کیا لبرل مسلم ہونے کی بھاری قیمت عام مسلمانوں کو چکانی ہوگی؟

تحریر: ڈاکٹر عمیر انس

ترجمہ: سعود فیروز اعظمی

رام چندر گوہا کے ‘ترشول- برقعہ’ والے استدلال نے ہندوستانی مسلمانوں اور ان کے سیاسی و سماجی نقطہ نظر سے متعلق مباحثے کو ایک مرتبہ پھر زندہ کردیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستانی مسلمان اب اس  قسم کے غیر سنجیدہ مباحثوں سے نہ صرف اکتا چکے اور بے زار ہوچکے ہیں بلکہ ان کے اندر ایک طرح کی بے اعتنائی بھی  پیدا ہوچکی ہے۔

 جب اس قسم کے مباحثے گفتگو کی میز پر لائے جاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ "وہ مسلمانوں سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں ” اس طرح کے تبصرے مسلمانوں کے مابین عام ہوچکے ہیں ۔ یہ بات کہ ہندو مسلمانوں کو مسلمان شہری کے طور پر دیکھنے کی بجائے صرف مسلمان کے طور پر دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں ، مسلمانوں کے لئے اس قدر تکلیف دہ اور تشویش ناک امر ہے کہ اب اس کا عکس ان کے سیاسی مباحثوں میں بھی نظر آتا ہے۔

 یہ ایک خطرناک تبدیلی ہے اور  اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ غیرمسلم شہری اور عوامی دانشور  اس پر نظر ثانی کریں ۔ بحیثیت ایک مسلمان میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ عام مسلمانوں کے ذہن میں سیکولر اور دائیں محاذ کے درمیان حد فاصل بہت مہین ہو کر رہ گئی ہے۔

 مثال کے طور پر دہشت گردی کے معاملے میں اس بات کا صاف طور سے اعتراف ہونا چاہئے کہ ہندوستانی مسلمانوں کا سواد اعظم اس سلسلے میں معروف نظریہ کو تسلیم نہیں کرتا۔ مسلمانوں پر ‘حالت انکار’ میں رہنے کا الزام لگانا آسان ہے لیکن ان سے اس کے اسباب پر گفتگو نہ کرنا زیادہ خطرناک ہے۔

 تین کلیدی مسائل ایسے ہیں جنہوں نے شاید عوامی دانشوروں اور مسلم دشمن سیاست دانوں کے درمیان فرق کو دھندلا کردیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہےکہ جو دانشور غیر مسلم مفروضات کی تردید کرتے ہوئے مسلمانوں کا دفاع کرتے ہیں بعض اوقات خود ان کے دفاع  پرمسلمانوں  کو جواب دہ ہونا پڑجاتا ہے ۔ رام چندر گوہا کے معاملے میں یہی ہوا۔

 پہلا مسئلہ یہ ہے کہ آزاد خیال اور بائیں بازو کے دانشور ایک عرصے سے ہندو فرقہ پرستی کے ظہور کو بہت نارمل بنا کر پیش کرتے رہے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان اس بات کو تسلیم کرلیں کہ "قوم پرستانہ بیانیہ” جسے ہندو مہا سبھا اور آر ایس ایس نے پیش کیا ہے وہ خود مسلمانوں ہی کی فرقہ پرستی کا رد عمل ہے۔ لہذا ہندو فرقہ پستی کے قدم روکنے کے لئے مسلمانوں کو کچھ نہ کچھ قربانی دینی ہوگی۔ اور اس (قربانی )کی ایک طویل فہرست بن جاتی ہے جس کا کوئی اختتام نظر نہیں آتا۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہندو فرقہ پرستی تاریخی طور پر مسلم فرقہ پرستی کا نتیجہ تھی، اور بی ایس مونجے اور این سی کیلکر کے ابتدائی دانشورانہ مباحثے ایک "رد عمل” تھے، لیکن بائیں محاذ  کے دانشور اور لبرل دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان اب بھی ان ہی سیاسی بیانیوں کو بروئے کار لا رہے ہیں جن پر وہ آزادی سے قبل کاربند تھے۔

تیسرا مسئلہ سادہ لوحی پر مبنی ان کا  تجویز کردہ یہ نسخہ ہے کہ مسلمانوں کولازما "ترقی پسند ” اور "سیکولر” بننا چاہئے اور "قرون وسطی کے باڑے”(Medievalist Ghetto )  سے باہر نکل آنا چاہئے۔

