ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار: ٹیپو سلطانؒ 

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

جنگ آزادی کے عظیم سورما، برطانوی سامراج کے خلاف سینہ سپر ہونے والے اولین مجاہد آزادی ٹیپو سلطان کے حوالہ سے وقتا فوقتا یہ آواز اٹھائی گئی اور ان کے ہندو مسلم یکسانیت اور مذہبی روادری عمل کو نشانہ بنایا گیا اور اس ہندوستان کے عظیم سپوت کے حوالہ سے یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ اس نے مذہبی تعصب برتاتھا،، کسی نے ٹیپو سلطان کو برطانوی سامراج کے خلاف سینہ سپر ہونے والا عظیم حکمراں قراردیا تو کسی نے اس عظیم سپوت کے تعلق سے اپنی مذہبی منافرت اور دریدہ دہنی کا ثبوت پیش کیا، اور اس کو جالم وجابر حکمراں قرار دیااور اسے ہزاروں لوگوں کی موت کا ذمہ دار بتلایا، اور ٹیوٹر پر بعض لوگوں نے ٹیپو سلطان کے ذریعہ قتل، ٹارچر، ہندؤں کا مذہب کروانے، مندورں کو تباہ کرنے والے واقعات پیش کئے۔ ٹیپو سلطان کے ہندو مسلم عدم رواداری اور عدم یکسانیت کی بات در اصل یہ تاریخ سے عدم واقفیت اور تاریخ کے مطالعہ کی کمی یا خود اس عظیم جنگ آزادی کے سورما کے خلاف اس کے مسلمان حکمراں ہونے کی وجہ سے بے جا الزام ہے۔ ٹیپو سلطان ایک انتہائی باصلاحیت، قابل، بے پناہ بہار اور دوربیں نگاہ حکمراں تھا، اس ملک کو انگریزوں کی غلامی سے بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی، انہیں شکست بھی دی، لیکن انگریزوں کے دیگر علاقوں کے مسلمان حکمرانوں کے ساتھ اتحاد اور خود اس کے وفاداروں کی غداری کے نتیجے میں میدان کارزار میں دیوانہ وار لڑتا ہوا جام شہادت نوش کیا، انگریزوں تا دمِ اخیر ٹیپو کو ہتھیار ڈالنے کو کہا تو انہوں نے اس وقت جو تاریخی جملہ کہا تھاوہ آج بھی بطور مثال اور بطور محاورہ مستعمل ہے ’’ شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہے، ‘‘اور ٹیپو کی موت پر انگریزوں نے جو جملہ کہا تھا وہ ان کے لئے سچ بھی ثابت ہوا ’’اب ہندوستان ہمارا ہے، اب ہندوستان ہمارا ہے، اب ہندوستان ہماراہے ‘‘ اگر ٹیپو کے پشت میں غداری کا تلوار نہ اتارا جاتا تو یقیناًبر صغیر کی پچھلے ڈیڑھ سو سال کی تاریخ جو ہے وہ اس سے مختلف ہوتی، انگریز مؤرخوں نے سلطان ٹیپو کو بدنام کرنے کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا،ان کے خلاف طرح طرح سے ہندؤں کو بھڑکایا، ان کی شہادت کے بعد بھی ان کی کردار کشی سے باز نہیں آئے، چنانچہ انہوں نے ہندو مسلم مذہبی منافرت کو ہوا دینے اور اپنے اقتدار کے ہوس کی تکمیل کے لئے ٹیپو کو ظالم وجابر، فرقہ پرست اور مندر شکن بادشاہ قراردیا، جب کہ تاریخی حقائق اس کی مخالفت کرتے ہیں، ہم یہاں ٹیپو سلطان کی مذہبی رواداری کی چند ایک مثالیں تاریخ کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں ؛ تاکہ تمام برادران وطن کو پتہ چل سکے ٹیپوسلطان ایک عادل اور رعایاپرورحکمراں تھے۔

ٹیپو کی شبیہ خراب کرنے میں انگریزوں کا رول:

اولا جس شخص نے ہندو مسلم اتحاد کوخراب کرنے کے لئے ٹیپوسلطان کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش کی وہ مشہورانگریز مؤرخ لیون بی رنگ تھا، اسی طرح کرک پیٹرک نے بھی اس کو عدم روادارقرار دیاہے، ولکس تاریخ میسور میں اس کو کٹر قراردیتا ہے (سیرت سلطان ٹیپو، الیاس ندوی :432)انگریزوں نے ٹیپوسلطان کے متعلق علمی خیانت سے کام لیا ہے، ایک انگریز مؤرخ لکھتا ہے کہ صرف کورگ شہرمیں سلطان نے70 ہزار لوگوں کو قتل کیا، حالانکہ میسور تاریخ کا ادنی طالب علم بھی جانتا ہے کورگ کی جملہ آبادی 30؍یا 35ہزارسے زیادہ نہ تھی، اس میں بھی کئی ہزار مسلمان اور عیسائی شامل تھے (حوالہ سابق)مہاتما گاندھی نے بھی سلطان پر لگائے جانے والے اس الزام کو جھوٹ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ : ٹیپو کے اپنی رعایا کے ساتھ تعلقات نہایت دوستانہ تہے اور وہ ہندو مسلم اتحاد کا محرک تھا، یہ بات اگرچہ صحیح ہے کہ سلطان نے بعض ہندوؤں کے ساتھ سختی کی مثلا کرشنا راؤ اور ان کے بھائیوں کو پھانسی کی سزادی اور بعض دوسرے لوگوں کو بھی موت کے گھاٹ اتارا ؛ لیکن یہ سزائیں ان کو ہندو ہونے کی وجہ سے نہیں دی گئیں، بلکہ اس کا سبب ان کی نمک حرامی وغداری تھی، اس طرح کا انتقام اس نے خود بعض مسلمانوں سے لیا، مثلا انگریز سپاہیوں کے ساتھ زنا کرنے کی وجہ سے بعض مسلم خواتین کو قتل کردیا، محمد قاسم کو غداری کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتاردیا، عثمان خان کشمیری کو پھانسی کی سزادی تو کیا کوئی ان مسلمانوں سے سلطان کی سختی کی وجہ سے کوئی یہ کہنے کی جرأت کرسکتا ہے کہ وہ خدا نخواستہ اسلام دشمن بھی تھا، جہاں ایک طرف ہندو، مرہٹوں اور راجہ ٹرانکور سے اس کی جنگیں ہوئیں تو دوسری طرف مسلم حکمرانوں سے بھی اس کی کئی معرکہ آرائیاں ہوئیں، مذہبی تعصب وتشدد کا الزام اس پر اس وقت درست ہو تا جب وہ غداری وبغاوت کی سزا میں مسلمانوں کو تو معاف کردیتا اور ہندؤوں وعیسائیوں کو موت کے گھاٹ اتاردیتا، یہاں چند مثالیں ایسی پیش کی جاتی ہیں جس کے سلسلہ میں اسلامی نقطہ نظر سے بحیثیت ایک مسلم حکمران کے سلطان ٹیپو کے لئے اس کے جواز پر بحث بھی کی جاسکتی ہے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ مذہبی رواداری میں بعض مواقع پر اسلامی حدود سے بھی آگے بڑھ گیاتھا۔

(1)۔ اعلی مناصب پر ہندو افسران:

ہندو برہمن ’’پورنیا‘ سلطان کی شہادت تک پوری سلطنت خداداد کا وزیر خزانہ اور اختیارات کے اعتبار سے وزیر اعظم میر صادق کے بعد سلطان کا نائب تأ، ’’لالہ مہتابرائے سبقت‘‘جو ہندو برہمن تھا، سلطان کا ذاتی منشی اور خاص معتمد تھا، یہ اردو اور فارسی کا قادر الکلام شاعر تھا، سلطان کے ہندومعتمدین میں سے جو چند لوگ آخرتک اس کے وفادار رہے اس میں ’’ہری سنگھ‘‘ میسور کی فوج کا افسر اعلی تھا، اس کا بھائی’’نر سنگاراؤ‘‘ بھی حکومت کا ایک اعلی عہدیدار تھا، کورگ کا فوجدار ایک برہمن شخص تھا، ’’سری نواس راؤ‘‘اور’’اپاجی رام‘‘ کو عام طور پر ٹیپو اپنا نمائندہ بنا کر سفارتی مشن پر بھیجتا،’’راما راؤ‘‘ ایک سوار دستہ کا کمانڈر تھا، ملیبار میں نائروں کی بغاوت کو کچلنے کے لئے سلطان نے ’’سری پت راؤ‘‘ ہی کو بھیجا تھا، ایک دوسرے مرہٹہ سردار ’’سیواجی‘‘ کی کمان میں تین ہزار سپاہیوں کی ایک مستقل فوج بھی رہتی تھی، سلطان کے دربار میں سرکاری خطوط لکھنے والے کئی منشیوں میں ایک منشی’’نرسیا‘‘بھی تھا، دیہاتوں کی پنچایتوں میں اکثر سرکار کی نمائندگی ہندوہی کرتے تھے، کیرلا میں ساگوان کی لکڑی کی کٹائی کا ٹھیکہ پہلے ایک مسلمان کو دیا گیا پھر بعد میں یہ ٹھیکہ ہندو کو دیا گیا، ہندوؤں کے مذہبی تہوار دسہر ہ میں سلطان اپنے تمام اعلی افسران کے ساتھ نہ صرف شریک ہوتا ؛ بلکہ حکومت کے خزانہ سے اس کے اخراجات کے لئے ایک بڑی رقم بھی فراہم کرتا تھا، ان تمام مثالوں سے ٹیپوکی رواداری کا خو ب علم ہوتا ہے۔

(2)۔ مندروں اور اس کے سوامیوں کا احترام:

سلطان کے دل میں ہندؤں کے مندروں اور اسکے سوامیوں کا بڑا احترام تھا، 1791ء میں مرہٹہ دراندازوں نے رگھوناتھ راؤ کی قیاد میں سلطنت خداداد پر حملہ کے دوران سر ینگیری کے مندر کی بے حرمتی کی، اس کی قیمتی املاک کو لوٹ لیا، سونے سے بنی قیمتی پالکی اور جانووروں وغیرہ کو بھی لے گئے، سارہ دیوی نام کی مورتی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر باہر پھینک دیا، کئی برہمنوں کوبھی اس حملہ میں پکڑ کر قتل کیاگیا، یہاں تک کہ مندر کے سوامی اور متولی شنکر گرو اچاریہ وہاں سے بھاگ کر شہر کارکل میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے، وہاں انہوں نے ٹیپو کو ایک شکایتی خط لکھااور مندر کی بے حرمتی کی تفصیلات سے آگاہ کرکے مالی امداد کی درخواست کی، اس وقت اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ٹیپو نے جو جواب شنکر گروا اچاریہ کو موصول ہو اور وہ خط میسور کے محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائر کٹر راؤ بہادر نرسمہا اچاریہ کو 1916ء میں سرینگری کے مندر میں ملا تھا، خط کا مضمون کچھ یوں ہے :’’

’’جو لوگ مقدس ومتبرک مقامات کی توہیں وبے حرمتی کرتے ہیں وہ اس دنیاہی میں بد اعمالیوں کا بدلہ پائیں گے جیسا کہ شاعر نے کہا کہ لوگ گناہ تو ہنس ہنس کر کرتے ہیں ؛ لیکن اس کا بدلہ رورو کر بھگتے ہیں مند ر کے سوامیوں کے ساتھ بد سلوکی کرنا خود اپنی نسل کی تباہی کو دعوت دینا ہے، جو لوگ ہمارس سلطنت میں داخل ہو کر ہماری رعایاکو ستارہے ہیں ان سے ہم خود نبٹ لیں رہے ہیں، آپ کی شخصیت قابل احترام اور دنیا سے بے نیاز ہے، آپ ہماری سلطنت کی بقاء وحفاظت اور دشمنوں کی ہلاکت کے لئے دعاکیجئے، آپ کو حسب ضرورت ہمارے زیر قبضہ دیہاتوں سے کسی بھی چیز کے لینے کا اختیار ہے، ‘‘اس خط کے ساتھ اس علاقہ کے گورنر کو سلطان نے یہ حکم بھی بھیجا کہ وہ شنکر اچاریہ کی خدمت میں فورا اس کی طرف سے دو سو اشرفیاں مع غلہ پیش کرے اور سرکاری مصارف پر سارا دیوی نام کی مورتی کو احترام کے ساتھ دوبارہ اس کی جگہ نصب کیاجائے اور اس تقریب کے موقع پر ایک ہزار فقراء کو کھانا بھی کھلا یاجائے( سیرت سلطان ٹیپو شہید: 432۔435)

