ما بعد جدیدیت کا چیلنج اور تحریکِ اسلامی (1/4)

انجینیئرسید سعادت اللہ حسینی

        پوسٹ ماڈرن ازم جسے اردو میں مابعد جدیدیت یا پس جدیدیت کہا جاتا ہے، در اصل جدیدیت یا ماڈرن ازم کے رد عمل کا نام ہے۔ اس لئے اسے سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ماڈرن ازم کو سمجھا جائے۔

جدیدیت(Modernism )کیا ہے؟

        جدیدیت دراصل ان نظریاتی، تہذیبی، سیاسی اور سماجی تحریکوں کے مجموعہ کا نام ہے جو ستر ہویں اور اٹھارویں صدی کے یوروپ میں روایت پسندی  (Traditionalism) اور کلیسائی استبداد کے رد عمل میں پیدا ہوئیں۔

        یہ وہ دور تھا، جب یوروپ میں کلیسا کا ظلم اپنے عروج کو پہنچ چکا تھا۔ تنگ نظر پادریوں نے قدیم یونانی فلسفہ اور عیسائی معتقدات کے امتزاج سے کچھ خود ساختہ نظریات قائم کررکھے تھے اور ان نظریات کے خلاف اٹھنے والی کسی بھی آواز کو مذہب کے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ شاہی حکومتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے انہوں نے ایک ایسا استبدادی نظام قائم کر رکھا تھا جس میں کسی بھی آزاد علمی تحریک کے لئے کوئی گنجائش نہیں تھی۔

        دوسری طرف اسپین کی اسلامی تہذیب کے ساتھ طویل تعامل کی وجہ سے عیسائی دنیا میں بھی حریت فکر کی ہوائیں آنے لگی تھیں۔ قرطبہ اور غرناطہ میں حاصل شدہ تجرباتی سائنس کے درس رنگ لارہے تھے۔ اور یوروپ کے سائنس داں آزاد تجربات کرنے لگے تھے۔ حریت انسانی اور مساوات کی اسلامی اسپرٹ کے اثرات نے جنوبی اٹلی اور صقلیہ میں انسانیات (Humanism) کی جدید تحریکیں پیدا کی تھیں۔ 1؎

        ان سب عوامل نے مل کر کلیسا کے استبداد کے خلاف شدید رد عمل پیدا کیا اور جدیدیت کی تحریک شروع ہوئی۔ چونکہ اس تحریک سے قبل یوروپ میں شدید درجہ کی دقیانوسیت اور روایت پرستی کا دور دورہ تھا، اس لیے اس تحریک نے پورے عہدِ وسطیٰ کو تاریک دور قرار دیا۔ مذہبی عصبیتوں، روایت پسندی اور تنگ نظری کے خاتمہ کو اپنا اصل ہدف بنایا۔ شدید رد عمل نے اس تحریک کو دوسری انتہا پر پہنچادیا اور روایت پرستی اورعصبیت کے خلاف جدوجہد کرتے کرتے یہ تحریک مذہب اور مذہبی معتقدات ہی کے خلاف ہوگئی۔

        جدیدیت کی اس تحریک کی نظریاتی بنیادیں فرانسس بیکن  2؎، ربن ڈیکارٹ3؎، تھا مس ہو بس 4؎، وغیرہ مفکرین کے افکار میں پائی جاتی ہیں، جن کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ یہ دنیا اور کائنات عقل، تجربہ اور مشاہدہ کے ذریعہ قابل دریافت (Deterministic) ہے اور اس کے تمام حقائق تک سائنسی طریقوں سے رسائی ممکن ہے۔ اس لیے حقائق کی دریافت کے لیے کسی اور سرچشمہ کی نہ کوئی ضرورت ہے اور نہ اس کا وجود ہے۔ صرف وہی حقائق قابلِ اعتبار ہیں جو عقل، تجربہ اور مشاہدہ کی مذکورہ کسوٹیوں پر کھرے ثابت ہوں۔ ان فلسفیوں نے مابعد الطبیعیاتی حقائق (Metaphysics) اور مذہبی دعوئوں کو اس وجہ سے قابل رد قرار دیا کہ وہ کسوٹیوں پر نہیں اترتے۔ ڈیکارٹ نے "I think therefore I am” (میں سوچتا ہوں، اس لئے میں ہوں ) کا مشہور اعلان کیا جو جدید مغربی فلسفہ کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خودی کا شعوری عمل (Conscious Act of Ego) سچائی تک پہنچنے کا واحد راستہ ہے۔

