میری کہانی، میری زبانی: پولیس ظلم کی ایک دلچسپ روداد

گل بخشالوی

 ASI پرویز نے آخرت برباد کرکے مجھے تاحیات مجرم بنادیا۔ گل بخشالوی

میں امریکہ میں تھا جب میرے صاحبزادے امجد سبحان بخشالوی نے پنجوڑیاں کے رضوان احمد (رضی) ڈینٹر کو دوستی میں اُس کے مانگنے پر کچھ رقم قرض دی۔ رضی ڈینٹر اور علی چک کے محمد ارشد پرانی گاڑیوں کی خریدوفروخت کا کاروبار کرتے تھے وطن واپسی سے قبل رضی ڈینٹر سے رقم کی واپسی کا تقاضا کیا تو رقم نہ ہونے پر ایک گاڑی میرے بیٹے کو دی کہ فروخت کرکے آپ کو رقم ادا کردوں گا۔ وطن واپسی پر گاڑی اپنے نام منتقل کرنے کیلئے متعلقہ ادارے سے رابطہ کیا تو پتہ چلا گاڑی کے کاغذات دونمبر ہیں ۔ رضی ڈینٹر سے تقاضا کیاتو اُس نے ایک چیک دیا جوکہ دونمبر تھا بینک سے رقم نہ ملنے پر رضی ڈینٹر سے رابطے میں رہے لیکن وہ چپکے سے بیرونِ ملک چلا گیا تو پولیس تھانہ کھاریاں کینٹ میں اُس کے خلاف جعلی چیک کا پرچہ دے دیا جس میں وہ آج بھی اشتہاری ہے امجد سبحان کے قریبی دوست ندیم دولہا نے رضی ڈینٹر کے دوست علی چک کے محمد ارشد سے رابطہ کیا تو اُس نے کہا کہ تمہاری گاڑی میں فروخت کردوں گا کمیشن 25ہزار روپے لوں گا اور کچھ دن بعد وہ گاہک لے کر آیا گاڑی کی رقم ادا کی اپنی کمیشن لی اور گاڑی فروخت ہوگئی۔

2سال بعد میں ساﺅتھ افریقہ میں تھا اطلاع ملی کہ علی چک کے محمدا رشدراجہ نے تمہارے خلاف پولیس تھانہ صدر لالہ موسیٰ میں پرچہ دیا ہے کہ گل بخشالوی نے مجھ پر دونمبر گاڑی فروخت کی ہے حالانکہ یہ گاڑی اُن کے دوست رضی ڈینٹر سے خریدی گئی تھی اور اُس کے علم میں تھا میرے خلاف جھوٹی اور بے بنیاد الزام میں پرچہ درج ہوا میں ساﺅتھ افریقہ سے واپس آیا۔ نصراللہ چوہدری ایڈووکیٹ کیساتھ لالہ موسیٰ کے DSPہاشم گجر کے پاس حاضر ہوا صورتحال بتائی تو اُس نے تفتیشی افسر سے معاملہ مل بیٹھ کر حل کرنے کی ہدایت کی انکوائری میں تفتیشی کی بجائے محمد ارشد (درخواست دہندہ )کے قریبی دوست ASIپرویز آئے۔ معززین شہر چوہدری عرفان نصیرمرالہ، چوہدری اسفند یار علی، چوہدری راشد محمود، نصراللہ چوہدری ایڈووکیٹ کی موجودگی میں حقائق کو پیش کیا لیکن ASIپرویز اور محمدا رشد علی چک نے جھوٹ کو سچ پر فوقیت دی طویل انکوائری میں ASIنے مجھے مجرم ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی اور انتہائی توہین آمیز روےے میں نصراللہ چوہدری ایڈووکیٹ اور چوہدری عرفان نصیر مرالہ کو مجبور کر دیا۔ دونوں معزز دوستوں نے محمد ارشد کے تقاضے پر دولاکھ روپے دینے کا فیصلہ کیا ASIپرویز نے مقامی ہوٹل میں چوہدری عرفان نصیر مرالہ اور نصراللہ چوہدری ایڈووکیٹ سے دولاکھ روپے وصول کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ تھانہ صدر سے پرچہ ختم کردیں گے یا عدالت میں محمد ارشد راضی نامے کا بیان دے کر معاملہ ختم کردے گا اور حسب ِوعدہ وہ تاریخ پر آئے عدالت میں بیان حلفی دے دیا میں نے شکر ادا کیا کہ جان خلاصی ہوئی لیکن یہ میری اور میرے عزیز دوستوں کی غلط فہمی تھی ASIپرویز اور محمد ارشد نے وہ کیا جس کی اُن سے انسانیت کے حوالے سے کوئی اُمید نہیں تھی۔

