ڈاکٹر فضل الرحمن الانصاریؒ کی سیرت نگاری(قسط دوم)

ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ

حضورﷺ کی شان مبارک، مدحت اورآپ ﷺ سے عقیدت رکھنے کی نہ کوئی حد ہے نہ لگائی جاسکتی ہے۔نہ ہی کوئی ایسا دائرہ کھینچا جاسکتا ہے جوآپ ﷺ کی شان اورمدحت کا احاطہ کرسکے۔لہذااس کے لئے جو بھی اسلوب نگارش اختیار کیاجائے وہ اس کے کسی ایک پہلوکی ہی ہلکی سی جھلک توہوسکتی ہے اس کا احاطہ نہیں کرسکتی۔

اہمیت:

ظاہر ہے کہ جب یہ کتاب ان کے ذہن سے تعصب وعناد کوخارج کردے گی تو وہ پھر آپ کی سیرت کو مزید پڑھنے کے لیے دوسری کتب کی طرف رجوع کریں گے۔ان ہی تمام امور کو مدنظررکھتے ہوئے آپ نے یہ کتاب تحریر کی۔ ڈاکٹرانصاری صاحب کی  یہ تصنیف اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جوان  تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔

 آپ علیہ الرحمہ نے جدید ذرائع ابلاغ (انٹرنیٹ،برقی میڈیاوغیرہ) سے قبل معترضین کے اعتراضات کو نقل کیاہے اوران کے جوابات دیئے ہیں یہ  اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے ایک ایک موضوع پر سینکڑوں کتب پڑھی ہوئی تھیں جو آپ کے ذہن میں ہروقت مستحضر تھیں۔ جہاں جب آپ کو اس مواد کی ضرورت پڑھتی آپ کا سرچ انجن اس کو ہزاروں لاکھوں باتوں سے کھنگال کرباہرنکال دیتا۔ آپ نے معترضین کے جوابات عقلی اورنقلی دلائل خود ان کی کتابوں سے دیئے ہیں۔اورپھرآپؒ نے انگریزی زبان میں اس کمال مہارت سے اپنا مافی الضمیر اورعلمی رموز بیان کرکے مغرب کے اس احساس برتری بلکہ غروروتکبر کواپنے پاؤں تلے روند دیا جوچارلس گرانٹ  (Charles Grant)کے اس مقولہ سے مترشح ہوتا ہے:

“A single shelf of a good European Library was worth the whole native literature of India and Arabia.”

History of Freedom Movement in India, Tara Chand, V2, Pg 193

"ایک اچھی یورپین لائبریری کا ایک ہی شیلف برصغیر پاک وہند اور عرب سرزمین کے  تمام لٹریچر سے زیادہ قابل قدر اورقیمتی ہے!”

یہ قول ہم پر مغرب کے احساس تفاخر کوعیاں کرتاہے۔ اوراسی احساس تفاخر کی بنا پر مسلم انتہائی مرعوب نظرآتے ہیں۔وہ مغربی مفکرین کو اول تو جواب ہی نہ دیتے اوردیتے بھی تو انتہائی معذرت خواہانہ، لیکن ڈاکٹرانصاری علیہ الرحمہ ان مرعوب افراد سے نہ تھے بلکہ انہوں نے انگریزوں کی اپنی مادری زبان میں ان سے بہتر، سلیس،فصیح اورمعیاری کتب تصنیف کر کر ان کے اس احساس تفاخر کوخاک آلود کردیا اوران کو جتلادیا کہ ہم ایسے ہیں کہ اگر چاہیں تو خود تمہارے ہوم گراؤنڈ، ہوم کراؤڈاورتمہاری اپنی زبان میں ایسا کام کرجائیں کہ تمہاری عقلیں دنگ رہ جائیں تمہاری تمام لائبریریاں اس ایک کوزے میں بند ہوجائیں۔اس علمی شان کے ساتھ آپ علیہ الرحمہ نے یورپ کے ظلمت کدہ میں وہ قلمی جہاد کیا کہ ان کے اپنے کفرستاں میں حق کی صدا بصورت اذاں گونجنے لگی! (سبحان تیری قدرت!)بقول شاعر

