نئی ریاستوں کا قیام اور مسلمانوں کا موقف

مرزاعبدالقیوم ندوی

آدھی رات کی آزادی نے صبح ہوتے ہی جو منظر پیش کیا وہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ بن گیا۔ صبح کی سفیدی سے شام کی سرخی تک اور پھررات کی آندھیری سے سورج کی پہلی کرنوں تک، انسانوں کے خون سے جوہولی کھیلی گئی جس نے صبح کی سفید ی کوسرخ سویرے میں تبدیل کردیا اور شام کی سرخی، شفق کی نہیں بلکہ انسانی خون کی سرخی تھی۔ جس کے نشانات تاریخ کے صفحات پرہی نہیں بلکہ انسانوں کے دلوں پرنقش ہیں اور ان لہولہان نقوش پرجو لکیر کھینچی گئی اس کو تقسیم کا نام دیا گیا اورپھر یہی لکیر سرحدبن کر ابھری جس نے لاکھوں انسانوں کو، ہزاروں خاندانوں کواپنے سے جداکردیا۔ ماں کو بچوں سے، بوڑھے ماں باپ کو نوجوان ا ولاد سے، نئی دلہنوں کو اپنے شوہروں سے، بھائیوں کواپنی نوجوان بہنوں سے صرف جد ا ہی نہیں کیا گیا بلکہ جدا کرنے کے بعد ان سرہی بدن سے جداکردیئے گئے۔ اکھنڈ بھارت کی جو تقسیم عمل میں آئی جس کی تاریخ خونچکاں نے مسلمانوں کو لفظ ’تقسیم‘ سے اتنا خوفزدہ کردیاکہ وہ اس لفظ کو سنتے ہی گہری نیند سے بیدار ہوکر بھاگنے لگتے ہیں۔

ملک آزاد ہوا، لسانی وتہذیبی، علاقائی و قدرتی وسائل کی بنیاد پر ریاستوں کا قیام عمل میں آیا۔  انگریزوں کی غلامی سے تو ہم بھارتی آزاد ہوگئے لیکن اپنوں کی غلامی میں آ گئے۔ غیروں کے ستم سے اپنوں کے کرم نے ملک کو برباد کردیا۔  ع

اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں

ریاستوں کے قیام کا سلسلہ اگر یونہی چلتا رہا تو ایک دن بھارت میں پچاس ریاستیں ہوں گی۔ اب یہ الگ بات ہے کہ ملک کے حق میں ان کا قیام کتنامفیدا ور کتنا مضـر ہے۔ جہاں ملک میں علیحدہ ریاستوں کی ہوا چل رہی ہیں وہاں کچھ فرقہ پرست تنظیمیں و جماعتیں جس میں خصوصاَ آر ایس ایس، سناتن دھرم، ہندوواہنی، ہندو جن جاگرن سمیتی اور ان تنظیموں کی دیگر سیاسی و سماجی ہمنوا جماعتیں ملک کو’’ ہندوراشٹر‘‘ بنانے کا خواب دیکھ رہی ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے ہر سطح پرتیاریاں شروع کردی ہیں۔ آج ہندوراشٹر کے وائرس سے متاثر افراد ملک کے چپہ چپہ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ افراد حکومتوں کے اعلی عہدوں پر متمکن ہیں۔ عدلیہ سے فوج تک، وائس چانسلر سے ٹیچر تک، چپراسی سے ملک کے بڑے سے بڑے عہدے دار تک، ہندو راشٹر کا خواب سجائے ہوئے ہیں۔ (ہماری اس بات کی تصدیق کرنی ہیں تو آرایس ایس میں شامل ہونے والے ریٹائرڈ افسران کی فہرست اٹھا کر دیکھ لیجئے۔)

