مسلم یونی ورسٹی انتظامیہ اور طلبا کو سنجیدہ حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت

سہیل انجم

مسلم یونیورسٹی علیگڑھ ایک بار پھر تنازعات کا شکار ہو گئی۔ سردست تعلیمی سرگرمیاں معطل ہیں۔ امتحانات آگے بڑھا دیے گئے ہیں۔ طلبا بے مدت دھرنے پر بیٹھے ہیں۔ ان کی حمایت میں دوسرے تعلیمی اداروں اور تنظیموں کے کارکن جائے احتجاج پر پہنچ رہے ہیں اور طلبائے علیگڑھ کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔ طلبا کا بعض احیاپسند ہندو تنظیموں کے کارکنوں سے تصادم ہوا ہے۔ پولیس نے ان پر لاٹھی چارج کیا ہے جسے سابق وائس چانسلر ضمیر الدین شاہ ’’لاٹھی اٹیک‘‘ قرار دیتے ہیں۔ پولیس نے دو افراد کو جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق ہندو تنظیموں سے ہے گرفتار کر لیا ہے۔ طلبا ہندو تنظیموں کے ان کارکنوں کے خلاف جنھوں نے یونیورسٹی کیمپس میں گھسنے کی کوشش کی، اور ان پولیس والوں کے خلاف جنھوں نے لاٹھی چارج کیا، کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے طلبا کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔ پولیس تحفظ میں ہندو کارکنوں کے کیمپس میں گھسنے کی کوشش کی جانچ کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔ نہ صرف علیگڑھ اور دہلی بلکہ ملک کے دیگر علاقوں اور پوری دنیا میں موجود علیگ برادری اور مسلمانوں میں بھی ایک اضطراب کی کیفیت ہے۔ وہ جہاں طلبا کے تعلیمی نقصان پر فکرمند ہیں وہیں یونیورسٹی کو بدنام کرنے اور اسے بند کرانے کی مبینہ سازشوں پر تشویش زدہ بھی ہیں۔ وہ ہمیشہ کی مانند اس بار بھی پولیس کی جانبدارانہ کارروائیوں کے شاکی ہیں اور ہر حال میں یونیورسٹی کیمپس میں قیام امن اور تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی چاہتے ہیں۔ لیکن تادم تحریر اس کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔

یونیورسٹی میں یہ صورت حال کیوں پیدا ہوئی یہ اب راز نہیں رہ گیا ہے۔ اختصار کے ساتھ کہا جائے تو ہندو یووا وہنی اور ہندو جاگرن منچ کے کارکنوں نے یونیورسٹی کے مین گیٹ ’’باب سید‘‘ کی جانب سے کیمپس میں گھسنے کی کوشش کی تھی۔ ان لوگوں کے ساتھ پولیس والے بھی تھے۔ طلبا نے اس کے خلاف سول لائنس تھانے تک مارچ نکالنے کی کوشش کی مگر پولیس نے انھیں راستے میں روک دیا اور ان پر لاٹھی چارج کر دیا جس میں دو درجن سے زائد طلبا زخمی ہو گئے۔ بہر حال پولیس نے طلبا کی جانب سے ایف آئی آر درج کی ہے۔

