عالمی سیاست کا مفاد پرستانہ رویہ اور عالم عرب کی تباہی !

عمر فراہی

کچھ دو مہینے پہلے جب طیب اردگان نے ہمارے ملک کا دورہ کیا تو سرکاری سطح پر ایک طاقت ور مسلم ملک کے سربراہ کا جو استقبال ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا۔لیکن اردگان سےایک ہی مہینے پہلے ایک غریب اور کمزور مسلم ملک بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ کا ہمارے وزیراعظم مودی جی خود ان کا استقبال کرنے ایر پورٹ گئے اورمیڈیا نے بھی خوب پذیرائی کی۔ ہماری حکومت نے ایک چھوٹے سے مسلم ملک کی سربراہ کو اتنی اہمیت کیوں دی اور طیب اردگان میڈیا کی توجہ کا سبب بھی نہیں بن سکے تو ،اس کی وجہ ملکوں کےاپنےاپنے نظریاتی مفاد اور ترجیحات کا بھی عمل دخل ہے ۔تبصرہ نگاروں کا اس تعلق سے خیال ہے کہ حسینہ واجد نے شروع سے اپنی شبیہ ایک اسلام دشمن حکمراں جیسی بنا رکھی ہے ،جس نے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے کئی معروف رہنماؤں کو پھانسی کی سزا دیکر اپنی اسلام دشمن ذہنیت کو آشکار بھی کردیا تھا۔ اس لئے ہمارے ملک کے میڈیا اور سرکار کی طرف سےجو کہ اسلام فوبیا میں مبتلا ہے شیخ حسینہ واجد کا پرجوش استقبال کرنا فطری بات تھی۔

اس کےعلاوہ پاکستان جو کہ اپنے وجود کے بعد سے ہی ہماری سرحدوں پر شر انگیزی کرتا رہا ہےاور اس کی اسی شرارت کی وجہ سےاندراگاندھی نے حسینہ واجد کے والد مجیب کے ساتھ مل کر پاکستان کو جوسزا دی تھی دونوں ملکوں کے ایک دوسرے پر احسانات بھی ہیں ۔حالانکہ اب کون کس کے احسانات کو نبھاتا ہے جبکہ اسی جنگ میں اگر روس نے اندراگاندھی کا ساتھ نہ دیا ہوتا تو بھارت کیلئے یہ جنگ مہنگی پڑ سکتی تھی۔ مگر سوویت روس کے زوال کے بعد ہم نے اپنی وفاداری کا رخ امریکا اور اسرائیل کی طرف موڑ دیا۔چونکہ طیب اردگان کی اپنی شہرت اور شبیہ نہ صرف ایک اسلام پسند رہنما کی طرح ہے بلکہ وہ جب سے اقتدار میں آئے ہیں ان کی مقبولیت اور ترکی کی ترقی سے اسرائیل بھی خوفزدہ ہے۔ممکن ہے مودی جی جو حال ہی میں اسرائیل کے دورے سے واپس آئے ہیں طیب اردگان کا پرجوش استقبال کرکے اسرائیل کو ناراض بھی نہ کرنا چاہتے رہے ہوں ۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ چین اور پاکستان بھارت کے سب سے بڑے حریف ہیں ،سرحدی تنازعے کی وجہ سے ان ممالک سےجنگ کے خطرات بھی منڈلاتے رہتے ہیں۔

