ثانیہ مرزا کو سب سے بڑا ایوارڈ ملنا چاہئے

حفیظ نعمانی

’’برائے مہربانی میرے لئے بیٹی کی دعا کریں بیٹے کی نہیں۔ ‘‘ یہ جملے میری بیٹی یا پوتی کہتی یا اور کسی عام آدمی کی بیٹی کہتی تو وہ ایک دو یا چار خاندانوں میں گونج کر رہ جاتے۔ لیکن یہ جملے پوری دنیا میں ٹینس کی ہیروئن کھلاڑی ثانیہ مرزا نے کہے ہیں جو اس ملک کی رہنے والی ہے جہاں ہزاروں لڑکیاں صرف اس لئے گھر سے نکال دی گئیں کہ انہوں نے بیٹا کیوں نہیں پیدا کیا؟ اور بیڈمنٹن کھلاڑی ہریانہ کی سائنا نہوال نے ایک بار کہا تھا کہ میں جب پیدا ہوئی تھی تو تین سال تک صدمہ کی وجہ سے میری دادی نے میرا منھ نہیں دیکھا تھا کیونکہ میں لڑکی تھی۔

میری بڑی بیٹی کی شادی ہوچکی تھی سنبھل سے جب خبر آئی کہ دو چار روز میں کوئی خوشخبری سننے کو ملے گی تو میری بیوی اور چھوٹی بیٹی سنبھل چلے گئے۔ جب کسی نے آکر میری بیوی سے کہا کہ نواسہ مبارک ہو تو چھوٹی بیٹی نے کہا یا اللہ ہم تو بھانجی کے شوق میں بھاگے ہوئے آئے تھے۔ وہ اس وقت چھوٹی تھی اور ہائی اسکول میں پڑھ رہی تھی۔ گھر میں اس وقت ہماری پھوپھی بھی موجود تھیں انہوں نے سخت لہجہ میں کہا کہ عالیہ بیٹی دوبارہ منھ سے یہ بات نہ نکالنا۔ تم نہیں جانتیں کہ ان کے گھروں میں گھی کے چراغ جل رہے ہوں گے کیونکہ ان کے گھر 30  برس کے بعد لڑکا آیا ہے اور لڑکیوں سے ان کا گھر بھرا ہوا ہے۔

میری وہی چھوٹی بیٹی جب شادی کے بعد مراد آباد چلی گئی اور پھر کئی برس کے بعد اسے پروردگار نے پہلا بیٹا دیا تو اس نے جو کہا ہوگا وہ اپنے پروردگار سے کہا ہوگا گھر میں کسی نے نہیں سنا۔ پھر وہ شوہر کے ساتھ جدہ چلی گئی اور معمول بنا لیا کہ دو دن کی ہر ہفتہ کی چھٹی میں یا اپنے بھائی کے پاس مدینہ چلی گئی یا مکہ معظمہ میں عمرہ کرنے یا جمعہ کی نماز پڑھنے چلی گئی۔

دوسرے بچہ کی ولادت کے وقت وہ ہندوستان آگئی اور فاطمہ میں داخل ہوگئی۔ یہ اس نے بعد میں بتایا کہ ہر نرس نے دوا دیتے وقت یا انجکشن لگاتے وقت یہ ضرور کہا کہ اوپر والا بیٹا دے گا تو میری بیٹی نے کہا کہ نہیں میری بیٹی آئے گی۔ اور یہ بات اتنی سنجیدگی سے کہی کہ نرسیں آپس میں چرچا کرنے لگیں۔  پھر جب اللہ کا انعام آگیا اور اسے نہلانے کے بعد ایک نرس لے کر آئی اور کہا لیجئے۔ بی بی بیٹا مبارک ہو۔ تو میری بیٹی نے ہاتھوں میں لینے سے پہلے کہا کہ میں مان نہیں سکتی میں نے اپنے مولا کے گھر میں نہ جانے کتنی مرتبہ بیٹی مانگی تھی۔ میں نہیں مان سکتی کہ اس نے میری نہیں سنی؟ تب نرس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ بی بی جی لڑکی ہی ہے۔ اور میری بیٹی کی زبان سے شکر کے کلمے اپنے مولا کے لئے جاری ہوگئے۔

لیکن کوئی مقابلہ نہیں عالیہ اور ثانیہ کا ثانیہ مرزا نے یہ اتنا بڑا کام کیا ہے کہ اس کا انعام صرف پروردگار ہی اسے دے سکتا ہے۔ ہندوستان ہو پاکستان ہو یا بنگلہ دیش وہاں رہنے والے ہندو ہوں،  مسلمان ہوں یا سکھ بیٹی کی پیدائش پر مردوں کا یہ حال ہوتا ہے جیسے ان کے نامرد ہونے کی تصدیق ہوگئی اور عورتوں کا یہ حال ہوتا ہے جیسے ان کی بچہ دانی ہی لڑکا بنانے کے قابل نہیں ہے۔