        پاسکل، مانٹسکیو، ڈیڈاراٹ، وسلی، ہوم، والٹیر جیسے مفکرین نے بھی عقل کی لامحدود بالادستی اور واحد سرچشمۂ علم ہونے کے اس تصور کو عام کیا۔ یہ افکار عقلیت (Rationalism) کہلاتے ہیں اور جدیدیت کی بنیاد ہیں۔ چنانچہ جدیدیت کی تعریف ہی یوں کی گئی ہے :

"The enlightenment-humanist rejection of tradition and authority in favour of reason and natural science. This is founded upon the assumption of the autonomous individual as the sole source of meaning and truth–the Cartesian cogito.”5؎

(ـانسان پرست روشن خیالی کی جانب سے روایت اور اتھاریٹی کا عقل اور طبعی سائنس کے حق میں انکار، جس کی بنیاد یہ مفروضہ ہے کہ خودمختار فرد(کی عقل) ہی معنی اور سچائی کا واحد سر چشمہ ہے۔ )

        اس تحریک نے مذہبی محاذ پر الحاد اور تشکیک کو جنم دیا۔ والٹیر 6؎ اور ڈیدراٹ جیسے الحاد کے علمبرداروں نے مذہب کا کلیتاً انکار کردیا۔ جبکہ ہیگل جیسے متشکک (Antagonist) مذہب کو تسلیم تو کرتے ہیں، لیکن اسے عقل کے تابع بناتے ہیں۔ اور مذہبی حقائق کو بھی دیگر عقلی مفروضات کی طرح قابل تغیر قرار دیتے ہیں۔

        سیاسی محاذ پر اس تحریک نے انسانی حریت کا تصور پیش کیا۔ آزادیٔ فکر، آزادیٔ اظہار، اور حقوق انسانی کے تصورات عام کیے۔ تھومس ہابس نے حتمی اقتدار اعلیٰ (Absolute Sovereign) کے تصور کو سیاسی فلسفہ کی بنیاد قرار دیا۔ جان لاک نے اس بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے عوام کو اقتدار اعلیٰ کا سرچشمہ قرار دیا۔ والٹیر نے انسانی حریت کا تصور پیش کیا۔ مانٹسکیسو 7؎ اور روسو 8؎ نے ایسی ریاست کے تصورات پیش کیے جس میں انسانوں کی آزادی اور ان کے حقوق کا احترام کیاجاتا ہے ا ور حکم رانوں کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔

        جدیدیت کی تحریک نے قوم پرستی اور قومی ریاستوں کا تصور بھی عام کیا۔ انہی افکار کے بطن سے جدید دور میں جمہوریت نے جنم لیا۔ اور یوروپ اور شمالی امریکہ کے اکثر ملکوں میں خود مختار جمہوری قومی ریاستیں قائم ہوئیں۔

        معاشی محاذ پر اس تحریک نے اول تو سرمایہ دارانہ معیشت اور نئے صنعتی معاشرہ کو جنم دیا جس کی بنیاد آدم اسمتھ (Adam Smith) کی معاشی فکر تھی جو صنعت کاری، آزادانہ معیشت اور کھلے بازار کی پالیسیوں سے عبارت تھی 9؎۔ نئے صنعتی معاشرہ میں جب مزدوروں کا استحصال شروع ہوا تو جدیدیت ہی کے بطن سے مارکسی فلسفہ پیدا ہوا، جو ایک ایسے غیر طبقاتی سماج کا تصور پیش کرتا تھا، جس میں محنت کش کو بالادستی حاصل ہو۔ 10؎