(3)مندروں کو نذرانے :

تعلقہ ننجن گڑھ کے ایک گاؤں کلالے کے لکشمی کانتھ مندر میں چاندی کے چار پیالے، ایک پلیٹ اور ایک اگلدان اب بھی موجود ہے جو ٹیپو نے اس مندر کونذر کئے تھے، اسی شہر کے سری کنیشور مند ر کو سلطان نے ایک ایسا مرصع پیالہ بھی دیا تھا جس کے نچلے حصے میں پانچ قیمتی جواہرات جڑے ہوئے تھے، سیلکوٹ کے نرائن سوامی مندر کو بھی قیمتی جواہرات سے جڑے ہوئے کچھ برتن ایک نقارہ اور بارہ ہاتھی اس نے روانہ کئے تھے، خود سری رنگاپٹنم کے رنگناتھ مندر میں ایک کافور دان اور چاندی کے سات پیالے اس کے دیئے ہوئے اب بھی موجود ہیں، ڈنڈیگل کے قلعہ پر جب سلطانی افواج نے حملہ کیا تو اس نے ان کو یہ حکم دیا کہ چونکہ سامنے راجہ کا مندر موجود ہے اس لئے پیچھے سے گولہ باری کی جائے، ملیبار میں گروایور پر قبضہ کے دوران جب مسلمان سپاہیوں نے وہاں کے مندر کو آگ لگانے کی کوشش کی تو اس نے ان کو نہ صرف سزائیں دیں ؛ بلکہ اسی وقت مندر کی مرمت بھی کروادی، اس کی مزید بے شمار مثالوں کے لئے ملاحظہ کیجئے (سیرت سلطان ٹیپو: 428۔429)

(4) شاہی محل کے قریب مندر: 

بچپن میں ایک درویش کی طرف سے اس کے حق میں کی گئی پیشن گوئی کے پورا ہونے کے بعد جب سلطان تخت میسور کا وارث بنا تو اس نے اس درویش سے کئے گئے اپنے وعدہ کے مطابق اپنے محل کے قریب مسجد کی تعمیر کا ارادہ کیا ؛ چونکہ محل کے قریب سری رنگناتھ کا مندر پہلے سے موجود تھا ؛ اس لئے اسی سے متصل مسجد کی تعمیر کے لئے اس نے سب سے پہلے ہندو سوامیوں اور عوام سے اس کی اجازت حاصل کی، ان کی مرضی کے بغیر اس جگہ مسجد کی تعمیر کو وہ صحیح نہیں سمجھتا تھا، ان سے اجازت ملنے کے بعد اس نے اس جگہ مسجد اعلی کی بناء رکھی، کبھی اگر وہ چاہتا تو اپنی طاقت کے بل بوتے پر بادشاہ ہونے کی وجہ سے ان کی اجازت کے بغیر ہی اس جگہ مسجد بنا سکتا تھا،مسجد اعلی سے متصل مندر رنگناتھ مندر کے علاوہ جو اس کے محل سے صرف ایک سو گز کے فاصلہ پر تھا قلعہ میں نرسمہا اور گنگادھریسوا نام کے دواور مندر بھی موجود تھے جہاں، روزانہ صبح وشام گھنٹیوں کی آواز سلطان کے محل میں پہنچتی تھی؛ لیکن اس نے کبھی ان کے ان مذہبی ااعمال کی ممانعت نہیں۔

(5) مندروں کو جائیدادیں: 

