دین کا کام کرنے والی واحد جماعت بھی سیاسی بن گئی

حفیظ نعمانی

دہلی کی بستی نظام الدین میں بنگلہ والی مسجد اور اس سے ملے ہوئے ایک مدرسہ میں کاندھلہ کے ایک بزرگ حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی نے بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ ان کے بھائیوں اور باپ کو بھی دین کی ابتدائی باتیں سکھائیں اور انہیں نماز روزہ کا پابند بنایا۔ حضرت مولانا نے وہاں آنے والے میواتیوں کا جب حال دیکھا تو حضرت کے دل پر چوٹ لگی کہ وہ اپنے کو مسلمان کہتے ہیں مگر اسلام کی ایک بات بھی نہ جانتے ہیں نہ عمل کرتے ہیں۔

یہ 1920 ء کے آس پاس کی بات ہے کہ حضرت مولانا الیاس نے ان میواتیوں کو اسلام پر عمل کرانے کے لئے ان سے ملنا جلنا شروع کیا۔ حضرت مولانا الیاس کو بولنے میں کچھ تکلف ہوتا تھا وہ خطیب العصر یا شعلہ بیان مقرر نہیں تھے بس اپنے دل کی بات درد بھرے انداز میں کرلیا کرتے تھے۔ تبلیغی جماعت جسے کہا جاتا ہے اس کا قیام اس طرح نہیں ہوا کہ مخصوص اور عام مسلمانوں کو جمع کیا جائے، اخبارات میں اس کی ملت کو اطلاع دی جائے اور متعین تاریخ کو کسی مخصوص مقام پر سب جمع ہوں اور دو دن یا کم زیادہ مذاکرات ہوں اور ایک جماعت کی بنیاد رکھی جائے جس کا ایک صدر دو نائب صدر ایک جنرل سکریٹری اور دو سکریٹری اور ایک خازن ہو اور کام شروع کردیا جائے۔

حضرت مولانا الیاس نے میوات کو اپنا نشانہ بنایا اور دل کے درد اور دعاؤں کی پوری طاقت لگادی اور میوات میں دین کی فضا قائم کرنے میں اللہ تعالیٰ نے کامیابی عطا فرمائی یہ سیدھے، ان پڑھ مگر دل سے اطاعت کرنے والے میوات کے حضرات کا ہی تحفہ ہے کہ حضرت مولانا الیاس ان کے بعد حضرت مولانا یوسف اور ان کے بعد حضرت مولانا انعام الحسن اور ان کے بعد جو بھی بڑا رہا اسے سب نے حضرت جی کہا اور اب ان کے پڑپوتے مولانا سعد حضرت جی ہیں خیال رہے کہ حضرت جی کا لفظ بھی میوات کے میاں جی کا تحفہ ہے۔ اور انتہائی دُکھ کی بات ہے کہ اخبارات میں خبر آرہی ہے کہ سعد گروپ نے اورنگ آباد کے تبلیغی اجتماع کو کامیاب کرانے کے لئے اپنی پوری طاقت جھونک دی۔ اور اسی سے عام مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ تبلیغی جماعت میں کوئی دوسرا گروپ بھی ہے یعنی تبلیغی جماعت بھی کانگریس، سوشلسٹ پارٹی اور جنتا دل کی طرح پھٹ چکی ہے اور اس میں بھی دو گروپ ہوگئے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تبلیغی کام کرنے والوں کے درمیان اختلاف ہوگیا ہے۔ ایک طبقہ وہ ہے جو اُسے حضرت مولانا الیاس کی وراثت مانتا ہے اور وہ اُن کے پڑپوتے، مولانا یوسف صاحب کے پوتے کو وارث مانتا ہے۔ لیکن ایک طبقہ وہ ہے جو اس وقت تبلیغی کام سے جڑا ہے جب حضرت مولانا یوسف صاحب امیر یعنی حضرت جی تھے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں بولنے کی اتنی طاقت عطا کی تھی کہ ان کے والد کا حصہ بھی شاید ان کو عطا کردیا گیا تھا۔ وہ جب اور جہاں بولتے تھے تو قاضی عدیل عباس جیسے زمانہ شناس بھی کہتے تھے کہ وہ جادوگر ہیں۔ ان کی تقریر سننے کے بعد اور انہوں نے جو کہا ہے اسے ماننے کے بعد اگر عمل نہ کیا گیا تو نجات ممکن نہیں ہے۔

حضرت مولانا یوسف صاحب نے ہندوستان میں انگریزی داں طبقہ کو مخاطب کرکے اپنے کام میں لگایا اور پوری دنیا کا سفر کرکے ہر ملک میں انتہا یہ ہے کہ سعودی عرب اور مسلم ملکوں میں بھی تبلیغی کام میں لوگوں کو لگا دیا۔ یہ بات ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ دارالعلوم دیوبند یا ندوۃ العلماء میں تبلیغی کام کا اتنا اثر نہیں ہے جتنا مسلم یونیورسٹی اور جامعہ میں ہے۔ اور اختلاف کی وجہ یہی ہے کہ یونیورسٹیوں اور کالجوں کے پروفیسر اور انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ اسے تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہے کہ وہ مولانا سعد جو کبھی سامنے نہیں آئے انہیں کیسے سب سے بڑا امیر یا حضرت جی تسلیم کرلیا جائے۔

