وزیر اعلیٰ جناب چندر شیکھر راؤ صاحب کی خدمت میں ایک عرض داشت

احمد نثار

ریاستِ تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ محترم عالی جناب کے چندرشیکھر راؤ صاحب کی خدمت میں ایک عرض داشت کھلے خط کی شکل میں پیش ہے۔ اس امید کے ساتھ کہ علم و ادب نواز شخصیت محترم چندر شیکھر رائو صاحب ان باتوں کی طرف توجہ فرمائیں گے اور ان مسائل کو حل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے، اور پورا یقین ہے کہ آپ کی سرکار ہی ان مسائل ہو حل کرسکتی ہے۔

عالی جناب! آداب۔

آپ کی علمی ادبی دوستی اور اردو نواز شخصیت کے چرچے عام ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ اقلیتوں کے مسائل حل کرنے میں دو قدم آگے رہتے ہیں۔ آپ کی خدمت میں اسی امید کے ساتھ عرضداشت پیش کی جارہی ہے کہ آپ غور فرماکر انہیں حل کریں گے۔

گورنمنٹ نظامیہ طبیہ کالج حیدرآباد کی اپنی منفرد شناخت ہے۔ اس کے ساتھ اس یونانی طبی کالج کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ براعظم ایشیاء میں سب سے بڑا اور بہترین طبی کالج ہے۔ طب یونانی کی دنیا میں اگر کہیں بہترا اور بڑا آئوٹ پیشنٹ اور ان پیشنٹ وارڈ ہے تو وہ نظامیہ طبیہ کالج میں ہے۔ اس کالج نے طب یونانی، یونانی ریسرچ ، یونانی نظام اور خلق کی خدمت کرنے میں اپنا نمایاں کردار ادا کیا ہے اور کرتا بھی آرہا ہے۔ شہر حیدرآباد کی شان اور شہر کے گلے کے ہار کا نگینہ مانا جانے والا یہ ادارہ اب اس دہانے پر کھڑا ہے جس کو زبوں حالی تو نہیں کہہ سکتے مگر زبوں حالی سے کم بھی نہیں ہے۔گذشتہ کئی دہائیوں میں طب کے شعبوں میں یہ کالج بصد افتخار اپنی خدمات سے عوام کی توجہ کو مبذول کرنے میں کامیاب رہا ہے۔

 یہ کالج کئی معتبر طبیب، حکماء، ریسرچ اسکالر ز کو سینچنے میں کامیاب رہا ہے۔ اس ادارے میں پڑھنے والے ڈاکٹر کہیں بھی جائیں فخر سے کہتے ہیں کہ ہم نظامیہ کے فارغ ہیں۔ یہاں کے فارغین کو سماج میں کافی عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ایسا معتبر کالج آج کئی مسائل سے پریشان ہے اور جوجھ رہا ہے۔

 آئیے دیکھتے ہیں کہ اس ادارے کے بنیادی مسائل کیا ہیں۔

اس سے پہلے یہ دیکھیں کہ اس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی تعداد کیا ہے اور انہیں درس دینے والے پروفیسروں اور لکچرار کی تعداد کیا ہے۔

اس ادارے میں ساڑھے چار سالہ کورس بی یو یم یس یوجی کورس کے لئے 72 سیٹ ہیں۔یعنی ہر سال 288طلباء یہاں زیر تعلیم ہیں۔

یم ڈی کے تین سالہ کورس میں 32سیٹ ہیں یعنی ہر سال یہاں 96طلباء کی گنجائش ہے۔ان اور آئوٹ پیشنٹ وارڈز ہیں جہاں روزانہ سینکڑوں مریض علاج کے لئے آتے ہیں۔ اب یہ دیکھیں کہ یہاں ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ آسامیاں کتنی ہیں اور ان میں کتنے احباب زیر خدمات ہیں اور کتنی آسامیاں خالی ہیں۔

اسٹاف                 سینکشن کی گئی آسامیاں            بھرتی                 خالی

ٹیچنگ                        82                    33                    49

نان ٹیچنگ                    59                    34                    25

جملہ                           141                  67                    74

اب تمام مسائل پر ایک جائزہ یوں ہے:

اے۔    درس و تدریس اور غیر تعلیم و تدریس کی آسامیاں بہت ساری خالی ہیں جس کی وجہ سے درس تدریس اور اکتساب و ریسرچ میں شدید دقتیں در پیش ہیں۔