  رضی ڈینٹر نے میرے صاحبزادے کو گاڑی پلاٹ کےساتھ ایک اور گاڑی XLIبھی دے رکھی تھی کہ فروخت پر رقم وصول کر لو امریکہ سے واپسی کے تیسرے روز پولیس تھانہ کھاریاں صدر بخشالوی سٹریٹ آئی اور قبضے میں لے کر گاڑی لے گئے۔ وہ گاڑی بخشالوی سٹریٹ ہی کے ایک رہائشی شمس کارپینٹر کی تھی اُسی نے پولیس کو درخواست دی لیکن پولیس نے محمد ارشد کیساتھ ساز باز کرکے وہ گاڑی اُسے سپرداری پر دے دی حالانکہ اُس کی اصل کاپی شمس کارپینٹر کے پاس تھی کچھ بقایا رقم کا جھگڑا اورتقاضا تھا پلاٹ گاڑی کی انکوائری کے دوران شمس کارپینٹر کو بخشالوی سٹریٹ میں صبح سویرے فائرنگ کرکے زخمی کر دیا گیا۔ شمس کارپینٹر نے علی چک کے راجہ محمد ارشد پر اقدامِ قتل کا پرچہ دے دیا۔ میں نے بحیثیت اخبار نویس خبر لگائی محمد ارشد گرفتار ہوگیا تو حوالات میں محمد ارشد نے اپنے ایک دوست سے کہا کہ گل بخشالوی کی خبر کی وجہ سے میری توہین ہوئی ہے میں اس توہین کا بدلہ لوں گا۔ یہ بات مجھ تک پہنچی تو میں نے کہا کہ میرا حافظ میرا خدا ہے۔

نصراللہ چوہدری ایڈووکیٹ کے چیمبر میں ASIپرویز سے سرِراہ ملاقات ہوئی تو اُس نے کہا کہ راجہ محمد ارشد بے قصور ہے اُس کا شمس سے ایک رات قبل جھگڑا ضرور ہوا لیکن شمس پرفائرنگ اُس نے نہیں کی تم نے خبر کو ہوا دے کر اچھا نہیں کیا کچھ دن بعد محمد ارشد کو حوالات سے رہائی ملی اور پلاٹ گاڑی سے متعلق میرے خلاف تھانہ صدر لالہ موسیٰ میں درج پرچے کی انکوائری میں معززین شہر اور پرویز ASIکیساتھ 2لاکھ روپے پر بات ہوئی اور میں نے پنچائیت کی بات تسلیم کرکے بدست نصراللہ چوہدری ایڈووکیٹ اور چوہدری عرفان نصیر مرالہ کے مقامی ہوٹل میں 2لاکھ روپے ادا کر دئےے۔