ثانیہ مرزا کا کہنا ہے کہ میں چھ سال کی عمر سے کھیلتی آرہی ہوں دیکھنے والے میرے باپ سے کہتے تھے کہ خوب کھلائو کالی ہوجائے گی کوئی شادی بھی نہیں کرے گا۔ اس ثانیہ کا جب عروج نقابت بھی وہ اتنی خوبصورت تھی کہ خود اس نے کہا تھا کہ کیا خبر کھیل دیکھنے آتے ہیں یا کھلاڑی کو دیکھنے آتے ہیں۔  انٹرنیشنل مقابلوں کے دوران جو لباس اسے پہننا ہوتا تھا وہ مسلمانوں میں بحث کا موضوع بنا دیاہے اور بلاشبہ وہ قابل اعتراض ہے۔ لیکن کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس نے جو دنیا کے کروڑوں خاندانوں کو لڑکی کی عظمت کا یہ تحفہ دیا ہے پروردگار اس کے بدلے میں اس کے کون کون سے گناہ معاف کردے گا۔ لڑکی کے بارے میں جو کچھ پروردگار نے کہا ہے اور جو آقائے نامدارؐ نے کہا ہے اور جو ہندوستان کے مسلمانوں کا رویہ ہے اس میں ثانیہ مرزا کے جملے جہاد ہیں۔

ثانیہ مرزا کاکہنا ہے کہ آج بھی جب کوئی ملتا ہے تو معلوم کرتا ہے کہ آپ کا کوئی بھائی نہیں ہے؟ وہ صرف دو بہنیں ہیں اور اسے کوئی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ یہ اس لئے ہے کہ وہ اپنے کرکٹ کھلاڑی شعیب سے بھی زیادہ مشہور اور مقبول ہے۔ یہ بات وہ نہیں سمجھ سکتی کہ ایک عام لڑکی کو بھائی کا کتنا سہارا ہوتا ہے؟ جو باپ کے بعد بھی اور اس کی زندگی میں بھی اپنی بہن کے لئے اس کی طاقت ہوتا ہے۔

ہمارے آقا حضرت محمدؐ نے اپنی لخت جگر حضرت فاطمہؓ سے ان کی شادی کے بعد بھی جو تعلق رکھا کہ جب کہیں سے تشریف لاتے تھے تو پہلے مسجد میں تشریف لاتے تھے وہاں سے اپنی لخت جگر کے گھر اور اس کے بعد گھر تشریف لاتے تھے یا جب حضرت فاطمہ اپنے والد ماجد سے ملنے آتی تھیں تو فرط محبت میں کھڑے ہوکر ان کا استقبال کرتے تھے اور اپنی جگہ یا اپنے برابر ان کو بٹھاتے تھے۔ یہ ان کے لئے نمونہ ہے جو لڑکی سے شادی کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ اب اس کا اس گھر میں کچھ نہیں ہے۔

میں کتنا خوش نصیب ہوں کہ میرے چاروں بیٹے اپنی دونوں بہنوں کی جو پروردگار کے کرم سے انتہائی شان و شوکت کی زندگی گذار رہی ہیں اتنی ہی فکر رکھتے ہیں جتنی میں نے عمر بھر رکھی اور میری بیٹیاں اپنی بھاوجوں کے ساتھ وہی تعلق رکھتی ہیں جو بہنوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک بیٹا اپنی بیوی کے ساتھ حج کرنے گیا اور اپنے تین بچوں کو اپنی بہن کے پاس چھوڑ گیا اس لئے کہ تینوں کے اسکول کھلے ہوئے تھے۔ مسجد نبویؐ میں ایک پاکستانی خاتون نے میری بہو سے سلام دعا کے بعد تعارف چاہا انہوں نے تفصیل بنادی۔ بعد میں معلوم کیا کہ آپ کا کوئی بچہ نہیں ہے؟ میری بہو نے جواب دیا کہ ماشاء اللہ تین ہیں اور جب اس نے معلوم کیا کہ ان کو کہاں چھوڑا؟ تو بہو نے جواب دیا کہ نند کے پاس تو اس خاتون نے حیرت سے معلوم کیا کہ کیا نند سے بنتی ہے؟ میری بہو نے جواب دیا کہ بنتی تو ایسی ہے کہ میں اگر لکھ دوں کہ اب میں نہیں  آرہی ہوں تینوں کی تعلیم مکمل کراکے ان کی شادیاں کردینا تو وہ میرے مقابلہ میں زیادہ اچھی کردیں گی۔ مگر تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے۔ کاش ہر مسلمان کے گھر کا ماحول ایسا ہی ہوجائے کہ گھر کے بزرگ دعائیں دیتے چلے جائیں۔  آخر میں ایک بار پھر ثانیہ مرزا کو ان کے ان جملوں پر ان کو مبارکباد دوں گا شاید وہ جانتی بھی نہیں ہوں گی کہ انہوں نے کتنا بڑا کام کیا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