دنیا کو اسلام اور مسلمانوں سے ڈر کیوں لگتا ہے؟

ایک مشہور حدیث ہے کہ ’’مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے لوگ محفوظ رہیں‘‘ مگر آج مسلمان کی پہچان دہشت سے ہے اور اگر وہ ریلوے اسٹیشن، ایئرپورٹ یا کسی عوامی مقام پر دیکھا جائے تو پولس اور انتظامیہ کی اس پر خاص نظر ہوتی ہے۔ معروف صوفی حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ سے کسی شخص نے پوچھا کہ کیا میں اس شخص کے ساتھ برا برتاؤ کروں جو میرے ساتھ بدسلوکی کرتا ہے؟ تو آپ نے منع کردیا اور فرمایا کہ اگر تمہاری راہ میں کوئی کانٹے بچھائے اور اس کے جواب میں تم بھی اس کی راہ میں کانٹے بچھاؤ تو ساری زمین کانٹوں سے بھر جائے گی۔تمہیں کانٹوں کے جواب میں پھول پیش کرنا چاہئے۔ حضرت نظام الدین اولیاء نے جو سبق دیا وہ انسانیت کا سبق تھا اور وہی اسلام کا سبق تھا مگر آج مسلمانوں نے اس درس کو اپنی زندگی سے نکال دیا تو ان کی پہچان بھی بدل گئی ہے۔ آج وہ انسانیت کے محافظ نہیں بلکہ تخریب کار اور دہشت گرد کی پہچان کے ساتھ جیتے ہیں۔ساری دنیا ان کی جانب شک وشبہے کی نظر سے دیکھتی ہے۔ امریکہ اسلاموفوبیا کا شکار ہے۔ برطانیہ کو مسلمانوں سے ڈر لگتا ہے۔ فرانس اہل توحید سے دہشت زدہ ہے۔ یوروپ کو اسلام کے نام سے خوف آتا ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ مغرب، مسلم ملکوں کے خلاف سازشیں کرتا ہے۔اس نے عراق کو تہس نہس کیا۔ افغانستان کو برباد کیا۔ پاکستان پر اس کی بری نظر ہے۔ایران کو تباہ وبرباد کرنے کی کوششیں کرچکا ہے۔ترکی کا نام سن کر اس پر وحشت طاری ہوجاتی ہے اور ساری مغربی دنیا اسلام کے خلاف متحد ہوجاتی ہے۔ دنیا بھر میں قرآنی تعلیمات کی غلط تشریح کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوششیں ہوتی ہیں اور میڈیا میں اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کیاجاتا ہے۔ دنیا بھر کے ٹی وی چینل اور اخبارات اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں اور سوشل میڈیا پر ان کے خلاف پرچار کیا جاتا ہے۔ان باتوں کا احساس ہرحساس مسلمان کوہوتا ہے اور وہ بے چینی محسوس کرتا ہے۔ وہ جاننا اور سمجھنا چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ دنیا بھر میں الگ قسم کا برتاؤ کیوں کیا جارہا ہے اور اسے شک کی نگاہ سے کیوں دیکھا جارہا ہے؟اسے دنیا کے وجود کے لئے خطرہ کیوں سمجھا جاتا ہے اور اس کے ساتھ بھید بھاؤ کیوں ہورہا ہے؟ وہ ساری دنیا میں مظالم کا شکار کیوں ہے اور اس کے ساتھ عام انسانوں جیسا برتاؤ کیوں نہیں کیا جاتا؟ ان تمام سوالوں کا جواب صدیوں کی تاریخ میں پھیلا ہوا ہے اور اگر اختصار میں سمجھنا چاہیں توایک حدیث پڑھ لیں۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک وقت وہ آئے گا جب ساری دنیا تمہاری طرف ایسے دوڑی آئے گی جیسے بھوکے ہر طرف سے کھانے پر ٹوٹ پرتے ہیں۔پوچھا گیا کہ کیا اس زمانے میں ہم بہت کم تعداد میں ہونگے تو اللہ کے رسول نے فرمایا کہ نہیں تم بہت زیادہ تعداد میں ہوگے مگر سمندر کی جھاگ کی طرح بے وقعت اور بے وزن ہوجاؤ گے۔