مولانا ابو اللیث ندوی: شخصیت کے چند پہلو

 ڈ اکٹر عمیر منظر
بچپن کی جوکچھ یادیں میرے ذہن میں اب بھی نقش اور روشن ہیں، ان میں سے ایک یاد کا تعلق مولانا ابواللیث (1913۔1990)صاحب سے ہے ۔( مولانا 1948 میں جماعت اسلامی ہندے امیر مقرر ہوئے اور 1990 تک درمیان میں آٹھ سال چھوڑ کر مسلسل اس منصب پر فائز رہے )۔یہ ایسی یاد ہے کہ شاید کبھی نہ مٹ سکے ۔میری تربیت میں میرے دادا محترم حاجی نذیر احمد مرحوم کا غیر معمولی کردار ہے۔ اس کے علاوہ نور،بتول اور مائل خیر ابادی کی بچوں سے متعلق کتابیں شامل ہیں، جن کے مطالعے نے زبان اور تہذیب کی بنیادوں کو مضبوط بنایا۔گھر پر دعوت اخبار آتا تھا اور درسگاہ اسلامی چاندپٹی میں نور اور بتول ۔درسگاہ کے اساتدہ خود بھی پڑھتے اور بعض بچوں کو بھی دے دیا کرتے تھے۔کس برس میں درجہ چہارم میں تھا سن تو یاد نہیں لیکن ہاں اسی سال ماہ نامہ ’’نور ‘‘رام پور کے انعامی مقابلے میں ایک غلط جواب دینے والوں میں میرا بھی نام شامل تھا ۔
دادا مرحوم کے ساتھ مسجد جاتا تھا ،گاؤں کی پرانی مسجد کے صحن میں محترم مولانا ابو اللیث رحمتہ اللہ علیہ کسی کتاب کو پڑھتے تھے ، ان کے ارد گرد سارے نمازی جمع ہوتے اور نہایت توجہ سے سنتے تھے ۔اسی طرح کی چند ایک نشستوں کا نقش میرے ذہن میں باقی ہے ۔مولانا جب چاند پٹی ہوتے تو اکثرمیں ہی انھیں’دعوت‘ اخبار دینے جاتا تھا ۔ایک روز انھوں نے فرمایا کہ اگر دروازہ بند ہوتو اس کھڑکی سے میں اخبار ڈال دیا کروں ۔اس کے بعد اکثر یہی ہوتا کہ میں اخبار کھڑکی سے ڈال دیا کرتا تھا۔ایسا بہت ہوا کہ وہ مجھے کہیں دیکھتے تو بلاتے۔ کبھی کبھی پکڑ کر محبت سے کہتے کہ شعر سناؤ ۔میں انھیں سناتا ؂
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
توشاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
یہ بات بہت دنوں کے بعد دادا جان نے ہی بتائی کہ مولانا کیوں مجھ سے یہ شعر سننے کی فرمائش کرتے تھے ۔انھوں نے بتایا کہ بچپن کے یہ وہ ایام تھے ۔جب میری زبان ٹ اور ت کے درمیان فرق نہیں کرپاتی تھی ۔ مولانا فرماتے تھے کہ لفظ چٹانوں کا یہی تلفظ انھیں بھلا لگتا ہے ۔ان کی شفقت آمیز محبت کا نقش اب بھی دل میں باقی ہے ۔ان شاء اللہ تادیر باقی رہے گا۔
جب میرا داخلہ جامعتہ الفلاح(بلریاگنج اعظم گڑھ) میں ہوگیامولانا جب آتے ان سے میں ضرور ملاقات کی کوشش کرتا ۔کبھی گھر پر اور کبھی مسجد میں ۔1990 میں جب مولانامستقبل طور پر چاندپٹی (ضلع اعظم گڑھ ۔یوپی )آگئے تو بچپن کی ان ملاقاتوں کی گویا تجدید ہوگئی ۔مولانا صبح چہل قدمی کے پابند تھے۔ ہم بھی جلد اٹھنے اور ٹہلنے کے عادی تھے۔ ہفتے میں ایک دوروز چہل قدمی کے دوران کہیں نہ کہیں ضرور ملاقات ہوجاتی ۔سلام و دعا کے علاوہ اس وقت اور کوئی بات نہیں ہوتی تھی۔