بی۔     ناکافی عمارت اور بنیادی ڈھانچے کی سہولیات۔

سی۔    پانی کی سہولتیں ناکافی ۔

ڈی۔    پاکی و صفائی کا فقدان، حفظان صحت کے لئے ناکافی سہولیات۔

ای۔     کینٹین کی سہولیات نہیں ہیں۔

ایف۔   طلباء و طالبات کی رہائشی ہاسٹل کی سہولت نہیں ہے۔

جی۔    ہمہ مقصدی کنوینشن اور پروگراموں کے لئے کنونشن ہال نہیں ہے۔

ایچ۔    کالج کے طلباء و طالبات کے لئے قریب میں کوئی میدان نہیں ہے جہاں جسمانی ورزش اور کھیل اسپورٹس کا انتظام ہوسکے۔ نا ہی کوئی انڈور گیم اسٹیڈیم اور جمناشیم  ہے۔

  ایک ذمہ دار شہری اور طب یونانی سے دلچسپی رکھنے والی شخصیت کے طور پر اس کالج کو پورے ملک میں ایک شاندار اور مکمل طبی کالج اور ریسرچ سینٹر کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں ہی نہیں بلکہ ہزاروں افراد ہیں جو یہ خواہش رکھتے ہیں، جن میں میں بھی ایک ہوں۔

1 ۔ تعلیم اور غیر تعلیماتی فیکلٹی مسئلہ:

حال ہی میں یہ خبر آئی ہے کہ حکومت نوٹیفکیشن کے ذریعہ 8 نشستوں کو بھرتی کرنے والی ہے۔ جب کہ خالی نشستیں تدریسی و غیر تدریسی نشستیں 74ہیں۔ ان آٹھ نشستوں کو بھرتی کرنے سے کچھ فائدہ ہونے والا نہیں کیونکہ عنقریب ریٹائر ہونے والی شخصیات بھی ہوسکتی ہیں۔

جب تک تدریسی و غیرتدریسی آسامیاں بھرتی نہیں ہوں گی تب تک تعلیمی تدریسی اکتسابی و ریسرچ کا معیار حاصل کرنا ناممکن ہے۔ اور یہ بھی واضح رہے کہ جتنی بھی خالی آسامیاں ہیں وہ پہلے ہی سے سینکشن کی گئی آسامیاں ہیں جن کا فائنانشیل کانکرینس بھی پہلے ہی سے گرانٹیڈ ہے۔

آیوش اور سی سی آئی یم کے افسران کو بھی ہدایت دیں کہ ان باتوں کی طرف توجہ کریں اس مسئلہ کو حل کرنے میں چست و متحرک اقدام اٹھائیں ورنہ تعلیمی معیار کے گرنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔

 پرنسپل و دیگر ایڈمنسٹریٹیو افسران کو ہدایت دیں کہ ان مسائل کی طرف فوری طور پر توجہ کریں اور مسائل کو حل کرنے کی کارروائیوں کا آغاز کریں۔

 2۔ ناکافی بنیادی تعمیری ڈھانچے:   

کالج کی بلڈنگ ناکافی ہے اور انفراسٹکچر کی کافی کمی ہے۔ نئی عمارت کی تعمیر طویل عرصے سے رکی پڑی ہے۔ نہ اس کا کوئی پرسانِ حال ہے نہ ہی کسی کو کوئی دلچسپی۔ اگر ایسا ہی معاملہ رہا، نئی عمارت پر خرچ کیا گیا مبلغ ضائع ہوجائے گا اور تعمیر بنام تعمیر رہ جائے گی۔ لہٰذا حکومت اس کی طرف فوری توجہ کرے جس کی وجہ سے انفراسٹرکچر میں وسعت آئے گی اور کالج پر سکون اور وسیع ماحول میں درس و ردریس کا حامی ہوگا۔

3۔پینے کے پانی کی ناکافی سہولت :

کالج پینے کے پانی کی سہولت کی کمی ہے۔ R.O. سسٹم کی سہولت فراہم کی جائے جس کے نصب کرنے سے پورے کالج، تحقیقاتی مرکز، ہسپتال اور باقی پورے کیمپس کے لئے پانی کا نظام قائم کیا جاسکے۔

4۔ پاکی و صفائی کا فقدان :

کالج کیمپس پاکی و صفائی کے معاملے میں کافی ناقابل اور گندگی سے بھرا پڑا ہوا ہے۔ اسٹیٹ آف آرٹ کا کوئی نام و نشان نہیں۔ جب کہ یہ طبی کالج ہے۔ اس بات کا خیال رکھتے ہوئے، سینیٹری سسٹم کو ٹھیک کیا جائے۔ اس کے لئے حیدرآباد میونیسپل کارپوریشن کی مدد بھی لی جاسکتی ہے۔

