کیا ادریس علی کلیم الدین شمس ہوجائیں گے؟

عبدالعزیز
ادریس علی آج کے سیاست داں ہیں اس لئے مغربی بنگال کے لوگ ان کے نام اورکام سے واقف ہیں۔ ملی اتحادپریشدکی مہم جو2007ء میں تسلیمہ نسرین کے خلاف شروع ہوئی اس میں ادریس علی نے سرگرمی کے ساتھ حصہ لیا۔ پریشدنے تسلیمہ کے خلاف کلکتہ شہرمیں خاص طورسے اورمغربی بنگال میں عام طورپرفضاکوگرم کردیاتھا۔ مارکسی حکومت سوچنے پرمجبورہوگئی تھی کہ تسلیمہ کاکلکتہ میں رہائش حکومت کومسلمانوں میں نامقبول بناسکتی ہے۔ اسی موقع پر ایم پی محمد سلیم نے راقم سے کہاکہ پریشداپنی مہم کوچلاناروک دے کیونکہ اس بارمسٹربدھادیب بھٹاچاریہ نے پولس کوہدایت دیدی ہے کہ محکمہ خفیہ بنگلہ دیشی خاتون کے خلاف no objection(کوئی اعتراض نہیں ) کی جگہ objection(اعتراض ہے) دے ،جس کی وجہ سے تسلیمہ نسرین کوکلکتہ سے کہیں اورٹھکانہ کرناپڑے۔ میں نے سلیم صاحب سے کہاکہ مہم جاری رہے گی تاکہ آپ لوگ اپناوعدہ پوراکریں۔ اسی اثناء میں ادریس علی نے طٰہٰ صدیقی سے مل کرکلکتہ جام کااعلان کیا۔جس دن اس پرعمل ہواکلکتہ کے مسلمان کچھ زیادہ بیدارہوگئے ۔ وزیراعلیٰ کوفوج طلب کرنی پڑی۔ادریس علی ٹی وی چینلوں میں بلائے جانے لگے ، حالانکہ ادریس علی ہنگامہ کے دوران پیش پیش نہ تھے وہ پولس کی گاڑی میں کلکتہ ہائی کورٹ چلے گئے تھے مگرکلکتہ میں صبح سے شام تک حالات دگرگوں ہوگئے تھے ۔اس وقت ادریس صاحب کانگریس میں تھے۔ کانگریسیوں کوادریس کی اداپسندنہیں آئی۔سی پی ایم کے لوگ توادریس سے خارکھائے بیٹھے تھے ، مسٹرپرنب مکھرجی بھی ناراض تھے ۔ادریس جب پریشدکے ایک وفدکے ساتھ مسٹرمکھرجی کی رہائش گاہ پرگئے تھے مکھرجی بابونے جیسے ادریس کواپنے کمرہ میں دیکھاآپے سے باہرہوگئے اورکہاکہ میں اگر کلکتہ میں ہوتاتوادریس کواس وقت پارٹی سے باہرکردیتا۔ادریس علی صاحب چپی سادھے بیٹھے رہے ۔ اس وفدمیں محترم سعیدملیح آبادی اورحسن عمران ایم پی بھی تھے ۔ دونوں مکھرجی صاحب کی مہربانی سے سرکارکی طرف سے حج کرکے واپس آئے تھے ۔ حسن عمران کھجوراورآب زم زم بھی ایک بوتل میں لے گئے تھے ۔مکھرجی صاحب نے تحفہ آب زم زم اورکھجورکوقدرکی نگاہوں سے نہیں دیکھا۔ اِدھراُدھررکھوادیاجیسے کوئی خاص چیزنہیں ہو۔ اس وقت موصوف وزیرخارجہ ہندتھے ۔ ہنگامۂ کلکتہ کے ایک ہفتہ کے بعدادریس علی کوکلکتہ پولس نے گرفتارکرلیا۔تیس دنوں کے بعدادریس علی پریسیڈنسی جیل سے چھوٹ کرنکلے ۔ قید سے پہلے محترمہ ممتابنرجی سے جب پریشدکاوفدتسلیمہ کے خلاف تعاون کیلئے گیا تھا تواس وقت ادریس علی سے ممتابنرجی نے بھی بے رخی کامظاہرہ کیا، اس وقت ادریس علی صاحب سومن متراکی راشٹریہ کانگریس میں نائب صدرتھے ۔ جب سومن متراترنمول کانگریس میں شامل ہوگئے توادریس علی بھی ترنمول کانگریس سے جاملے۔ اس وقت سومن متراکانگریس میں ہیں ادریس علی ترنمول کانگریس کے ایم پی ہیں۔ ادریس علی تسلیمہ کی مخالفت کی وجہ سے مغربی بنگال کی جانی پہچانی شخصیت بن گئے ، ویسے پہلے سے بھی اپنے سیاسی مزاج کی وجہ سے لوگوں میں جانے جاتے تھے ، مگرمغربی بنگال میں ان کوجوتسلیمہ کی مخالفت نے مقبولیت بخشی وہ مقبولیت پہلے نہ تھی۔ محترمہ ممتابنرجی نے 2011ء میں انہیں اسمبلی کاٹکٹ مرشدآبادکے ایک حلقہ سے دیاتھامگرموصوف سی پی ایم کے انیس الرحمن کے مقابلے میں ہار گئے۔ گزشتہ لوک سبھاکے الیکشن میں ادریس علی ممتابنرجی کے منظورنظربن گئے اس کی وجہ یہ تھی کہ ممتابنرجی کوادریس علی ضرورت سے زیادہ تعریف کرنے لگے تھے انہیں ملک کی وزیراعظم کیلئے سب سے فٹ (موزوں) سمجھنے لگے تھے اوراس کے لئے جلسے جلوس بھی کرتے تھے ۔ ممتادیدی کوعلی کی اداپسندآگئی اورلوک سبھاکاٹکٹ دینے میں فراخدلی دکھائی ۔ادریس علی بشیرہاٹ حلقہ سے کامیاب ہوگئے ۔ ادریس علی مسلم سیاست سے سیکولرسیاست کی طرف آگئے مگران میں مسلم سیاست کی چنگاری باقی رہی۔ ترنمول میں آنے کے بعدکسی وجہ سے اُجاگرہونے سے بچائے رکھا۔ اب ڈاکٹرذاکرنائک کامسئلہ آیاتوادریس علی کی ایمان کی چنگاری ابھرکرسامنے آگئی اوراپنے دل کی بات وہ زبان پرلانے پرمجبورہوگئے ۔ ترنمول کانگریس کاعیسائی ترجمان بھڑک اُٹھااورایک عددبیان داغ دیاکہ ادریس علی کوچپ رہناہوگا،پارٹی نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیاکہ خموش رہے گی، منہ کھولے گی ، مخالفت کرے گی یاموافقت سے کام لے گی ۔ ادریس علی کی زبان بھی گنگ ہوگئی ۔ تسلیمہ ذاکرنائک کی مخالفت پربیان پربیان دے رہی ہے مگرادریس علی کی زبان بندہے ۔یہ ہے ادریس علی کا سیکولرزم اوریہ ہے تسلیمہ نسرین کی اسلام دشمنی کاحال۔
کلیم الدین شمس مرحوم
اسی مغربی بنگال میں کلیم الدین شمس کاسیاسی عروج وزوال راقم کی آنکھوں نے دیکھا۔کلیم صاحب کاؤنسلر ہوئے تھے تومیں کالج کاطالب علم تھا۔ کلیم صاحب سے میری راہ ورسم ضرورتھی ، مجھے وہ اورمیں ان کوجانتاتھامگرایک دوسرے سے کوئی گہراتعلق اورلگاؤنہ تھا۔ میری اوران کی اکثرکلکتہ خلافت کمیٹی میں ملاقات ہوجایاکرتی تھی۔ 1965ء کی ہندوپاک کی جنگ کے دوران جب وزیر اعلیٰ پی سی سین نے مسلمانوں کی اندھادھندگرفتاریوں کاحکم دیا۔ سیکڑوں مسلم لیڈران جیل کی زینت بنے توملاجان محمداوران کے رفقاء کاربھی جیل کے سلاخوں کے پیچھے کردیئے گئے ، ملاصاحب جیل سے باہرآئے توکانگریس کے خلاف مسلم بلاک کی تشکیل کی ۔ کئی مسلم امیدوارکلکتہ کے بلدیاتی الیکشن میں کامیاب ہوئے ان میں سے ایک کلیم الدین شمس تھے ۔ملاصاحب کلیم صاحب کی سیاست کاحال بیان کرتے ہیں کہ ’’میں ایک دن کلیم کے گھرگیاتودیکھاوہ اس نے اپنے گھرمیں شیرباندھ رکھاہے مگروہ کاغذی شیرتھا۔ فارورڈبلاک کاانتخابی نشان ، مجھے تعجب ہواکہ جوشیرخضرپورتھاوہ کیسے کاغذی شیرہوگیا؟