مسلمان شرک نہیں حالات کا مقابلہ کریں گے!

مولانایحییٰ نعمانی

    اٹل بہاری باچپئی نے اپنے دور حکومت میں ایک مرتبہ یہ بات کہی تھی کہ ابھی تو ہم دوسروں کی مدد سے حکومت کر رہے ہیں اگر ہم کبھی اپنے بل بوتے پر اقتدار میں آئیں گے تو اپنے سپنوں کا بھارت بنائیں گے۔ اب جو ہو رہا ہے یہ آر ایس ایس کے سپنوں کا بھارت بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ آر ایس ایس کے یہاںہندوستانیت کا ایک خاص تصور ہے۔ جس کی پوری تفصیل اس کے لٹریچر خصوصا We and our nationhood defined کے مطالعے سے سامنے آسکتاہے۔ کلچرل نیشنلزم کے نام سے موسوم اس تصور کی بنیاد یہ ہے کہ ہندوستان میں بسنے والے لوگوں کی ایک تہذیب وثقافت ہونی چاہیے۔ اور ان کا ایک ہی طرز زندگی ہونا چاہیے۔ اور آر ایس ایس کے نزدیک یہ ثقافت وتہذیب آرین اور برہمن مذہبی نظام کی تہذیب ہے۔ شرک وبت پرستی اس کی بنیاد کا پتھر اور آرین نسلوں کی برتری اس کی اساس ہے۔ آر ایس ایس کہتی ہے اور ببانگ دہل کہتی ہے کہ ایسا اگر نرمی اور ترغیب سے نہ کیا جا سکے تو اس کے لیے زبردستی اور تشدد وخونریزی بھی ضروری ہے۔ اسی لیے آر ایس ایس کے فکر میں ان کے سب سے پہلے دشمن مسلمان ہیں۔ اس لیے کہ وہ ان کے شرک کی تہذیب اور مشرکانہ کلچر کو قبول کرنے سے معذور ہیں۔
    ۴۱۰۲ئ کے الیکشن کی بڑی فتح نے آر ایس ایس میں ایک جوش وترنگ اور اپنے منصوبوں کو جلد پورا کرسکنے کا اطمینان پید اکردیا تھا۔ یہ کوئی عام حکومت نہیں تھی یہ شرک کے اماموں اور ظلم کے خوگروں کی حکومت تھی، آر ایس ایس نے حکومت ملتے ہی پورے ملک کو اپنی خاص تہذیب میں رنگنے کی کوششوں میں تیزی لانی شروع کی۔ یوگا، سرسوی وندنا، سوریہ نمسکار اسکولوں میں لازم کیا گیا اور برہمنی شرک کی بین القوامی تبلیغ میں بی جے پی کی حکومت لگ گئی۔ اور :دیکھ مسجد میں شکست رشتہ¿ تسبیح شیخ، یوگا کرنے والوں میں مسلمان نام بھی شامل تھے، یہاں تک کہ عرب بھی۔ اور پھر تو دل خون ہی ہوگیا یہ دیکھ کر کہ اسلام کے قلب جزیرة العرب میںمسلم ناموں والے عرب آرتیاں لیے کھڑے ہیں اور نریندر مودی جی صنم پرستی میں مشغول ہیں۔ دھوکے میں مت رہیے: یہ ہیں آر ایس ایس کے عزائم۔
    انہی عزائم      کے تحت آر ایس ایس اور اس کی حکومت یوگا سوریہ نمسکار وندے ماترم وغیرہ کے ذریعے پورے ملک کو شرک وکفر کے جہنمی اعمال کرنے پر مجبور کرنا چاہتی ہے۔ اسی سلسلے کی آخری کڑی یہ تھی کہ پردے کے پیچھے کے بادشاہ نے فرمان جاری کیا کہ ”بھارت ماتا کی جے“ سب کو کہناپڑے گا۔ اور پھر کیا تھا ہر طرف سے دھمکیوں کے ساتھ یہ مطالبہ ہونے لگا اور صاف کہا گیا، اور کہنے والے گوورنمنٹ اور سپر گوورمنٹ (سنگھ کے دربار) کے لوگ تھے، کہ اگر اس ملک میں رہنا ہے تو بھارت ماتا کی جے کہنا پڑے گی، نہیں تو لاکھوں کے قتل کے لیے بھی تیار ہو جاو¿۔