سینٹیشن کا مسئلہ سارے ماحول کو پراگندہ کررہا ہے جس کی وجہ سے کالج میں حفظان صحت کا نظام بھی بکھرنے لگا ہے۔

ٹوائلٹ اور یورینل سسٹم بھی درہم برہم ہے۔ یہاں تک کے ناماقول سہولتیں ہیں۔ طلباء و طالبات کے لئے ماقول انتظام نہیں ہونے کی وجہ سب پریشان ہیں۔فارغِ ضروریات کے لئے بڑے مسائل در پیش ہیں۔ لہٰذا حکومت طلباء و طالبات اسٹاف اور مریضوں کے لئے علیحدہ علیحدہ ٹوائلٹ اور یورینل سسٹم کا ماقول انتظام کریں۔

5۔بکینٹین:

کالج میں 350 طالب علموں کی تعداد + اسٹاف +  اندرونی مریض + بیرونی مریض اور زائرین کا آنا جانا رہتا ہے۔ لیکن اس بات کا افسوس ہے کہ ہمارے پاس ہمارے کالج میں کینٹین نہیں ہے۔ رفریشمنٹ کے لئے سہولت نہیں ہے۔ اس کے لئے کالج کے باہر جانا پڑتا ہے۔ کینٹین کی ضرورت بھی عین ہے۔

6۔ ہاسٹل سہولت:

حقیقت یہ ہے کہ جتنے بھی طلباء و طالبات ہیں ان میں یو جی یعنی بی یو یم یس کے طلباء تلنگانہ اور آندھرا پریش کے دور دراز کے مقامات سے آتے ہیں۔ اور پی جی اور ریسرچ کے طلباء ملک کے مختلف مقامات سے آتے ہیں۔ ان کی رہائش کا انتظام بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اگر مستقل طور پر ہاسٹل کا انتظام کیا جائے تو طلباء و طالبات کے لئے رہائش اور پڑھائی کا اچھا خاصہ انتظام ہوسکتا ہے۔ اس لئے حکومت کالج کے کیمپس میں مختلف جانبوں میں طلباء و طالبات کی رہائش کے لئے ہاسٹل کی تعمیر کرے اور ماقول انتظام فراہم کرے۔

 7۔ ہمہ مقصدی کنونشن ہال:

چونکہ نظامیہ طبی کالج ایک بڑا ادارہ ہے اور یہاں سیمینار، سمپوزیم، کنوینشنز، ایونٹس، ورکشاپس، ایگزیبیشن و دیگر پروگرامز کا انعقاد عام ہے۔ اس کے لئے کوئی ماقول انتظام نہ ہونے کی وجہ سے ان پروگراموں میں کڑی رکاوٹیں درپیش ہیں۔ کالج میں کوئی  Amphitheatre یا ہمہ مقصدی کنوینشن ہال یا آڈیٹوریم نہیں ہے۔ اگر اس کا انتظام ہوجائے تو بڑے پیمانے پر پروگرام کرنے کے مواقع حاصل ہوسکتے ہیں۔ بین الاقوامی، قومی اور ریاستی سطح کے پروگرام کے انعقاد کرنے میں آسانی ہوگی۔ حکومت اس کی طرف بھی خاص توجہ کرے۔

8۔ جمناشیم :

جمناشیم طلباء کے لئے سخت ضروری ہے۔ کالج کا کوئی میدان نہیں ہے۔ طلباء و طالبات کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ ان کے لئے کوئی انڈور اسٹیڈیم بھی نہیں ہے۔ لہٰذا حکومت ایک جدید طرز کا جمناشیم یا ورزش خانہ فراہم کریں۔

محترم عالیجناب وزیر اعلیٰ علمی و ادبی دوست ہیں، ان کی خدمت میں ہماری یہ جائز مانگیں رکھی گئی ہیں۔ اس امید کے ساتھ کہ ان کی طرف خاص توجہ فرماکر انہیں پورا کرتے ہوئے گورنمنٹ طبیہ کالج اور یونانی سسٹم کو ایک نئی طاقت بخشیں گے۔

والسلام

شکریہ کے ساتھ

سید نثار احمد

اکیڈمیشین، سماجی سائنداں، مصنف، شاعر اور ویکی پیڈین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