جس کے سبب دشمنوں کے دل سے تمہارا ڈر نکل جائے گا اور تمہارے دل میں دنیا کی محبت اور موت کا خوف بیٹھ جائے گا۔ظاہر ہے کہ اس صورت حال کے لئے صرف اسلام مخالفین ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ خود مسلمان بھی ذمہ دار ہیں کہ انھوں نے اپنی منفی امیج بنالی ہے۔ اگر انھیں دہشت گردی کی طرف دھکیلا گیا تو وہ بھی اسی جانب چل پڑے، اگر ان کے خلاف سازشیں ہوئیں تو انھوں نے بھی ان سے نکلنے کی کوشش نہیں کی۔ مسلم ممالک مغرب کی سازشوں کے جال میں پھنس گئے اوراسے اپنا مقدر مان لیا۔ اس کا توڑ صرف علم وحکمت سے ہوسکتا تھا مگر مسلم دنیا اسی میدان میں سب سے زیادہ پیچھے ہے۔دنیا میں سب سے زیادہ قدرتی وسائل مسلم ملکوں کے پاس ہیں۔ سب سے زیادہ دولت انھیں ملکوں کی ملکیت میں ہے اور اگر وہ چاہتے تو دنیا کا ایک بھی شخص جاہل اور ناخواندہ نہیں رہتا ۔ ساری دنیا میں اسکولوں اور کالجوں کا جال بچھ جاتا مگر آج دنیا میں سب سے زیادہ ان پڑھ اور جاہل مسلمان ہیں اور سائنس وٹیکنالوجی میں تو ان کا کہیں نام ونشان تک نہیں ہے۔ جس قوم نے کبھی جابر بن حیان،ابو سینا، ابن رشد اور ابن ہیثم جیسے سائنسداں پیدا کئے تھے،جس نے حسن بصری، جنید بغدادی،جلال الدین رومی جیسے روحانیت داں پیدا کئے تھے، آج وہی قوم علمی تہی دامانی کا شکار ہے۔
صلیبی جنگوں کی تاریخ
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تاامروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی
اسلام کی چودہ سال کی تاریخ میں بار بار اسلام اور اس کے مخالفین کا ٹکراؤ ہوتا رہا ہے۔ عرب میں اسلام کے ظہور کے ساتھ ہی اس کے خلاف جنگوں اور سازشوں کا دور بھی چلتا رہا ہے مگر باوجود اس کے اسلام کا آفاقی اور انسانی پیغام دنیا کو متاثر کرتا رہا ہے۔ جب اسلام عرب سے نکل کر عجم تک پہنچا تو اس کا سب سے زیادہ ٹکراؤ عیسائیوں کے ساتھ ہوا، حالانکہ عیسائیت اور اسلام میں بہت سی مشترک قدریں تھیں اور دونوں ہی آسمانی اور الہامی مذاہب تھے۔ صلیبی جنگوں کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اسلام کے بڑھتے قدم کو روکنے کے لئے ہر ممکن کوششیں ہوئیں ،خون کی ندیاں بہیں اور لاکھوں انسانوں کا قتل ہوا۔ترکی اور اٹلی کا علاقہ اکثر ان جنگوں کا میدان بنتا رہا اور صدیوں تک ایک دوسرے کے خلاف کشمکش جاری رہی۔ بیشتر اوقات مسلمانوں کا ہی غلبہ رہا ان کے قدم مغرب کی طرف بڑھے مگر دوسری طرف سے بھی اس کا سختی سے مقابلہ کیا گیا۔ آخر کا رجب سلطنت عثمانیہ کمزور پڑی تومغرب کے حوصلے بلند ہوگئے اور اسے مزید کمزور کرنے کے لئے عرب میں آل سعود کے ساتھ لڑا دیا گیا۔ پھرعرب کے قلب میں ایک ایسی ریاست کا قیام عمل میں آیا جو مغرب کی پروردہ تھی اور اسی کے اشارۂ ابرو پر چلنے والی تھی ۔ پہلے سعودی عرب اور پھر اسرائیل کا قیام مغربی طاقتوں کی بالادستی کی علامت کے طور پر آج تک قائم ہے۔ ان دونوں ملکوں کی حفاظت کی ذمہ داری کا وعدہ آج تک مغرب نبھا رہا ہے اور یہ بھی خلیج عرب میں اس کے مفاد کی نگہبانی کر رہے ہیں۔
