سفید پوشوں کی بد دیانتی اور ظلم کا انجام

محمدصابر حسین ندوی

  وہ برق لہر بجھا دی گئی ہے جس کی تپش 

وجود خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی 

بچھا دیا گیا بارود اس کے پانی میں 

وہ جوئے آب جو میری گلی کو آتی تھی 

سبھی دریدہ دہن اب بدن دریدہ ہوئے 

سپرد دار و رسن سارے سر کشیدہ ہوئے 

بلی اب تھیلے سے باہر آچکی ہے، اس حمام میں سبھی ننگے ہوچکے ہیں، زمانہ بھر میں ان کی مٹی پلید ہوچکی ہے، چہار دانگ عالم میں کہرام برپا ہے، ہفت اقلیم میں ہر اسلام کا حامی اور اس کے نام پر جینے مرنے کی قسمیں کھانے والا غمگین ہے، وہ اپنے درد و کراہ اور باطنی بے چینی و بے اطمینانی کو حتی المقدور ظاہر کر رہے ہیں؛ حتی کہ عالمی برادری میں بھی سعودی جارحیت کا شہرہ ہے، خاشقنجی صحافی کے قتل میں محمد بن سلمان کے خلاف تمام دلائل و شواہد اور براہین دن کے اجالے سے بھی زیادہ واضح اور بین ہوکر سامنے آچکے ہیں؛ لیکن اب بھی ایک بڑا طبقہ اپنے لب سی کر بیٹھا ہے، ان کے ہاتھ شل ہوچکے ہیں، ان کے دماغ مختل اور ذہن اپاہج ہوچکے ہیں، وہ اب بھی ریال پرستی کے حصار میں قید ہیں، ان کی اشارات کو بھی کرامت سمجھ بیٹھے ہیں، ان کے دلوں میں ان کی عزت و تکریم کا لاوا پھوٹ رہا ہے، دعوتیں توڑنے کو شرف سمجھ کر خوب داد حاصل کی جارہی ہے، ان کے حق میں قصیدےپڑھے جارہے ہیں، انہیں خادم الحرمین الشریفین کا لقب دے کر مصلحت کی چادر میں دبک گئے ہیں، ان کے سامنے ظاہری زیبائش و نمائش ہی پیمانہ حق بن کر رہ گئی ہے۔

حال تو یہ ہے کہ کعبہ مکرمہ کے سایہ میں صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے توقیری کی جاتی ہے، ان کے خصائص ’’محدث و ملھم‘‘ کو فاسق و فاجر اور قاتل محمد بن سلمان کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، اور ” ان یک ” کی تعبیر استعمال کی جاتی ہے؛ لیکن اس کے باوجود ان سفید پوشوں اور ریال کے پجاریوں کو تاویلات کی سوجھی ہوئی ہے، وہ اب بھی دلائل کی تفتیش اور کتب خانوں کی گرد چھان کر اور کسی کہنہ کتاب کی ورق گردانی کر کے راہ فرار کی سطر ڈھونڈ رہے ہیں، اور انہی قدیم مراجع کے حوالے تلاش کر کے اپنا تکیہ سنبھالنے کی کوشش کی جارہی ہے، انہیں تذبذب ہے کہ شیخ سدیس کیونکر علمائے سوء ہو سکتے ہیں؟ ان کے سامنے وہ سب ظاہری دلائل اور عبارتوں کا سہارا ہے جن میں غیر اہل سنت والجماعت کو علمائے سوء ہونے کا دعوی کیا گیا ہے، لیکن وہ نادان کیوں نہیں سمجھتے !یہ تعریفیں واصطلاحات کوئی منزل من اللہ نہیں ہے، کوئی منصوص قطعی نہیں ہے؛ بلکہ اس سے مراد ہر وہ شخص ہے جو علم کے سمندر میں غوطہ لگا کر بھی خشک نکل آئے، اس کے اندر اسلام کی غیرت وحمیت کے بجائے باطل کی محبت و عقیدت پیدا ہوجائے، اس کا عقیدہ ایک خدا کی حاکمیت سے ہٹ کر دوسروں کی حاکمیت کی سالمیت پر توجہ مرکوز ہوجائے۔