ریاستوں کے قیام کی راہ در اصل پنڈت جواہر لال نہرووسردار ولبھ بھائی پٹیل کے جلد بازی میں کئے گئے1956کے فیصلہ کا خمیازہ ہے۔ جس میں کہا گیاتھا کہ ’’لسانی بنیادوں پر ریاستوں کا قیام عمل میں لایاجاسکتاہے۔ تلنگانہ دراصل نظام سلطنت کے ماتحت علاقہ تھا، جہاں آج بھی کافی جائیدادیں نظام کی موجود ہیں۔ آندھرا پردیش کے 10اضـلاع کو ملاکر علیحدہ ریاست تلنگانہ کا قیام عمل میں آچکا ہے۔ چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے قیام سے ترقی میں اضافہ ہوگا، مسائل کوفوری طورپر حل کیاجاسکے گا، اس طرح کی منطق علیحدہ ریاستوں کے حامی لڑاتے ہیں۔ عام طورسے چھوٹی ریاستو ں کی مانگ دو باتوں کی وجہ سے کی جاتی ہے۔ (۱) سیاسی صورتحال :ذات و مذہب کی بنیاد پر ملک کی سماجی تقسیم عمل میں آچکی ہے، جس کی بنیاد پر علیحد ہ ریاستوں کی مانگوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح گزشتہ چند برسوں میں علاقائی پارٹیوں کی قوت میں اضافہ ہواہے۔ دوسری  طرف قومی پارٹیاں بھی اپنے مقاصد کے حصول و اقتدارمیں بنے رہنے کی خواہش کی وجہ سے علاقہ واریت کو بڑھاوا دے رہی ہیں۔ (۲)ترقی و خوشحالی کا نہ ہونا دوسری بڑی اہم وجہ ہے۔ بھارت کے علاوہ دیگر ملکوں میں یہ منطق لڑائی جاتی ہے کہ جتنی ریاست چھوٹی اتنی زیادہ اس کی ترقی۔ ملک کے تمام صوبو ں میں یکساں ترقی ممکن نہیں، اس کی جس کی وجہ سے بھی علیحدہ ریاستوں کی مانگ ہونے لگتی ہے۔

ریاستوں کے قیام کا یہ سلسلہ اگر یونہی چلتا رہا تو او ر بہت سارے سوالات پیدا ہوں گے۔ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ چھوٹی ریاست بننے کے بعد اس ریاست کی ترقی ہوگی؟۔ جھارکھنڈ جیسی ریاست کی طرف دیکھا جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہاں کتنی ترقی ہوئی ہے؟۔ یہ بات بھی پیش نظررہے کہ علیحدہ ریاست کے پیچھے کوئی سیاسی فائدہ تو نہیں۔ کچھ چھوٹی ریاستوں کے قیام سے ملک کی سا  لمیت وامن و امان کو خطرہ تو نہیں۔ موجودہ صورتحال کے تناظرمیں ملک کو ان چھوٹی ریاستوں کافائدہ و اہمیت کیا ہے؟

علیحدہ ریاستوں کے فائدے

(۱)علیحدہ ریاستوں کے حامیوں کاماننا ہے کہ ریاستیں اگر چھوٹی رہیں تو ترقی جلد ہوگی، اورحکومت اور انتظامیہ پر بھرپور توجہ مبذول ہوسکتی ہے۔ (۲) اگر آبادی کم ہوئی تو ترقیاتی کاموں پر فوری طور توجہ دی جاسکتی ہے اور ان کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل بنانے میں وسائل کا رونا نہیں رہے گا(۳) چھوٹی ریاستوں کے عوامی نمائندے اپنے مسائل مرکزی حکومت کے سامنے اچھے ڈھنگ سے پیش کرسکیں گے۔ ہر علاقہ کی علیحدہ نمائندگی ہوگی۔ کرپشن سے پاک انتظامیہ ہوگا ان پر نگاہ رکھنا آسان ہوگا۔ (۴)لسانی یا علاقائی بنیادوں پر بنائی جانے والی ریاستوں میں عوام اور یکسانیت رہتی ہے، اسی وہاں اختلافات کے امکانات کم ہیں۔ عوام کی خواہش و مطالبات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے لیے ترقی و خوشحالی کے پروگرام ترتیب دیناآسان ہوگا۔ (۵)ترقیاتی کاموں کو انجام دینا چھوٹی ریاستوں کے لیے زیادہ ممکن ہے۔ مقامی لوگوں کے اشتراک و تعاون سے فلاحی و ترقیاتی کامو ں کو انجام دیاجاسکتاہے۔