ظلام ِ کفر میں حق کی اذاں سناتاہوں

اسلوب نگارش:

حضورﷺ کی شان مبارک، مدحت اورآپ ﷺ سے عقیدت رکھنے کی نہ کوئی حد ہے نہ لگائی جاسکتی ہے۔نہ ہی کوئی ایسا دائرہ کھینچا جاسکتا ہے جوآپ ﷺ کی شان اورمدحت کا احاطہ کرسکے۔لہذااس کے لئے جو بھی اسلوب نگارش اختیار کیاجائے وہ اس کے کسی ایک پہلوکی ہی ہلکی سی جھلک  توہوسکتی ہے اس کا احاطہ نہیں کرسکتی۔کیونکہ بقول سید عارف

مقامِ مصطفیٰ (ﷺ)ہے سرحدِ ادراک سے آگے

یہ  پیکر   نور  کا   ہے  حرف  کی   پوشاک   سے   آگے

میں  اس  کی  وسعتوں کو لفظ پہناؤں تو کیا، جس کا

زمیں پر  اِک  قدم ہے،   دوسرا افلاک سے آگے

لیکن آپ علیہ الرحمہ کا مقصد چونکہ ملحدین،مشرکین  اوردشمنان دین کی جانب سے کئے گئے اعتراضات، الزامات بلکہ ہجویات کا جواب تھا اورملحدین توبغیر  کسی  دلیل  کےکچھ بھی استدلال کرسکتے ہیں۔زبان درازی کے لئے کسی دلیل، برہان اوراستشہاد کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔اس لئے  ان سب شبہات والزامات کے جوابات خالصۃً عقل سے دینے ناکافی تھے بلکہ عشق وعقل (محبت،فلسفہ اورسائنس)کے پیمانے سے دیئے  جانے ضروری تھے  تاکہ  مخالفین ومعاندین نہ صرف اپنا سا منہ لے کررہ جائیں بلکہ ان میں سلیم الفطرت اورسلیم العقل شخصیت آپ ﷺ کی ذات مبارکہ سے محبت کرنے والی بن جائیں۔آپ کی ذات میں عشق و عقل کے یکجا ہونے کی تائیدپروفیسر محمود صدیقی  کی عبارت  سے بھی ہوتی ہے:

"مولانا کی ذات وہ مرکز تھی جہاں عشق وعقل دونوں آکر ملتے ہیں۔سیاح عالم مولانا حافظ شاہ عبدالعلیم صدیقی قادری کی چشمِ کرم نے فضل الرحمن صاحب کے قلب ودماغ کوحضور اکرم ﷺ کی محبت کے نور سے منورکیاتھا، ایک مبلغ اسلام کی خصوصیات میں بنیادی چیز حضور اکرم ﷺ سے والہانہ محبت ہے اوریہ محبت کی چنگاری کسی محبت میں فنافی اللہ والے کی نظر سے ہی منتقل ہوتی ہے اورپھرشعلہ بن کرجسدِ خاکی کو جلاکرخاکستر کردیتی ہے تب ہی تو حضورﷺ کے کام سے وابستگی اوراس میں ہمہ تن انہماک پیدا ہوتا ہے۔”(محمد محمود حسین صدیقی، پروفیسر، روزنامہ جنگ ٢٥ جون ١٩٧٤ء،تذکرہ اکابر اہلسنت،علامہ محمدعبدالحکیم شرف قادری، (مضمون :مبلغ اسلام مولاناڈاکٹرفضل الرحمن انصاری۔ 380))

آپ علیہ الرحمہ واقعی بارگاہ رسالت میں محبت  کے نور کی تجلیوں میں گھرے ہوئے تھے۔آپ علیہ الرحمہ بھی اس بات سے آگاہ ہے تھے اوراحساس دل آفرین میں محو ومستغرق تھے کہ کس عظیم بارگاہ میں مدح سرائی کی اجازت ملی ہے:بقول حفیظ الرحمن احسن