ہر وہ عالم علمائے سوء کہلائے گا، جو قرآن و حدیث کو سینہ میں بسا کر باطل پرستوں کیلئے تاویلات کا سہارا لے، حق و رشد کی وضاحت کے باوجود ظلمت کا ساتھ دے، جو ممبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ناحق استعمال کرے، جس کے اندر خدائے عزوجل کا لازوال یقین ہونے کے باوجود عالمی سپر پاور کو ملجا و ماوی جانے، جو بندوقوں اور توپوں سے ڈر کر اور اسلام مخالف لہروں سے خوف کھا کر ان ہی کے خیمہ میں جا گرے، ہر وہ شخص علمائے سوء کہلائے گا جس نے خدائے عزوجل کی قادریت و رزاقیت یا کسی بھی صفت کو کسی انسان کے ساتھ خاص کیا ہو؛ خواہ یہ اعتقادی ہو یا عملی ہو،اور اپنے وجود کا سراپا اس کے حوالے کردے، تاریخ میں جس کسی نے ایسا کیا بالاتفاق انہیں اسی زمرے میں شامل رکھا گیا، ابوالفضل سے لے کر فیضی تک سبھوں کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے ’’بثمن قلیلا” پر دین کا سودا کردیا، اور ” بخس معدودة” کو ہی حرص جان بنا لیا، چنانچہ متفقہ یہ بات کہی جاسکتی ہے؛ کہ ایسےمسلمان اور علماء غدار و خائن اسلام کے پوشاک میں شرمساری کا باعث ہیں، ان میں حق کو چھپانے اور باطل کے تلوے چاٹنے کی خصوصیت ہے، اسی لئے وہ علمائے سوء ہیں، ان کا انجام نیک کاروں میں ہونا دشوار معلوم ہوتا ہے، ظاہر ہے جس نے دین کو رسوا کیا خدا اسے کیونکر سرخرو کرے گا؟  ان الله عزيز ذوانتقام.

  اگر ان سفید پوشوں اور علمائے سوء کو یہ گمان ہے کہ وہ اپنے مکر وفریب سے ہاتھوں کی سرخی مٹادیں گے،پاکبازی وتقدس کے نام پر جرم عظیم کو طاق نسیاں پر رکھ دیں گے،چمکدار جبے اور چوغے کے ذریعہ خاشنجی کی سسکتی آہوں اور بلکتی چیخوں کو دبا دیں گے،تو یہ ان کی غلط فہمی ہی نہیں ؛بلکہ نادانی اور حماقت ہے،ریال کی کھنک اور سونے کی دمک میں خون کا دھبہ اگر چہ صاف ہوجائے، ناموس صحابہ رضی اللہ عنہ کے اوصاف حمیدہ کو نالائق شاہ سے چسپاں کر کے اگرچہ آنکھوں میں دھول جھونک دی جائے ؛لیکن خدائی نظام عدل و انصاف سے کیسے چھٹکارا پائیں گے،جس کے نزدیک عہدے و مناصب کا کوئی دخل نہیں، جس کے سامنے دولت وثروت کا کوئی معنی نہیں، جس کے نزدیک گورے اور کالے کا کوئی امتیاز نہیں،اس کے دربار شاہی میں کون ٹرمپ آئے گا؟جو داغدار دامن کو صاف کرے!،جو اس کی ہولناکی اور غضب پر پردہ ڈالے،حرمین شریفین کی آڑ لے کر غندہ گردی کرنے والے اس کے سامنے کس اسرائیل کو پیش کریں گے؟ کون ان کا والی ومدد گار ہوگا؟ اور کون ان کا حامی و ناصر ہوگا؟۔