    اس دھمکی اور دہشت گردی کو ہر کان اور دل تک پہنچانے کے کام میں وہ میڈیا لگ گیا جو ہندتو کے علم برداروں کی خدمت میں ملک کی بڑی مالی طاقتوں (Business Tycoons) نے خرید کر دیا ہوا ہے۔ اس کے اکثر افراد بے چارے بے ضمیر اور بکے ہوئے لوگ ہیں جو جو جھوٹ تلبیس اور حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کرنے کے پر ہی مامور ہیں۔
    یہاں مسلمانوں کو چند باتیں بہت سنجیدگی سے سمجھ لینی چاہییں۔
۱) مسلمانوں کے لیے کوئی بول بولنا یا نہ بولنا اس کا دارومدار اس پر ہے کہ اس کے معنیٰ کیا ہیں؟ اس سے عام لوگوں میں کیا مراد لی جاتی ہے؟ اب دیکھیے کہ بھارت ماتا کا کیا تصور آر ایس ایس وغیرہ کے یہاں ہے؟ بھارت ماتا کا مطلب صرف مادر وطن نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک خاص دیوی کا تخیل ہے۔ شرک تو ایسا ہی اوہام وخرافات کا مجموعہ ہوتا ہے، بس مان لیا گیا بغیر کسی دلیل کے کہ بھارت ایک ملک ہی نہیں ایک دیوی بھی ہے۔ جس کے کاشی اور ہریدوار سے لے کر کنیا کماری تک باقاعدہ بہت سے مندر ہیں۔ یہ کچھ کچھ درگا دیوی جیسی ہے شیر پر بیٹھی ہے۔ ابتدا میں اس کے چار ہاتھ تھے اب دو ہی رہ گئے ہیں۔ کہیں ہاتھ میں بھگوا اور کہیں ترنگا جھنڈا بھی پکڑا دیا گیا ہے۔ تخیل سے جو چاہے بنا لیجیے وہی خدا ہے، اس لطیفے سے مزہ لیجیے کہ یہاںانسان کو خدا نہیں پیدا کررہا خدا کو انسان پیدا کر رہا ہے۔ ان ھی الا اسماءسمیتموھا انتم وآباو¿کم ما انزل اللہ بھا من سلطان۔
    اس قوم میں دیویوں کو ماں کہنا اور ان کی پرستش اور جے جے کار کرنا عام ہے۔ جس طرح کالی بھی مائی ہے ۔ گنگا میا ہے۔ درگا ماں ہے۔ سرسوتی بھی ماں ہے اسی طرح بھارت ماتا بھی ہے۔ انٹرنیٹ پر بلا مبالغہ اس دیوی کی ہزاروں تصویریں ہیں جن میں ملک کے جغرافیائی نقشوں سے ابھرتی ہوئی ایک دیوی کی تصویر دکھائی دیتی ہے۔لہذا یہ طے ہے کہ بھارت ماتا کی جے ایک دیوی کی پوجا ہے، شرک ہے اور وہ سب سے بڑا گناہ ہے جس کی، قرآن کے مطابق، اللہ کے یہاں معافی کا کوئی امکان نہیں۔ اس معاملے میں قرآن اس قدر سنجیدہ اور سخت گیر ہے کہ انبیاءعلیہم السلام اور خصوصا رسول اللہ ﷺ کو براہ راست مخاطب کر کے ارشاد فرمادیا گیا: وَلَقَد± ا¿ُوحِیَ Êِلَی±±کَ وَÊِلَی الَّذِی±نَ مِن± قَب±لِکَ لَئِن± ا¿َش±رَک±تَ لَیَح±بَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُونَنَّ مِنَ ال±خَاسِرِی±ن(الزمر: ۵۶) یعنی آپ سے بھی اور آپ سے پہلے نبیوں سے بھی کہہ دیا گیا ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو ساری نیکیاں تمہاری برباد ہو جائیں گی اور تم گھاٹا اٹھانے والوں میں ہو گے۔