‘‘ یہ توملاجان صاحب کی تمثیل تھی مگربعدکے حالات نے ان کی باتوں کی تصدیق کردی۔ملاصاحب مجھے کلیم صاحب کے انتخابی جلسوں میں بھی لے جاتے تھے خضرپورکے ایک دوجلسوں میں میں نے کلیم صاحب کے حق میں تقریریں کیں،کلیم صاحب نے ملاصاحب کواپنے لئے راضی کرلیاتھا۔ کلیم صاحب مسلم پرسنل لاء بورڈاورکل ہندمسلم مجلس مشاورت کے ممبرتھے مگرجب شاہ بانوکے کیس کے فیصلہ کے بعدبورڈکی طرف سے تحفظ شریعت کی مہم چلی کانگریس اورسی پی ایم دونوں بورڈکی مخالفت میں اترآئی۔ وزیراعلیٰ جیوتی باسونہیں چاہتے تھے کہ کانگریس کاااس مہم میں ساتھ دیاجائے مگرکیرالہ کی سی پی ایم مغربی بنگال کی سی پی ایم سے کچھ زیادہ ہی مذہب مخالف تھی اورہے ۔ یہاں کی مارکسی پارٹی کوکیرالہ کی شاخ کے سامنے جھکناپڑا۔ وزیراعلیٰ جیوتی باسونے اسی دوران کلیم الدین شمس کواپنے چیمبرمیں بلایااورپوچھاکہ کیامشاورت اوربورڈسے ان تعلق ہے ۔مرحوم کلیم الدین شمس نے مثبت میں جب جواب دیاتوجیوتی باسو نے کہاتم ان اداروں سے مستعفی ہوجاؤ۔دوسرے دن انگریزی اخباراسٹیٹسمین اورامرتابازارپتریکااوردیگراخباروں میں کلیم صاحب کے استعفیٰ کی خبرشائع ہوگئی ۔
اس کے بعدکلیم صاحب نے مسلم سیاست سے توبہ تلّیٰ کرلیا۔ کلیم صاحب کاگہراتعلق محترم سعیدملیح آبادی سے ہوگیا۔ دونوں ایک دوسرے کے لئے ایک جان دوقالب ہوگئے ۔ سعیدصاحب نے ان کے برے دن میں بہت کام آئے اس لئے مرحوم ان کی بے حدقدرکرتے تھے ۔ دونوں ایک ساتھ حج کرنے بھی گئے ۔ قاضی غلام قادرنے راقم کوبتایاکہ جب دونوں مکہ میں تھے توانہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ گھردکھایا جولائبریری میں تبدیل ہوگیا ہے ۔ کلیم صاحب سعیدصاحب کی وجہ سے ملت سے بالکل کٹے نہیں مگرملی سرگرمیوں سے دورہوگئے ۔ کلیم صاحب کاآخری وقت عجیب وغریب تھاوہ اپناحافظہ بھی کھوچکے ۔ان کوکچھ یادنہیں رہتاتھا۔میری آخری ملاقات جب ہوئی تومجھے کلیم صاحب کے دن یادآنے لگے وہ شخص جوگرجتابرستاتھا، کیسے سیاسی قیدخانہ میں رہا، پھرکیسے کیسے بیماریوں نے گھیرلیا،پھراپنے گھرمیں مقیدہوگیا۔ قاضی محمد غلام قادرنے مکہ کے حوالے سے کلیم صاحب کی بیوی سے ملاقات کیلئے وقت مانگا۔ انہیں کے ساتھ مجھے بھی آخری ملاقات کاموقع ملا۔ یہ ہے کلیم صاحب کی زندگی کی مختصرداستان ۔
ان کے انتقال کے ایک ماہ بعدمشاورت کی طرف سے تعزیتی جلسہ کااعلان ہوا۔ ایک دن پہلے حسن اتفاق سے مشہور شاعر منورراناسے کٹن گیلری میں ملاقات ہوگئی ان سے شرکت کے لئے کہاتوانہوں نے معذرت کی مگرایک رباعی کلیم صاحب پربیٹھے بیٹھے مجھے لکھادی :
سچے خادم ملت
انسان تھے کبھی مگراب خاک ہوگئے ۔۔۔لے اے زمیں اب ہم تری خوراک ہوگئے
رکھیں گے ہم کوچاہنے والے سنبھال کے ۔۔۔ہم ننھے روزے دارکی مسواک ہوگئے
