اخوان المسلمین اور آر ایس ایس کا موازنہ

حفیظ نعمانی

ہمیں کوئی حق نہیں یہ کہنے کا کہ موہن بھاگوت جی نے عالمی ہندو کانفرنس امریکہ میں کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اب تک تو جس نے عالمی کانفرنس کی ہے وہ اپنے ملک میں کی ہے اور دنیا بھر سے اپنے لوگوں کو شرکت کے لئے بلایا ہے۔ بہرحال یہ ان کا معاملہ ہے۔ ایک بات ہمیں اور اچھی نہیں لگی کہ بھاگوت جی نے پرائے گھر میں اپنے ملک کے کچھ لوگوں کو بلکہ لیڈروں کو جنگلی کتا کہا اور کسی کو شیر اور عوام میں یہ بحث چھڑ گئی کہ کتا کسے کہا اور شیر کس کو؟ ہم جو برسوں سے گھر میں بیٹھے ہیں۔ ہم سے بھی معلوم کرلیا۔ ہم خود پریشان بیٹھے تھے اس لئے کہ ایک چینل نے دکھایا تھا کہ دو گدھے بغیر پیٹرول کی کار کھینچ رہے ہیں اور وہ لڑکھڑا رہے ہیں۔ ہم سے ٹیلیفون کرکے دوستوں نے کہا کہ ٹی وی کھولو اور دیکھو پھر بتائو کہ ان دو گدھوں کے نام کیا ہیں؟ جنہیں کار مل تو گئی ہے مگر گھسیٹ نہیں پارہے۔

اچانک راہل گاندھی یاد آئے انہوں نے آر ایس ایس کو مصر کی اخوان المسلمین سے ملا دیا تھا یہ ان کی وہی غلطی ہے جو اُن کی دادی ایمرجنسی میں کرچکی ہیں کہ انہوں نے آر ایس ایس پر پابندی لگائی تو جماعت اسلامی پر بھی لگادی جبکہ جماعت اسلامی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا اور آر ایس ایس پہلے دن سے ہندوستان کو اکھنڈ بھارت بنانا چاہتی ہے وہ اعلان کرچکی ہے کہ سیکولرازم کو نہیں مانتی وہ مسلمان حکمرانوں کے دَورِ حکومت کو اپنی غلامی کہتی ہے وہ 1947 ء کی آزادی کو ایک ہزار سال کی غلامی سے آزادی کہتی ہے۔

اخوان المسلمین ایک خالص دینی جماعت ہے۔ آر ایس ایس سے اس کا موازنہ جہالت ہے آر ایس ایس آزادی کی جنگ میں مخبری کررہا تھا اور اخوان مصر کی آزادی کی جنگ میں عیاش بادشاہ فاروق کا تختہ پلٹنے کے لئے پل بن گئے تھے اگر اخوان المسلمین کے جانباز نہ ہوتے تو جنرل نجیب اور جمال عبدالناصر کی کیا مجال تھی کہ وہ برطانیہ کے پٹھو شاہ فاروق کا تختہ پلٹ دیتے۔ اور اس کی جانبازی کو دیکھ کر ہی جمال عبدالناصر اخوان کا سب سے بڑا دشمن بنا وہ جانتا تھا کہ اخوان دینی حکومت بنانے کے لئے ہم جیسوں کا صفایا کردیں گے۔

اخوان المسلمین کے بانی شیخ حسن البنا ّ شہید کی زندگی کے بارے میں اگر راہل گاندھی نے کچھ پڑھ لیا ہوتا تو آج وہ اتنی کچی بات نہ کہتے وہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھے اخوان کے ایک لاکھ ارکان کے نام اور ان کی زندگی کے حالات ہر وقت ان کے دماغ میں رہتے تھے۔ وہ ایک معمولی کچے مکان میں رہتے تھے۔ انہوں نے 1933 ء سے قیادت ہاتھ میں لی اور 1949 ء میں حکومت نے انہیں شہید کردیا۔ لیکن وہ ایسا بیج بوگئے ہیں کہ آج بھی مصر میں دیندار اور دنیادار آمنے سامنے ہیں۔

ہندوستان میں آر ایس ایس نے صرف ہندو نوجوانوں کے دماغوں میں زہر بھرا انہوں نے مسلمانوں کے لئے ملچھ کی گندی گالی بچوں کو سکھائی ان مسلمانوں کو جو اگر نماز نہ بھی پڑھتے ہوں تو پاک رہتے ہیں اور کسی ہندو دوست کو نہیںدیکھا کہ وہ پیشاب کرنے کے بعد پانی یا ٹشو سے جسم کو پاک کرے۔ سنبھل میں میرا ایک جگری دوست پریم شنکر اگروال تھا۔ وہ اپنے بھتیجے کو لکھنؤ یونیورسٹی میں داخل کرانے آیا اور چلتے وقت میرے سامنے لاکر اس سے کہا کہ اب لکھنؤ میں تمہارے چچا یہ ہیں۔ ان کے پاس ہر اتوار کو آنا اور کوئی کام ان سے پوچھے بغیر نہ کرنا۔