    یہ مسلمانوں کا اجتماعی فیصلہ ہے کہ وہ دنیا میں جہاں بھی رہیں گے اپنے دین خصوصا اپنی توحید کے پیغام کے ساتھ رہیں گے اور اس راستے میں ہر سرد وگرم کے لیے وہ تیار رہیں گے۔ ان کے نبی نے ان کو یہی تعلیم دی ہے ۔ آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک مت کرنا(یعنی کسی دوسرے کی عبادت مت کرنا) چاہے تم کو قتل کر دیا جائے یا جلا ڈالا جائے(مسند احمد)۔
(۲) ہمارے علماءکو ان حالات اور کفر کے عزائم اور منصوبوں کو سامنے رکھتے ہوئے ملت میں اس سلسلے میں حساسیت پیدا کرنی چاہیے نہ کہ لچک اور نرمی۔ قرآن کی تعلیم اور رسول اللہ کے طرز عمل سے ہم کو یہ اصول ملا ہے کہ؛ ظلم وجبر کے حالات میں، اپنے عقائد میں بھر پور مضبوطی اور سنگ خارا کی صلابت اور غیر مسلموں کے ساتھ خوب نرمی اور لچک کا معاملہ رکھا جائے۔ علماءواہل دین کی ذمے داری ہے کہ وہ ایک ایک مسلمان کے مزاج میں یہ دونوں باتیں راسخ کریں۔
۳) آر ایس ایس کا منصوبہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے اس طبقے کو جو ان میں دینی حمیت اور استقامت کا مزاج پیدا کرتا ہے اور ملت کو مشرکانہ کلچر میں تحلیل ہونے سے بچاتا ہے اس کو الگ تھلگ اور بدنام کر دیا جائے۔ پھر باقی مسلمان تر نوالہ بن جائیں گے۔ ملت میں اسی تفریق کے مقصد سے بہت سی تنظیموں اور شخصیتوں کو نوازشوں کے ذریعے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ابھی دلی میں آر ایس ایس کے ”مسلمانوں“ کی جو بین الاقوامی کانفرینس ہوئی یہ اسی سازش کا نمایاں حصہ تھی۔ اس میں آقاو¿ں کی خوشنودی کے لیے بھارت ماتا کی جے کے نعرے بھی لگائے گئے۔ الحمد للہ بریلوی مسلک کے اکثر با حیثیت اداروں اور شخصیتوں خاص طور پر مولانا یٰسین اختر مصباحی وغیرہ نے واضح اور دو ٹوک الفاظ اس سازش سے اپنی براءت کا اظہار کیا۔ یہ سازش بہت گہری ہے۔ مجھے ایک کرم فرما نے گجرات کی ایک خبر بھیجی کہ فلاں مسلک کے عالم نے ایک تحریک چلائی ہوئی ہے کہ ہماری مسجدوں میں فلاں مسلک کے لوگوں کا داخلہ بند کیا جائے، اس لیے نہیں کہ ہمیں اس مسلک سے اختلاف ہے، نہیں بلکہ اس لیے کہ ”وہ لوگ دہشت گرد ہوتے ہیں ۔ ہمارے نوجوانوں کو گمراہ کر دیں گے“۔
    یہ کیا ہو رہا ہے؟ بریلوی مسلک سے ہمارا کھلا اختلاف جگ ظاہر ہے۔ مگر الحمد للہ ہم کو اس کا پوری امیدہے ان شاءاللہ اس مسلک کے باغیرت علماءبھی کھل کر نکل کر آئیں گے اور شرک وبت پرستی سے بیزاری وبرائت کا اظہار کریں گے اور عوام کو اس جہنمی عمل سے روکنے میں آگے بڑھیں گے۔ ہم علماءمسلک بریلی سے ہمدردانہ درخواست کرتے ہیں کہ خدا ورسول ﷺ کی ملت کی حفاظت فرمائیے۔ اور اس کو ان لوگوں سے دور کیجیے جو امت کو بزور مشرک بنانا چاہتے ہیں۔