اس تنازعے کی جڑ در اصل مقامی بی جے پی ایم پی ستیش گوتم کا یہ مطالبہ ہے کہ طلبا یونین ہال سے بانی پاکستان محمد علی جناح کی تصویر ہٹا دی جائے۔ کیونکہ ان کے مطابق یونیورسٹی میں ایسے شخص کی تصویر نہیں لگنی چاہیے جس نے ملک کے ٹکڑے کیے۔ اس مطالبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہندو تنظیموں کے کارکن بے چین ہو گئے۔ لہٰذا انھوں نے خود یونیورسٹی میں داخل ہو کر تصویر ہٹانا چاہی۔ کسی بھی کام کا کوئی ضابطہ ہوتا ہے۔ اگر جناح کی تصویر ہٹانی تھی تو یونیورسٹی انتظامیہ سے بات کی جاتی۔ یا بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ تصویر 1938 سے لگی ہوئی ہے اس لیے اس کو اس طرح ہٹایا بھی نہیں جا سکتا۔ یونین لیڈروں کا کہنا ہے کہ حکومت اس بارے میں ہدایت جاری کرے پھر دیکھا جائے گا۔ ویسے ستیش گوتم نے وائس چانسلر کو اس بارے میں ایک مکتوب ارسال کیا تھا۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ فوری طور پر اسے میڈیا میں بھی دے دیا گیا اور خط وی سی تک چار روز کے بعد پہنچا۔ قابل ذکر ہے کہ ستیش گوتم کئی سال تک یونیورسٹی کورٹ کے ممبر بھی رہ چکے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کو جناح کی تصویر کے بارے میں علم نہیں رہا ہوگا۔ انھوں نے پہلے ہی یہ معاملہ کیوں نہیں اٹھایا۔ اس وقت اٹھانے کی کیا تک ہے۔ دوسری بات یہ کہ اگر وہ اس بارے میں واقعی سنجیدہ تھے تو انھیں اسے میڈیا میں دینے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ وی سی سے مل کر اس معاملے کو حل کر سکتے تھے۔ انھوں نے ہندو تنظیموں کے کارکنوں کو یونیورسٹی تک مارچ کرنے سے روکا کیوں نہیں۔ ایسے بہت سے سوالات ہیں جو ستیش گوتم کی نیت کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں۔ محمد علی جناح کی تصویر ایک تو 1938 سے وہاں لگی ہوئی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ان کی تصویریں نیشنل میوزیم نئی دہلی میں مختلف رہنماؤں کے ساتھ بھی لگی ہوئی ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پارلیمنٹ میں شیاما پرشاد مکھرجی کے ساتھ ان کی تصویر لگی ہوئی ہے۔ ممبئی میں جناح ہاؤس ہے۔ دوسرے مقامات پر بھی ان کی یادگاریں ہیں۔ پھر مسلم یونیورسٹی ہی میں ان کی تصویر پر اعتراض کیوں؟

یہاں یہ ذکر بھی کیا جا سکتا ہے کہ جناح کو تقسیم ہند کا واحد ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ تقسیم انگریزوں کی ایک چال کا شاخسانہ تھی۔ اس معاملے میں دوسرے لوگوں کا بھی رول رہا ہے۔ لیکن بہر حال مورخین اس کا فیصلہ کریں گے کہ تقسیم ہند کے ذمہ دار کون کون لوگ رہے ہیں۔ لیکن اس سلسلے میں جناح کا نام لے کر مسلمانوں کی حب الوطنی پر شک کرنا اور مسلم یونیورسٹی کو بدنام کرنا اور یہ الزام عاید کرنا کہ مسلمان جناح کا حامی ہے، بالکل غلط اور بے بنیاد بات ہے اور قابل مذمت بھی ہے۔ اگر مسلمان جناح کے دو قومی نظریے کے حامی ہوتے تو آج ہندوستان میں ان کا وجود ہی نہیں ہوتا۔ مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت نے پوری قوت کے ساتھ اس نظریے کی مخالفت کی تھی اور یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان نہیں گئے۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان اور جناح کا نام لے کر مسلمانوں کو بدنام کرنا فرقہ پرست قوتوں اور ہندو احیاپسند تنظیموں کو بہت مرغوب ہے۔