ہم نے مولانا سعد کو نہ دیکھا نہ سنا لیکن گذشتہ سال سنبھل میں تبلیغی جماعت کا عالمی اجتماع ہوا تھا اور سنبھل ہمارا گھر ہے وہاں کے ہزاروں لوگ رات دن لگے رہے اور 35 لاکھ حضرات شریک بھی ہوئے جن میں مسلم یونیورسٹی کے حضرات اور وہ طبقہ جو وراثت کو نہیں مانتا وہ نہیں تھا۔ ایک بات جو زیادہ فکر کی ہے وہ یہ معلوم ہوئی کہ مولانا سعد اپنے دادا کی طرح جادو بیان مقرر نہیں ہیں اور ان کی تقریر عام فہم نہیں ہوتی۔ سنبھل میں جب گئے تو معلوم ہوا کہ اگر صرف ان کی تقریروں تک اجتماع محدود رہتا تو ہوسکتا ہے کہ قرب و جوار سے جو لاکھوں لوگ آئے تھے وہ ایک دن کے بعد ہی چلے جاتے ہمارے چچازاد بھائی مولوی عبدالمومن منجھے ہوئے مقرر ہیں اور یہ ہم جانتے ہیں کہ وہ تبلیغی آدمی نہیں ہیں علمی آدمی ہیں اور ایک بڑے مدرسہ معاون اسلام سنبھل کے سربراہ بھی ہیں اور استاذ بھی انہوں نے مائک ہاتھ میں لیا اور ان کی تقریروں سے مجمع قابو میں آیا۔

تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے ہی بتایا ہے کہ جماعت دو حصوں میں بٹ گئی ہے اور صوبے تقسیم ہوگئے ہیں گجرات کے بارے میں جو مہاراشٹر سے ملا ہوا صوبہ ہے یہ معلوم ہے کہ وہ مولانا سعد کے مخالف گروپ کا ہے اب اورنگ آباد کے اجتماع کی یہ تفصیل کہ ہندوستان سے باہر کے 70 ہزار لوگ شریک ہورہے ہیں یا 87 لاکھ فٹ زمین پر شامیانے لگائے گئے ہیں اور ڈھائی ہزار فٹ پر اسٹیج بنایا گیا ہے یا آخری دن دس لاکھ لوگ جمع ہوسکتے ہیں سے اندازہ ہورہا ہے کہ مہاراشٹر بھی سعد مخالف گروپ کے قبضہ میں ہے کیونکہ سنبھل صرف پانچ لاکھ آبادی کا شہر ہے اور ہر طرف سے کٹا ہوا ہے کہیں سے ٹرین نہیں آتی تب وہاں ہمارے گھر کے لوگوں کے بیان کے مطابق اجتماع میں 35 لاکھ مسلمان شریک ہوئے تھے اور دعا میں اس سے بہت زیادہ تھے۔ حضرت مولانا الیاس نے تبلیغ کا کام اللہ کے لئے شروع کیا تھا یہ اس کی بدنصیبی ہے کہ واقف لوگ بتاتے ہیں کہ اب ہر فیصلہ آنے والی دولت کیلئے ہورہا ہے ہمیں یقین ہے کہ حضرت مولانا یوسف حیات ہوتے تو کام کو بند کردیتے ہم نے دور رہ کر بھی جو کچھ قریبی لوگوں سے سنا ہے اسے سن کر اور معروف صحافی افتخار گیلانی کے مضامین پڑھ کر دعا کی ہے کہ پروردگار جماعت کے بانیوں کو یہ منظر نہ دکھائے۔

ہم اکابرین جماعت کے بہت قریب رہے ہیں اور اندر کے حالات سے برابر واقف ہوتے رہے ہیں۔ بلاشبہ یہ دین کا ایسا کام تھا جس نے نمازیوں سے مسجدیں بھردیں روزہ اور عمرہ عام کردیا اور ہر کام کی طرح اس کو بھی نظر لگ گئی اور اب وہ سب ہورہا ہے جو دین نہیں ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    محتاط طور پہ کہا جاسکتا ہے کہ تبلیغی جماعت پہ کنٹرول کی حالیہ لڑائی میں ایک کیمپ اس جماعت کی برصغیر پاک و ہند کے کم شدت پسند اور تصوف کے قریب مذہبی شناخت کو بحال کرنے کا حامی ہے تو دوسرا اسے وہابیت کے قریب ریڈیکل مذہبیت کے رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کررہا ہے۔
    اس لڑائی کے پیچھے بہرحال تبلیغی جماعت کے بہت بڑے اثاثوں اور نیٹ ورک پہ کنٹرول کی جنگ ہے۔

تبصرے بند ہیں۔