تفتیشی افسر تھانہ صدر لالہ موسیٰ سے نصراللہ چوہدری ایڈووکیٹ کے دفتر میں ملاقات ہوئی انکوائری رپورٹ اور راضی نامہ عدالت میں پیش کرنے کیلئے اُس نے 10ہزار روپے کا مطالبہ کیا جو ناچاہتے ہوئے بھی مجھے ادا کرنے پڑے کیس سیشن کورٹ کھاریاں میں تھا۔ اپنے وکیل چوہدری محمد اشرف ایڈووکیٹ کیساتھ عدالت میں پیش ہوا محمد ارشد نے سٹام پیپر پر بیان حلفی لکھ کر عدالت کے حضور پیش کر دیا کہ ہمارا جھگڑا ختم ہوچکا ہے۔ میں مزید کاروائی نہیں کرنا چاہتا۔ سیشن کورٹ نے ضمانت منظور کرکے کیس ماتحت عدالت میں بھیج دیا جہاں عدالت کے حضور محمد ارشد نے اپنے بیان حلفی اور راضی نامہ کا وضاحتی بیان دینا تھا۔ پہلی دوسری اور تیسری تاریخ پر محمد ارشد عدالت میں حاضر نہ ہوئے تو میرے وکیل کی درخواست پر عدالت نے بذریعہ نوٹس محمد ارشد کو طلب کیا لیکن چوتھی تاریخ پر عدالت ہذا کو پولیس نے بتایا کہ محمد ارشد قتل کے مقدمے میں پولیس تھانہ صدر کھاریاں کے زیر حراست ہے پولیس رپورٹ پر عدالت ہذا کے جج نے تصدیق کیلئے تھانہ صدر بھیجا تو معلوم ہوا کہ محمد ارشد واقعی قتل کے کسی مقدمہ میں گرفتاری کے بعد جیل میں ہے اور عدالت سے مجھے تاریخ پہ تاریخ ملنے لگی۔

محمد ارشد کی جیل سے رہائی ہوئی اس کے باوجود وہ کسی تاریخ پر بحیثیت مدعی عدالت میں پیش نہ ہوا اور عدم پیروی کے باوجودمیں عدالت کی ہر تاریخ پر بحیثیت مجرم عدالت کے کٹہرے میں حاضر ہوتا رہا اور مجھے تاریخ پہ تاریخ ملتی رہی۔ صرف اس لےے کہ میں بے قصور تھا اور قصور وار عدالت کے کسی نوٹس سے بے نیاز مجھے عدالت کے چکروں میں خوار کرتا رہا نصراللہ چوہدری ایڈووکیٹ اور چوہدری عرفان نصیر مرالہ اپنے کےے پر پشیمان تھے میں نے اُنہیں کہا تھا کہ رقم کی ادائیگی کیس ختم ہونے کے بعد کی جائے لیکن وہ راجہ محمد ارشد اور ASIپرویز کے عمل کو بخوبی جانتے ہوئے بھی کہنے لگے کہ رقم اداکردو تو میں نے رقم ادا کردی۔   پولیس تھانہ صدر لالہ موسیٰ کے تفتیشی افسر نے ASIپرویز اور محمد ارشد کی خواہش پر نصراللہ چوہدری ایڈووکیٹ کے چیمبرمیں 10ہزار روپے کیش لینے کے باوجود مجھے بستہ ب کا مجرم بنادیا۔ وہ کھاریاں کچہری میں نصراللہ چوہدری ایڈووکیٹ کے دفتر میں آیا مجھ سے میرے دونوں ہاتھوں کی اُنگلیوں کے فنگر پرنٹ لےے ایک تختی پر میری مجرمانہ ہسٹری لکھی جسے میرے سینے پر سجا کر میری تصویر بنائی اور عادی مجرموں کی فہرست میں ڈال کر مجھے ریکارڈ یافتہ مجرم بنادیا۔

رضوان احمد رضی المعروف رضی ڈینٹر نے اپنے کاروباری پارٹنر محمدارشد سے 3لاکھ روپے کا ایک چیک لے کر مجھے دیا تھا جو کیش نہ ہوسکا تو محمد ارشد نے رضی ڈینٹر کےساتھ ساز باز کرکے مجھ سے مزید ڈیڑھ لاکھ روپے کیش لے کر ایک مہران سوزوکی ڈبہ مجھے فروخت کرتے ہوئے فائل ایک ہفتہ بعد دینے کا وعدہ کیا حسب ِوعدہ فائل نہ ملنے پر میں نے رضی ڈینٹر سے رابطہ کرکے مہران ڈبہ اُن کے گھر موضع پنجوڑیاں پہنچادیا۔ رضی ڈینٹر دوسرے دن سپین بھاگ گیا اور اُس کے بھانجے نے مہران سوزوکی گاڑی کسی اور کو قرضے میں دے دی۔ میں رقم سے بھی گیا اور گاڑی سے بھی گیا۔ ۔۔۔

