اسٹیچو آف یونٹی نہیں، غربت کا خاتمہ ضروری ہے

منصور قاسمی

 گذشتہ چند سالوں میں سیاست کی ایک جدید شکل جو ابھر کر ہندوستان میں سامنے آئی ہے بلکہ بھولے بھالے عوام کے ذہن و عقل میں پیوست کردی گئی ہے، وہ ہے نفرت، تشدد اور تعصب۔ یوں تو بھاشن باز وزیر اعظم نریندر مودی چیخ چیخ کر کہتے ہیں ’’دیش کی ایکتا اور اکھنڈتا کو مٹنے نہیں دیں گے، وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کہتے ہیں ’’سردار ولبھ بھائی پٹیل نے۵۶۲ریاستوں کو ہندوستان میں انضمام کرکے ملک میں اتحاد اور سا لمیت کو ایک ہار میں پرودیا، لیکن خودمودی کے کارندے اپنے زہریلے بیانات وحرکات سے ملک کی ایکتا اور اکھنڈتا کو متواتر ستیا ناس کر رہے ہیں، اتحاد اور سالمیت کے ہار کے دانے کو ایک ایک کر کے بکھیر رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اخلاق و جنید سے لے کر آٹھ سال کے معصوم عظیم کو ان کوبرے سانپوں نے ڈس کر جان لے لی، خونخواردرندوں نے ایک بزرگ زین العابدین انصاری کو نوچ ڈالا۔

۳۱؍اکتوبرکو سردار ولبھ بھائی پٹیل کی ۱۴۳ سالگرہ تھی، اسی دن وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے آبائی صوبہ گجرات کے نرمدا کے کیوڈیا میں سردار سروورڈیم سے تقریباًتین کلو میٹر کے فاصلے پر سادھوجزیرے پر تیار سردار پٹیل کے ۱۸۲ میٹر بلند و بالا مجسمہ ’’اسٹیچو آف یونٹی، ، کو قوم کو معنون کیا۔ یوں تو ہندوستان میں کسی معزز اور قابل قدر شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرنے کا چلن ابتداء سے ہی ہے تاہم ایک ایسے وقت میں جبکہ عوام قلت غذا کے شکار ہیں، بھات بھات کرتے کرتے ایک بچی مرجاتی ہے، بہترین علاج کے لئے ہوسپیٹلز اور اعلیٰ تعلیم کے لئے کالجز اور یونیورسیٹز کی ضرورت ہے ؛وہاں ایسے مجسمہ کی تعمیرکا کیا مطلب ہے جس میں ۳۰۰۰ ہزار کروڑ روپئے خرچ کر دیئے گئے ؟یہ مجسمہ تو کروڑ دو کروڑ میں بھی بن سکتا تھا ؟ اس دیو ہیکل مجسمہ میں ۲۴۰۰۰ٹن لوہا، ۱۷۰۰ میٹرک ٹن تانبہ اور ۲ کروڑ ۲۵ لاکھ کیلوسیمینٹ استعمال کیا گیا اور اب اس کے رکھ رکھاؤمیں روزانہ ۱۲؍ لاکھ روپئے خرچ ہوں گے۔ بقول بی جے پی’’ کانگریس نے سردار پٹیل کو ان کے حقوق اب تک نہیں دیے تھے،  اس لئے بی جے پی کو حقوق دینے کی سوجھی اور اس نے ان  کے حقوق ادا کرنے، دنیا میں نام کمانے اور گنیزبک اف ورلڈ میں نام درج کرانے کے چکرمیں پسماندہ طبقہ آدی واسی کے ۷۲ گاؤں کو اجاڑ دیا، اور ان کے حقوق کو روند ڈالا، ا س پر بی جے پی کو کوئی تکلیف نہیں ہے، مستزاد احتجاج کر رہے آدی واسی گرفتارکئے جا رہے ہیں، زمین اور نوکری دینے کے وعدے تو لولی پاپ ہی ثابت ہو ئے۔ آخر ایک مردہ کو بسانے کی ضد میں ۷۵۰۰۰ ہزار زندوں کومودی سرکار کیوں اجاڑرہی ہے ؟  یہ سوال آج غریب عوامکر رہے ہیں اور کل سردار پٹیل بھی پوچھیں گے !