ایسے میں جنگی حکمت عملی کے حصول کیلئے اسرائیل بھارت کا اہم معاون ہوسکتا ہے۔جیسا کہ اس وقت بھارت کا بیالیس فیصد ہتھیار اسرائیل سے ہی خریدا جارہا رہا ہے۔اسرائیل چونکہ پاکستان کے ایٹمی اسلحے سے بھی خوفزدہ ہے اس لئے یہ بات یقینی ہے کہ وہ بھارت پاکستان کی جنگ میں اپنے مفاد کے تئیں بھارت کی ہر ممکن مدد کریگا ۔جیسا کہ ایک بار اسرائیل اندراگاندھی سے پاکستان کے ایٹمی ری ایکٹروں کو تباہ کرنے کیلئے ہماری زمین کو استعمال کرنے کی اجازت بھی مانگ چکا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اندراگاندھی تیار بھی ہوچکی تھیں لیکن امریکی انٹلیجنس سی آئی اے نے بروقت اس سازش سے پاکستان کو آگاہ کردیا ۔پاکستان نے فوری طور پر دھمکی دے ڈالی کہ اگر بھارت نے اسرائیل کو ایسا کرنے دیا تو یہ سوچ لے کہ اس کا اپنا ایٹمی پلانٹ بھی تباہ کردیا جائے گا۔ ایسے میں ترکی سے ہندوستان کیا فائدہ اٹھا سکتا ہےیہ بات واضح نہیں ہے۔اس کے بعد ٹرمپ کے سعودی عربیہ کے دورے پرسوشل میڈیا میں مسلمانوں کے درمیان امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور شاہ سلمان بھی خوب چرچہ میں رہے اور اس تعلق سے ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک کے اردو اخبارات نے اس دورے کے مثبت اور منفی پہلو پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیاجس کا اثر آج بھی سعودی عربیہ اور قطر کے کشیدہ تعلقات میں دیکھا جاسکتا ہے۔

خاص طور سے پاکستانیوں کو یہ بات بہت ہی ناگوار گذری کہ سعودی حکمراں شاہ سلمان نے نواز شریف کو بہت اہمیت نہیں دی یا انہیں نظرانداز کیا،جبکہ سعودی عربیہ کے دفاعی معاملات میں پاکستانی فوج کا بہت اہم کردار رہاہے اور ابھی سعودی حکومت نے جو کچھ مسلم ممالک کا فوجی اتحاد تشکیل دیا ہے اس کے سربراہ بھی پاکستانی فوج کے سابق چیف راحیل شریف ہیں لیکن ان پاکستانیوں کو یہ بات بھی پتہ ہونی چاہیےکہ پاکستان کے ایٹمی پلانٹ اور سرد جنگ کے دوران سعودی عربیہ نے اربوں روپئے کا سرمایہ بھی بہایا ہے۔کہنا یہ چاہیے کہ جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان کے ساتھ سعودی عربیہ نے سب سے پہلے لبیک کہا تھا۔امریکہ جو کہ روس کی طاقت سے مرعوب تھا اور اپنے ہاتھ جلانے سے خوفزدہ تھا جب اس نے دیکھا کہ افغان مجاہدین پاکستانی فوج کی تربیت اور سعودی عربیہ کی دولت سے روس کو تھکا رہے ہیں اور روس کو آسانی کے ساتھ شکست دی جاسکتی ہے تو وہ خود ہی افغان مجاہدین کی مدد کیلئے کود پڑا ۔پاکستان سعودی عربیہ کے یہ احسانات بھول بھی جاتا ہے تو بھی سعودی عربیہ کے حکمراں کیسے بھول سکتے ہیں کہ جب مشرف نے نواز کے خلاف بغاوت کی تھی تو یہ سعودی حکمراں ہی تھے جنھوں نے نواز شریف کو اسی طرح پناہ دی تھی جیسے کہ کبھی مغل بادشاہ ہمایوں کو ایران نے پناہ دی تھی ۔نواز شریف دوبارہ اقتدار میں ضرور ہیں لیکن سعودی شہزادوں کی نظر میں تو ان کے نمک خوار ہی ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ سیاست کا کوئی مذہب اور مسلک نہیں ہوتا ،خاص طور سے اکیسویں صدی کی سیاست دجال سے پہلے ظہور ہونے والے مکرو فریب جھوٹ اور بے ایمانی کے ماحول میں داخل ہوچکی ہے ۔کچھ تبصرہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکہ سعودی عربیہ کو لوٹ رہا ہے۔مگر یہ بھی تو سچ ہے کہ جب تک امریکی کولمبس عرب کے صحرا میں داخل نہیں ہوئے تھے جاہل عربوں کے پاس لٹنے کیلئے تھا ہی کیا؟دراصل اللہ نے اپنے گھر کی حفاظت کیلئے امریکیوں کو عرب کا راستہ دکھایا۔ شاہ عبدالعزیز بن سعود کے زمانے میں امریکی کمپنی آرامکو نے سعودی امیر سے رابطہ کرکے پٹرول کی دریافت کا منصوبہ بتایا ۔سعودی امیر کو یہ بات سمجھ میں آئی اور پھر کئی بار ناکام ہونے کے بعد بھی اس کمپنی نے گرم پانیوں کا ذخیرہ ڈھونڈھ لیا اور پھر کھجور دودھ اور گوشت پر منحصر عربوں کی معیشت تیل کے کنوؤں سے مالا مال ہونے لگی۔یہ وہ مفاد کا رشتہ ہے جس کی وجہ سے امریکہ کسی بھی مشکل کے وقت میں سعودی حکومت کے ساتھ ہوتا ہے اور پھر یوں کہہ لیجئے کہ سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد ایران کی صفوی حکومت جو ایک زمانے سے اپنی کسرویت اور استعماری عزائم کے نشے میں مکے اور مدینے کی سرزمین پر بری نظر رکھے ہوئے تھی سعودی اور امریکی تعلقات کی وجہ سے خانہء کعبہ بھی ایرانی عزائم سے محفوظ رہا ۔