نگاہ   رعبِ تجلی   سے   اٹھ   نہیں   سکتی

یہ کیا مقام ہے، میں کس کی بارگاہ میں ہوں

یہ بات ذہن سے فراموش نہ ہونی چاہئے کہ یہ کتاب ایسے نازک وقت میں لکھی گئی تھی  جب مسلمان ہر طرف سے شکست خوردہ تھے۔ ان کا علمی،عملی،سیاسی،تعلیمی،اخلاقی، معاشرتی زوال پستی کی انتہاؤں کو چھورہاتھا۔ ایسے وقت میں جب مسلمانوں کو ہرمحاذ پر شکست کا سامنا تھا تو فاتح دشمنان کے منہ زورگھوڑے کے سامنے لگام ڈالنا کس قدر مشکل ہے اس کابخوبی اندازہ کیاجاسکتاہے۔بہرحال آپ علیہ الرحمہ امت کی ان تمام محاذوں پر شکست وناکامی کے باوجود بھی شکست خوردہ، مضمحل اورمایوس نہ تھے کیونکہ آپ فلسفہ ناکامی سے بھی آگاہ تھے کہ خواہ معاملات انفرادی ہوں یا اجتماعی ناکامی اسباب اوروسائل کی کمی سے نہیں بلکہ ذہنی اضمحلال،قوت فیصلہ کے فقدان اورجذبات کی کمی سے واقع ہوتی ہے اورہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے کاصرف اورصرف ایک ہی نتیجہ ہے ناکامی،ذلت ورسوائی۔ہاں اگر درج بالا امور کی اصلاح اور غلطیوں کا تدارک کرلیا جائے تو پھر یہ شکستیں ہی فتح کی تمہید بن جاتی ہیں:

ہر اک شکست ہے دراصل فتح کی تمہید

شکست کھاکے نہ ہو دل شکستہ وناکام

بہرحال اس وقت جن افراد نے بھی اس موضوع پر لب کشائی کی ان کا اندازشکست خوردہ، معذرت خواہانہ اورمدافعانہ تھا۔لیکن ڈاکٹر انصاری صاحب کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ آپ نے اپنے استدلال اور طرز تحریر میں نہ توشکست خوردہ تھا اور نہ آپ علیہ الرحمہ نے مدافعانہ  اورمعذرت خواہانہ انداز اختیار نہیں کیا بلکہ ایسے دانا شخص کاانداز اختیار کیا ہے جو عشق نبوی ﷺ سے لبریز ہو اور اپنے جذبات پر قابو رکھتے ہوئے بہترین استدلال اورقوت گویائی سے دوسروں کو اپنی جانب کھینچ سکے۔ آپ اس مقولہ "شنیدہ کے بودمانندِ دیدہ”سنی ہوئی بات کب دیکھی ہوئی چیز کی طرح ہوتی ہے یاعربی میں کچھ یوں کہاجاسکتاہے”لیس الخبر کالمعاینۃ”۔سنی ہوئی بات (خبر) دیکھی ہوئی چیز(معاینہ) کی طرح نہیں ہوتی۔ پر عمل کرتے ہوئے، آپؒ نے ان ہی کے مفکرین کے اقوال سے مکمل تاریخ بیان فرمائی۔ آپ کی کتاب پہلا پیراگراف ہی بہت اہم اور اس مقدمہ کی بنیاد ہے۔

“The pictures which our forefathers in the Middle Ages formed of Muhammad’s religion, appear to be a malignant caricature” in these words cleverly admits the fault of his Christian brethren, who in all these thirteen centuries of their struggle against Islam, have been busy in manufacturing the wildest stories concerning the Holy Prophet Muhammad’s character and his religion.”