یونی ورسٹی میں جناح کی تصویر کے معاملے پر اس وقت جو ہنگامہ کیا گیا وہ بھی ایک خاص مقصد کے تحت ہے۔ بی جے پی اور اس کی معاون سنگھی تنظیموں کو عوام میں تفریق پیدا کرنے اور انھیں مذہب کے نام پر بانٹنے کے لیے جو موضوعات پسند ہیں ان میں ایک مسلم یونیورسٹی بھی ہے۔ جب بھی بی جے پی کو فرقہ واریت کے سہارے سیاسی فائدے کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ یا اس کی معاون تنظیمیں پسندیدہ موضوعات میں سے کسی ایک موضوع کو چھیڑ دیتی ہیں اور اس کی بنیاد پر پورے ملک میں عوام کو بانٹ دیتی ہیں۔ اس وقت چونکہ کرناٹک میں اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں۔ مغربی یو پی کے کیرانہ اور نورپور میں ضمنی انتخابات اور آگے 2019 میں پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں۔ انتخابی فصل کاٹنے کے لیے کسی مشین کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک میں کوئی جذباتی ایشو بھی نہیں ہے۔ مندر کا معاملہ پہلے ہی ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔ گائے کے تحفظ کے نام پر ہجومی تشدد بھی خوب ہو چکا اور اب اس ایشو کو زندہ کرنا شاید اتنا آسان نہیں ہوگا۔ لو جہاد کا معاملہ بھی مردہ ہو گیا ہے۔ لہٰذا کسی نئے ایشو کی تلاش تھی۔ قرعہ فال مسلم یونیورسٹی کے نام نکلا۔ مسلمانوں کو جن چیزوں سے قلبی اور جذباتی لگاؤ ہے ان میں ایک مسلم یونیورسٹی بھی ہے۔ وہ اس کے خلاف کوئی بھی بات سن نہیں سکتے۔ اس کے نام پر مرٹے اور کٹنے کے لیے بھی تیار رہتے ہیں۔ اس لیے اسی کو نشانہ بنایا گیا۔ پہلے مسلم یونیورسٹی میں آر ایس ایس کی شاکھا لگانے کا تنازعہ کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے لیے ایک شخص کو جس کا نام خیر سے مسلم یعنی محمد عامر راشد ہے اور جس کے بارے میں کہا گیا کہ وہ آر ایس ایس کا رکن ہے، استعمال کیا گیا۔ اس نے وی سی کو ایک خط لکھ کر شاکھا لگانے کی اجازت طلب کی جو نامنظور کر دی گئی۔ جب یہ چھوٹا پٹاخہ فِسّ ہو گیا تو کسی بڑے شخص کی تلاش ہوئی اور نظر ٹھہری مقامی بی جے پی ایم پی ستیش گوتم پر اور پٹاخے کے طور پر محمد علی جناح کا انتخاب کیا گیا۔ چونکہ مسلم یونیورسٹی سے مسلمانوں کا جذباتی تعلق ہے اور جناح سے ملک کی بہت بڑی آبادی انتہائی درجہ تک نفرت کرتی ہے۔ اس لیے یونیورسٹی کے اندر جناح نامی پٹاخہ پھوڑ دیا گیا۔ پھر کیا تھا ہندو یووا وہنی اور ہندو جاگرن منچ کے لوگوں نے اسے لپک لیا اور اس طرح مسلم یونیورسٹی میں جناح کی تصویر کے نام پر پورے ملک میں ایک ہیجان برپا کر دیا گیا۔

اس معاملے کو گرم رکھنے کے لیے نیوز چینلوں کا سہارا لیا گیا۔ انھوں نے اس پر مسلسل مباحثے شروع کر دیے۔ جناح کی ’’ہند دشمن اور ہندو دشمن‘‘ کہانیاں بیان کی جانے لگیں۔ مسلمانوں کو ان سے جوڑ کر انھیں بدنام کرنے کی کوشش کی جانے لگی۔ مقصد صرف اور صرف اتنا ہے کہ اسی بہانے عوام میں تفریق پیدا کی جائے اور ایک جذباتی ماحول بنایا جائے۔ تاکہ اس کی بنیاد پر انتخابی کامیابیوں کی فصل کاٹی جائے۔ بہت سوچ سمجھ کر مسلم یونیورسٹی میں جناح کی تصویر کا معاملہ اٹھایا گیا ہے۔ جناح کی جو دوسری یادگاریں ہیں ان کو ختم کرنے کی کوئی بات اس لیے نہیں کی گئی کہ اس میں مسلمانوں کو ملوث کرنا ممکن نہیں تھا۔ جناح کی یادگاریں رہیں یا مٹا دی جائیں اس سے مسلمانوں کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مسلمانوں یا مسلم یونیورسٹی کو اس سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ یونین ہال میں جناح کی تصویر رہے یا نہ رہے۔ لیکن جیسا کہ بار بار کہا جا رہا ہے کہ یونین نے ان کو تاحیات رکنیت دی تھی اور اسی وجہ سے ان کی تصویر وہاں لگی ہوئی ہے۔ یونین نے گاندھی جی، مولانا آزاد، پنڈت نہرو، سی وی رمن اور یہاں تک کہ وشو ہندو پریشد کے بانیوں میں سے ایک ڈاکٹر کرن سنگھ کو بھی تاحیات رکنیت دی ہے۔ جس کو تاحیات رکنیت دی جاتی ہے اس کی تصویر پروٹوکول کی مناسبت سے وہاں لگائی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ 1938 سے لے کر اب تک ان لوگوں کو جناح کی تصویر کیوں نظر نہیں آئی تھی۔ اگر آئی تھی تو وہ اب تک اسے کیسے برداشت کرتے رہے۔ بہت سے دانشوروں کا خیال ہے اور بجا ہے کہ جناح کی تصویر کو یونین ہال سے ہٹوا دو لیکن کیا جناح کی تاریخ کو ہندوستان کی تاریخ سے مٹایا جا سکتا ہے۔