سردار پٹیل جس نے قومیت کو ترجیح دی، ملک میں امن، اتحاد اور یکجہتی کو فروغ دیا، ہندوراشٹریہ کے چرچے کو پاگل پن قرار دیا، مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد آر ایس ایس پر پابندی عائد کی، آج نریندر مودی اور ان کے بازیگر انہیں کٹرہندو پرست، ہندوتو کا علم بردار اور آر ایس ایس کے رہنما بتانے اور بنانے کی سعی پیہم کر رہے ہیں۔ میرا کہنا ہے کہ مودی اور بی جے پی، پٹیل کو بھگوان رام کے برابر لا کر کھڑا کر دیں، مگر یہ بتائیں کہ چار سال قبل جب این ڈے کی حکومت اقتدار پر قابض ہوئی تھی اس وقت ’’گلوبل ہنگر انڈیکس، ، کے مطابق بھوک مری میں دنیا کے ۱۱۹ ممالک میں سے ہندوستان ۵۵ ویں نمبر پر تھا، ۲۰۱۵ ؁ میں ۸۰ویں، ۲۰۱۶؁ میں ۹۷ویں، ۲۰۱۷ ؁ میں ۱۰۰ویں اور ۲۰۱۸ ؁ میں ۱۰۳ ویں نمیر پر کیسے چلا گیا، آخر ترقی اور وکاس کہاں ہے ؟اگر اسٹیچو اف یونٹی ترقی یافتہ کی علامت ہے تو پھر بھوک سے روز سیکڑوں افراد کی موت کس بات کی علامت ہے ؟چین کو لال آنکھیں دکھا کر مقابلہ کرنے والے کبھی اپنی آنکھوں میں درد اور خالی پیٹ لے کر جھونپڑوں، جھگیوں اور دیہی علاقوں میں سطح غربت سے نیچے رہ رہے لوگوں کو جا کر دیکھیں، وہ کس حال میں جیتے اور مرتے ہیں۔ آج ہندوستان ترقی پذیر ملک کہلانے کی دوڑ میں شامل ہے مگر غریب اور کمزور سمجھے جانے والے پڑوسی ممالک بنگلہ دیش (۸۶)نیپال (۷۲)سری لنکا (۶۷) اور میانمار (۶۸) سے بھی ہندوستان بھوک مری میں نیچے ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں ۲۵۔ ۲۱فیصد یعنی ۲۵ کروڑ افراد عالمی بینک کے مقرر کردہ خط غربت (یومیہ (۹۰:۱ ڈالر)کے دہانے پر یا اس سے ادنیٰ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جبکہ پیدائشی حریف پاکستان میں صرف (۳۔ ۸) فیصدہے۔ چونکانے والی رپورٹ یہ ہے کہ ۳۱ ملیون نوجوان ہمارے ملک میں جاب کی تلاش میں سرگرداں ہیں اور یہ شرح دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ ’’کریڈٹ سوئس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، ، کے مطابق اس سے بڑا المیہ یہ ہے ملک کی ۱ ؍فیصد آبادی ۴:۵۸ فیصد سماجی دولت پر قابض ہے اور جو کچھ دولت بچی ہے اس کو لوٹنے میں سیاسی لوگ اور کارپوریٹ گھرانے مصروف ہیں۔ شراب کار وباری اور کنگ فشر کے مالک وجے مالیا بینک سے ۹ ہزار کروڑ لے کر آرام سے فرار ہو کر انگلینڈمیں جا بسا، ہیرا کا روباری نیرو مودی ۱۱۵۰۰ کروڑ  گھوٹالہ کر کے سوئیزر لینڈ میں عیش کررہا ہے، میہول چوکسی جو نیرومودی کا شریک تھا اینٹیگوا میں گل چھرے اڑا رہا ہے، نتن سندیسرا ۵۳۰۰ کروڑ کی فراڈی کر کے اپنے بھائی چیتن سندیسرا اور اہل خانہ کے ساتھ نائجیریابھاگ گیا، جیتن مہتہ ۶۷۱۲ کروڑ کا غبن کر کے فرار ہو گیا اور جا کر سینٹ کٹس کی شہریت لے لی، روٹو میک پین کمپنی کے مالک وکرم کوٹھاری نے پانچ بینکوں سے آٹھ سو کروڑ سے زیادہ قرض لے لیا مگر اب نہ اصل روپئے لوٹا رہا ہے اور نہ ہی سود ادا کر رہا ہے۔ بی جے پی کے صدر امیت ساہ کے بیٹے جے ساہ نے تو اپنی جادوئی چھڑی سے ۵۰ ہزارروپئے ٹرن اووروالی کمپنی کو اچانک ۴۵۰۰ہزار کروڑ ٹرن اوور والی کمپنی بنادیا۔ اسٹیچوآف یونٹی بنانے والی کمپنی ایل اینڈ ٹی کو دوسری سہ ماہی میں ہی ۳۶۔ ۲۸ فیصدیعنی لگ بھگ ۴۱۔ ۲۵۹۳کروڑ روپئے منافع ہوگیا۔ مطلب صاف ہے کہ بی جے پی نے امیروں کو امیر ترین اور غریبوں کو غریب ترین بنانے کی قسم کھا رکھی ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو بھگوڑوں کو دونوں ہاتھوں سے قرض نہیں دیا جاتا اور اتنی آسانی سے وہ ملک سے غداری کر کے نکل نہیں پاتے۔

