اصلاح معاشرے کے لیے پیڈ پروگراموں کی ضرورت نہیں 

مدثر احمد

ملک بھر میں آج کل اصلاح معاشرہ کے عنوان سے اجلاس کا انعقاد سلسلہ وارجاری ہے، جتنے مسلک، جتنی جماعتیں ہیں وہ تمام مل کر معاشرے کی اصلاح کا بیڑا ٹھا ئے ہوئے ہیں، ملک کے کسی نہ کسی شہر میں ہر دن اسی عنوان کے تحت پروگراموں کا اہتمام ہورہاہےاور یہ پروگرام مسجدوں کے منبروں اور جلسہ گاہوں کے اسٹیجوں سے جاری ہیں۔ اسکے علاوہ اصلاح معاشرہ کے عنوان سے مختلف اسلامک ٹی وی چینلوں، یوٹیوب چینلوں اور سوشیل میڈیا کا بھی بھر پور استعمال کیا جارہاہے باوجود اسکے ملک کے مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ بے راہ روی، سماجی و اخلاقی برائیوں میں، شراب نوشی میں، نشے کی عادتوں میں، جہیز، سود اور دوسری بدکاریوں میں ملوث ہے۔

نوجوانوں کابڑا طبقہ جرائم کو انجام دیتے ہوئے جیلوں میں بند ہے۔ مسلم سماج کی عورتیںشرم و حیاء اور اخلاقیات کی حدود پار کرچکی ہیں جن پر ان اصلاح معاشرے کے پروگراموں کا کوئی اثر نہیں ہورہاہے۔ دراصل اصلاح معاشرے کے نام پر جو پروگرام کیے جارہے ہیں اس کے مثبت نتائج نہ ملنے کی اہم وجہ یہ ہے کہ سماج کو وہ طبقہ جو برائیوں میں ملوث ہے وہ ایسے پروگراموں میں شرکت نہیں کرتا، مسجدوں کا رخ نہیں کرتا یہاں تک کہ جمعہ کی نمازوں میں بھی انکی موجودگی محض نماز کے وقت پر ہی ہوتی ہے اور یہ لوگ بالکل بھی اچھائی کی طرف راغب ہونا نہیں چاہتے۔ جن لوگوں میں خوف خدا ہے، اخلاقیات ہیں وہی لوگ ان مسجد وں اور پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں جس کے معنی یہ ہوئے کہ سلجھے ہو ئے کو سلجھا یا جارہاہے یعنی مسلمان کو مسلمان بنایا جارہاہے۔

مسلم سماج کا ایک بڑا طبقہ شراب نوشی و نشہ خوری کی وجہ سے جرائم میں مبتلا ہورہاہے اور انہیں انکے جرم کے الزامات کی بناء پر جیلوں میں بند کیا گیا ہے اور یا تو وہ زیر سنوائی قیدی ہیں یا پھر سزایافتہ قیدی کہلاتے ہیں۔ ایسے میں یہ لوگ جب جیلوں سے باہر نکلتے ہیں تو وہ اپنے پرانے طور طریقوں پر عمل کرتے ہوئے دوبارہ جرائم میں مبتلاہوجاتے ہیں اورجیلوں کی سزائیں انکے لئے عام بن جاتی ہیں۔ یہ لوگ نہ تو اپنی زندگیوں میں تبدیلی لاتے ہیں نہ ہی انہیں تبدیل کرنے کے لئے سماج آگے آتاہے۔ اہل علم طبقہ ایسے لوگوں سے کنارہ کشی کرلیتاہے اور وہ اپنی بنائی ہوئی جرم کی دنیا میں مست مگن رہتے ہیں۔ جس وقت نبی کریم ﷺ مدینہ تشریف لے گئے، جب غزوے اور جنگیں ہوئیں، ان جنگوں میں جن کفار و یہودیوں کو قیدی بنایا گیا تھا ان قیدیوں کو آپ ﷺ نے اذیتیں و سزائیں دینے کے بجائے انہیں دین کی دعوت دینے کا کام کیا کرتے تھے اور انکی اصلاح کے لئے صحابہ کو ہدایت دیتے تھے۔ اسی طرح سے دنیا میں جتنے بھی انقلابات آئے اسکی طاقت اگر کہیں بڑھی تو وہ قید خانے یعنی جیل ہی تھے۔ بات چاہے مصر کے اخوان المسلمین کی کی جائے یا پھر ایران کی خمینی انقلاب کی۔ ہندوستان کی جنگ آزاد ی کی بات کی جائے یا پھر نازی و مسولینی انقلابات کی، یہ تمام انقلابات جیلوں سے ہی مضبوط ہوئے اور یہیں سے اٹھنے والی آوازیں تاریخی آوازیں بن گئے۔

ان باتوں کو اس مضمون میں پیش کرنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ اگر سماج میں تبدیلی لانی ہوتو تبدیل ہوچکے افراد سے زیادہ تبدیلی کی ضرورت رکھنے والوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آج ہم جب عدالتوں کا رخ کرتے ہیں تو وہاں دیکھتے ہیں کہ مسلمان نوجوانوں کا بڑا حصہ مختلف مقدمات میں سنوائیوں کے لئے پہنچا ہوا ہوتا ہے۔ جیلوں میں بڑی تعداد مسلم نوجوانوں کی ہوتی ہے۔ پولیس تھانوں میں ازدواجی زندگیوں کے معاملات زیادہ تر مسلمانوں کے ہوتے ہیں ایسے میں ہم مسلمان اسٹیجوں و منبروں کا سہارا چھوڑ کر اگر اصلاح کاکام جیلوں میں شروع کرتے ہیں تو اسکے بہت اچھے نتائج آئینگے کیونکہ اسی جگہ پر برائی کرتے ہوئے پناہ لینے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ جیل نہ صرف سزا کامرکز ہوتاہے بلکہ اصلاحی مرکز کے طورپر بھی جانا جاتاہے ایسے میں ان مقامات پر اصلاحی کام کرتے ہیں تو نہ صرف ہم مسلم نوجوانوں کی اصلاح کرسکتے ہیںبلکہ غیروں تک دین کی دعوت کا کام بھی کرسکتے ہیں۔