۳) ان دھمکیوں اور اشتعال انگیزیوں سے ہمیں نہ ہراساں ہونا ہے، نہ ڈرنا ہے، نہ غصہ ہونا ہے۔ ہمیں مقابلہ کرنا ہے؛ ہمت سے، حکمت وتدبر سے اور حالات کے حقیقی جائزے کے ساتھ۔
الف: زمانے کی اس حقیقت کو ہمیں ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہیے کہ حکومتیں جب کسی پر ظلم وجبر کرنا چاہتی ہیں تو پہلے ان کو اس کے خلاف بدگمانی کی فضا قائم کرنی پڑتی ہے۔ اور اب جمہوریت کے دور میں تو یہ ان کی بڑی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ اگر کسی قوم کے خلاف تشدد وظلم کی پالیسی اپناتی ہیں تو اس کے لیے ان کو لگاتار منصوبہ بندی کے ذریعے عوام میں نفرت واشتعال کے جذبات پیدا کرنے ہوتے ہیں۔ اس کے بغیر وہ اس قوم کے ساتھ کسی مستقل استحصال وظلم کا معاملہ نہیں کر سکتیں۔ نفرتوں کے اسی الاو¿ کو دہکانے کے لیے دہشت گردانہ حملوں کو انجام دیا جاتا ہے، اور اسی منصوبے کے تحت متنازعہ بیان بازیاں ہوتی ہیں، اس کے بعد میڈیا ان چیزوں کو خوب تشہیر کرتا ہے اور عوام کے جذبات پر اس طرح مسلط کرتا ہے کہ وہ صحیح رائے قائم کرنے کے قابل رہتے ہی نہیں۔ اس طرح میڈیا حکومتوں کے لیے یہ مجرمانہ خدمت انجام دیتا ہے۔
    ابھی تک دنیا کے مظلوم عوام استبداد واستحصال کے ستون بن چکے میڈیا کے سامنے بے بس تھے۔ جو لوگ حقائق کی صحیح سمجھ رکھتے تھے ان کی آواز کہیں سنائی بھی نہیں دیتی تھی۔ ان میں بعض بڑی اونچی شخصیتیں اور بڑی بڑی جماعتیں اور گروہ بلکہ قومیں بھی اگر کچھ کہتی تھیں تو اس کو میڈیا دبا دیتا تھا۔ مگر حالیہ برسوں میں ایک ایسی نئی چیز پیدا ہوئی ہے جس سے میڈیا کا سحر ٹوٹ سکتا ہے۔ اور وہ ہے سوشل میڈیا ،یہ عوام کا اپنا میڈیا ہے۔ یہ سستا اور آسان میڈیا ہے۔ ہر انسان اس کے ذریعے اپنی بات لاکھوں تک بغیر کسی خاص خرچ کے پہنچا سکتا ہے۔ اس میڈیا پر نہ حکومتی پالیسی کی قیدہے، نہ جھوٹ کا غلاف، اور نہ سرمایہ داروں کی زنجیر۔
    حالیہ برسوں میں بار ہا ایسا ہوا ہے کہ عوام نے اسی میڈیا کے ذریعے عوامی گروپس نے مین اسٹریم میڈیا اور حکومتوں کو جھکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اور ان حقائق کو بے نقاب کیا ہے جن پر حکومتوں نے پردہ ڈالا ہوا تھا۔ مسلمانوں کے لیے یہ ذریعہ ایک خدائی عطیہ اور نعمت بے بہا ثابت ہو سکتا ہے۔ ضرورت ہے کہ مسلم نوجوان اس میدان میں نہایت سنجیدگی سے متحرک ہوں۔ اور اس کو حق وانصاف کی مدد اور دین وملت کی خدمت سمجھیں۔ خاص طور پر کوشش کریں کہ مسلمانوں سے نفرت پیدا کرنے والے اشوز کی سجنیدہ وضاحت کر کے غیر مسلم عوام کے دلوں میں جگہ بنائیں۔ آر ایس ایس اور اس کے تحت کام کرنے والوں کی تخریب کاریوں کو اجاگر کریں۔اصول کار یہ ہے کہ انداز نہایت ٹھنڈاہو، حقائق کی وضاحتہو، ملک کے حقیقی مسائل کو خوب اجاگر کیا جائے، غریبوں، مزدوروں، کسانوں، دلتوں، اور مسلمانوں کی مظلومیت کی اعداد وشمار اور حقائق کی روشنی میں بیان ہو۔
    آپ لوگوں کو بتائےے کہ ایک ایسے ملک میں جس میں ہر ۵۲ منٹ میں ایک کسان خودکشی کرتا ہو، سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ۰۸ فیصد لوگ بھوک کے شکار ہوں۔ مسلمانوں اور دلتوں کا قتل، ان کو آگ میں جلانا روز مرہ کی بات ہو، اور سیاسی کرپشن کا یہ حال ہو کہ ہر سال لاکھوں کرور کے گھپلے ہو تے ہوں،اس ملک میں ساری بحث اس پر ہو رہی ہے کہ ہر ایک کو یہ نعرہ لگانا پڑے گا۔ اسٹیبلشمنٹ (حکومت اور میڈیا) عوام کو ان باتوں میں اسی لیے میں مشغول رکھتی ہے کہ اس کی لوٹ اور ظلم سے عوام غافل رہیں۔
ب: سب سے پہلے یہ پوچھےے کہ یہ لوگ ہم کو حکم دینے والے کون ہوتے ہیں؟ ہم اس ملک کے دستور کے پابند ہیں۔ اور دھمکی دینا اور احکام صادر کرنادھمکی اور زور زبردستی جرم اور قانون شکنی ہے۔ نا معقولیت کی حالت یہ ہے کہ بہت سے ایسے لوگ بھی جو اپنے آپ کو آزادی کا حامی (Libral) اور بین مذہبی بھائی چارے کا حامی سمجھتے اور کہتے ہیں، وہ اگر ایک طرف زور زبردستی اور دہشت گردی کے ذریعے ان نعروں کو تھوپنے والوں کی مخالفت کرتے ہیں تو ساتھ میں ،یہ کہنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کا انکار بھی بنیاد پرستی ہے۔ آپ مسلمانوں کو یہ حق کیوں نہیں دیتے کہ وہ جس چیز کو چاہیں مسترد کردیں؟ آپ ان کے مذہب کی اس تعلیم کی قدر کیوں نہیں کرتے کہ وہ شرک اور اوہام خرافات کے پیدا کردہ خداو¿ں کو تسلیم نہیں کرتے؟
ج: شرک کی بے حقیقتی واضح کیجیے۔ پوچھیے کہ یہ کون سی منطق ہے کہ زمین کا کوئی ٹکرا جے اور عبادت کے لائق ہے۔ اگر ایسا ہے تو ”ناگا لینڈ“ کی جے،”بوڈو لینڈ“ کی جے” لکھنو¿ “کی جے ”دلی“ کی جے ”گونڈے“ کی جے ”چاندنی چوک“ کی جے۔ ہر کوچے اور ہر محلے کی جے؟؟ آپ اپنی حکمت عملی سے اس موقعے کو استعمال کر لیجیے اور اس قوم میں اپنے شرک پر ازسر نو غور کرنے کی دعوت دیجیے۔ ان سے کہیے کہ بیسویں صدی کے آغاز سے پہلے کہیں کسی بھارت ماتا کی دیوی کا تصور رتھا؟ یہ کون سامذہب ہے جس میں خدا بھی نئے نئے بنتے رہتے ہیں۔