بہت پہلے غالباً دادا سے یہ بات معلوم ہوگئی تھی کہ اس بار مولانا بہت مصرو ف ہیں اور حدیث کا وہ درس جو اس سے پہلے کبھی ان کا معمول تھا جاری نہیں رکھ سکے۔ حالانکہ نمازیوں کی شدید خواہش تھی ۔ایک بار عشا سے کچھ قبل مولانا غالباً ہمارے بڑے ابو کے یہاں سے لوٹ رہے تھے ،ہم لوگ گھر کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے، مولانا کو دیکھتے ہی کھڑے ہوگئے ۔ فرمایابیٹھو بیٹھو ۔سامنے کچھ لوگ حقہ پی رہے تھے۔ مولانا کو دیکھتے ہی وہ لوگ بھی مودب ہوگئے ۔مولانا نے ان سے فرمایا: حقہ ’’کاسر ریاح‘‘ہے پھر اس کا مطلب بھی سمجھایا۔ اب ان لوگوں کو گویاسندمل گئی حقہ پینے کی ۔اس دوران اکثر یہ ہوتا کہ جمعہ کو فلاح سے طلبہ یا اساتدہ یاجماعت کے بعض ذمہ داران ملنے آتے ۔ان کی وجہ سے گاؤں میں بھی رونق رہتی ۔ایک جمعہ کوجامعۃالفلاح سے ہمارے سینئر ساتھیوں کاایک وفد آیا۔ جمعہ کے بعد ہم سب مولانا کے گھر ان سے ملاقات کے لیے گئے مولانا نے نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات کی ۔ گھر کے اندر سے ٹافی لاکر سب کواایک ایک دی ۔جامعۃ الفلاح کے بارے میں باتیں کیں ،ان لوگوں سے طلبہ کے معمولات اور اساتدہ کے بارے میں بھی پوچھا ۔کبھی کبھی بعض چھوٹے موٹے کام کے لیے بھی ہم لوگ پہنچ جاتے ۔دراصل ان کے تئیں سب کے اندرعقیدت کا ایک عجیب وغریب جذبہ تھا ۔مولانا کا یہ عالم کہ دنیا کی گرد بھی اپنے دامن پر نہیں پڑنے دی ۔کہاں دلی کی شہرت و منصب بھری زندگی اور کہاں یہ گاؤں کی گمنام زندگی۔مگر مولانا نے اس زندگی کو جس طرح ترجیح دی تھی۔ سوچنے والے حیران تھے کہ نصف صدی سے زیادہ عرصہ رام پوراور دلی میں گزار نے کے بعد کس ٹھاٹ سے دامن کو جھٹک کر وہیں آگئے جہاں سے چلے تھے ۔غالباً اس سے سخت خود تربیتی کا تصور نہیں کیاجاسکتا۔ڈاکٹر ذاکر حسین سابق صدر جمہوریہ ہندسے منسوب یہ قول کہ ’’مولانا ابواللیث ندوی کو دیکھ کر قرون اولی کے صحابہ یادآجاتے ہیں ‘‘۔ سلفی حضرات مولانا کو ’’سلمان فارسی ‘‘کہتے تھے ۔مولانا کو قریب سے دیکھنے اور جاننے والے اس سے انکار کرہی نہیں سکتے ۔
جامعتہ الفلاح کے طلبہ اساتذہ اور دیگر افراد سے تعلق خاطر کی بے شمار مثالیں ہیں سب کا ذکر ممکن نہیں ۔مولانا جب اعظم گڑھ تشریف لاتے تھے توجامعہ کے طلبہ و اساتذہ کو استفادہ کا موقع دیتے تھے۔طلبہ یا اساتذہ سے خطاب کا کوئی نہ کوئی موقع ضرور نکالا جاتا۔ مگر یہ کہ مولانا حد درجہ مصروف نہ ہوں ۔مولانا جب بیمار ہوکر اسپتال گئے تو جامعہ کے طلبہ اور اساتذہ کی ایک بڑی تعداد مختلف اوقات میں انھیں دیکھنے جاتی اور ان کے لیے دعائے صحت و شفایابی کرتی تھی ۔انتقال سے کچھ دیر پہلے ہی ہم لوگ بھی دیکھ کر آئے تھے اور پھر سناؤنی مل گئی …….
