر ایدھی نے فوری طور پر رد عمل کیا۔ انہوں نے شہر کے نواح میں خیمے لگوائے، مفت ادویہ حفظ ماتقدم فراہم کیں۔ مخیر حضرات نے اس کار خیر میں انکی دل کھول کر مدد کی ۔امدادی رقم سے انہوں نے وہ پوری عمارت خرید لی جہاں ڈسپنسری تھی اور وہاں ایک میٹرنٹی سنٹر اور نرسوں کی تربیت کے لیے اسکول بھی کھولا اور یہی ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز تھا۔لاوارث لاٹھوں کو اٹھانے کے عمل میں ان کو لاوارث نوزائیدہ بچے ملنے لگے تو ایدھی گھروندہ کا قیام عمل میں آیا۔لوگ نوزائیدہ بچوں کو کوڑے یا سنسان جگہوں پرڈال دیتے تھے اور اکثران ننھی جانوں کو کتے یا دوسرے جانور نقصان پہنچا دیتے تھے۔ایدھی مرحوم کا دل انسانوں کی اس حیوانیت بھرآیا، انہوں نے شہر کے مختلف مقامات پر ایدھی گودی لگوائی تاکہ لوگ نوزائیدہ بچوں کو کوڑے میں نہ ڈالیں، ان کوگودی میں ڈالیں، اس طرح ایدھی اور ان کی اہلیہ نے ہزاروں لاوارث بچوں کو باپ ماں کا پیار اور نام دیا۔بلقیس ایدھی بھی ان کے لیے قدرت کا ایک انعام تھیں۔کہتے ہیں کہ عبدالستار ایدھی کی جس خاتون کے ساتھ شادی طے تھی اس نے ان کے نکاح میں آنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا تھاکہ یہ تو فقیرہے۔بلقیس نےجوان دنوں ایدھی ڈسپنسری میں نرس تھیں، اس مرد درویش کی قدروقیمت کوسمجھااوران کو پیغام نکاح دے دیا، وہ خود کہتی ہیں’دو فقیر مل گئے تو بادشاہ ہوگئے‘۔ مملکت خدمت خلق کی ملکہ بلقیس ایدھی اب مرحوم ایدھی کے مشن کی سربراہ اور ان کی تحریک کی روح رواں ہیں، اللہ ان کو دیرتک سلامت رکھے۔