ہم جناح کے دو قومی نظریے کی بالکل حمایت نہیں کرتے۔ ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ ہم تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے بھی مخالف ہیں۔ اس کی وجہ سے ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ گھٹ گئی۔ جب بھی شرپسند چاہتے ہیں پاکستان کا نام لے کر مسلمانوں کو مغلظات سنانا شروع کر دیتے ہیں۔ ہر ایرا غیرا نتھو خیرا مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے کی بات کرتا ہے۔ جناح اور ان کے نظریے کی شدید الفاظ میں مذمت کے ساتھ ہم یہ سوال کرنا چاہیں گے کہ کیا ملک کی آزادی میں جناح کا جو رول رہا ہے اس کو تاریخ کے صفحات سے مٹایا جا سکتا ہے۔ قیام پاکستان کے مطالبے سے قبل جناح ہندو مسلم اتحاد کے بہت بڑے مبلغ رہے ہیں کیا اس حقیقت کو جھٹلایا جا سکتا ہے۔ تاریخ کو مٹانا آسان نہیں ہوتا۔

بہر حال یہ معاملہ کافی حساس ہے۔ اس سلسلے میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر، اس کی انتظامیہ اور طلبا یونین کو بہت سنجیدگی سے حکمت عملی بنانی چاہیے۔ جوش و جذبات سے صرف اپنا نقصان ہوتا ہے۔ جب ستیش گوتم نے تصویر ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا اسی وقت اسے ہٹا دینا چاہیے تھا اور انھیں بلا کر دکھا دینا چاہیے تھا کہ دیکھیے ہم نے آپ کا مطالبہ تسلیم کر لیا ہے۔ یہ معاملہ فوری طور پر ٹھنڈا ہو جاتا اور ایک شرپسندانہ چال ناکام ہو جاتی۔ بعد میں طلبا جب چاہتے اسے پھر وہاں آویزاں کر دیتے ان کو کون روکتا۔ روز روز تو کوئی جا کر دیکھنے سے رہا کہ جناح کی تصویر لگی ہوئی ہے یا نہیں۔ لیکن یہ کام پہلے ہی دن ہو جانا چاہیے تھا۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو ممکن ہے کہ یہ معاملہ اتنا طول نہیں پکڑتا۔ لیکن اب پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے۔ اب معاملہ ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ کیمپس میں گھسنے اور لاٹھی چارج کرنے والوں کے خلاف کارروائی تو بہرحال ہونی چاہیے۔ لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ اس معاملے میں طلبا کا تعلیمی نقصان زیادہ نہ ہو۔ شرپسندوں کے بہت سے مقاصد میں سے ایک مقصد مسلم طلبا کو تعلیم کی طرف سے بے پروا کرکے فالتو کے کاموں میں الجھا دینا بھی ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ اور طلبا شرپسندوں کی سازشوں کے شکار بن چکے ہیں۔ پورے ملک میں خلفشار پیدا ہو گیا ہے۔ یونیورسٹی کی تعلیمی سرگرمیاں معطل ہو چکی ہیں۔ جامعہ ملیہ میں بھی اسے اٹھانے کی کوشش شروع ہو چکی ہے۔ دوسری یونیورسٹیوں میں بھی اس ایشو کو پہنچانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ ہندو یووا وہنی کے کارکنوں کے خلاف کسی کارروائی کا امکان نہیں ہے کیونکہ واہنی کے سربراہ ریاست کے مکھیا ہیں۔ لہٰذا صبر و برداشت اور حکمت عملی کا راستہ یونیورسٹی انتظامیہ اور طلبا کو ہی اختیار کرنا ہوگا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ طلبا کا دھرنا یوں ہی جاری رہے اور یونیورسٹی سے تعلیمی ماحول کا بالکل ہی خاتمہ ہو جائے۔ اور دوسرے تعلیمی ادارے بھی اس کی زد میں آجائیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