اگر شائستہ تہذیب کا احیاء جرم ہے تو مجھے یہ جرم قبول ہے؟

ڈاکٹر خالد اختر علیگ

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور تنازعات کا چولی دامن کا ساتھ ہے، ایک تنازعہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا سر ابھار لیتا ہے، تازہ تنازعہ رواں ہفتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ کے اقامتی ہال سرسلیمان ہال کے پرووسٹ یا منتظم ڈاکٹر صدف زیدی کے دستخط سے جاری ہونے والے اس اعلانیہ پر شروع ہوا جس میں انہوں نے نووارد طلبہ کو یونیورسٹی کی قدیم روایات کاپاس و لحاظ رکھنے کی تلقین کی تھی، ابھی یہ اعلانیہ جاری ہی ہوا تھا کہ اسے کچھ افراد نے سوشل میڈیا پر وائرل کردیا، یونیورسٹی سے خوامخواہ کی جلن رکھنے والے افراد کے ہاتھ گویا ایک اہم مدعہ لگ گیا۔مشہور اخبار ٹائمز آف انڈیا اور نو بھارت ٹائمس نے تو اس پر ایک تفصیلی خبر شائع کردی جس میں یونیورسٹی کی روایات کو زمیندارانہ فکر کاپرتو قرار دیا جس میں یہ کہا گیا کہ کچھ طلبہ تنظیمیں اس طرح کے اعلانیہ کے خلاف ہیں لیکن کسی طلبہ تنظیم کا نام بھی نہیں لیا گیا۔

آخر اس اعلانیہ میں کیا تھا جسے ایک اہم مسئلہ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، یہ اعلانیہ جس کے اصلی یا نقلی ہونے کی تصدیق نہ ہونے کے باوجود اس اعلانیہ میں وہی باتیں کہی گئی ہیں جو اس یونیورسٹی کی قدیم روایات کا حصہ ہیں جسے علیگ تہذیب کے نام سے پوری دنیا میں جانا جاتا ہے۔اس اعلانیہ میں بارہ اقسام کی روایات کا خیال رکھنے کا مشورہ دیا گیا ہے مثلاًکسی کے کمرے میں جائیں تو دستک دیں جب اندر سے جواب آئے تبھی داخل ہوں،برموڈااورمختصر پاجامے اور سلیپر نہ پہنیں،یونیورسٹی کی اہم تقریبات میں کرتا۔پائجامہ اور سیاہ شیروانی زب تن کریں، واضح رہے کہ یونیورسٹی میں داخلہ کے وقت ہی سیاہ شیروانی ہر طلبہ کو مناسب قیمت پر دستیاب کرائی جاتی ہے، ڈائننگ ہال جانا ہو یاہاسٹل یا یونیورسٹی سے باہر جانا ہو تو مناسب لباس کا استعمال کریں جیسے کرتا پائجامہ اور شیروانی یاپینٹ شرٹ پہنیں، باہر سلیپر چپلوں کا استعمال نہ کریں،اپنے کمرے میں کسی روم پارٹنر کے مہمان کو اپنا مہمان سمجھیں اس کے ساتھ غیروں جیسا سلوک نہ کریں،اپنے گھر سے لائی ہوئی کھانے کی اشیاءکو اپنے روم کے ساتھیوں کو بھی تقسیم کریں،ڈائیننگ ہال میں کھانا کھلانے والے ملازمین کو بھائی یا میاں کے لقب سے پکاریں،اپنے سینئروں کا احترام کریں اور جونیئروں کے ساتھ شفقت کا برتاؤکریں،کسی ڈھابے پر اگر جونئیرکھارہے ہیں تو سینئرحضرات ان کی ادائیگی کریں،گھر جاتے وقت جو لوگ اسٹیشن رخصت کرنے جائیں تو ان کو بسکٹ اور چائے کی ضیافت کرائی جائے جسے علی گڑھ کی تہذیب میں See off-Tea کہا جاتا ہے،ایسے ساتھی جن کے نام سے آپ واقف نہ ہوں اسے پارٹنر کے لقب سے پکاریں،وغیرہ۔اب بتائیے اس میں ایسی کون سی بات ہے جو کسی کے بنیادی حقوق کو پامال کرنے والی ہے اور زمیندارانہ سوچ کی عکاس ہے۔ ایک اقامتی یونیورسٹی کا مقصد صرف ڈگریاں باٹنا ہی نہیں ہوتا بلکہ انہیں اس قابل بنا نا بھی ہے تاکہ وہ معاشرہ میں ایک منفرد پہچان بناسکیں جس کے لئے بانئی درسگاہ سرسید علیہ رحمہ نے ایک طریق کار وضع کیا جو آگے چل کر یونیورسٹی کی تہذیب کا جز لاینفک بن گیا جسے علیگڑھ تہذیب کے نام سے پوری دنیا میں جانا جاتا ہے۔ شاید ہی کوئی بے عقلا ہوگا جسے تہذیب سے محبت نہ ہو جو نشست و گفت کے آداب سیکھنا اور شائستہ لباس زیب تب کرنے کی خواہش نہ رکھتا ہو، مگر کیا کیا جائے کہ جن کے ذہنوں میں ہر وقت تعصب کی آگ بھڑکتی ہو وہ ہر اچھے اقدامات کو بھی ہضم نہیں کرپاتے۔