بعد کے دنوںمیںیہ فاؤنڈیشن پاکستان کے باقی علاقوں تک بھی پھیلتا گیا۔ اب یہ ادارہ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر سرگرم عمل ہے۔ افغانستان، عراق، چیچنیا، بوسنیا، سوڈان، ایتھوپیا اور قدرتی آفات سے متأثر سماترا اندامان کے علاقوں میں اس کی راحت رسانی ہردن ہزاروں زخمیوں کی جانیں بچاتی ہے ۔مرحوم ایدھی نے زندگی بھرسنت کے مطابق داڑھی رکھی ، سرپر ٹوپی اور اسلامی شعار کا کرتاپاجامہ ان کی مستقل پہچان تھا،انہوں نے اگرچہ کبھی کسی مذہبی مدرسے یا اسکول میں تعلیم حاصل نہیں کی تھی پھربھی  احترام کے طور پران کو مولانا کا لقب دےدیا گیاتھا (جبکہ وہ ذاتی طور پر اس کو پسند نہیں کرتےتھے) لیکن ان کو گمراہ و بے دین کہنے والوں کی بھی کمی نہیں تھی،کوئی کہتاتھا کہ وہ اسلام کے ارکان چھ بتاتے تھے ‘ ،کسی نے ان کے اس قول کو گرہ سے باندھ رکھاتھا کہ آپ کہتے ہیں توکھڑاہوجاتاہوں ورنہ اس اٹھک بیٹھک(نماز) سے کیارکھاہے‘اور کسی پران کی یہ بات یلغار کرتی ہے کہ وہ جب حج پر گئے اوررمی جمرات کا وقت آیا تو کہنے لگے’ پاکستان میں کیا کم شیطان ہیںوہاں جاکر انہیں کنکریاں مار لوںگا‘۔بہت سے لوگ ن کے اس قول میں پھنسے ہوئے تھے کہ میںنے آج چھ مہینے بعدنہایاہےلوگ باہرسےصاف ہوجاتے ہیں اندرسے میلے رہتے ہیںاور کسی نے ان کی اس بات کو گرہ سے باندھ کران کے دین ایمان کا فیصلہ صادر فرمایاہواہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے سے شادی کے معاملے میںکہا تھا’مولویوں کے چکر میں کیوں پڑتے ہواورفقیہان حرم کی نگاہوں میں ان کا یہی جرم کیاکم تھا کہ وہ لاوارث بچوں اور گھرسے بھاگی ہوئی لڑکیوں کو پناہ دیتے تھےجو بدکاری کو بڑھاوادینے کا عمل تھا۔اللہ کی پناہ کسی نے وہ نہیں سنا جووہ ان سے کہناچاہتے تھے،سب سے وہی سناجووہ سننا چاہتے تھے۔ان کو ہندو، ہندؤں کا ایجنٹ ، قادیانی اوراسرائیل و امریکہ کا ایجنٹ تک کہا گیا لیکن خدابخشے وہ کام تھا دھنی تھا اور اس نے ایسے ہروار کاجواب کام سے دیا۔یاد آتا ہے کہ کسی موقع پرصحافیوں نے ان سے پوچھاتھا کہ مولوی حضرات کہتے ہیں کہ آپ بے دین ہیں اور اللہ ایسے آدمیوں کو جنت عطانہیں کرتےتوان کی زبان سے برجستہ نکل گیاتھاکہ میں اس جنت میں جاؤںگا ہی نہیں جس میں یہ مولوی جائیںگے۔فقیہان حرم کیا کہتے ہیںوہ تووہی جانیں ہم تو صرف یہ جانتے ہیں کہ ایدھی جنتی تھاجنتی۔ اس نے حقوق العباد کو اسلام کا رکن اعظم تصور کیا، اپنے اندر کے بتوں کو سنگسار کرناضروری جانا اور زندگی بھراس حدیث پرعمل پیرارہاکہ دین کل کاکل خیرخواہی ہے(الدین نصیحۃ)۔اللہ غفار ہےاس کی کوتاہیوں کوبخشے اوراس کے درجات بلندفرمائے۔دیکھنے والی آنکھوں نے اس کے ایمان کی پختگی کو باربارپہلے بھی دیکھاتھااور مرتے وقت بھی مشاہدہ کیا۔

انسانیت کی غیرمعمولی خدمات پرپاکستان انسٹیٹوٹ آف بزنس ایڈمنسٹلریشن نے ان کو ڈاکٹری کی اعزازی سند دی تھی لیکن وہ اس بات کو سخت ناپسند کرتے تھے کہ لوگ انکی یا انکے کاموں کی تعریف کیاکریں۔ وہ کسی سرکاری یاغیرسرکاری اداروں کی امداد قبول نہیں کرتےتھے کیونکہ اس طرح کی امداد مشروط ہوتی ہے لیکن یہ ان کی لگن، محنت اور خلوص تھی کہ ۱۹۵۷ء میں ایک پک اپ سے شروع ہونے والی امدادی سروس اب دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس تھی اوراس وقت صرف پاکستان میں ان کے امدادی مراکز کی تعداد 335 ہے۔ سیلاب اور سمندری حادثات کے موقع پر امداد فراہم کرنے کے لیےکشتیاں اور عملہ اس کے علاوہ ہیں۔ یہاں تک کہ ایدھی فاؤنڈیشن ایئر ایمبولینس کی خدمات بھی فراہم کرتی ہے۔اب جب ایدھی مرحوم اس دارفانی میں نہیں رہےان کے کاموں کو آگے بڑھانے والے اہل ہاتھوں کی تعداد ہزاروں میں ہیں۔اپنے لیے تو سب جیتے ہیں، یہ وہ شخص تھا جو اوروں کے لیے جیتاتھا ،اس لیے اس کے وقت اور اسکے کاموں میں خدانے ایسی برکت رکھی تھی جس کاکوئی اور تصور بھی نہیں کرسکتا۔

تبصرے بند ہیں۔