ان حالات میں اویسی صاحب بھی اپنا شوق پورا کرلیں

حفیظ نعمانی

پارلیمنٹ کے الیکشن میں سیکولر پارٹیوں کی شکست کے بعد سب سے اونچی آواز میں اویسی صاحب نے اعلان کیا تھا کہ وہ اب شمالی ہند میں پوری تیاری کے ساتھ اُتریں گے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اُترپردیش، بہار، مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ کہیں بھی ہم نے اُمیدوار کھڑ ے نہیں کئے۔ اس کے باوجود ہر جگہ بی جے پی کیوں کامیاب ہوگئی؟ اور ووٹ کس نے کاٹ لئے۔ اویسی صاحب نے مولانا ارشد میاں کے بارے میں یہ جان کر مسرت کا اظہار کیا ہے کہ وہ بھی سیکولر پارٹیوں کی اتنی بری شکست کے بعد بہت افسردہ ہیں انہوں نے عید ملن کی تقریب میں اشارہ دیا کہ سب کو میدان عمل میں آنا ہوگا۔

مولانا ارشد میاں کے ان جملوں سے اویسی صاحب شاید یہ سمجھے ہیں کہ مولانا ارشد میاں اب جمعیۃ کی طاقت کے ساتھ انتخابی میدان میں آنے کا اشارہ دے رہے ہیں اور شاید وہ اویسی صاحب کے ساتھ مل کر یا خود اپنے امیدوار کھڑے کریں گے یا اویسی صاحب کے امیدواروں کی حمایت کریں گے۔ ہمیں مولانا ارشد میاں سے جو تعلق ہے وہ سب کو معلوم ہے اور اویسی صاحب سے جو ذراسی دوری ہے وہ بھی چھپی نہیں ہے۔ اویسی صاحب مسلم لیگ کے انداز پر الیکشن لڑنا چاہتے ہیں اور ویسی ہی جذباتی تقریریں کرتے ہیں لیکن وہ سیکولر پارٹیوں کی شرم ناک شکست پر جو خوشی ظاہر کررہے ہیں اس سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مسلمان سیکولر پارٹیوں کو ووٹ دے کر اپنے ووٹ برباد کرتے ہیں۔ اور ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اویسی صاحب اگر پچاس اُمیدوار کھڑے کرتے ہیں تو مشکل سے ایک اُمیدوار جیت پاتا ہے۔

اویسی صاحب نے مولانا ارشد میاں کے دو چار جملوں سے یہ سمجھ لیا کہ اب مولانا ارشد میاں یا تو پوری طرح ان کی حمایت کریں گے یا ان کے ساتھ مل کر مقابلہ کریں گے۔ اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مولانا ارشد میاں ان میں سے ایک کام بھی نہیں کریں گے۔ جمعیۃ علماء ہند 1948 ء میں یہ فیصلہ کرچکی ہے کہ وہ اب انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لے گی۔ اور ایسی حالت میں کہ کوئی مسلم پارٹی جو نام کے لئے دو چار دلتوں کو اپنے ساتھ ملا لے اور مسلم دلت مخلوط مورچہ بناکر اُمیدوار کھڑے کرے اور اُمید کرے کہ ہندو اسے ووٹ دیں گے ایک خواب سے زیادہ نہیں ہے۔ اویسی صاحب گلے گلے تک انتخابی سیاست میں اُترے ہوئے ہیں جبکہ ہم گوشہ نشین ہیں اس کے باوجود وہ کیوں یہ نہیں دیکھ رہے کہ نریندر مودی نام کے ہندو لیڈر نے ان ہندوئوں کو جن کے سایہ سے ہندو بچاکرتے تھے اپنی گود میں بٹھا لیا ہے۔ مایاوتی نے ایک بار کہا تھا کہ مودی جی اونچی ذات کے ہیں لیکن غریبوں کے حصہ میں سے اپنا حصہ لگانے کے لئے اپنے کو نیچی ذات کا بتاتے ہیں۔ مودی جی نے اس سادہ سے جملے کو گلے کا ہار بنا لیا اور ہر جگہ شور مچایا کہ سب لوگ میری ذات کو معلوم کرتے ہیں۔ ارے میں دنیا میں جو سب سے نیچی ذات ہے اس کا ہوں اور سب مجھ سے اوپر ہیں۔ اور ان کی ان ہی باتوں نے ان کو لیڈر کے بجائے بھگوان بنا دیا ہے۔ اور دلتوں میں مایاوتی کی ذات کے علاوہ ہر ذات کے دلت مودی کی گود میں چلے گئے اور یادو کے علاوہ جتنی برادریاں ملائم سنگھ کے ساتھ آگئی تھیں وہ سب مودی کے ساتھ آگئیں۔