        اخلاقی محاذ پر اس تحریک نے افادیت (Utilitarianism) کا تصور عامکیا، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ اخلاقی قدروں کا تعلق افادیت سے ہے۔ جو رویے سماج کے لیے فائدہ مند ہیں، وہ جائز رویے اور جو سماج کے لیے نقصان دہ ہیں، وہ ناجائز روییّ ہیں۔ اور یہ کہ افادیت اخلاق کی واحد کسوٹی ہے۔ افادیت کے تصورنے قدیم جنسی اخلاقیات اور خاندان کے روایتی ادارہ کی افادیت کو چیلنج کیا، جس کے نتیجہ میں جدید اباحیت (Permissiveness) کا آغاز ہوا۔

        جدیدیت ہی کے بطن سے نئے صنعتی معاشرہ میں نسائیت (Feminism) کی تحریک پیدا ہوئی۔ جو مرد وزن کی مساوات کی علم بردار تھی اور عورتوں کو ہر حیثیت سے مردوں کے مساوی مقام دلانا اس کا نصب العین تھا۔

        انقلابِ فرانس، برطانیہ میں جمہوریت کی تحریک، امریکہ کی آزادی کی تحریک اور اکثر یوروپی ممالک کی تحریکیں جدید یت کے ان افکار ہی سے متاثر تھیں۔ بیسویں صدی کے آتے آتے یوروپ اور شمالی امریکہ کے اکثر ممالک ان افکار کے پرجوش مبلغ اور داعی بن گئے۔ جدیدیت کو روشن خیالی (Enlightenment) اور نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کے نام بھی دئیے گئے اور بڑی طاقتوں کی پشت پناہی سے روشن خیالی کا پروجکٹ ایک عالمی پروجکٹ بن گیا۔

        چنانچہ بیسویں صدی کے نصف آخر میں مغربی ممالک کا واحد نصب العین تیسری دنیا میں روایت پسندی سے مقابلہ کرنا اور جدیدیت کو فروغ دیناقرار پایا۔ آزادی، جمہوریت، مساواتِ مردوزن، سائنسی طرز فکر، سیکولرزم وغیرہ جیسی قدروں کو دنیا بھر میں عام کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ معاشی فکر کے معاملہ میں مغرب سرمایہ دار انہ اور کمیونسٹ بلاکس میں ضرور منقسم رہا، لیکن سیاسی، سماجی اور نظریاتی سطح پر جدیدیت کے افکار بالاتفاق جدید مغرب کے رہنما افکار بنے رہے، جن کی دنیا بھر میں اشاعت اور نفاذ کے لیے ترسیل واشاعت کے علاوہ ترغیب وتنفیذ کے تمام جائز وناجائز طریقے اختیار کیے گئے۔ تیسری دنیا میں ایسے پٹھو حکمرانوں کوبٹھایا گیا جو عوام کی مرضی کے خلاف زبردستی ترقی کے جدید ماڈل ان پر تھوپنے پر مامور رہے۔ اسلامی دنیا میں خصوصاً اسلامی تہذیبی روایات کی بیخ کنی کو جدیدیت کا اہم ہدف سمجھا گیا۔ ترکی، تیونس اورسابق سوویت یونین میں شامل وسط ایشیا کے علاقوں میں تو سیکولرزم اور مذہبی روایات سے مقابلہ کے لیے ایک سخت ظالمانہ اور استبداد ی نظام قائم کیا گیا۔