د) اس بات کو سمجھےے اور ہر بھائی کو محبت کے ساتھ سمجھائےے کہ ایک عرصے سے ملک میں ایک نہایت مکارگٹھ جوڑ بنا ہوا ہے، جس کا ایک فریق چند سرمایہ دار خاندان ہیں جو پورے ملک کو بے تحاشہ لوٹ رہے ہیں۔ ساری حکومتیں ان کی غلام ہیں۔ آر ایس ایس کی یہ حکومت انہوں نے اپنے پیسے کی طاقت سے بنواکر دی ہے۔ اور دوسرا فریق وہ سیاسی پارٹیاں ہیں جو ان کی اس لوٹ کو تحفظ فراہم کرتی ہیں اور ملک کی مظلوم بھوک اور بیماری کے شکار۰۸ فیصد آبادی اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھنے والے مڈل کلاس کو مسلمانوں کے خلاف نفرت اور مذہبی جنون کی لگاتار خوراکوں کے ذریعے بے خبر رکھنے اور لٹیروں کے خلاف جد وجہد سے دور رکھنے میں کامیاب ہوتی رہی ہیں۔
ھ) یہ کہنا غلط ہے کہ آر ایس ایس اس منصوبے میں اب تک جو کامیاب نہیں ہوئی اس کا سبب یہ ہے کہ بھارت ایک سیکولر مزاج کا ملک ہے، بلکہ اس ملک کی آبادی چونکہ بے انتہا تنوع (Diversity) رکھتی ہے، اس لیے اس مخصوص طبقے کے لیے راہ آسان نہیں ہے۔ جس کی کچھ تفصیل یہ ہے کہ مال اور سیاسی اقتدار کا حامل کچھ تھوڑا سا طبقہ تو ان اونچی ذاتوں پر مشتمل ہے جس نے یہاں کی اصل آبادی کی اکثریت کو اسی مذہب اور کلچر کے ذریعے صدیوں تابع وغلام بنا رکھا ہے، لیکن اس کے علاوہ ملک کی جو اکثریت ہے، جن میں خاصی بڑی تعداددلت کہلانے والی محروم ومظلوم ذاتوں اور آدی باسی کہلانے والے ملک کی قدیم ترین نسلوں کی ہے جو صاف کہتے ہیں کہ ہم اس برہمنی مذہب، جسے ایک سازش کے تحت ہندو مذہب کہا جاتا ہے،کا نہ کبھی حصہ تھے نہ ہیں۔سماجی اور اقتصادی غلامی اور جہالت کی وجہ سے یہ طبقہ اب تک اس قابل تھا ہی نہیں کہ اس کی آواز کہیں سنائی دے سکے، مگر خدائے علیم وقدیر کا کرشمہ کہ اچانک ان کو سرکاری ملازمتوں اور ملک کی تعلیم گاہوں میں جو رزرویشن ملا تو بیس پچیس سال کے اندر اس کی آوازسنائی دینے لگی۔ ملک کی عظیم اکثریت اس برہمنی سماجی نظام کے خول سے اب باہر آنے لگی ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں تعلیم یافتہ اور انصاف پسند لوگوں کی ایک بڑی تعداد اونچی ذات کہلانے والوں میں بھی کثیر تعداد میں ہے جو اس ظلم وشدت پسندی کو شدید نا پسند کرتا ہے۔
    بہر حال ملک کی آبادی کا یہ تنوع آر ایس ایس کے لیے اصل رکاوٹ ہے۔ آپ کو بہر حال کچھ تو مشترکہ جد وجہد کا خاکہ بنانا پڑے گا۔ مسلمانوں کی وہ تنظیمیں جو ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل ہیں وہ اپنے دائرہ¿ عمل کو وسیع کرکرتے ہوئے ملک میں ظلم کے خلاف غیر مسلم گروپوں کے ساتھ مشترکہ جد وجہد کا نقشہ طے کریں، جو صرف جلسوں تک محدود نہ ہو۔   
    اگر ایک طرف چیلینج ہیں تو دوسری طرف الحمد للہ امکانات کی ایک روشن دنیا بھی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