ہندو اور مسلمان اس وقت تک ایک دوسرے کے قریب رہے جب تک گورے ہندو اور کالے ہندو کے درمیان دیوار کھڑی رہی۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ عہدہ کے اعتبار سے بڑے ہندو کے ساتھ ذات کے اعتبار سے بڑے مگر عہدے کے اعتبار سے چھوٹے ہندو نے کھانا نہیں کھایا۔ اور اسی دفتر میں ہندو کے ساتھ مسلمان نے بیٹھ کر کھانا کھایا۔ ہندوئوں میں آریہ سماجی روشن خیال مانے جاتے تھے وہ چھواچھوت کے قائل نہیں تھے اور سناتن ہندوئوں کی تمام رسموں کے خلاف تھے۔ چودھری چرن سنگھ کے بیٹے اجیت سنگھ کا تلک آیا تو وہ محفل سے دور دروازہ سے پیٹھ لگائے ایسے بیٹھے تھے جیسے کوئی غیرآدمی ہو۔ محفل میں جب خاموشی دیکھی تو معلوم کیا کہ آپ سب چپ کیوں بیٹھے ہیں؟ ایک ساتھ کئی آوازیں آئیں کہ پنڈت جی کا انتظار ہے۔ چودھری صاحب نے کہا کہ دس پنڈت تو میں محفل میں دیکھ رہا ہوں۔ تم کاہے کے پنڈت ہو؟ تو سب نے اشلوک پڑھنا شروع کردیا اور پانچ منٹ ہوئے ہوں گے کہ چودھری صاحب نے کہا کہ بس کرو میں آریہ سماجی ہوں۔ اور جب سب کو برفی کھانے کے لئے دی اور تلک لگانا چاہا تو ہماری طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ میرے مسلمان ساتھی بھی ہیں ان کا لحاظ رکھنا۔ لیکن پھر یہ بھی دیکھا کہ پنڈت الگ ہوگئے جاٹ الگ ہوگئے اور کرمی الگ۔ شاید اس لئے کہ نریندر مودی نے آریہ سماجیوں کو مات دے دی۔

ڈاکٹر فریدی نے بھی چھیدی لال ساتھی کو جنرل سکریٹری بنایا تھا ایک سکھ کو نائب صدر بھی۔ جو نتیجہ ہوا سب کے سامنے ہے۔ اویسی صاحب اور مولانا ارشد میاں پارٹی بنالیں عام مسلمان بھی آجائیں گے اور خاص بھی مگر جب فیصلہ لاکھوں کی جیت اور ہار سے ہونا ہو تو ملک میں گنی چنی سیٹیں ہیں جہاں مسلمان اپنے بل پر جیت سکتے ہیں اور اتنا تو ہو بھی گیا۔ رہے کارپوریشن اور اسمبلیاں تو اس میں جیتنے سے کیا حاصل؟

ہم نہیں جانتے کہ اویسی صاحب نے شمالی ہند میں دھماکہ دار انٹری کا کیا نقشہ بنایا ہے؟ مولانا ارشد میاں نے درجنوں بے گناہوں کو جیل سے باعزت بری کرانے کا جو کام کیا ہے وہ اگر وہی کرتے تو وہ ملک میں اکیلے ہوتے لیکن مظفرنگر میں سیکڑوں مکان اور کیرالہ میں مکانوں کی تعمیر اور مرمت یہ اتنے بڑے کام ہیں کہ ان کا قد قطب مینار کو چھو رہا ہے۔ پروردگار انہیں صحت کے ساتھ عمر دے وہ انتخابی دنگل میں شاید خود ہی نہ آئیں اور اگر آنے کی اطلاع ہوئی تو ہم درخواست کریں گے کہ نریندر مودی کے سیاسی فیلڈ میں ہوتے ہوئے وہ صرف دعا کریں اور باقی خود کو مشورہ تک محدود رکھیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