سازشوں کا دھنی مغرب
چونکہ مغربی ملکوں کی افزائش ہی اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی پر ہوئی تھی لہٰذا انھوں نے یہ سلسلہ نئے دور میں بھی جاری رکھا۔ جنگ کا انداز بدل گیا اور زندگی کی طرز تبدیل ہوگئی مگر جنگ جاری رہی۔ مغرب ہر دور میں سازشوں میں یکتا رہا ہے۔ قیصر روم سے لے کر موجودہ امریکہ تک کوئی دور ایسا نہیں ملے گا جب اس نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں نہ رچی ہوں۔ اس کی حکمت عملی کا یہ بھی ایک حصہ ہے کہ وہ اپنے دو دشمنوں کو آپس میں لڑاکر تماشہ دیکھتا ہے۔ اس کی تاریخ میں کئی مثالیں مل جائیں گی۔سویت یونین جب امریکہ اور اس کے حواریوں کے لئے خطرہ تھا تو اس کا ٹکراؤ مسلمانوں سے کرادیا گیا۔ افغانستان میں اس کے مداخلت کی حوصلہ افزائی کی گئی اور پھر وہ وقت بھی آیا جب دنیا کی ایک سُپر پاور اَن پڑھ اور ناخواندہ افغانیوں سے لڑ کر ختم ہوئی۔ انھیں امریکہ نے ہتھیار سپلائی کیا اور مجاہد کے خطاب سے نوازا مگر جب انھیں مجاہدین نے اس کے خلاف جہاد چھیڑا تو انھیں دہشت گرد قرار دے کر ساری دنیا میں اسلام کی رسوائی کا سامان کیا گیا ۔ چیچنیا کے مسلمانوں کو بھی روس کے خلاف کھڑا کیا گیا۔ عرب ملکوں کے مغرب نواز حکمرانوں کے بر خلاف جب شاہ فیصل نے دم خم دکھانے کی کوشش کی تو انھیں اپنے ہی بھتیجے سے مروادیا گیا۔ عراق اور ایران کی طاقت ابھری تو دونوں کو آپس میں لڑا کر برباد کرنے کی کوشش کی گئی۔ وہ پھر بھی بچ گئے تو صدام حسین کے استیصال کے بہانے عراق کو نیست ونابود کردیا گیا اور ایران پر پابندیاں لگا کر کمزور کرنے کی کوشش ہوئی۔ آج دنیا میں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے اور بہت سے مسلم اکثریتی ممالک ہیں مگر کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں بچا ہے جو امریکہ اور یوروپ کے سامنے سر اٹھانے کے لائق ہو۔ شام کی طاقت ابھر رہی تھی تو اسے کچل دیا گیا۔ مصر میں اخوان کا ظہور ہوا تو سنبھلنے سے پہلے ہی اس کے خلاف سازشیں کرکے حکومت کی باگ ڈور اپنے پٹھووں کے سپرد کردی گئی۔ ترکی کی موجودہ حکومت کے خلاف سازشیں جاری ہیں اور کئی بار فوج کو جمہوری حکومت کے مد مقابل لانے کی کوشش ہوچکی ہے۔ ترکی کے اسلام پسندمغرب کی آنکھ میں کھٹک رہے ہیں اور انھیں برباد کرنے کی سازشیں جاری ہیں۔ اصل میں یہ سب اسی صلیبی جنگ کا حصہ ہے جو صدیوں سے اسلام کے خلاف جاری ہے۔ اس جنگ میں صلیبی طاقتوں نے صہیونیوں کو بھی شامل کرلیا ہے جب کہ یہودی صدیوں تک مسلمانوں کے ساتھ میل محبت سے رہ چکے ہیں اور انھیں غارت کرنے کی تمام کوششیں عیسائیوں نے کی ہیں۔ مسلمان اور عیسائی بادشاہوں کی جنگیں کوئی نئی بات نہیں ہے مگر باوجود اس کے مسلمانوں کے خلاف جس قسم کا نفرت کا ماحول آج ہے ماضی میں کبھی نہیں رہا۔ مسلمانوں نے اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کو مقابلہ ہرزمانے میں انتہائی دانائی کے ساتھ کیا مگر آج صورت حال بدل چکی ہے ۔ مسلمان خود سازشوں کا شکار ہیں اور اپنی کم علمی کے سبب وہ خودپر ہونے والے حملوں کا جواب دانشمندی کے ساتھ نہیں دے سکتے۔ آج کی دنیا بدل چکی ہے اور آج ہتھیاروں سے جنگ کی نوبت کم آتی ہے۔ آج کی جنگیں علمی میدانوں