میں نے پولیس تھانہ کھاریاں کینٹ میں رضی ڈینٹر کے خلاف پرچہ دے دیا جعلی چیک کا پرچہ پہلے ہی دے چکا تھا پولیس تھانہ کینٹ نے رضی ڈینٹر کے بھانجے کو گرفتار کرکے میری گاڑی لالہ موسیٰ سے برآمد کر لی اور رضی ڈینٹر کو اشتہاری ڈکلیئر کر دیا۔ چند دن بعد معلوم ہوا کہ مہران گاڑی عدم ادائیگی اقساط کی وجہ سے ڈیفالٹر ہے بینک کی ٹیم آئی اور سوزوکی مہران ڈبہ اُٹھا کر گوجرانوالہ لے گئی۔ بینک سے رابطہ کرکے بقایا اقساط اور دیگر واجبات میں 2لاکھ 25ہزار روپے دے کر گاڑی لائے اور گجرات سے ڈبے کے اصل مالک کو ساتھ لے کر لاہو ر گئے بینک سے NOCلیا اور گاڑی اپنے نام منتقل کر دی ،یہ ہے علی چیک کے محمد ارشد کی وہ کارگزاری جو مجرم ہونے کے باوجود مجرم نہیں رہا بلکہ مجھ بے قصور کو عدالت اور پولیس کے ہاتھوں مجرم ٹھہرادیا۔

زیر سماعت کیس میں محمد ارشد کی عدم پیروی کے باوجود عدالت سے مجھے تاریخ پہ تاریخ ملتی رہی سیشن کورٹ میں تحریری بیان دینے کے باوجود وہ ماتحت عدالت میں اپنے بیان کی تصدیق کیلئے حاضر نہیں ہوا۔ آخر کار معزز جج نے میرا کیس داخل دفتر کر دیا۔ تو میں نے شکر ادا کیا کہ تاریخوں سے جان چھوٹ گئیلیکن ہوش اُس وقت اُڑگئے جب ساﺅتھ افریقہ کے ویزے کیلئے پولیس کلیئرنس سر ٹیفکیٹ کیلئے درخواست دی پولیس نے یہ کہتے ہوئے سر ٹیفکیٹ دینے سے انکار کر دیا کہ تمہارا کیس عدالت میں زیر سماعت ہے پریشانی کے عالم میں عدالت سے داخل دفتر کیس کی عارضی رپورٹ لے کر سر ٹیفکیٹ تو وقتی طور پر حاصل کر لیا لیکن سوچتا ہوں کہ آخر کار ایک جھوٹے مقدمے میں مجھے اس قدر خوار کیوں کیا گیا کیا عدالت صرف پولیس کی انکوائری رپورٹ کو تسلیم کرتی ہے کیا کسی شریف آدمی کے چہرے زبان اور شخصی وقار سے وہ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ مجرم کون ہے۔ اگر میرے خلاف جھو ٹا پرچہ دینے والے نے عدالت میں تحریری بیان دیا کہ میں کیس کی پیروی نہیں کرنا چاہتا اور وہ عدالت میں پیش نہیں ہوتا معزز جج کے سامنے فائل میں مکمل حقائق موجود ہیں تو آخر ایک بے گناہ شخص کو تاحیات مجرم بنائے جانے کا کیا جواز ہے کیا بہتر نہیں تھا کہ معزز جج اس کیس کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دیتے۔

کاش!میرے دیس کی عدالتوں میں انسانیت پر معاشرتی مجرموں کے ہونے والے ظلم وجبر کو سوچا جائے ایک ASIکی جھوٹی اور بے بنیاد انکوائری میں میرا ریکارڈ تو لگا دیا گیا لیکن ایک عدالت ہے جس میں وہ اپنے کیے کی سزا بھگتے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