تاریخ گواہ ہے کہ ظالم کا ظلم کتنا ہی بڑھ جائے، وہ سمندر کی سی گہرائی اور پہاڑوں کی سی بلندی ہی کیوں نہ پالے اسے نیست و نابود ہو کر رہنا ہے، اس کی فطرت میں زیر زمیں کا خمیر ہے، اس کا وجود ہی مٹ جانے کیلئے اور برباد ہوجانے کیلئے ہے، وہ سر سبزی و شادابی میں آتش فشاں لئے بیٹھا ہے، اس کے خوبصورت جبہ ودستار کے دامن میں سانپ ہے، جس کا زہر اسے ڈس کر ختم کر کے رہے گا، دنیا کی نہ جانے کتنے ظالمانہ نظام نے دنیا کو اپنی انگلیوں اور بھنووں و ابروں کے اشارے پر چلانا چاہا؛ نہ جانے کتنوں نے اس کے آزادوں کو غلامی کی بیڑی پہنائی اور نہ جانے کتنوں نے خدا کی نعمتوں پر اجارہ داری قائم کر کے بقیہ مخلوقات کو اپنا دست نگر بنا دیا؛ لیکن ان سب کا انجام قبر کی دو گز زمین اور آسمان کی چھت کے سوا کچھ نہ ہوا، وہ خود دنیا کیلئے نشان عبرت بن گئے، یہاں تک کی بہت سوں کو زمین و آسمان نے قبول کرنے سے بھی انکار کر دیا، ان کے وجود کو ہر ایک ذرہ نے بوجھ اور زائد سامان سمجھ کر پھینک دیا، سمندروں کی گیرائی ان کیلئے کم پڑ گئی، دشت کی پیمائی و ریگ بے معنی ہوگئے، پہاڑ و جبل کی اونچائی بھی ان کے سامنے بونے لگنے لگے۔

فرعون کو کون نہیں جانتا؟ بادشاہ مصر کا بے تاج بادشاہ اور دنیا کا عظیم حکمران آج بھی پوری انسانیت کیلئے باعث عبرت بنا ہوا ہے، ان سب کے درمیان اگر کوئی حقیقت زندہ تھی اور ہے اور رہے گی تو وہ صرف اور صرف حق کی سر بلندی ہے، خدائے وحدہ کا نظام عدل و مساوات ہے، اس کے ماننے والے خواہ کتنے ہی کمزور ہوں، ان کے سامنے دنیا کی ہر قیمت زیادہ اور حیثیت بلند تر معلوم ہوتی ہو؛ لیکن اصل اوقات انہیں کی ہوتی ہے، ان کیلئے بقا ودوام ہے، انہیں کیلئے انجام خیر ہے، ان کی حالت اس مشک کی سی ہوتی ہے جسے جتنا ہی گھسا جائے، جسے جتنا ہی رگڑا جائے وہ اسی قدر خوشبو بکھیرتا ہے، اسی قدر اس کی بھینی بھینی خوشبو مشام جان کو معطر کرتی ہیں، وہ اس گلاب کی طرح ہوتے ہیں، جنہیں مسل دیا جائے، اس کا عرق نکال دیا جائے؛ لیکن وہ اپنی خوشبو پھیلائے بغیر نہیں رہتا، دنیا کی کوئی نیو کلیر ہتھیار، جدید سے جدید آلات اور ایڈوانس اسلحوں میں وہ قوت نہیں؛ جس کے اندر اس کے وجود کو خاک کر دینے کی صلاحیت ہو، دنیا کی کوئی بھی سرکش قوم و سفاک ملک میں وہ سکت نہیں جو انہیں صفحہ ہستی سے مٹا سکے، نہ کتنے انہیں مٹانے والے اپنا عزم و خواب سینہ میں دبائے دفن ہوگئے۔

 آج پھر ایک ظالم اسلامی لباس میں ملبوس ہوکر، حرم مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی سرزمین کو اپنا جامہ و چوغہ بنا کر رونما ہوا ہے، جس کے ہاتھوں انصاف کا خون ہوا ہے، جس نے ظلم و بر برتا کے ذریعہ انسانی جان کی ناقدری کی ہے، اسے کیڑے مکوڑوں کی طرح مسل دیا ہے، اس کی لاش کے ٹکڑوں کو منتشر کر کے عند اللہ بھی بچ نکلنے اور دنیا کے تمام تنگ نظروں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر معصومیت کا لبادہ اوڑھے رہنا کا گمان ہے، اس کیلئے اس نے اپنے شیطانی ٹولے سے بھی مدد مانگی ہے، شیطانیت کی مجلس مشاورت منعقد کی گئی ہے، اور ریال کے زور پر ظلم کا دہانہ بند کرنے اور خون سے لت پت اپنے ہاتھوں کو آب زمزم سے دھوکر پاک و مبرا بننے کی کوشش جارہی یے، اور ساتھ ہی ساتھ مرکز خلافت عثمانیہ ترکی اور امت مسلمہ کی محبت کا محور جناب طیب اردگان صاحب مد ظلہ العالیہ پر چھینٹا کشی کرنے اور اپنے انہیں اسلام مخالف گردان کر تمام اسلام کو ورغلانے کی انتھک سعی جاری ہے، نیک نیت و طبیعت علماء کو جیلوں میں ٹھونسنے والے اور حرم کی بے عزتی کرنے والے کیا جانیں کہ تاریخ ان جیسوں کا کیا انجام کرتی ہے، ظلم کا کلائی کیسے مروڑ دی جاتی ہے اور کیسے ایسی دیوس صفتوں کو قصہ پارینہ بنا دیا جاتا ہے۔