پوسٹ ماڈرن ازم کیا ہے؟

        سطور بالا میں جدیدیت (ماڈرن ازم ) کا کسی قدر جائزہ لیا گیاہے۔ جدیدیت کے علم برداروں نے اپنے مخصوص افکار پر جس شد و مد کے ساتھ اصرا ر کیا اور ان کی تنفیذ کے لئے جس طرح طاقت اور حکومت کا بے دریغ استعمال ہوا اس نے فکری استبداد کی وہی صورت حال پیدا کردی، جو عہد وسطی  کے یورپ میں مذہبی روایت پسندی نے پیدا کی تھی اور جس کے رد عمل میں جدیدیت کی تحریک برپا ہوئی تھی۔ اس استبداد کا لازمی نتیجہ شدید ردّ عمل کی شکل میں رونما ہوا۔ اور یہی رد عمل ما بعد جدیدیت یا پس جدیدیت (Post Modernism) کہلاتا ہے۔

        پوسٹ ماڈرن ازم ان افکار کے مجموعہ کا نام ہے جو ماڈرن ازم کے بعد اور اکثر اس کے رد عمل میں ظہور پذیر ہوئے۔ پوسٹ ماڈرنسٹ نہ تو کسی منظم نظامِ فکر کے قائل ہیں اور نہ منظم تحریکوں کے۔ اس لیے یہ فکر کمیونزم یا جدیدیت کی طرح کوئی مبسوط یا منظم فکر نہیں ہے۔ اور نہ اس کی پشت پر کوئی منظم تحریک ہی موجود ہے۔ بلکہ پوسٹ ماڈرنسٹ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پوسٹ ماڈرن ازم کسی نظریہ کا نام نہیں ہے، بلکہ اُس عہد کا نام ہے جس سے ہم گزررہے ہیں اور اُن کیفیتوں کا نام ہے جو اس عہد کی امتیازی خصوصیات ہیں۔ 11 ؎ظاہر ہے کہ یہ محض دعویٰ ہے اور چونکہ وہ اپنے خیالات کی تائید میں کتابیں لکھ رہے ہیں، فلسفیانہ مباحث چھیڑ رہے ہیں اور بحثیں کر رہے ہیں اس لیے دنیا ان کے خیالات کو ایک آئیڈیا لوجی ماننے پر مجبور ہے۔

        اکثر امور میں پوسٹ ماڈرنسٹ مفکروں میں اتفاق رائے بھی نہیں ہے اور علمی حلقوں میں یہ اصطلاح مختلف معنوں میں استعمال ہوتی رہی ہے۔ اس لیے اس کی تعریف بیان کرنا بھی بہت مشکل ہے۔ تاہم بعض خیالات پوسٹ ماڈرنسٹ مفکرین میں مشترکبھی ہیں اور یہی مشترک فکر ان کا امتیاز ہے۔ لیوٹارڈ، جس کا اس فکر کے بانیوں میں شمار ہوتا ہے، اس نے اس کی تعریف یوں کی ہے:

I define Postmodernism as incredulity towards meganarratives.  12؎

(میرے نزدیک پوسٹ ماڈرن ازم کا مطلب ہے لمبے چوڑے بیانات پر عدم یقین۔ )

        پوسٹ مادرنسٹ کہتے ہیں کہ ماڈرن ازم نے عقل کی بالاتری، آزادی، جمہوریت، ترقی، آزاد بازار اور مارکسزم جیسے خیالات عالم گیر سچائیوں کی حیثیت سے پیش کئے۔ یہ ایک کھلا فریب تھا۔ زمانہ کے امتداد نے ان ساری خود ساختہ حقیقتوں کا جھوٹ واضح کر دیا ہے، اس لیے اب اس عہد میں اس طرح کے عظیم بیانات (Meganarratives) نہیں چلیں گے۔ یہ اس عہد کا خاصہ ہے۔ اس میں جدیدیت کے تمام دعوئوں کی عمارت ڈھادی گئی ہے۔ اور اس عہد کی یہ خصوصیت ہی پوسٹ ماڈرن ازم ہے۔ 13؎

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