ڈاکٹر سی کے کریم کی کتاب (kerala under tipu) کے حوالہ سے محمد عبد اللہ بنگلوری نے اپنی کتاب ٹیپو کے تذکرے مختلف ادوار میں لکھا ہے کہ صرف کیرالا کے جنوبی ضلع کے ایک تعلقہ کے ساٹھ مندروں کو سلطان نے سرکاری خزانہ سے سالانہ وظیفے جاری کئے تھے، گرویاریاکے مندر کو ہی چھ سو ایکڑ قابل کاشت زمین بطور انعام دی گئی تھی، ملیبار کے مندروں وبرہمنوں کو جو زمینیں بغیر سرکاری لگان کے ٹیپو نے دی تھیں، ان کی جو تفصیلات محب الحسن صاحب نے اپنی کتاب تاریخ ٹیپو میں نقل کی ہے وہ کچھ اس طرح ہے (1) کالی کٹ کے قبضہ امسوم کے ترکنٹیشور وتاکوام کنعاؤ مندر کے لئے 195 ایکڑ زمین (2) پونانی کے گورویا مندر کے لئے ۵۰۴ ایکڑ زمین (3) چیلم برا تعلقہ اراند کے مانور مندر کے لئے 173ایکڑ زمین(4) پونانی کے ترو انچکموم مندر کے لئے212 ایکڑ زمین، (5) پونانی کے نمودری مندر کے لئے 551 ایکڑ زمی،، سلطنت کے وزیز خرانہ ’’پورنیا‘‘ کا خود کہنا تھا کہ سرکاری خزانہ سے مندروں کو سالانہ959193 پگوڈا مالی امداد دی جاتی تھی، جب کہ مساجد کے لئے یہ امداد اس سے بہت کم تھی۔

مجموعی طور پر سلطان کی ہندو رعایا نے اس کے ساتھ محبت وعقیدت کا جو سلوک کیا، اس کی مثال ملک کے کسی دوسرے مسلم حکمراں کی تاریخ میں بہت کم ملتی ہیں، ہندؤں کی اکثریت نے آخری وقت تک اس کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دیا4مئی 1799 میں شہادت کے دن سلطان کی لاش کے آس پاس سینکڑوں ہندو خواتیں لاشیں ملیں جس میں بعض نوجوان لڑکیاں بھی پائی گئی خود انگریز افسران نے جب یہ ماجرا دیکھا تو ہندو رعایا کے دلوں میں بھی اپنے مسلم حکمراں کے لئے عقیدت کے یہ جذبات دیکھ کر انہیں خود حیرت ہوئی جب سلطان کا جنازہ اٹھا تو راستہ میں ہندو عورتیں ماتم کرتی ہوئیں اپنے سروں پر مٹی ڈال رہی تھیں، محاصرہ دار السطنت پر کئی برہمنوں نے سلطان کی فتح کے لئے اپنی مذہبی رسومات کے مطابق دن بھر کا روزہ رکھا تھا، اگر سلطان کا سلوک ان ہندوؤں کے ساتھ اچھا نہیں ہوتا تو کیا یہ ممکن تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں ہندو ایک مسلم حکمراں کے لئے اپنی جانیں تک قربانی کرتے، اگر اس کے خلاف عام ہندؤوں میں ناراضگی پائی جاتی تو انگریزوں یا مرہٹوں کے لئے اپنے مقاصد کے خاطر ہند و مذہب کے حوالے سے ان سب کو سلطان کے خلاف اجتماعی بغاوت کے لئے اکسانا بہت آسان تھا ؛ لیکن پوری سلطنت خداداد کی تاریخ میں اس قسم کا کوئی واقعہ کسی متعصب انگریز مؤرخ کی کتاب میں نہیں ملتا، یہی وجہ ہے کہ سلطان کے غداروں کی فہرست میں ہندوؤں کی تعداد سلطنت میں اکثریت میں ہونے کے باوجود ان کی آبادی کے تناسب سے مسلمانوں کے مقابلہ میں کم تھی۔

ان تمام تاریخی حوالہ جات سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوتی ہے آج ہمارے برادران وطن کو ٹیپو کے تعلق سے جو غلط فہمیاں ہیں وہ انگریزوں کے ٹیپو اور اس کی جراء ت وہمت اور اس کی مذہبی رواداری اور ہندو مسلم اتحاد سے بعض وعناد اور اس کی وجہ سے اپنی حکومت سازی میں جو رکاوٹیں در پیش ہورہی تھیں ان کا سب کا نتیجہ تھا، جس کی رو میں بہہ کر اس عظیم مسلمان حکمراں اور سامراج کو ناکوں چنے چبوانے والے ملک کے سپوت کے تعلق زبان درازی کی کوشش یا تو یہ تاریخی حقائق سے عدم واقفیت یاتعصب ذہنی کی علامت ہے۔

تبصرے بند ہیں۔