لوگ یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ ایک لبرل، ایک بہتر لبرل اسی وقت ہوگا جب کہ وہ ایک ہندو بھی ہو۔ لیکن مسلم ذہن کچھ اور کہنا چاہتا ہے۔ وہ ان خیالات کو اتنی آسانی سے قبول نہیں کرے گا، اگر چہ کہ  عوامی اسفیر کے شور شرابے میں اس کی بات پر کان نہیں دھرا جائے گا۔

اس حقیقت کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا کہ ہندوستانی قومیت کے تصور میں دلت اور اقلیتی طبقات  کےتصورات کو اس حد تک خارج کردیا گیا ہے  کہ ایک مسلمان بھارت ماتاکی تصویر اور وندے ماترم پر اعتراض نہیں کرسکتا۔ یہ بات مسلمانوں کو تکلیف پہنچاتی ہےکہ ہندوستانی بچوں کو کلاس میں پڑھایا جا رہا ہے کہ مسلمان اس ملک میں گھس پیٹھیے، اور حملہ آور ہیں جنہوں نے اس ملک کو لوٹا ہے اور خاموشی سے بتایا جاتا ہے کہ اس کا حل – بدلہ- ہے۔ آر ایس ایس کے لٹریچر میں یہ پڑھ کر مسلمان رنجیدہ خاطر ہوتے ہیں  کہ مسلمان  نہ صرف قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں بلکہ  ان کا نام لازما پاکستان، بنگلہ دیش حتی کہ  عرب ممالک جیسے ان ملکوں سے جوڑنا چاہئے جہاں سے عالمی سلامتی کے لئے خطرات پیدا ہوتے ہیں ۔

 یہ قبول کرنا آسان نہیں ہے کہ ہندو حضرات یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ  آپ یہاں کیا کررہے ہیں ؟آپ پاکستان کیوں نہیں جاتے؟

ششی تھرور  یا  بائین محاذ کے کسی دوسرے ہندو لبرل کے لئے یہ کہنا جتنا آسان ہے کہ وہ محب وطن اور ہندو دونوں ہے، ہندوستانی مسلمانوں کے لئے یہ  ثابت کرنا کہ  وہ محب وطن اور مسلمان دونوں ہیں ،اس سے کہیں زیادہ مشکل امر ہے۔ شاید ایک مسلم لبرل ہونے کی قیمت ، عام مسلمانوں کو چکانی پڑے گی۔ ان سے اس قدر قربانیوں کی توقع کی گئی ہے کہ وہ اپنی مسلم شناخت ہی کھو دیتے ہیں ، ایک ایسی بات جس پر ایک ہندو لبرل کو غور کرنے کی زحمت اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔

 ایک عام مسلمان ، ہندو اور مسلم فرقہ واریت کو متوازی عمل قرار دینے کو کوئی مضبوط دلیل نہیں مانتا،بلکہ اسے ایک سیاسی مجبوری کے طور پر دیکھتا ہے۔ حتی کہ مسلمانوں پر ” قرون وسطی کے باڑے ” میں جینے کا الزام بھی ایک بڑھتے ہوئے،اکثریتی  عوامی  حلقے  کی دانشورانہ خوشامد کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ بات بہت عجیب اور حیرت انگیز ہے کہ ہندوستان میں  مسلمانوں کے عوامی حلقوں سے اور اصلاح معاشرہ کی، درحقیقت انہیں مغرب زدہ ہونے سے بچانے کی، بے شمار انفرادی  اور اجتماعی جد و جہد سے ہندو لبرل یکسر ناواقف ہیں۔

حامد دلوائی جب یہ کہتے ہیں کہ ” ہندوستانی مسلمانوں میں اس طرح کی کوئی آزاد خیال اقلیت بھی موجود نہیں ہے جو اس تحریک کی جمہوری آزاد خیالی کی جانب رہ نمائی کرسکے”، تو وہ لازما یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں میں تنقیدی ذہن کا فقدان ہے۔ تاہم مغربی فلسفوں  کے حوالے سے مسلمان دانشوروں کے مباحثے  ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ وہ غیر عقلی ذہن نہیں رکھتے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ ان سے تعلقات پیدا کریں اورانہیں مختلف تناظرات سے متعلق گفتگو کے جمہوری عمل میں وسیع تر سامعین سے جوڑیں ۔ اگر مرحوم حامد دلوائی نے اپنے ہندو دوستوں سے یہ بتایا ہوتا کہ  کیرلا کے سلفی مصلحین کی زیر قیادت، ندوۃ المجاہدین نامی  پہلی تعلیمی تحریک  نے  مخلوط تعلیمی نظام کی وکالت کی تھی  اور اس نے تیس کی دہائی میں عوامی تعلیمی مہمات  کی قیادت کی تھی، تودلوائی صاحب آزاد خیال مسلمانوں کی عدم موجودگی کے دعوی  میں حقائق کو یکسر نظر انداز کرنے میں محتاط ہوتے۔

