مسلم معاشرے میں غیر ضروری جلسوں کی کثرت: لمحہ فکریہ

قاضی محمد فیاض عالم قاسمی

مسلم معاشرے میں اصلاحِ معاشرہ، سیرت النبی ﷺ،قومی یکجہتی اوردستاربندی کے نام سے آئے دن جلسے منعقدہوتے رہتے ہیں، جس کے انعقاد میں نوجوانانِ قوم اہم کرداراداکرتے ہیں۔ جو اپنےتعلیمی اورتعمیری اوقات کو قربان کرکے دنیاوآخرت کی  کامیابی سمجھ کر بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ ایسے جلسوں میں ہزاروں نہیں، بلکہ لاکھوں  روپئے خرچ ہوتے ہیں، جوعوام سے ترغیب وترہیب کے ذریعہ حاصل کئے جاتے ہیں، ایسے مقررین کوعمومامدعو کیاجاتاہے جن کوجلسے کےموضوع سے کوئی سروکارہی نہیں ہوتاہے۔ ہم نے بارہاں دیکھاہے کہ جلسہ ہے سیرت النبی ﷺ کے نام پر اورمقررصاحب بیان فرمارہےہیں کہ ووٹ کس کو دیاجائے،یاجلسہ کاعنوان ہے ” دستار بندی حفاظ کرام” اوربیان ہورہاہےکراماتِ اولیاء پر،حدتواس پرہے کہ جلسہ کاعنوان ہے اتحاد امت، اوربیان ہورہاہےکہ حق پر کون ہے بریلیوی یادیوبندی؟

یہ جلسے اصلاح حال کی خاطر منعقدکئے جاتے ہیں، مگر اصلاح نام کی کوئی چیز حاصل نہیں ہوپاتی ہے۔ کیاان جلسوں میں کئے گئے بیانات سے متاثر ہوکر بے نمازی نمازی بن جاتے ہیں، کیاجھوٹ بولنے والےجھوٹ تر ک کردیتے ہیں، کیاجہیز کامطالبہ کرنے والے جہیز مانگناچھوڑدیتے ہیں، کیارشوت کھانے والے رشوت لینے سے توبہ کرلیتے ہیں، دوسروں کا مال کو ہڑپ کرنے والے مال واپس کردیتے ہیں، ہماری ماں بہنوں کی عزت کو تارتارکرنے والے ان پر نگاہِ بدڈالنےسے باز آجاتے ہیں ؟اس طرح کے کئے سوالات ہیں جن کے جوابات حاصل کرنے کے لئےہی یہ جلسے منعقد کئے جاتے ہیں، مگر نتیجہ صفر رہتاہے۔

  ایسے جلسوں میں شاعرونعت خواں کوبھی  بلایاجاتاہے۔ جو مخصوص  لب ولہجہ میں نعت،یانظم گنگناتے ہیں، جس میں کوئی خاص پیغام نہیں ہوتاہے، بلکہ کسی شخص کی تعریف وتوصیف میں زمین وآسمان  کے قلابے ملائے جاتے ہیں، جھوٹی تعریفوں کےایسے پل باندھے جاتے ہیں، کہ ممدوح محترم کو اس سے گزارکرتکبر اورگھمنڈ کی وادیوں میں پہونچادیاجاتاہے۔ ایسے نظامت کرنے والے کوبھی  مدعو کیاجاتاہے،جو اپنے مخصوص الفاظ والقاب کے ذریعہ مدعوئین اورمقررین کوخوش فہمی میں مبتلاء کرتے ہیں۔ مدعوئین کو ایسے القاب سے دعوت سخن دیتے ہیں جن میں سےبعض شرکیہ بھی ہوتے ہیں، یہ سبھی حضرات  ہدیہ کے نام پر پہلے ہی بات چیت بھی طے کرلیتے ہیں، کہ آمد ورفت کے علاوہ   اتنی رقم بوقت رخصت ہدیہ کے طورپر دیناضروری ہے۔ ان کے علاوہ ان جلسوں میں درج ذیل خرافات  بھی مشترکہ طورپر پائی جاتی ہیں :

