نئے بھارت میں منشی پریم چند کی ضرورت نہیں؟

پروفیسرآفتاب احمد آفاقی

(بنارس ہندو یونی ورسٹی، یوپی)

آج اردو، ہندی کے عظیم فکشن نگار منشی پریم چند کی ایک سو انتالیسویواں سالگرہ ہے۔ بنارس کے قریب لمہی گاؤں ان کی جائے پیدائش ہونے کے سبب علم و ادب کے شیدائی اور انسانیت کو مقدم سمجھنے والوں کی بڑی تعداد پریم چندکے آبائی وطن اور اس مکان کا درشن کرنا اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہیں۔ جس مکان میں ان کی زندگی گزری اور علم و ادب کے ہفت خواں انھوں نے طے کئے وہ ہماری تہذیبی اورتاریخی وراثت ہے۔ اس کی ہر ایک انیٹ، اس کے روشن دان، اس کی سیڑھیاں اور طاق گواہ ہیں ادب کے ایک ایسے مینارے کی جس کی تحریریں اپنے اندر زندگی کو روشن کرنے اور بامعنی بنانے کی قوت رکھتی ہیں۔ یہ نشانی ہے اس عید گاہ کے حامد، بڑے گھر کی بیٹی آنندی اور گؤدان کے ہوری اور دھنیا کی جس سے ہندوستانی گاؤں کی خوشبو چاروں اور پھیلتی ہے، یہ محض ایک معمولی مکان نہیں ہماری برسہا برس کی روایت کے امین اور پاسدار کا مسکن ہے جس کے سہارے ہم اپنی نئی نسل کو سچ اور جھوٹ، حق و باطل، ظالم و مظلوم، دیہی اور شہری نیز امیر و غریب میں فرق بتا سکتے ہیں۔ اس کی بدحالی اصلاً ہمارے ذہن و فکر کے دیوالیہ پن کی علامت ہے، ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں اقدار کی ناقدری مقدر ہے، ہمیں علم و ادب سے بے رغبتی ہی نہیں ادیبوں اور دانشوروں سے خوف ہے، حق و انصاف کی باتوں سے نفرت ہے اور اتحادو اتفاق سے بیر۔

آج سچ اور جھوٹ اس قدر گڈ مڈ ہوگئے ہیں کہ ان کی شناخت ممکن نہیں۔ جب سیاست پر جھوٹ اور مکرو فریب کا قبضہ ہوجائے اور مذہب پاور میں رہنے کا وسیلہ ہو، تو پھر سماج میں حق و صداقت کی باتیں سننے والوں کی تعداد میں گراوٹ آجاتی ہے، اسے ہمارے عہد کی پسماندگی اور المیہ ہی کہا جائے گاکہ پریم چند کی رہائش گاہ جسے سرکاری سطح پر2005 ء میں اسمارک کا درجہ دیا گیا ہے آج اپنی کسم پرسی پر آنسو بہا رہا ہے۔ پریم چند اس وقت پریم چند کی استعمال میں آنے والی اشیاء کتاب، قلم، ڈائری، کرسی سب کچھ موجود تھیں لیکن آج ان کا وجود نہیں ان کے مکان کے باہر ہی نہیں اندر کے حالات بھی نا گفتہ بہ ہے شام ہوتے ہی منشی جی کا گھر اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے۔ پرانے دورکی یادیں تازہ رکھنے کے لئے ان کے آبائی مکان کے کمروں میں لگے Switch Borad  اُکھڑ گئے ہیں، دروازے کی چھوکھٹ کی لکڑی میں دیمک لگی ہے، آنگن سے جانے والی سیڑھی کے پتھر بھی ٹوٹنے لگے ہیں ان کمروں کے جن تاکوں پر کبھی منشی جی اپنے قلم، ڈائری اور کتابیں رکھتے تھے، وہ گرد آلود ہو چکی ہیں کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ حتیٰ کہ گذشتہ ۳۲/جولائی کو بل کے بقائے کے سبب بجلی کاٹ دی گئی ہے۔ کچھ برسوں پہلے روزمرہ میں استعمال ہونے والی اشیا کو ان کے مکان کی مرمّت کے دوران دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا تھا، یہ ہی نہیں پانڈے پور چوراہے پر لگائی گئی منشی جی کے مجسمے کو Flyoverکی تعمیر کے دوران ہٹا دیا گیا تھا، جسے کافی دنو تک دوبارہ نہیں لگایا گیا، بعد میں پریم چند کے چاہنے والوں کے احتجاج کے بعد دوبارہ لگانا ممکن ہوا۔ بقیہ اشیا کہاں ہیں ؟ اس کی اطلاع کسی کو نہیں۔ بس ایک حقہ اور منشی جی کی لالٹین ان کی نشانی ہے۔ انتظامیہ کی تساہلی کہیے یا ہمارے معاشرے کی علم و ادب سے بے رغبتی، کہیں بھی ان رویوں کے خلاف کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔ بس سال میں ایک مرتبہ ثقافتی پروگرام کے تحت ڈھول تاشے کی نمائش ہو جاتی ہے گو یا نقار خانے میں طوطی کی آواز۔ اس سے یہ اندازاہ لگانا مشکل نہیں کہ موجودہ دور میں ہماری ترجیحات کیا ہیں ؟ ہم آخر علم و ادب سے بے گانگی اور قدروں سے بے نیاز ہو کر کون سا معاشرہ یا ملک تعمیر کرنا چاہتے ہیں ؟ کیا نئے بھارت میں پریم چند جیسے عظیم ادیبوں کی کوئی ضرورت باقی نہیں ہے؟