اس کا دوسرا سال تھا اس نے کہا کہ میں یونین کے سکریٹری کا الیکشن لڑنا چاہتا ہوں بہت لڑکے میرے ساتھ ہیں۔ (وہ بہت دولتمند باپ کا بیٹا تھا)۔ میں نے کہا کہ اگر جیتنے کیلئے لڑنا ہے تو لڑو۔ اس نے کہا چچا آپ کی بے عزتی نہیں ہوگی۔ میںنے کہہ دیا کہ پریس تمہارا ہے جو چاہو چھپوانا اور بہت پیار سے لڑنا۔ الیکشن سے تین دن پہلے آیا کہ ایک اپیل اپنے نام سے چھاپ دیجئے۔ میں نے کہا کہ کیا ہوا کہنے لگا اگر ملک بھائی ساتھ دے دیں تو بہت بڑی جیت ہوگی۔ میں نے کہا کہ معلوم کرو کہ ملک لکھنؤ کا ہے یا کسی دوسرے ضلع کا اور کس برادری کا ہے اس نے بے ساختہ کہا کہ ملک نہیں ملچھ۔ اور میرے قدم وہیں رُک گئے اور اسے بھی احساس ہوگیا کہ اس نے کیا کہہ دیا اور کس سے کہہ دیا؟ میں نے جب اس کی طرف دیکھا تو وہ دانتوں میں زبان دبائے ہوئے تھا۔ پھر اس نے میرے پائوں پکڑلئے اور کہا کہ اب میںوعدہ کرتا ہوں کہ شاکھا کی طرف دیکھوں گا بھی نہیں۔ میں نے بس اتنا کہا کہ میںنے تو منع نہیں کیا۔ کہنے لگا نہیں نہیں یہ سب وہیں کا زہر ہے۔ اور چچا یہ بات سنبھل نہ جانے پائے۔ نہیں تو پریم چاچا میری پڑھائی چھڑاکر لے جائیں گے۔

اس بات کو پچاس برس سے زیادہ ہوگئے۔ وہ سیاست میں رہا پہلے کانگریس میں پھر ملائم سنگھ کے ساتھ لیکن اس نے بی جے پی کا رُخ نہیںکیا۔ وہ اب بھی آتا ہے۔ عرض کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ آر ایس ایس نے نسلوں کو بگاڑا ہے اور نفرت کا سبق پڑھایا ہے۔ آج گنتی کے بے دین مسلمانوں کے علاوہ ہر مسلمان یہ سوچ رہا ہے کہ ملک کو بی جے پی کے پنجہ سے نکالنے میںکون مخلص ہے اس کا ہی ساتھ دیا جائے؟ اور جو کچھ وزیراعظم نے مسلمانوں کے ساتھ کیا ہے وہ 70  برس میں کسی نے سوچابھی نہیں تھا۔ انہوں نے چار سال میں مسلمانوں کی کمر توڑ دی اور ان پر دو طرف سے حملے ہوئے۔ وہ سب کے ساتھ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی میںمارے گئے اور جتنی جان بچی تھی وہ مودی جی نے آر ایس ایس کے پڑھائے ہوئے سبق پر عمل کرتے ہوئے نکال لی۔

مسٹر راہل گاندھی کو اخوان سے معافی مانگنا چاہئے انہوں نے دین کی خاطر اپنی جان دے دی اور برابر دے رہے ہیں۔ جتنی اور جیسی قربانی اخوانیوں نے دین اور ملک کے لئے دی آر ایس ایس تو سوچ بھی نہیں سکتا وہ تو کتے شیر یا رام زادے اور حرام زادے پر رُک جاتا ہے۔ جس تنظیم میں ایمانداری اور بے ایمانی میں فرق نہ سمجھا جاتا رہا ہو وہ ملک کا بھلا نہیں کرسکتی۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ سیٹھ نتن گڈکری کی فرضی کمپنیوں کے بارے میں پورے ملک کو معلوم ہے کہ وہ فرضی تھیں ہر پتہ غلط تھا وہ ملک کے ساتھ غداری کررہے تھے لیکن وہ وزیر ہیں اور ایسے وزیر ہیں جہاں سے اگر وہ روز ایک کروڑ روپئے اِدھر اُدھر کردیں تو پتہ بھی نہ چلے۔ اگر اخوان میں کوئی ایسا ہوتا تو دنیا دیکھتی کہ اسلام کیا سزا دیتا ہے۔؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