یہاں پر جناب فراز احمد فراز یاد آتے ہیں، جو اگر چہ مایاناز غزل گو شاعر ہیں، جن کے الفاظ و انداز پیرہن سے دل کے تار بجنے لگتے ہیں، اور وہ ساز چھڑتا ہے؛ کہ اس کے سامنے ہر راگ بے کار اور بے سود معلوم ہونے لگتا ہے؛ لیکن اسی شاعر نے زندگی ایک حیرتناک حقیقت کا اظہار کیا اورکیا خوب کیا ہے، بلکہ سنت اللہ اور قانون الہی کا تذکرہ بڑی صفائی و حقیقت بینی سے کیا ہے، اس نے اپنی قادر الکلامی اور انتخاب الفاظ کے ساتھ مضمون کو اس انداز سے پرو دیا ہے؛ کہ پوری تاریخ چشم حیراں ہے، آپ ان کے اشعار پڑھئے اور ظالموں کا انجام، چاپلوسی و تملق اور حقیقت پرستوں کا حال سنئے اور سمجھئے!

قلندران وفا کی اساس تو دیکھو

  تمہارے ساتھ ہے کون آس پاس تو دیکھو 

سو شرط یہ ہے جو جاں کی امان چاہتے ہو 

 تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو 

وگرنہ اب کے نشانہ کمان داروں کا 

 بس ایک تم ہو سو غیرت کو راہ میں رکھ دو 

یہ شرط نامہ جو دیکھا تو ایلچی سے کہا 

 اسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے 

کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے 

 تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے 

2 تبصرے
  1. یاسر اسعد کہتے ہیں

    اچھی بھڑاس نکالی ہے دل کی، ابنائے ندوہ ودیوبند فی الحال بھگوائی نقش قدم پر چل رہے ہیں، جس طرح بھگوا پارٹی کے نزدیک اہم امور کو چھوڑ کر صرف دیش بھکتی کا ڈھنڈھورا ھے اسی طرح اب یہ حضرات اپنے مخالفین کو ریالی کے نام سے موسوم کرتے ہیں.
    مملکت سعودیہ کا محافظ اللہ ہے، آپ پوری قوت سے چلا لیں، تبرا کرلیں، رافضیت کی خایہ برداری کرلیں، سعودیہ کے سامنے اس کا روشن مستقبل چمچما رہا ہے، آپ چیخ کر اپنا گلا خراب کرلیں، مر جائیں، سعودیہ زائل ہونے والا نہیں. 😊
    آپ کی گالیوں کے لیے تیار

  2. معاذ دانش کہتے ہیں

    یہ توحید کی برکت ہے کہ سعودی عرب آج نہ صرف زندہ ہے بلکہ عالم اسلام کی مدد اور اسلام کی نشرو اشاعت میں پیش پیش ہے پوری دنیا کی نگاہیں سعودی عرب پر ٹکی ہوئی ہیں جبکہ روافض اس کی تذلیل کے لئے پوری قوت کے ساتھ جد وجہد کر رہے ہیں لیکن ان سب کی کوششیں تقریباً ناکام ہوچکی ہیں اور انہیں منہ کی کھانی پڑی …حق ہمیشہ غالب ہوتا ہے.

تبصرے بند ہیں۔