   یہاں یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ کسی پرووسٹ کو اس طرح کا اعلانیہ جاری کرنا پڑا، سن دوہزار کی نصف دہائی میں جب پورے ملک کی یونیورسٹی اور کالجس میں ایک رسم جسے ریگنگ کہاجاتا تھا اور جس میں نووارد طلبہ کو اخلاقیات سکھانے کے بجائے پریشان کیا جاتا تھا اور جس کی وجہ سے چند طلبہ نے خودکشی جیسے اقدامات اٹھائے جس کی سنگینی کو دیکھتے ہو ئے مرکزی حکومت نے ریگنگ نامی رسم پر پابندی لگادی۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ریگنگ کا تو کوئی وجود نہیں تھا البتہ تعلیمی شیشن کے آغاز کے کئی مہینوں تک اقامتی ہالوںمیں سنیچرکی رات کو شب تعارف منعقد کی جاتی جسے انٹروڈکشن کہا جاتا تھاجس میں سینئر حضرات بیٹھاکرتے اور نووارد طلبہ سے تعارف حاصل کرتے اور انہیں یونیورسٹی کی روایات سے آگاہ کرتے یہ سلسلہ جشن سر سید کے انعقاد سے ایک ہفتہ قبل تک جاری رہتا، اس تعارفی شب میں نہ تو کوئی گالی گلوچ ہوتی نہ ہی کسی کے ساتھ بدتمیزی کی جاتی اگر کوئی سینئر کسی نوواردکے ساتھ بدتمیزی کرتاتو اس کی سرزنش کی جاتی اور اسے وہاں سے رخصت کر دیا جاتا۔یہ سینئر طلبہ جب صبح ملتے تو بڑی ہی شفقت کے ساتھ پیش آتے اور جب تک وہ ہاسٹل میں قیام پذیر رہتے ان کی یہ شفقت اور محبت برقرار رہتی، مصیبت کی ہر گھڑی میں پیش پیش رہتے اور اپنائیت کا یہ سلسلہ جاری و ساری رہتا۔

 مجھے یاد ہے کہ پی کے عبدالعزیز صاحب کی وائس چانسلری کے زمانے میں جب ستمبر ۲۰۰۷ءمیں ایک طالب علم کاموبائل چوروں کے ذریعے آفتاب ہا ل کے پیچھے قتل کر دیا گیااور اس کے بعد طلبہ کے ناعاقبت اندیش پر تشدد مظاہروں کوجوازبنا کریونیورسٹی کو غیر معینہ مدت تک کے لئے بند کردیاگیا۔دوماہ کے بعد جب یونیورسٹی دوبارہ کھلی تو ہا سٹل میں قیا م پذیر طلبہ کی reshuffling کی گئی جس میں سینئر طلبہ کے ساتھ انتظامیہ نے من مانے طریقہ کا راختیار کرتے ہوئے ان کوجونیئر طلبہ سےبالکل الگ کردیا۔ نو وارد طلبہ کو آداب سکھانے کے عمل پر پابندی لگادی گئی۔ جس کا لازمی اثریہ ہوا کہ جونئیراور سینئر طلبہ میں کوئی قربت باقی نہیں رہی علیگیریت کا تصورختم کردیا گیاطلبہ کو صرف مادی تعلیم کا خواہاں بنادیا گیااور تربیت کا پہلو مکمل طورپر ناپید ہو گیا سلیقگی سے کوئی وابستگی ہی نہیں رہی اور اس عمل میں یونیورسٹی کے اساتذہ برابر کے شریک تھے مگر وہ اس کے دور رس نتائج سے نا آشنا تھے۔

  علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی عالمی شناخت اس کی تہذیب اور سلیقگی سے وابستہ ہے لیکن بدقسمتی سے دیگر سرکاری یونیورسٹیوںکی طرح ہی بنانے کی ہوڑ نے اسے آہنی جا لیوںسے گھرے ہوئے کیمپس اور اینٹ گارے سے بنی عمارت میں تبدیل کردیا ہے،اس کی روح کو نکالنے کی پوری کوشش کی گئی۔ سابق وائس چانسلر جنرل ضمیر الدین شاہ نے یونیورسٹی کی تہذیب اور ٹریڈیشن کو واپس لانے کی کافی سعی کی ہے۔

موجودہ وائس چانسلر جو کہ خود علی گڑھ کی روایات کے امین ہیں کے دور میں علیگ تہذیب کے احیاءکی کوشش نہ صرف لائق تحسین ہے بلکہ میں اس کا خیر مقدم کرتا ہوں، جو لوگ اس تہذیب اور روایات کو زمیندارانہ کلچر بتارہے ہیں شاید وہ خود ہی زمیندارانہ سوچ کے حامل ہیں وہ نہیں چاہتے کہ عام طلبہ کے اندر وقار اور شائستگی پیدا ہو۔واقعی اگر یہ تہذیب زمیندارانہ ہے تو ہم بھی زمیندار ہیں اور اگرشائستہ تہذیب سکھانا جرم ہے تو ہم بھی مجرم ہیں۔ جس کے لئے احساس ندامت کرنے کو ہم تیار نہیں ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