احسان فراموشوں نے پیٹرول سستا کرنے کا احسان بھی نہیں مانا

حفیظ نعمانی

الیکشن ایسے نہیں ہوتا کہ رات کو فیصلہ ہو اور صبح سے ووٹ ڈالنا شروع ہوجائیں اور وہ تمام ووٹر ووٹ دے دیں جنہوں نے مہینوں غور و فکر کے بعد ذہن بنایا تھا۔ کیرانہ پارلیمانی سیٹ کے بارے میں 250  سیٹوں کے متعلق تو ڈی ایم کی رپورٹ تھی کہ مشینیں خراب ہوئیں اُمیدوار کی طرف سے اس سے بہت زیادہ مشینوں کے خراب ہونے کا دعویٰ کیا گیا اور اسے الیکشن کمشنر نے بھی تسلیم کیا کہ گرمی کے اثر سے مشینیں خراب ہوئی تھیں اور انہوں نے وہی کیا جو ہر حکومت کراتی ہے کہ صرف 73  بوتھوں پر دوبارہ پولنگ کرادی اور ووٹروں کی دلچسپی کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اس کے باوجود 50  فیصدی کے قریب ووٹ پڑگئے۔ اگر یہی کام تین دن کے بعد ہوتا ہر مشین صحیح کام کرتی اور سرکاری عملہ اس حکم پر عمل نہ کرتا کہ ’’جہاں مسلم آبادی ہو وہاں کوشش کرنا کہ کم سے کم ووٹ پڑیں ‘‘ تو کیرانہ کا فیصد 25  سے زیادہ ہوتا۔

ہمارے حافظہ میں آج بھی اس الیکشن کی شکست ہے جو 1971 ء میں ہوا تھا۔ یونس سلیم صاحب جو پہلے گول کنڈہ آندھرا پردیش سے ایم پی تھے ان کی مسلمانوں اور مسلم اداروں اور ان کی تعلیم گاہوں سے زیادہ دلچسپی کی بناء پر آندھرا کے وزیراعلیٰ برہمانند ریڈی ان سے ناراض تھے اور انہوں نے اعلان کردیا تھا کہ میں یونس سلیم صاحب کو آندھرا کی کسی سیٹ سے ٹکٹ نہیں دوں گا۔ کانگریس کے جنرل سکریٹری اس وقت بہوگنا جی تھے۔ انہوں نے اعلان کردیا کہ یونس سلیم صاحب اترپردیش کی جس سیٹ سے لڑنا چاہیں گے ان کو وہاں سے ٹکٹ دیا جائے گا۔

جس وقت یہ بیان بازی ہورہی تھی اس وقت یونس سلیم صاحب کے ساتھ ہم بھی کیرالہ کی مسلم ایجوکیشنل کانفرنس میں شرکت کرنے کے لئے گئے ہوئے تھے۔ یونس سلیم صاحب ریلوے منسٹری میں تھے انہوں نے سلون لے رکھا تھا جس میں ان کے دو سکریٹری اور ہم ساتھ تھے۔ جس وقت یہ بیان آیا تو ہم نے سلیم صاحب سے کہا کہ آپ سنبھل سے الیکشن لڑلیں انشاء اللہ بہت بڑی اکثریت سے کامیاب ہوں گے۔ اس وقت انہوں نے بتایا کہ مجھے برہمانند ریڈی سے یہ خطرہ تھا۔ آندھرا کے مسلم اداروں کے معاملات میں میرا اور ان کا اختلاف رہتا تھا۔ میں نے ایک بار دوستوں کے سامنے ذکر کیا تو مجازؔ کے چھوٹے بھائی انصار ہروانی نے بدایوں کے لئے کہا تھا وہ وہاں سے ایم پی رہ چکے تھے اور بعض دوستوں نے علی گڑھ کیلئے اصرار کیا تھا۔