علیحدہ ریاستوں کے نقصانات:

سب سے بڑانقصان یہ ہے کہ علیحدگی پسندی کی ذہنیت کو بڑھاوا ملیگا۔ باربار کے اس طرح کے مطالبات سے دنیا میں آج جوبھارت کی پہچان ہے کہ وہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے، مختلف زبانیں بولنے والے، مخصوص تہذیب وتمدن، علاقائی و لسانی، تاریخی وجغرافیائی فرق کے باوجوداتحاد و اتفاق، آپس میں میل میلاپ، بھائی چارہ و آپسی اتحادپایاجاتاہے، ایک دوسرے کے مذہب و جذبات کا خیال رکھا جاتاہے۔ علیحدہ ریاستوں کی کثرت سے یہ ختم ہوجائیگا۔ مستقبل میں ملک مختلف خانوں بٹ جائے گا۔ (۲) قومی و علاقائی سیاست پر اس کے اثرات بہت خطرناک مرتب ہوں گے۔ وہ اس لیے کہ ریاستوں کے قیام میں سیاسی پارٹیاں ترقیاتی منصوبوں کی بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتی ہیں۔ اسی طرح چھوٹی ریاستوں کو ہر معاملہ کے لیے مرکز کی طرف نگاہ رکھنا پڑتی ہے اور ہر معاملہ میں اسی پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ علاقہ واریت کی وجہ سے صرف اپنی ریاستوں کے فائدے کو مقدم رکھتے ہوئے سیاست کی جاتی ہے۔ جس کی بنیادپر ملک میں انارکی، لسانی و علاقائی واریت کو بڑھاوا ملتا ہے، جیسے مہاراشٹرین، کیرلین، بہاری، بنگالی وغیرہ وغیرہ۔

مسلمانوں کا موقف:

 اوپرہم بتا چکے ہیں کہ ’تقسیم ‘ کا لفظ مسلمانو ں کے لیے ایک گالی بن گیا ہے۔ ناکردہ گناہوں کی سزا اسے آج تک مل رہی ہے۔ ملک کی تقسیم کے پیچھے کن کن لوگوں کا ہاتھ تھا یہ بات تقریباََ اب واضح ہوچکی ہے۔ اتنا سچ تو سامنے ہی آگیا ہے کہ مسلمانو ں کو تقسیم کی کوئی جلدی نہیں تھی۔ ملک تقسیم ہوا، اس کے بعد جو کچھ ہوا، اس کو کبھی بھی مسلمان فراموش نہیں کرسکتے۔ کشمیر کا مسئلہ علیحدہ ہے، وہاں کے لوگوں سے جو وعدے و معاہدے ہوئے تھے وہ پورے ہوتے ہوئے نظرنہیں آتے اس لیے آج  بھی وہاں کی برف میں آگ لگی ہوئی ہے۔

 رہا مسئلہ آسام کے مسلمانوں کا تو وہاں کی صورتحال یہ ہے کہ’’ بوڈو ‘‘چاہتے ہیں کہ چار اضلاع میں سے مسلمانوں کو بھگا دیا جائے اور صرف بوڈو وہاں پر آبادرہ سکیں تاکہ وہ مرکزمیں اپنی علیحدہ شناخت و طاقت کا مظاہرہ کرسکیں۔ کشمیر سے کنیاکماری تک مسلمان کہیں پر بھی منظم نہیں، ان کی کوئی ٹھوس و مـضبوط آوازنہیں۔ علاقائی و صوبائی سطح سے مرکزی سطح تک کوئی ایسی سیاسی ومذہبی قیادت نہیں کہ جس کے پیچھے پوری مسلم قوم جمع ہوسکے۔ کسی ایک مسئلہ پر ان کی رائے ایک ہو۔ تلنگانہ میں مسلمانو ں کی آبادی اچھی خاصی ہے اب وہاں یہ دیکھنا ہے کہ ریاست کے مکمل بننے کے بعد وہاں مسلمانوں کا کیاکردار رہتا ہے۔ مسلمان تو بس اتناچاہتے ہیں کہ آئین نے جوحقوق بھارت میں بسنے والے شہریوں کو خصوصاََ اقلیتوں کو دیئے ہیں وہ انہیں حاصل ہوں۔

 اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ کشمیر (ہند) کے مسائل  سے بھارت کے مسلمانوں کوبہت زیاددلچسپی نہیں ہے۔ وہ کشمیریوں کے ہر بات و مطالبہ کو من وعن نہ تو قبول کرتے ہیں او رنہ ہی ان کی مکمل تائید وحمایت کرتے ہیں۔ آزاد بھارت کی تاریخ اٹھاکردیکھ لیجئے کہ کشمیر کے مسئلہ پر کشمیرکے باہر کے مسلمانوں نے کیا رویہ اپنایا ہے۔ بھارتی مسلمان تو یہ چاہتا ہے کہ کشمیر میں جو مظالم، خون و خرابہ، عورتوں، بچوں ا ور نوجوانوں کا جوقتل ہوتا ہے وہ نہ ہو۔ مسئلہ کو فو ری طور پر حل کیا جائے، بس یہی بھارتی مسلمانوں کی خواہش ہے۔ نئی ریاستوں کے قیام سے مسلمانوں کو کوئی خاص فائدہ پہنچے گا، اس کی کوئی گیارنٹی نہیں۔ ریاستوں کا قیام یا تو لسانی بنیادوں پر، علاقائی وتہذیبی و تاریخی پس منظر میں کیاجارہا ہے۔ جبکہ مسلمان پورے بھارت کواپنا وطن مانتاہے، وہ ہرتہذیب کو بھارتی تہذیب، ہرزبان کو بھارت کی زبان اور ہر شہری کو بھارت کا شہری مانتا ہے۔ مسلمانوں کا ایک ہی نعرہ ہے’’جیوواور جینے دو‘‘  اس لیے من حیث القوم و ہ کسی بھی ریاست کے قیام کے لیے سڑکوں پرنہیں آئے، انفرادی طورپرکچھ مسلمان اس میں ضـرور شامل ہوسکتے ہیں مگر اجتماعی طور پر مسلمان  اب کسی بھی طرح کی تقسیم وعلیحدہ ریاستوں کے حق میں نہیں۔

علیحدہ ریاستوں کا خد وخال

تلنگانہ :آندھرا کے شمالی علاقوں کی شمولیت کی مانگ1950سے علیحدہ ریاست کی مانگ کی جاری تھی، کانگریس نے جاتے جاتے اس ریاست کو منظوری دے دی اور آج یہ ریاست ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ 1969میں طلباء کے مظاہروں کو پولس نے طاقت زور پر کچل دیاتھا جس میں 369طلباء کی موت ہوگئی تھی۔

ہریت پردیش : اترپریش کے مغربی علاقوں میں سے کے 22اضلاع کی شمولیت مشرقی ومغربی علاقوں کی تہذیبی و معاشی فرق  کی وجہ سے  علیحدہ ریاست کی مانگ کی جارہی ہے۔ میں 06علاقوں کوآگرہ، علیگڑھ، میرٹھ، بریلی، مرادآباد، سہاررانپور انپورکے 22اضلاع شامل ہیں۔

بندیل کھنڈ:یوپی کے سات اورمدھیہ پردیش چھ اضلاع کوملاکربندیل کھنڈریاست بنانے کی مانگ کی جارہی ہے

 ودربھ:۔ مراوتی اورناگپورڈیویژن کے اضلاع کوملاکر علیحد ہ ودربھ ریاست کی مانگ۔ ابھی بی جے پی کی نئی  حکومت آئی ہے، ممکن ہے کہ اس سال علیحدہ ودربھ ریاست کا قیام عمل میں آجائے۔

گورکھالینڈ:مغربی بنگال اورآسام کے11اضلاع کوشامل کرکے، گورکھالینڈ کی مانگ کی جارہی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