ڈاکٹر کفیل کا قصوریہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں؟

شہاب مرزا

اس دور میں اے دوست زبوں حالی مسلم
دیکھی نہیں جاتی مگر دیکھ رہا ہوں

ڈاکٹر کا پیشہ نہایت ہی مہذب ہے ڈاکٹر کا فرض اور نصب العن ہے کہ وہ لوگوں کو راحت پہنچانے کے لئے کام کرتے ہیں۔ اور ڈاکٹرس خدمت خلق سے سرشار ہوتے ہے موجودہ دور میں بھی ایسے ڈاکٹرس موجود ہے جو لوگوں کی خدمت اور صحیح علاج کی فراہمی کو اپنا نصب العین بنا بیٹھے ہیں ان کا مقصد پیسہ کمانا یا خون نچوڑنا نہیں ہے آج بھی شہر میں ایسے ڈاکٹرس موجود ہے جو کم پیسوں میں مکمل علاج کرتے ہیں اور غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ اور اس طرح وہ اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔ آپ کو ہر شر اور ہر بستی میں ڈاکٹرس مل جائیں گے جو کم فیس یا مفت میں علاج کرتے ہیں اور دوائی کمپنی کی جانب سے دی گئی سمپل کی دوائیاں مفت میں دیتے ہیں یہ تو ہوگئی چھوٹے کلینک کی بات کچھ ڈاکٹر ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی خدمات بڑے اسپتالوں میں انجام دیتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ خدمت خلق انجام دیتے ہیں مریضوں کی مدد کرنے کے لئے وہ صحیح صلاح ومشورہ تفویض کرتے ہیں اور ذاتی طور پر بھی مدد کرتے ہیں گذشتہ سال ایسا ہی ایک نام ابھر کر آیا تھا جسے لوگ ڈاکٹر کفیل کے نام سے جانتے ہیں۔

جنھوں نے معصوم بچوں کی جان بچانے کے لئے اپنے ذاتی خرچ سے آکسیجن سلنڈر کا انتظام کیا تھا اور کئی بچوں کی جان بھی بچائی تھی۔ اور کئی دنوں تک میڈیا نے انہیں ہیرو مسیحا بناکر پیش کیا تھا جس کی وجہ سے ان کی چہار طرف ستائش بھی ہوئی تھی پھر اچانک کیا ہوا کہ ڈاکٹر کفیل کے خلاف بچوں کی اموات کی ذمہ داری تھونپ دی گئی اور وہ تقریباً ۸؍ مہینوں سے جیل میں بند ہے شائد انتظامیہ اور حکومت کو ڈاکٹر کفیل کا مسیحا بننا ہضم نہیں ہوا جس کی وجہ سے انہیں اس حادثے کا ذمہ دار گردانا گیا۔

معاملہ یہ ہے کہ ۱۱؍ اگست۲۰۱۷ کو یوپی کے گورکھپور کے سرکاری BRDاسپتال میں اچانک آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ۶۳ معصوم بچوں کی اموا ت ہوگئی تھی۔اس حادثے کی تحقیقات کے لئے ایک کمیٹی بنائی گئی جسمیں ۹؍ افراد کو قصوروار مانا گیا جسمیں ڈاکٹر کفیل سمیت ۳؍ ڈاکٹرس بھی شامل ہے۔ جو پچھلے ۸؍ مہینوں سے جیل کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں جبکہ اصل واقعہ یہ ہے کہ ۱۱؍ اگست کے سانحہ کا اصل ذمہ دار پوشپا سیلس کا مالک نتیش بھنڈاری ہے جسنے وقت پر پیسے نہ ملنے کی وجہ سے آکسیجن کی سپلائی روک دی تھی اور اپنے پیسوں کے لئے معصوم کی جانوں کو جوکھم میں ڈالا تھا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ آکسیجن کی سپلائی روکنے والے ٹھیکیدار منیش بھنڈاری کی ضمانت منظور کرلی گئی ہے اور واقعے کی حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر کفیل نے ان ہنگامی حالات میں کئی آکسیجن سلینڈر کا انتظام کیا تھا اور کئی معصوموں کی جان بچائی تھی میڈیا نے بھی ڈاکٹر کفیل کو مسیحا بناکر پیش کیا اور ان کی ستائش کی شائد یہ بات حکومت کوناگوار گذری کچھ دن بعد ڈاکٹر کفیل کو اپنی ڈیوٹی سے بے دخل کردیا گیا ہے اور پھر گرفتاری عمل میں آئی تھی جب سے اب تک ڈاکٹر کفیل جیل میں ہے ہونا یہ چاہئے تھا جو اصل قصوروار ہے انہیں گرفتار کیا جاتا۔

اب آٹھ مہینے کا وقفہ گذرجانے کے بعد اب پھر ڈاکٹر کفیل سرخیوں میں ہے آئے سرخیوں میں آنے کی اصل وجہ ڈاکٹر کفیل کی بیوی ڈاکٹر شبستہ کی میڈیا سے بات چیت ہے جسمیں انہو ں نے کہا ہے پچھلے ۸؍ مینوں سے ڈاکٹر کفیل جیل میں بند ہے اور انہیں جان بوجھ کر ضمانت نہیں دی جارہی ہے۔ڈاکٹر شابستہ خان کے مطابق ان کے شوہر دل کے مرض میں مبتلا ہے جس کی وجہ سے ان کی طبیعت ناساز ہے اور جیل انتظامیہ کی جانب سے ڈاکٹر کفیل کو خاطر خواہ علاج نہیں مل رہا ہے اگر انہیں کچھ ہوتا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا۔

ڈاکٹر شابستہ کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر بے قصور ہے جو سبھی جانتا ہے اور اسی وجہ سے انہیں عدالت میں حاضر نہیں ک یا جارہا ہے اور نا ہی ابھی تک ان کے کیس کی سماعت شروع کی گئی ہے یہ بات عیاں ہے آکیسجن کا بجٹ نہیں دیا گیا۔ ٹھیکیدار کو پیسے نہیں دئے گئے جس کی وجہ سے آکسیجن کی سپلائی روک دی گئی تھی اور بچوں کی اموات ہوئی تھی۔ اس میں یا تو سرکار ذمہ دار ہے جس نے بجٹ منطور نہیں کیا یا پھر وہ سپلائر جس نے سپلائی روک دی تھ اس میں ڈاکٹر کفیل کا گناہ کیا ہے؟ اصل گناہ گار گورکھپور کےDMاورہیلتھ سکریٹری ہیں جنھوں نے پشپا سیلز کا رپوریشن کے ۶۸؍ لاکھ کی بقایہ رقم ادا نہیں کی اس میں انتظامیہ کی غلطی ہے اور بلی کے بکرے ڈاکٹر کفیل کو بنایاگیا۔ تاکہ سچائی جیل میں بند ہوجائے اور لوگ اس سانحہ کو بھول جائے اورقصور وار ہونے کے لئے ڈاکٹر کفیل کا مسلمان ہونا کافی ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ منیش بھنڈرای کو ضمانت اور ڈاکٹر کیل کو جیل, یہ مذہبی تعصب ہے یا قانون کا دوہرا معیار۔

ڈاکٹر شابستہ خان نے کہا ہے کہ وہ ڈاکٹر کفیل کی ضمانت کے لئے جلد سپریم کورٹ سے رجوع ہوں گی۔ ہم دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے راستے آسان کریں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