ہم نے علی گڑھ کی مخالفت اس لئے کی کہ وہاں مسلم یونیورسٹی کی وجہ سے ہندو مخالفت کریں گے۔ آخرکار جب ہم لوگ واپس دہلی آئے تو علی گڑھ کے ذمہ دار اس پر اَڑگئے کہ آپ وہاں سے ہی لڑیئے وہاں سیکڑوں لڑکے مفت کے ورکر ہوں گے جو آپ سے محبت کرتے ہیں ۔ اور انہوں نے علی گڑھ کیلئے بہوگنا جی سے کہہ دیا۔ انہوں نے یہ غضب کیا کہ مسلم یونیورسٹی کے گیسٹ ہائوس میں آفس بنا لیا۔

اس زمانہ میں پارلیمنٹ کا الیکشن اس طرح ہوتا تھا کہ پانچ اسمبلی سیٹوں میں سے دو یا تین کا آج ہوگیا پھر دو تین دن کے بعد باقی سیٹوں کا ہوا یونس سلیم صاحب کا پہلے دو سیٹوں کا ہوا اس میں ہر کسی کو اندازہ ہوگیا کہ بہت بڑی تعداد میں ان کو ووٹ مل رہے ہیں ۔ شہر کی سیٹ بھی پہلے ہی رائونڈ میں تھی وہاں بی جے پی کے لڑکوں نے جعلی ووٹ کا بہانہ اور برقع پہن کر لڑکوں کے ووٹ دینے کی کوشش سے مارپیٹ شروع کردی اور منٹوں میں پورے شہر میں فساد پھیل گیا۔ ہم شہر سے دور چند دوستوں کے ساتھ ریاست گبھانہ گئے ہوئے تھے وہاں کے راجہ چیتن آنند خود اسمبلی کا ٹکٹ چاہتے تھے اور ہمیں لے گئے تھے کہ دو چار تقریریں کردیں اور راجہ کی مقبولیت دیکھ لیں ۔ وہیں فساد کی خبر آئی اور جب ہم اپنی گاڑی سے سڑک پر آئے تو دہلی اور دوسرے مقامات سے علی گڑھ جانے والی بسیں واپس آرہی تھیں ۔ یہ حالت دیکھ کر ہم نے راجہ صاحب سے کہا کہ ہمارا اس وقت جانا بہت ضروری ہے سلیم صاحب الیکشن باز نہیں ہیں وہ کوئی غلط فیصلہ نہ کربیٹھیں ۔ راجہ صاحب نے اپنی مخصوص گاڑی نکلوائی اور رائفل ہاتھ میں لے کر کھڑے ہوگئے اور اپنے بیٹے سے کہا کہ گاڑی تم چلائو۔ راستہ میں جو پولیس والا ملا اس نے سلوٹ کیا یا نمستے اور وہ ہلکی رفتار سے ایک گھنٹہ میں ہمیں لے کر آگئے۔ ہمیں دیکھ کر سلیم صاحب کو اطمینان ہوا۔ ہم نے معلوم کیا کہ ابھی باقی سیٹوں کے الیکشن کے سلسلہ میں تو کوئی فیصلہ نہیں ہوا؟ سلیم صاحب نے کہا کہ وہ تو ہوگیا ہم سے معلوم کیا تھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں ۔ ہمارے پاس یہ سب حضرات تھے ان میں سب سے سینئر سیاسی لیڈر گوتم جی تھے انہوں نے کہاکہ دس دن بڑھوا دیجئے۔ ہمنے کہہ دیا۔ بے ساختہ میرے منھ سے نکلا تو ہم ہار گئے۔ سلیم صاحب نے کہا کہ ایسے میں کیسے ووٹ پڑتے؟ ہم نے کہا کہ ہم یہی چاہتے تھے کہ ووٹ نہ پڑیں کیونکہ اب جو تین سیٹیں بچی ہیں اس میں اکثریت جاٹوں کی ہے اور اگر پرسوں ووٹ پڑجاتے تو شہر میں کرفیو کی وجہ سے اور افواہوں کی وجہ سے جاٹ بھی ووٹ دینے نہ آتے اور اب دس دن کے بعد بازی الٹ جائے گی۔ گوتم صاحب سی بی گپتا کے چیلے تھے اور علی گڑھ سے وہ خود لڑنا چاہتے تھے اس لئے انہوں نے ٹکٹ نہ ملنے کا انتقام لے لیا۔