صحیح بات یہ ہےکہ ہندو لبرل حضرات اس بات  سے یکسر ناواقف ہیں یا  منکر ہیں کہ مسلمانوں میں بھی مشترکہ بہبود پر منطقی مباحثہ کے لئے ایک متحرک پبلک سفیر موجود ہے، یہ الگ بات ہے کہ اسمیں زیادہ تر مکالمہ انکی زبانوں میں ہی ہوتا ہے. بائیں بازو کے ہندولبرل  حضرات کو محض اردو شاعری کا حوالہ دے کر، تصوفانہ موسیقی سے لطف اندوز ہوکر اور مغل ریستوراں کی تعریف کرکے نہیں بلکہ مدرسوں اور اسلامی اداروں کی زیارت کے لئے وقت نکال  کر یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ یہ  ہندو فرقہ پرستوں کی بہ نسبت کس حد تک فرقہ پرست ہیں ۔ ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ "مسلم فرقہ پرستی” کے عفریت پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور سے اب جب کہ مسلمان اپنی کمزور ترین حالت میں  ہیں ۔ آر ایس ایس کی  منظم فرقہ پرستی کو بائیں محاذ اور لبرل دانشوروں کی جانب سے ہمیشہ نظر انداز کیا گیا، شاید سیاسی اغراض کی تکمیل کے لئے۔ مسلمان اس حقیقت سے مستقل طور پر واقف ہیں کہ بی جے پی ہو یا نہ ہو، آر ایس ایس کا ایجنڈا بہر حال محفوظ ہے۔ خاص طور پر اس وجہ سے کہ  اس ایجنڈے میں اس قدر  لچک موجود ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی پارٹی کے ساتھ چل سکتا ہے۔

 اس ملک کے برابر کے شہری ہونے کا خواب ایک مسلم کی ذاتی،مذہبی،لسانی، ثقافتی اور جنسی شناختوں کی قیمت پر شرمندہ تعبیر نہیں ہونا چاہئے، جب تک کہ یہ تمام شناختیں اپنی مرضی سے اختیار کردہ ہیں ۔ "ہندو لبرل” اور "ہندو اشتراکی” کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ بیک وقت ہندو، لبرل،بائیں محاذ کا، جمہوریت پسند وغیرہ متعدد شناختیں رکھتا ہے، جب کہ مسلمان ایسا نہیں کرسکتے۔

ہندو سیاسی رہ نما بہت آسانی سے سیاسی پارٹیاں بدلتے رہے ہیں ۔ کانگریس پارٹی ‘نرم ہندتوا’ اور ‘ اشتراکیت ‘ کے درمیان کبھی ادھر کبھی ادھر  جھول سکتی ہے، اشتراکی پارٹیاں مین اسٹریم ہندو پارٹیوں کا کردار ادا کرسکتی ہیں ،مگر ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو اس لچک کا مظاہرہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ آر ایس ایس اور ہندو مہا سبھا جب کانگریس پارٹی پر "جعلی وطن پرست” ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں ، تو کانگریس، شدت پسندوں کو اپنی پارٹی میں اعلی مناصب پر برقرار رکھتے ہوئے، قوم پرستی کی ایک لچک دار تعبیر اختیار کرلیتی ہے۔ جب کانگریس کو اس کی ظاہری اقلیت نوازی کی بنا پر ” جعلی سیکولر” کہا گیا، تو کانگریس نے اس الزام کو حساس جانا اور مسلمانوں کے لئے سماجی انصاف کا ایجنڈا کھڑا کردیا۔

 ہندوستانی مسلمانوں کا ماننا ہے کہ ایک ایسے دور میں جب کہ اکثریتی پاپولزم (Majoritarian Populism) ایک عام بات ہوگئی ہے، ہمارے عوامی دانشور، بشمول رام چندر گوہا، کسی کا "ہندو مخالف ” ہونا برداشت نہیں کرسکتے۔

(انڈین ایکسپریس کے آن لائن ایڈیشن میں 28 مارچ 2018 کو شائع شدہ ڈاکٹر عمیر انس کے مضمون کا ترجمہ جو رام چندر گوہا کی ایک تحریر کے جواب میں لکھا گیا تھا …تحریر میں پیش کردہ تمام افکار و خیالات اور استعمال کی گئیں اصطلاحات سے مترجم کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. صدام حسین کہتے ہیں

    بہت امدا تحریر.

تبصرے بند ہیں۔