مہا راشٹر کے کسان جب قرض معافی کا حکومت سے مطالبہ اور احتجاج کرتے ہیں تو بی جے پی کے فڑنویس سرکار کو  اس میں نکسلائٹ کی سازش کی بو آنے لگتی ہے، وہ انّ داتاؤں کے قرض معاف نہیں کر سکتی ہے مگریہ اعلان کر سکتی ہے کہ ہم چھاتر پتی شیوا جی مہاراج کا  پٹیل سے بھی بڑامجسمہ گورے گاؤں کے چپاٹی کے پاس بنائیں گے جس کی اونچائی ۲۱۰ میٹر ہوگی اور اس میں ۳۸۰۰ ہزار کروڑ کی لاگت آئے گی، بقول فڑنویس اس کا ٹھیکہ بھی پٹیل کا مجسمہ بنانے والی کمپنی لارس اینڈ ٹوبرو کو دے دی ہے جو ۲۰۲۱ تک تیار کر کے ہمارے حوالے کرے گی۔ ادھر ہندوتو کے آئیکون یوگی جی کیوں پیچھے رہتے، سو شنیدم، دیوالی میں وہ اعلان کرنے والے ہیں کہ اجو دھیا میں پٹیل اور شیوا جی سے بڑی رام کی مورتی خالص پیتل سے بنائی جائے گی۔ لیکن جب  یوپی کے کسان گناّ کی مناسب قیمت   مانگے، قرض معافی کا مطالبہ کرے تو ان کے پا س دینے کے لئے اور معاف کرنے کے لئے پیسے نہیں ہوتے ہیں مگر مورتیاں بنانے کے لئے پیسے کی کوئی کمی نہیں ہوگی خواہ پچاس ہزار کروڑ روپئے ہی خرچ کیوں نہ ہوں۔

کاش !حکومت کی عقل و فہم میں یہ بات سماجائے کہ ملک میں اسٹیچو آف یونٹی نہیں، غربت کا خاتمہ ضروری ہے، اچھی تعلیم اور اچھی صحت ضروری ہے، پر امن اور پر سکون ماحول، بہترین معاشرہ اور خوشگوارزندگی ضروری ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