داعیان، مبلغین اور جماعتوں کاکام جو باہر کی دنیا میں کیاجارہاہے وہی کام جیلوں کے اندر کئے جائیں تو یہ حقیقی دعوتی کام ثابت ہوگا۔ اسکے علاوہ حکومتیں و قانون بھی یہی کہتاہے کہ مجرموں و ملزموں کو سزا دینے سے زیادہ انکی اصلاح کاکام کرنا چاہئے۔ ایسے میں ہم مسلمان اس کام میں پیش رفت کرتے ہیں واقعی میں سماج کو ہم برائیوں سے پاک کرسکتے ہیں۔ کچھ سال پہلے مشہور فلمی اداکار سلمان خان کو جیل سے رہا ہونے کے بعد آپ لوگوں نے دیکھا ہوگا، جیل میں سلمان خان نے نہ صرف نمازیں پڑھی تھیں بلکہ ٹوپی و داڑھی بھی رکھی تھیں، کیونکہ جیل ایک مقام ہے جو اچھوں اچھوں کو خداکی یاد دلاتا ہے اور انسان وہاں پہنچنے کے بعد اپنے آپ کو تبدیل کرنے کے لئے تیار ہوجاتاہے اور وہ اپنی باقی زندگی کو اچھی طرح سے گزارنے کا عزم کرتاہے۔

ایسے موقع پر جیلوں میں پہنچ کرمسلمان ان قیدیوں پر اپنی محنت لگاتے ہیں یقینی طورپر یہ قیدی نہ صرف اچھے مسلمان بن کر باہر آئینگےبلکہ اچھے انسان بھی بن جائینگے۔ مسلم تنظیموں کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ وہ اس پر وقار کام کو انجام دینے کے لئے پہل کریں۔ ہر ریاست کے جیل ڈی جی سے اس سلسلے میں گفتگو کریں اور ایک مستقل پروگرام بناکر جیلوں میں بند مسلم و غیر مسلمانوں میں اصلاحی کام کو انجام دیں۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ بچہ مزدوری میں ملوث ہونے والے بچوں کو عیسائی مشنریاں اپنے پاس لاکر انہیں تعلیم دے رہے ہیں، جبکہ تعلیم و تربیت پر فوقیت اسلام نے دی تھی۔

جب تک ہم ایسے کاموں کو انجام نہیں دینگے اس وقت اصلاح معاشرہ کاکام پورانہیں ہوگا اور اسٹیجوں پر اصلاح معاشرے کی تقریریں کی جارہی ہیں وہ پوری طرح سے پیڈ پروگرام ہوتے ہیں جس کااثر نہیں ہوتا۔ اصلاح کے اخلاق و عزائم کی ضرورت ہے نہ کہ اسٹیجوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اصلاح معاشرہ سال میں ایک پروگرام کرنے سے ممکن نہیں ہوتا بلکہ اسکے لئے مستقل کام کرنے کی ضرورت ہے اور جیلوں سے بہتر جگہ اور کہیں نہیں ہے !!۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. نزہت فاطمہ کہتے ہیں

    بہت صحیح ‘ حقیقی تبصرہ ہے ۔۔۔

    حال ہی میں ہمارے شہر میں بھی ایسا ہی بڑے پیمانے پر شاندار جلسہء عام ہوا ۔ اور اس کی اہمیت اور افادیت کو اصلاحی ذہنوں نے ہی تشکر کے ساتھ محسوس کیا ۔
    جبکہ کچھ دن پہلے عربی قاعدہ پڑھنے آئے ایک معصوم تقریباً سات سالہ لڑکے سے پوچھا گیا کہ آپ کے ابو کیا کرتے ہیں ۔۔
    بچہ بے ساختہ کہہ اٹھا ” پیتے ہیں ” ( اُف کس قدر افسوس ناک بلکہ ایک حد تک غمگین صورتِ حال ہے )
    اور ساتھ بیٹھے سارے بچے ہنسنے لگے ۔ جب پوچھا گیا کہ آپ سب کے پپا بھی تو یہی کرتے ہیں نا ۔! تب سب خاموش ہوئے ۔یہ روزانہ کی بنیاد پر کمائی کرنے والا محنت کش مسلم طبقہ ہے ۔جواسلام کی بنیادی تعلیمات’ نظامِ زندگی اور حرام حلال سے ناواقف ہے اور اپنے اردگرد کے ماحول سے متاثر زندگی جیتے ہیں ۔۔ عورتیں دنیاوی سہولتوں اور خواہشوں کے لئے ان تھک محنت کرتیں ہوئیں جبکہ مرد سخت محنت اور معاشی مشکلات کے زیرِاثر عارضی لذت نشے کا سہارا لیتے محدود آمدنی کے قیمتی سرمائے کو بِلاکسی پس و پیش خرچ کرتے ہوئے ۔۔۔ اور بچے مخدوش پرورش کے زیر اثر مخدوش معاشرے کا حصہ بنتے ہوئے ۔۔۔
    ایسے میں معاشرے کی اصلاح کے لئے محنت کش طبقہ کو معاشی سہولت کے ساتھ دین کی طرف راغب کرنا بھی انتہائی ضروری ہے ۔۔۔

تبصرے بند ہیں۔