میں ہوتی ہیں۔ سائنس اور ٹینالوجی کے فیلڈ میں ہوتی ہیں مگر یہ جنگ وہی قوم لڑسکتی ہے جس کے پاس علم ودانش کی روشنی ہوگی۔ آج کی مسلم دنیا اس معاملے میں تقریبا کنگال ہوچکی ہے۔
میدان جنگ بدل چکا ہے
آج کے دور میں امریکہ سے یوروپ تک ہر جگہ اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے منفی ماحول پایا جاتا ہے جو صرف اس لئے پیدا ہوا ہے کہ عیسائی اور مسلمان صدیوں تک آپس میں ٹکراتے رہے ہیں۔ مغرب نے اسے دو تہذیبوں کی جنگ کا بھی نام دیا ہے۔ دہشت گردی تو صرف ایک ہوّا ہے جسے دوسرے شہریوں کو خوف زدہ کرنے کے لئے کھڑا کیا گیا ہے۔ اسی خوف کے نتیجے میں ساری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اقدام کئے جارہے ہیں۔ کہیں قرآن پر پابندی کا مطالبہ کیا جارہا ہے تو کہیں مسجدوں کی تعمیر میں رخنہ ڈالا جارہا ہے۔ کہیں مسجدوں کی میناروں کو ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیا جارہا ہے تو کہیں حجاب کو مغربی تہذیب کے خلاف سمجھا جارہا ہے۔ مسلم ملکوں کو آپس میں ٹکرانے کی کوشش اور مسلم عوام کو شیعہ۔سنی کے نام پر لڑانے کا کام ان دنوں بہت زور وشور سے جاری ہے۔ علاوہ ازین ٹی وی چینلوں، اخبارات، کتب اور سوشل میڈیا پر تو گویا اسلام مخالف مواد کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ عرب ممالک کے پاس دولت ہے اور وہ ان جنگوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔جرمنی میں عوام کے ٹیکس کا۸ فیصدچرچ کو جاتا ہے جو اس سے ساری دنیا میں سماجی کام کرتا ہے،ایسا عرب کے تیل مالکان کیوں نہیں کرسکتے؟ خاص طور پر جو کچھ انٹرنیٹ اور عالمی میڈیا کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کی تصویر کو مسخ کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں اس کا بہتر ڈھنگ سے مقابلہ عرب حکمراں کرسکتے تھے۔ وہ اگر اپنی دولت کا ایک فیصد حصہ بھی خرچ کردیں تو مسلمانوں کے پاس کئی بی بی سی اور سی این این جیسے چینل آجائیں اور گوگل ووکی پیڈیا سے بڑے بڑے سرچ انجن تیار ہوجائیں، بڑے بڑے اخبارات ہوں مگر وہ ایسا نہیں کرسکتے کیوں کہ وہ اسی سازش کا حصہ ہیں جس کے تحت نہ صرف مسلمانوں پر حملہ کیا جاتا ہے بلکہ انھیں دفاع کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔ آج میدان جنگ بدل چکا ہے، اسلحے تبدیل ہوچکے ہیں اور جنگ کا میدان بھی مختلف ہے۔ آج لڑائی کے لئے ہتھیار سے زیادہ علم کی ضرورت ہے اور حکمت کی حاجت ہے۔مسلمان علمی طریقوں سے اپنی امیج بدل سکتے ہیں اور ایک بار پھر اپنی شوکت رفتہ کو پاسکتے ہیں مگریہ تب ہی ممکن ہوگا جب انھیں احسا س ہوکہ انھوں نے کیا کھویا ہے؟
رکارہوں تو مجھے منزلیں پہاڑ لگیں
چلوں تو راہ گزر مختصر دکھائی دے

(مضامین ڈیسک)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