محترم مولانانظام الدین اصلاحی نے’’ مولانا کے آخری لمحات‘‘ کے عنوان سے اپنے مضمون میں جو کچھ لکھا ہے اس سے جامعہ کے طلبا کی قائد تحریک سے قلبی لگاؤ اور بے مثال عقیدت و محبت کو محسوس کیا جاسکتا ہے :
5،دسمبر کو اسپتال سے ٹھیک 12،بجے ہم لوگ مولانا کا جسد خاکی لے کر چاند پٹی کے لیے روانہ ہوئے ہمدردوں ، بہی خواہوں اور تمام ہی سوگواروں کی گاڑیاں آگے پیچھے روانہ ہورہی تھیں ۔ جب ہماری گاڑی جامعتہ الفلاح کے سامنے پہنچی تو دیکھا گیا کہ جامعہ کے تمام طلبہ و اساتذہ چشم اشکبار کے ساتھ سڑک کے دونوں جانب دورویہ کھڑے ہیں گاڑی کے پہنچتے ہی ہجوم نے پوری گاڑی کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور ڈرائیور کومجبورر کردیا کہ وہ اپنا راستہ بدلے اور گاڑی کو جامعہ کے احاطہ میں لے چلے ۔ان کی خواہش بہت مناسب اور فطری تھی ۔ہزاروں طلبہ کا سوگوار مجمع یہیں پر مولانا کا آخری دیدار کرنے کے لیے مضطرب اور بے چین تھا …مرحوم کے جسد خاکی کو جامعہ کے وسیع وعریض صحن میں رکھا گیا اور لوگوں نے قطار بناکر ایک ترتیب کے ساتھ دیدار کیا ۔(رفیق منزل اکتوبر 1991ص:192)
مولانا کے انتقال کے بعد جامعۃ الفلاح میں ایک تعزیتی نشست ہوئی ۔مولانا کی نصف صدی کو محیط تحریکی و علمی خدمات کو چند گھنٹوں میں سمیٹنا ممکن نہ تھا ۔استاد محترم مولانا عبدالحسیب اصلاحی نے تعزیتی تقریر کے دوران ایک جملہ کہا تھا کہ ’’میں شخصیت پرستی کی دعوت تو نہیں دیتا مگر شخصیت کی قدر ناشناسی کو ایک ناقابل معافی جرم ضرور تصور کرتا ہوں ‘‘۔یہ احساس سب کا تھا مگر سوال یہی تھا کہ اس کے اسباب کیا ہیں ۔مولانا کے انتقال پر جامعۃ الفلاح کی تعزیتی نشست تاریخی نوعیت کی تھی۔ ممکن ہے دعوت میں اس کی کوئی رپورٹ آئی ہو ۔البتہ حیات نوکے خصوصی شمارے میں اس تعزیتی جلسے کی رپورٹ مولانا سلامت اللہ اصلاحی نے ’’اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے ‘‘کے عنوان سے مرتب کی تھی ۔اس کام میں ان کے دو شاگردوں محمد عظیم اکولوی فلاحی اور طفیل احمد فلاحی نے تعاون کیا تھاجو اس وقت عربی چہارم میں میں زیر تعلیم تھے ۔یہ شمارہ 1991کا ہے جو’’حیات نو‘‘کے چھ مہینوں پر مشتمل ہے ۔(فروری تا جون 1991)اس سے قبل جامعۃ الفلاح کے طلبہ کے قلمی رسالے ’’شاہین ‘‘نے یکم تا 28،فروری 1991ء کو مولانا پر اپنا خصوصی شمارہ نکالا تھا ۔ا س شمارہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا سے یہاں کے طلبہ کاکس قدر جذباتی رشتہ تھا ۔اسی قلمی رسالے کے بعض ایسے مضامین ہیں جو بعد میں مولانا پر نکلنے والے بیشتر خصوصی نمبروں کی زینت بنے ۔اس شمارے میں حکیم محمدایوب ندوی ،رئیس کامل اور عمیر منظر نے منظوم خراج عقیدت پیش کیا تھا۔ حکیم صاحب کی یہی نظم بعد میں حیات نو اور رفیق منزل کے صفحات کی زینت بنی ۔شاہین کے اسی شمارے میں سب سے آخر میں بقلم خود مولانا محمد عنایت اللہ سبحانی صاحب کی تحریر ہے ’’وہ کتنے عظیم انسان تھے ‘‘۔حیات نو کی خصوصی اشاعت میںیہ تحریر سر فہرست ہے ۔مولانا محمد شعیب ندوی نے ’’مثالی قائد ‘‘کے عنوان سے ایک مختصر مضمون شاہین کے لیے قلم بند کیا تھا ۔حیات نومیں ان کے مضمون کا عنوان ہے’’مولا نا ابو اللیث ندوی داماد کی نظر میں ‘‘اور یہی مضمون فیق منزل میں بھی ہے مگر وہاں اس کا عنوان ہے ’’مولانا قرن اول کا سچا نمونہ تھے ‘‘۔سرخی کے علاوہ مواد یکساں ہے البتہ مضمون کے اختتام سے ذرا پہلے کی یہ عبارت جو صرف رفیق منزل میں ہے:
مولانا کا تعلیمی مرحلہ دارالعلوم ندوۃ العلما میں مکمل ہوا اور فراغت صرف ندوۃ العلما ہی سے حاصل کی جس کی وجہ سے ندوی لکھنے کو زیادہ پسند کرتے تھے ۔
(رفیق منزل ،اکتوبر 1991 ص :87)
حیات نو کے صفحات اس عبارت سے خالی ہیں ،وجہ میری سمجھ میں نہیں ،آسکی ۔
مولانا کے انتقال پر ماہنامہ معارف کے شذرات میں مولانا ضیاء الدین اصلاحی نے لکھا تھا :
(مولانا ابو اللیث ندوی کی )تعلیم کی تکمیل ندوۃ العلما لکھنؤ میں ہوئی۔ لیکن اس سے پہلے مدرستہ الاصلاح سرائے میرمیں رہے جس سے ان کا تعلق ہمیشہ گہرا رہا ۔
مولانا نے ابتدائی تعلیم کے بعد عربی کی ایک دو جماعتوں کی تعلیم مدرستہ الاصلاح سے حاصل کی تھی اور پھر اعلی تعلیم کے لیے اس ادارے کا رخ کیا جسے علامہ شبلی نعمانی جیسی عالمگیر شخصیت نے اپنے خون جگر سے سیراب کیا تھا۔ یعنی ندوۃ العلما لکھنؤ ۔21،دسمبر 1998 کومحترم مولانا نظام الدین اصلاحی نے اس سلسلے میں میرے ایک خط کے جواب میں تحریرفرمایا:
میں نے مولانا ابو اللیث صاحب کے بارے میں جو لکھا ہے کہ انھوں نے صرف عربی سوم تک مدرسۃ الاصلاح میں تعلیم حاصل کی ہے وہ مختلف لوگوں سے سنی ہوئی باتوں پر منحصر ہے جو بالکل صحیح ہے ۔
مولانا نے ندوۃ العلما میں انھوں نے اپنے عہد کے ممتاز علما سے کلاس کے علاوہ خارج اوقات میں بھی سیکھا اور پڑھا۔اسی ادارے میں انھیں ذہن وقلب کی کشادگی اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے اپنے کو وقف کرنے کا سبق بھی پڑھایا جو کہ آخری سانس تک جاری و ساری رہا ۔مولانا کی سیرت اور شخصیت کا نمایاں وصف سادگی تھا ۔شہروں کی بھرپور زندگی گزارنے کے باوجود تصنع اور دنیا داری کا شائبہ تک نہیں آنے دیا اور خود کو گاؤں کی صاف اور ستھری فضا کی طرح صاف و شفاف رکھا ۔قائد تحریک مولانا ابو اللیث ندوی کی نمایاں صفات کے بارے میں محترم مولانا نظام الدین نے لکھا ہے :
دیہات میں رہنا نہایت مشکل کام ہے ۔وہاں کی صعوبتیں برداشت کرلینا کارے دارد۔میں تصور بھی نہیں کرسکتا کہ ایک تعلیم یافتہ اور شہرت یافتہ اور عظیم قائد کس طرح رہ سکتا ہے ،جہاں زندگی کی کوئی سہولت حاصل نہیں ،بجلی بھی نہیں،ماحول اور سوسائٹی بھی نہیں اور کوئی آدمی بات کرنے کے لائق بھی نہیں مگر ان حالات میں نو سال تک مولانا اس طرح چاندپٹی میں رہے جیسے وہ مرکز دہلی میں ہیں اور کبھی کسی طرح کی تکلیف کا اظہار ان کی زبان سے نہیں سنا ۔میں نے مولانا سے کئی مرتبہ کہا کہ مولانا آپ کا سب سے بڑا کارنامہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ نے تنہا تحریک اسلامی کے ننھے پودے کو اپنی قیادت میں تناور درخت بنایا اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ خوش دلی اور خندہ پیشانی کے ساتھ چاند پٹی میں رہنا ہے ۔(حیات نو فروری تا جون 1991ء ص 109)
ان چند سطور سے مولانا کی سیرت و شخصیت اور جامعتہ الفلاح سے ان کے ربط و تعلق کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔میں اسے اپنے لیے سعادت سمجھتا ہوں کہ استاذی مولانامحمد طاہر مدنی صاحب(ناظم جامعتہ الفلاح ۔بلریاگنج ،اعظم گڑھ) نے مولانا ابو اللیث ندوی کے بارے میں ہم سب کو غور و فکر کرنے کے لیے جمع کیا اور تاریخ کے اس نازک دور میں اپنے آپ کو اقامت دین کے لیے وقف کرنے والے کی داستان عزیمت سے کچھ سبق حاصل کرنے کاموقع فراہم کیا ۔

تبصرے بند ہیں۔