یہ بات ہضم کرنے جیسی نہیں ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل میں بھی تعلقات بحال ہوسکتے ہیں لیکن جس طرح سعودی عرب مصر اور متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں نے اپنے دشمنوں کی تعداد میں اضافہ کرلیا ہے اورایران کے بعد ترکی اور قطر کی حمایت یافتہ تنظیموں کا نیٹ ورک وسیع ہوا ہے اسرائیل سمیت تمام عرب ممالک کیلئے یہ ایک بری خبر ہے کہ ان ممالک کو ایران سے زیادہ خطرہ ترکی سے ہے جہاں تقریباً تیس لاکھ کے قریب شامی مہاجرین پناہ گزین ہیں ۔بظاہر یہ پناہ گزین ہیں لیکن جس طرح ایران نے افغان پناہ گزینوں کو فوجی تربیت دیکر شام اور یمن میں استعمال کیا ہے ترکی بھی اپنے پناہ گزینوں کو فوجی تربیت دیکر شاہان عرب کی نیند حرام کرسکتا ہے ۔عرب حکمرانوں کو یہ احساس ہو بھی چکا ہے طیب اردگان جنہوں نے کہ سعودی اور اسرائیلی معاونت سےمصر کی فوجی بغاوت کے دوران اخوان کی اخلاقی حمایت کی تھی بہت ہی خاموشی کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں ایک اسلامی انقلاب کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں ۔شاید اسی لیئے قطر سے کئے گئے مطالبات میں ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ملک میں ترکی کے فوجی اڈے کو بند کردے۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اب امریکہ اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں بہت گرم جوشی نہیں رہی۔

امریکہ اور یوروپی ممالک جو خود بھی معاشی طور پر کمزور ہوکر ماضی کے برطانیہ کی طرح سمٹ جانا چاہتے ہیں صرف اس تاک میں ہیں کہ جنگ کا ماحول گرم رہے اور انہیں اپنے ہتھیاروں کا سودا کرنے کا موقع ملے چاہے اس کے خریدار عرب ممالک ہوں یا اسرائیل یا وہ لوگ جو مشرق وسطیٰ میں اپنے حکمرانوں سے آزادی حاصل کرنے کیلئے مسلح جدو جہد میں مصروف ہیں ۔اس کا مطلب عرب کی تباہی میں جسے حدیث کی کتابوں میں ویل العرب کہا جاتا ہے ایران اسرائیل ترکی اورمصر جیسے چار بڑے فوجی ممالک کے فوجی اور ان کی حمایت یافتہ ملیٹنٹ تنظیمیں متصادم ہو سکتی ہیں ۔ اگر ہم حدیث پر یقین کرتے ہیں تو آنے والا دور عرب ممالک اور امن عالم کی تباہی کا دور ہے۔ایسا لگتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے اس بحران میں ایران سے لیکر اسرائیل سب تباہ ہوجائیں گے اور ایک ایسے نخلستان کی تصویر ابھر کر آئے گی جہاں دور دور تک بستی اور انسانوں کا تصور محال ہوجائےگا۔ایسے میں خراسان سے اٹھنے والی فوج اور مہدی کا جائزہ لیں تو بات آسانی کے ساتھ سمجھ میں آجاتی ہے کہ افغانستان سے فلسطین تک کے سفر کیلئے کسی مہدی اور خراسان کی فوج کو سفر کیلئے پاسپورٹ کی بھی ضرورت نہیں ہوگی-واللہ علم

تبصرے بند ہیں۔