        پریم چند ہمارے ادب کا ایک ایسا ستون ہے جس پر یہ خطہ ہی نہیں بلکہ ملک کو ناز ہے۔ اس عظیم تخلیق کار نے ہندستان میں بسنے والے انسانوں کے احساسات و جذبات کو اپنی تخلیقات میں پیش کیا اور غریبوں، مظلوموں، دکھیاروں نیز پسماندہ طبقوں کی بھر پور نمائندگی کی۔ اس فکشن نگار کی کہانیوں میں ہمارے ملک کی ایک ایسی تہذیب مترشح ہوتی ہے جو بے حد معصوم ہے اس میں قوتِ برداشت کی کمی نہیں لیکن انسانی سماج میں زہر نہیں پھیلاتے، ظلم برداشت کرتے ہیں لیکن خود ظالم نہیں ہوتے، ان میں احساس مظلومیت بھی ہے تاہم قوت مدافعت کی کمی ہے ایسا اس لئے بھی ہے کہ ان کے یہاں سب کچھ برداشت کرنے اور اُف تک نہ کرنے کی ترغیب کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔

پریم چند نے ہندستان کی مشترکہ تہذیب کی بھی نمائیندگی کی ہے، وہ تہذیب جس کے رسم و رواج، آداب و اطوار اورجس کی بنیاد میں مختلف مذاہب اور عقیدوں کو اساسی اہمیت حاصل ہے، کو فروغ دیا ہے۔ اس اعتبار سے ان کی کہانیاں اور ناول نہ صرف غلام ہندستان کی دستاویز ہیں بلکہ اس کے وسیلے سے ہم اپنی تہذیبی، ثقافتی اور تاریخی جڑوں کو تلاش کر سکتے ہیں۔ پریم چند نے جس فکر کی نمائیندگی کی ہے وہ سماجی اقدار ہے جس کے بغیر انسانیت کا تحفظ ممکن نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جس ادب میں انسانی دکھ درد کی کارفرمائی نہ ہو وہ ادب نہیں ہو سکتا اور جو ادیب انسانی قدروں سے عاری اور بے نیاز ہو وہ ادیب ہو یہ ناممکن ہے۔ ایسے ادیب و دانشور کو یاد کرنا اور ان سے متعلق تمام یادوں کو تحفظ فراہم کرنا ایک باشعور شہری کا نہ صرف فریضہ ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے ذہنی و فکری تربیت کا سامان مہیا کرنا ہے۔ زندہ قومیں اپنی وراثت کے تحفظ، تہذیب و ثقافت کے فروغ اور مثبت افکارو کردار کو اپنا شیوہ بناتی ہیں۔

پریم چند کی شخصیت اور ان سے متعلق جملہ تخلیقی و ادبی نگارشات کسی ایک عہد یا خطے کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ یہ ہمارے ادب کا ایک لا زوال سرمایہ ہے۔ ہمارے عظمتِ رفتہ کی نشانی ہے۔ ہماری اس قدیم روایات کی علامت ہے جس میں زندگی، سماج، سیاست اور انسانیت کے درمیان کوئی تصادم نہیں بلکہ بنی نوع انسان کی اعلیٰ و ارفع قدریں ہمیں تاریکی و گمرہی سے نجات دلاتی ہیں اور جس سے ایک ایسی راہ نکلتی ہے جس پر روشنی کی چادریں بچھی ہوئی ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