Muhammad: The Glory of the Ages, pg 29

"قرون وسطی میں ہمارے آباء واجداد نے(سیدنا وسندنا) محمد(ﷺ) کے مذہب کی جو تصویر  پیش کی تھی وہ ان کو بدنام کرنے کے لیے عمداًبگاڑی ہوئی تصویر تھی۔”ان الفاظ میں (ڈچ اسکالر) ہرگرونج (Christiaan Snouck Hurgronje)  کمال ہوشیاری سے اپنے عیسائی بھائیوں کی غلطی تسلیم کرتاہے۔ جوتیرہ صدیوں تک اسلام اورحضور ﷺکی مخالفت میں (خلاف ِحقیقت) نازیبا کہانیاں گھڑنے  میں مصروف عمل رہے۔”

مغربی تعصب کے  اسباب:

حضور ﷺکے بارے میں عیسائیوں کے رجحانات  جاننے کے لیے ابتداءً عیسائی رویوں کی تاریخ کا مطالعہ بہت معاون اور مددگارثابت ہوگا۔ اس لیے کہ یہ عیسائیوں کی آنکھیں کھولنےاور انہیں کھلے ذہن سے کتاب پڑھنے پر آمادہ کرے گا اورکتاب پڑھے بغیر کوئی رائے قائم کرنے سے روکے گا۔

آپ نے اپنی کتاب میں منافقین،فاسقین،متلبسین،مستشرقین، مخالفین اورمعاندین کی نہ صرف ذہنی حالت سے آشکاراکیا بلکہ آپ نے اس طرز عمل کے پس پردہ معروضی حقائق،اسباب،  توجیہات، وغیرہ سے بھی ہمیں بتایاکہ ایساکیوں ہوا۔ آپ  علیہ الرحمہ  تحریر فرماتے ہیں:

Indeed the mind of the average Christian in the West has become so much poisoned against the Great Arabian Prophet that he is not prepared to concede even ordinary virtue to this Ideal Man, and when true things are related before him he either hears them with his mouth and eyes wide open.

Muhammad: The Glory of the Ages, pg 29

"درحقیقت مغرب میں رہنے والا ایک اوسط درجے کا عیسائی عظیم  رسولِ عربی ﷺ کے خلاف تعصب کےزہر سے یہاں تک بھراہوا ہے کہ وہ چھوٹی سے چھوٹی نیکی اوربھلائی کا کام بھی (کائنات کے) اس  بہترین آدمی کے نام کرنے کو تیارنہیں ہے۔لیکن جب اصل سچائی ان کے سامنے بیان کی جاتی ہے تو ہونقوں کی طرح ان کا منہ اورآنکھیں  کھلی رہ جاتی ہیں۔”

مغرب کے اس تعصب کی اصل وجہ بھی آپ ان ہی کے ایک مصنف کی زبان سے بیان فرماتے ہیں:بوس ورتھ اسمتھ اپنی کتاب محمد اینڈ محمڈن ازم میں لکھتاہے:

“During the first few centuries of Muhammadan-ism, observes Bosworth Smith, “Christendom could not afford to criticize or explain; it could only tremble and obey. But when the Saracens had received their first check in the heart of France, the nations which had been flying before them faced round, as a herd of cows will sometimes do when the single dog that has put them to flight is called off; and though they did not yet venture to fight, they could at least calumniate their retreating foe.”

Muhammad: The Glory of the Ages, pg 30

"محمڈن ازم کی ابتدائی چند صدیوں میں عیسائی سلطنت مکمل مطیع اورلرزہ براندام تھی اورکسی قسم کی تنقید یاوضاحت پیش کرنے کے  بھی قابل نہیں تھی۔ لیکن فرانس میں پہلی دفعہ عرب بدوؤں کا زور ٹوٹنے  اور ان کی پیش قدمی رکنے کے بعد جو قومیں ان عرب بدوؤں کے آگے آگے بھاگ رہی تھیں ان اقوام نے پلٹ کران کاسامنا گایوں  کے اس ریوڑکی طرح کیا، جسے تنہا  کتے نے بھاگنے پر مجبور کیاتھا پھراس کتے  نے تعاقب ختم کردیا۔اگرچہ وہ (عربوں کا) مقابلہ کرنے کی ہمت تو نہ رکھتے تھے لیکن  اپنے بدخواہ کی پسپائی اختیار کرنے کے بعدکم از کم اس پر الزام تراشی اوربہتانوں کا پل توباندھ  سکتے تھے۔

اس کتاب میں مسلم اورغیر مسلم دونوں کے لیے پیغام ہے:

غیر مسلموں کے لیے:

ضرورت اس امر کی ہے یہ کتاب زیادہ سے زیادہ مغربی اقوام میں عام کی جائے تاکہ وہ اسے پڑھیں اور وہ تعصب کی عینک ہٹا کر کم از کم اپنے ہی وضع کردہ تحقیقی اصولوں کو مدنظررکھتے ہوئے سیرت رسول عربی کا مطالعہ کریں۔ اور آج کے دور میں جب آپ ﷺ کی ذات مبارکہ پر پھر رقیق حملے ہورہے ہیں۔حضور ﷺ کے بارے میں انہیں اپنے رویہ پر ندامت ہو اور وہ اپنی اصلاح کرلیں۔تو وہ آپ ﷺ کا اسوہ کمال کی انتہائی بلندیوں پر پائیں گے۔اوراس میں ایسی لچک (Flexibility)،وسعت(Scope)،عملیت (Practicality) اور جامعیت (Comprehensiveness) ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موجودہے جوہر دور،ہرخطہ کے ہر انسان کے لیے نہ صرف قابل عمل ہے بلکہ ترقی کی ضامن بھی ہے۔ آج بھی چودہ سو برس سے زائدعرصہ گزرجانے کے باوجود، زمانے کے ہزاروں نشیب و فراز، تغیر وتبدل،دلوں کے مزاج،خطوں کی آب وہوا،تہذیبوں اورثقافتوں کے تنوع اور اختلاف، زبانوں کی تفریق،اہلیتوں وصلاحیتوں میں انفرادی تنوع کے باوجود جب بھی کوئی تعلیم یافتہ فردخواہ اس کاتعلق سائنس وفلسفہ،تعلیم و نفسیات،فلکیات وجغرافیہ،طب و علم تشریح الابدان،الغرض علوم وفنون کے کسی بھی شعبہ کا انتہائی ماہر اورقابل ترین فرد جب تعصب اورمفادات کے دائرے سے باہر آکر آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ کی طرف دیکھے گا تو وہ ضرور پکار اٹھے گابقول اسکاٹش (Scottish) شاعر پروفیسرجیمس ہوگ(James Hogg) ”ہرزمانے میں اصلاح معاشرہ (Society) کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو رائج کیاجائے ”یا جیسا کہ برنارڈ شا (Bernard Shaw)نے (Genuine of Islam) میں لکھا:

Muhammad was a saviour of Humanity, the Mercy for all men and an exemplar in every age.

”محمد ﷺ انسانیت کے نجات دہندہ، تمام لوگوں کے لئے باعث رحمت وبرکت اور تمام زمانوں کے لئے مثالی شخصیت ہیں۔ ”

مسلمانوں کے لیے :

کل بھی ہماری نجات اسوہ حسنہ میں تھی اورآج بھی راہ نجات سیرت طیبہ پر عمل کرنے میں ہے۔ہمیں پلٹنا ہوگا قرآن اورصاحبِ قرآن سیدلولاکﷺ کی طرف۔ ڈاکٹر حافظ محمد فضل الرحمن انصاری علیہ الرحمہ نے اپنی ساری زندگی اس دعوت کو عام کرنے میں صرف فرمائی آپ کا یہ مشہور قول ”لوٹ آؤ قرآن اورصاحبِ قرآن کی طرف”آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔خلوصِ نیت اورصدقِ دل سے یہی ہمارا نعرہ ہوناچاہئے اوریہی ہمارا طریقہ ہونا چاہئے۔ قرآن مجید فرقان حمید اورحضور اکرم ﷺ کی سیرت اورسنت ہمیشہ کی طرح آج بھی واحد ذریعہ ہدایت اور راستہ نجات ہے۔جیسا کہ والد ماجدجناب ابوعلی محمد رمضان صاحب نے ان اشعار میں پیغام دیا ہے:

تازه جہاں ميں سنت آقا کريں گے ہم

جيسا کيا حضور (ﷺ)نے ويسا کريں گے ہم

آقا ترا پيام جہاں کو سنائيں گے

تيری حديث پاک کا چرچا کريں گے ہم

تبصرے بند ہیں۔