١۔   فضول خرچی :

  فضول خرچی ناجائز اورحرام ہے، قرآن کریم میں فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کابھائی کہاگیاہے:

إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا۔ (سورۃ الاسراء:٢۷)

فضول خرچی یہ کہ ضرورت سے زیادہ خرچ کیاجائے۔ اب غورکیجئے کہ ہمارے جلسوں میں ضرورت سے زیادہ اشتہار،پمفلیٹ،لائٹنگ،اسٹیج  اورلاؤڈاسپیکر کےاخراجات وغیرہ ہوتے ہیں۔ بلکہ تھوڑاساآگے بڑھ کرمقررین کے ناز ونخرے، ہوائی جہاز سے ان کی آمد ورفت کے اخراجات، عمدہ ہوٹلوں میں قیام،اورسیر وتفریح کے لیے اے اسی گاڑیوں کاانتظام کرنا،احقر ایسے مقررین کو بھی جانتاہےجو اپنے ذاتی سفر کے لیے سلیپر نہیں، بلکہ جنرل اورچالوہی سے کام نکال لیتے ہیں، مگرجب کہیں سے بلاواآتاہے تو جہاز سے سفر کرنے کامطالبہ کرتے ہیں، اوراے سی فرسٹ کلاس سے نیچے کاتو سوال ہی پیدانہیں ہوتاہے۔ کیایہ ساری چیزیں فضول خرچی نہیں ہیں ؟

٢۔  تیزآواز:

قرآن کریم میں ہےکہ  گفتگو نرم و خم ہونی چاہئے،اپنی آواز کو تیز نہیں کرناچاہئے، قرآن کریم  نے ایسی آوازکو گدھے کی آوازسے تشبیہ دی ہے:

وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ(سورۃ لقمان:١۹)۔

نبی کریم ﷺنے ارشادفرمایا:

المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ(بخاری:١٠)

یعنی مسلمان وہ ہے کہ جس کی زبان سے یاہاتھ سے کسی کوکوئی تکلیف نہ ہواورمہاجر وہ ہےجو گناہوں کو چھوڑدے۔ مگر ہمارے جلسوں میں مقررین کے شوروہنگامے،سامعین کےفلک شگاف نعرے،ضرورت سے زیادہ لاؤڈاسپیکراورڈی جےکااستعمال اوران کی تیز آوازیں قوت سماعت کومتاثر کرتی ہیں، ان کی دھم دھم والی آواز براہ راست دل پر اثرانداز ہوتی ہے، بوڑھےاورمریضوں کے دل کی دھڑکنیں تیز تر ہوجاتی ہیں، بچوں کی نیندیں اچک جاتی ہیں اوران کی وجہ سے ان کی مائیں بھی پریشان ہوتی ہیں۔ مکانات کے درودیوار بھی تھرتھرانے لگتے ہیں، چھت کی کڑیاں اورکھڑکیاں ہلنے لگتی ہیں، جس سے عمارتیں کمزورپڑجاتی ہیں۔ کیایہ چیزیں شریعت کے خلاف نہیں ہیں ؟

٣۔   بے پردگی:

عموماایسے جلسوں میں خواتین کے لیے بھی پردہ کامعقول انتظام کیاجاتاہے مگر وہ پردہ برائے نام ہوتاہے، جوصرف جلسہ گاہ کی حد تک قائم رہتاہے،وہ بھی  صرف خواتین کےلئے،جوان لڑکیاں اپنے آپ کوپردہ سے مستثنیٰ سمجھتی ہیں، چنانچہ وہ بَن سنورکرکھلے عام لڑکوں کے سامنےبھی آجاتی ہیں، اورانھیں دعوت نظارہ دیتی ہیں، جب کہ  آمد ورفت میں پردہ کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتاہے۔ ایسےجلسوں کے موقعہ پر آوارہ قسم کے لڑکوں کو اپنی دوست لڑکیوں کے ساتھ  گھومنے پھرنےاورموج مستی کرنے کامناسب موقعہ بھی مل جاتاہے۔ ایسے بھی واقعات رونماہوچکے ہیں کہ جلسہ گاہ  ہی سے دونوں راہِ فراراختیار کر چکے ہیں۔ آج کے ترقی یافتہ زمانہ  سے استفادہ کرتے ہوئےخواتین کے حصہ میں اسکرین کاانتظام  بھی کیاجاتاہے۔ جس سے  خواتین مقررصاحب کی شکل وصورت اورنقل وحرکت سےمحظوظ ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ  حضرت ام سلمہ اورحضرت میمونہ رضی اللہ عنہمانبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھی تھیں، ایک نابیناصحابی حضرت ام ابن مکتوم رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو آپﷺ نےان دونوں سے پردہ کرنے کے لئے فرمایاتو انھوں نے جواب دیایارسول اللہ یہ تونابیناہیں، تو پھران سے  پردہ کرنے کی  کیاضرورت ہے؟آپ نے فرمایاکہ وہ نابیناہیں مگر تم تونابینانہیں ہو۔ (ترمذی:٢۷۷۸)

٤۔  توہینِ دین:

 یہ جلسے اس لیے منعقدکئے جاتے ہیں کہ لوگ دین کی باتوں کو سنیں، احکام خداوندی سے واقف ہوں، سنت نبوی سے آشنا ہوں، اوران پر عمل کریں یعنی لوگ دیندار بن جائیں مگر مشاہدہ ہے کہ دین کی باتوں کی جس قدر توہین ان جلسوں میں ہوتی ہے، شاید کسی اورمجلس میں ہو، قرآن کریم کی صریح تعلیمات کو ٹھکرایاجاتاہے،سنت نبوی ﷺ کو پامال کیاجاتاہے،دین کےنام پر دینی احکام کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں، جلسہ کاآغازقرآن  کریم کی تلاوت سےہوتاہے،قرآن کریم میں ہے کہ جب اس کی تلاوت کی جائے تو اس وقت خاموشی سے سنناواجب ہے:

وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (سورالاعراف:٢٠٤)

ترجمہ:اورجب قرآن پڑھاجائے تو غورسے سنواورخاموش رہو،تاکہ تم پر رحم کیاجائے۔

مگر شایدہی کوئی  فردخاموشی سے سنتاہو،بلکہ اگر مقررصاحب کے آنے میں تاخیرہوجاتی ہے تو لوگوں کویوں کہتے بھی سناگیا ہےکہ جب تک حضرت نہیں آجاتے ہیں، قرآن کی تلاوت جاری رکھیں، کیایہ قرآن کی توہین نہیں ہے؟قرآن کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟

٥۔    بدگمانی اوربدزبانی:

  کسی مسلمان کی  غیبت کرنااوراس پر لعن طعن کرنا، بہتا ن اورالزام تراشی کرنا جائز نہیں ہے،نبی اکرم ﷺ کاارشادگرامی ہے:

«لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ وَلَا بِاللَّعَّانِ وَلَا الْفَاحِشِ وَلَا الْبَذِيءِ»(سنن ترمذی:١٩۷۷)

یعنی وہ آدمی مومن نہیں جو دوسروں پر لعن طعن کرے، فحش اوربدگوئی کرے۔ دوسری جگہ آپ ﷺ ارشادہے:

” أَيُّمَا امْرِئٍ قَالَ لِأَخِيهِ: يَا كَافِرُ، فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا، إِنْ كَانَ كَمَا قَالَ، وَإِلَّا رَجَعَتْ عَلَيْهِ۔