ادریس علی بنگلہ اسپیکنگ(بنگلہ بولنے والے) ہیں مگروہ اردوداں طبقہ سے بیحدخوش رہتے ہیں اورانہیں شاباشی دیتے رہتے ہیں ، کلیم صاحب اردوداں تھے مگربنگالی بولنے والوں سے بھی ان کی راہ رسم تھی ۔ادریس علی کوکوئی ملاجان تونہیں ملامگرہم جیسے لوگ مثلاًنعمت حسین حبیبی، قاری فضل الرحمن کا ساتھ رہا اورکبھی کبھارصدیق اللہ چودھری اورطٰہٰ صدیقی سے بھی بغل گیرہوگئے ۔ کہنایہی ہوگاکہ مسلم سیاست سے سیکولرسیاست کی طرف موصوف بھی قدم بہت آگے بڑھاچکے ہیں، وہ مسلم مجلس مشاورت میں بھی ہیں اورملی اتحادپریشدکے بھی ممبرہیں مگراب ان اداروں سے کوسوں دورہیں شایدمحترمہ ممتابنرجی کوادریس علی صاحب کومستعفی ہونے کیلئے نہ کہناپڑے وہ ازخود دورہوگئے ہیں۔
انہوں نے قمرالزماں کی فیڈریشن کے اس مظاہرے میں شرکت کی جوڈاکٹرذاکرنائک کے حق میں ہوااس سے میڈیاکی آنکھ میں آگئے ، ترنمول کانگریس کے ترجمان کویامحترمہ ممتادیدی کوادریس علی کی یہ اداپسندنہیں آئی ۔ پارٹی نے خفگی کی مظاہرہ کیا۔ ادریس صاحب کی صداجوحق کیلئے بلندہورہی تھی وہ بندہوگئی۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمان ایم ایل اے ، ایم پی یہاں تک کہ وزیربھی ہوجاتاہے مگروہ مسلمانوں کے کام کانہیں رہتاکیونکہ وہ Party whip (سیاسی جماعتوں کا چابک یا تازیانہ) کاغلام ہوجاتاہے ، پارٹی کے اشارے پراسمبلی یاپارلیمنٹ میں اپنے ضمیرکے خلاف بھی ہاتھ اُٹھاتاہے،اگرشراب کوحلال کرنے کابل پیش ہوتوایک مسلمان ایم پی یاایم ایل اے کوہاتھ اُٹھاکرشراب پینے پلانے ، فروخت کرنے کے قانون کے حق میں رائے دینی پڑتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیاکسی مسلمان کوکسی مصلحت کے تحت اسلام اس حدتک جانے کی اجازت دیتاہے کہ جس چیزکواللہ اوررسول نے حلال کردیاہواسے حرام ماننے والوں ، حرام کہنے والوں ۔ حرام لکھنے والوں کے حق میں تائیدوحمایت کرسکتاہے اس پرقرآن میں اللہ تعالیٰ کاجوفرمان ہے وہ واضح اورصاف ہے ۔
* ’’جولوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافرہیں۔‘‘ (المائدہ ۔ ۴۴)
* ’’جولوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔‘‘ (المائدہ ۔ ۴۵)
* ’’جولوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں۔‘‘ (المائدہ ۔ ۴۷)
صاحب تفہیم نے ان آیتوں کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’یہاں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے حق میں جو خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں تین حکم ثابت کئے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ کافر سہی، دوسرے یہ کہ وہ ظالم ہیں، تیسرے یہ کہ وہ فاسق ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو انسان خدا کے حکم اور اس کے نازل کردہ قانون کو چھوڑ کر اپنے یا دوسرے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین پر فیصلہ کرتا ہے، وہ در اصل تین بڑے جرائم کا ارتکاب کرتا ہے۔ اولاً اس کا یہ فعل حکم خداوندی کے انکار کا ہم معنی ہے اور یہ کفر ہے۔ ثانیاً اس کا یہ فعل عدل و انصاف کے خالف ہے کیونکہ ٹھیک ٹھیک عدل کے مطابق جو حکم ہوسکتا تھا وہ تو خدانے دے دیا تھا، اسلئے جب خد ا کے حکم سے ہٹ اس نے فیصلہ کیا تو ظلم کیا۔ تیسرے یہ کہ بندہ ہونے کے باوجود جب اس نے اپنے مالک کے قانون سے منحرف ہوکر اپنا یا کسی دوسرے کا قانون نافذ کیا تو درحقیقت بندگی و اطاعت کے دائرے سے باہر قدم نکالا اور یہی فسق ہے۔ یہ کفر اور ظلم اور فسق اپنی نوعیت کے اعتبار سے لازماً انحراف از حکم خداوندی کی عین حقیقت میں داخل ہیں۔ ممکن نہیں ہے کہ جہاں وہ انحراف موجود ہو وہاں یہ تینوں چیزیں موجود نہ ہوں۔ البتہ جس طرح انحراف کے درجات و مراتب میں فرق ہے، اسی طرح ان تینوں چیزوں کے مراتب میں بھی فرق ہے۔ جو شخص حکم الٰہی کے خلاف اس بنا پر فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اللہ کے حکم کو غلط اور اپنے یا کسی دوسرے انسان کے حکم صحیح سمجھتا ہے وہ مکمل کافر اور ظالم اور فاسق ہے۔ اور جو اعتقاداً حکم الٰہی کو برحق سمجھتا ہے مگر عملاً اس کے خلاف فیصلہ کرتا ہے وہ اگر چہ خارج ملت تو نہیں ہے مگر اپنے ایمان کو کفر، ظلم اور فسق سے مخلوط کر رہا ہے۔ اسی طرح جس نے تمام معاملات میں حکم الٰہی سے انحراف اختیار کرلیا ہے وہ تمام معاملات میں کافر، ظالم اور فاسق ہے اور جو بعض معاملات میں مطیع اور بعض میں منحرف ہے اس کی زندگی میں ایمان و اسلام اور کفر و ظلم و فسق کی آمیزش ٹھیک ٹھیک اسی تناسب کے ساتھ ہے جس تناسب کے ساتھ اس نے اطاعت اور انحراف کو ملا رکھا ہے‘‘۔
کلیم الدین شمس مرحوم اورادریس علی میں مماثلتیں بہت زیادہ ہیں۔ ایک مختصرسے مضمون میں سب گنوانامشکل ہے ، یہ کس قدرمماثلتیں ادریس علی صاحب میں بڑھیں گی کہناقبل از وقت ہوگامگردنیاطلبی اوردنیاپسندی انسانوں کوآج کی چندروزہ کامیابی پرجس طرح اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔ مشکل سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ تحفظ ایمان کے لئے سیاسی افرادجوموجودہ پارٹیوں کے پرزہ یاحصہ بن چکے ہیں وہ آخرت کودنیاپرترجیح دینگے ؟بنگلورکے جعفرشریف نے بابری مسجدکے انہدام سے پہلے بیان دیاکہ کانگریس انہدام کوبچانہ سکی تووہ پارٹی سے استعفےٰ دیدینگے ۔ جب مسجدکانگریس راج میں ان کے وزیراعظم کے اشارے پرسنگھ پریوارنے شہید کردی تولوگ جعفرشریف کے پاس گئے اوران کوان کاوعدہ یاددلایا، موصوف نے کہاکہ ’’میں مسلمانوں کانمائندہ نہیں ہوں کانگریس کانمائندہ ہوں اس لئے پارٹی یاکسی سیاسی ادارہ سے استعفیٰ دینے کاسوال ہی نہیں پیداہوتا‘‘۔
آج جعفرشریف پارٹی میں بھی راندۂ درگاہ ہیں ان کے بارے میں کہاجاسکتاہے ع نہ خداہی ملانہ وصال صنم

تبصرے بند ہیں۔