اس وقت یوپی میں چودھری چرن سنگھ کی حکومت تھی ویریندر ورما ہوم منسٹر تھے سب نے سلیم صاحب سے کہا کہ اندراجی کو بلایئے۔ انہیں جب فون کیا تو اندراجی نے کہا کہ میں تو خود آنا چاہتی تھی ویریندر ورما نہیں آنے دیتا اس نے کہا کہ ہم سیکورٹی کی ذمہ داری نہیں لے سکتے یہاں حالات بہت خراب ہیں ۔ میں سنجے کو بھیج رہی ہوں ۔ اور وہ سنجے گاندھی آئے جو تقریر کرنا جانتے ہی نہیں تھے۔ وہ کچھ روپئے اور مشورے دے کر چلے گئے۔

اس علاقہ میں جاٹوں کی ہیبت کا یہ حال تھا کہ بی پی موریہ جو علی گڑھ سے ایم پی رہ چکے تھے وہ آئے اور سلیم صاحب کو لے کر اپنے لوگوں میں گئے ہم بھی ساتھ تھے وہاں ایک پورا گائوں مسلمان فقیروں کا تھا وہ ذات کے فقیر کہے جاتے تھے جیسے ہی چار جیپیں کانگریس کے جھنڈے لگی جاکر گائوں میں رُکیں تو ہر کوئی گھر میں گھس گیا اور اندر سے بند کرلیا۔ موریہ صاحب کو بہت سے نام یاد تھے انہوں نے کئی گھروں میں دستک دی اور زور سے کہا کہ میں تمہارا بھائی موریہ ہوں میری بات تو سن لو۔ تب ایک گھر کھلا پھر سب کھل گئے اور ایک میدان میں جمع ہوگئے ان میں ایک چودھری تھے ان کا فیصلہ آخری ہوتا تھا ان سے بات شروع کی موریہ نے کہا کہ چلو میرے ساتھ ووٹ دو دیکھوں کون روکتا ہے چودھری نے کہا کہ آج کوئی نہیں روکے گا لیکن جب جاٹ ہمارے کھیتوں کو آگ لگائیں گے اور ہمارے بیل کھول کر لے جائیں گے تو آپ کو دہلی سے بلاکر کون لائے گا اور آپ کیا کرلیں گے؟ ایک گھنٹہ مغز ماری کی مگر ان کا ایک ہی جواب تھا کہ ہم ووٹ نہیں دیں گے ہمیں منع کردیا ہے۔ موریہ نے غصہ میں کہا کہ پھر یہ کہو کہ ہم گانڈو ہیں انہوں نے کہا کہ ہاں ہم گانڈو ہیں اور سب نے جاکر اپنے اپنے دروازے بند کرلئے۔

اس وقت دوپہر کا ایک بج چکا اور روزہ میں ٹی وی کھولنا پڑا سنا تو حیرت ہوگئی کہ اترپردیش کی پھر دونوں سیٹیں بی جے پی کے ہاتھ سے نکل گئیں ! مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے آخری ہتھیار فساد کے علاوہ ہر وہ ہتھیار استعمال کرلیا تھا جس سے خون نہ بہے۔ بہار میں لالو یادو کے فرزند اپنے سابق چچا نتیش کمار پر برس رہے تھے جو 41  ہزار ووٹوں سے نتیش کے اُمیدوار کو ہرانے کا جشن منا رہے تھے۔ حیرت ہے کہ پیٹرول کی قیمت ایک پیسہ مودی جی نے کم اسی لئے کرائی تھی کہ پورے ملک میں ضمنی الیکشن جیت جائیں کس قدر احسان فراموش ہوگئے یہ ہندوستانی کہ اتنے بڑے احسان کے بعد بھی دشمنوں کو کامیاب کرادیا۔ کیا ایسی حکومت کو بھی مودی یوگی اور نتیش نہیں چھوڑیں گے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