یعنی اگر کوئی کسی کو کافر کہے اوروہ اس کامستحق نہ ہوتو یہ کفر اسی پر لوٹ آئے گا۔ "(صحیح مسلم:۶۰)

مگر خطیب صاحب کرسی پر براجمان ہوتےہی اپنے مسلک کے خلاف لوگوں کی پگڑیاں اچھالناشروع کردیتے ہیں۔ طعن وتشنیع سے بیان کاآغاز ہوتاہے،اورفریق مخالف کو مشرک یاکافر بنانے کے بعد ہی بیان اختتام کو پہونچاتاہے۔ کیایہ دین کے نام پر بے دینی کاجلسہ نہیں ہوا؟ ہمارےان  ہی مقررین کی وجہ سے ہر فرقہ دوسرے سےہمیشہ برسرپیکاراوران سے بدظن وبدگمان رہتاہے،دوسرے کے خلاف لعن طعن اورگالم گلوچ حتی کہ بعض دفعہ لڑائی پر بھی اترجاتاہے۔

۶۔    طلبہ مدارس کااستحصال:

 مدارس عربیہ میں دستاربندی کے نام پر جلسے منعقدہوتے ہیں، جس میں حفاظِ قرآن کے علاوہ علماء کرام کو بھی دستار فضیلت دی جاتی ہے، ایسے جلسوں کی تیاری  کے لیےذمہ داران، اساتذہ، طلبہ اورمحلہ کے لوگ جٹ جاتے ہیں، بعض ایسے مدارس بھی ہیں جن میں مہینوں پہلے بچوں کو جلسہ کی تیاری لگادیاجاتاہے،جلسہ میں پیش کرنے لیےتلاوت،حمد،نعت اورتقریروغیرہ کی تیاری کرنے کے علاوہ لوگوں کے پاس جاکرچندہ کرنا،مائک لیکر بستی بستی اعلان کرنا، حتیٰ کہ اشتہارچسپاں کرنا، پنڈال سجانا بھی ان بچوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ چوں کہ بچے ناسمجھ ہوتے ہیں اس لیے وہ اپنی تعلیمی سرگرمیوں کوچھوڑکر ان چیزوں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے ہیں۔ حالاں کہ بچے اہل مدارس کے پاس قوم کی امانت ہوتےہیں، ان کی تعلیم کاانتظام کرنااوران کی اخلاقی تربیت کرنا اہل مدارس کی ذمہ داری ہے۔ لوگوں نے اپنے بچوں کو محض تعلیم وتربیت کے واسطے ان کے حوالہ کیاہے، نہ کہ جلسے جلوس کے لئے۔ کیااہل مدارس کایہ رویہ امانت میں خیانت نہیں  ہے؟کیایہ بچوں کےساتھ استحصال نہیں ہے؟کیااس سے  بچوں کی تعلیم کاحرج،اورضیاع اوقات  نہیں ہوتاہے؟

 جہاں تک رہی بات دستاربندی کرنے کی توبچوں کو دستارفضیلت یادستارحفظ قرآن دینانہ فرض ہے، اورنہ واجب، بلکہ زیادہ سے زیادہ جائز اورمستحسن ہے، ایک مندوب امر کے لیے اتنی ساری خرافات اورشرعی ممنوعات  کوبرداشت نہیں کیاجاسکتاہے؛اس لیے بہتر ہے کہ ان فضولیات میں پڑنے کے بجائےکسی ایک اللہ والےاورولی کامل کو بلاکران کے ہاتھوں سے حفظ قرآن یادورہ حدیث  سے فارغ ہونے والے طلبہ کو دستارسے نوازاجائےتو  ان بچوں کے لیےبرکت وسعادت اورکامیابی کاباعث ہوگا اوراصلاحی نقطہ نظر سے عوام کے لیے بھی خیر وصلاح کاذریعہ ہوگا۔

اصلاح کے لیے منبر ومحراب کااستعمال:

 اس میں کوئی شک نہیں کہ دینی مجلسیں منعقدکرنااوران سے استفادہ کرناقرآن وسنت سے ثابت ہے اوراس کے بڑے فوائد ہیں، خاص طورپر اصلاحی نقطہ نظر سے نہایت ہی مفید ہیں، خود نبی کریم ﷺ نے اس طرح کی مجلسیں منعقدکی ہیں، اورآپ نے لوگوں کے درمیان بیان فرمایاہے۔ محدثین کرام نے اپنی حدیث کی کتابوں میں باب الخطبہ کے نام سے مستقل باب قائم کیاہے،جس میں آپ ﷺ کے خطبہ دینے کاطریقہ،کلام کی جامعیت،حسن ِبلاغت،اورسامعین کے اذہان اوران کی نفسیات کے اعتبار سے ان کی اصلاح کے طریقہ کو بیان کیاہے۔ مگران بیانات میں کہیں بھی ایسانہیں ہے کہ  اس کےلئے باضابطہ کوئی انتظام کیاگیاہو،اعلان اوراشتہارکیاگیاہو،یاپھراس میں خرچہ کیاگیاہواورایسے اخراجات کے لیے چندہ کیاگیاہو۔ مقررین کو بھاری بھر کم ہدیہ وتحائف سےمالامال کیاگیاہو،اگر مذکورہ بالاخرافات سے بچ کرجمعہ کے دن عربی خطبہ سے قبل پندرہ بیس منٹ میں ایما ن وعقائد، عبادات ومعاملات،آداب واخلاق، حقوق وفرائض، واجبات ومستحبات،سنن ونوافل، نکاح وطلاق،رسم ورواج،میاں بیوی کے حقوق،تربیتِ اولاد، خرید وفروخت،پڑوسیوں اورغیرمسلم بھائیوں کے حقوق کے عنوان پرقرآن وسنت اورسلف وصالحین کے مستند واقعات آسان زبان میں سمجھایائے تو عوام وخواص کےلئے مفید ہوگا، کیوں کہ اس وقت ایک مسلمان نہادھوکر، اچھے کپڑے زیب تن کرکےاورعطر وخوشبولگاکر مسجد میں آتاہے، اس لئےخطیب صاحب کی باتوں کو ٹھنڈے دل ودماغ سے  سن سکتاہے۔ نبی اکر م ﷺ اپنی امت کی اصلاح کے لیے زیادہ تر جمعہ کے دن کاانتخاب اورمنبر ومحراب کااستعمال فرماتے تھے اوریہی سنت طریقہ ہے۔ تاہم اگر مذکورہ بالاخرافات نہ ہوں تو میدان وغیرہ میں بھی جلسہ کرنے کی اجازت  اورگنجائش ہے۔

 یہاں ایک اہم بات کی طرف نشاندہی کرنابھی ضروری معلوم ہوتاہے کہ اگرکوئی  خطیب اپنے جمعہ کے بیان میں اخلاقیات کے علاوہ حقوق وفرائض،معاملات اوردیگر مسائل وغیرہ کے بارے میں بیان کرنابھی چاہتاہے،تو تبلیغی جماعت سے متعلق بعض احباب کااصرار رہتاہے کہ وہ چھ نمبر سے باہر بیان نہ کریں، بعض دفعہ متولی حضرات بھی اپنے پسندیدہ موضوع  کےعلاوہ بیان کرنے سے منع کرتے ہیں، اس کانتیجہ یہ ہے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی عقائد واعمال اورحقوق وفرائض کےبنیادی مسائل سے ناواقف  رہتےہیں، اس لیےاس تعلق سے ذمہ داران کو وسعت خیالی سے کام لیتے ہوئے خطیب محترم کومخصوص عناوین کاپابندنہیں بناناچاہئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