الیکشن 2019: سب تاج اچھالے جائیں گے، سب تخت گرائے جائیں گے

اے۔ رحمان

تاریخ ِ انسانی گواہ ہے کہ مہذب معاشرے کے قیام کے بعد، شہنشاہیت اور استعماریت  سے لے کر فسطائیت  اور اشتراکیت تک کوئی بھی سیاسی نظریہ، فلسفہ یا طرز ِ حکومت عوام الناس کی اجتماعی خواہش، ارادے اور آواز کو مستقل پابہ زنجیر نہیں کر سکا۔ اب تک دنیا کی سب سے عظیم الشان سلطنت ِ روما کے زمانے سے ہی لاطینی قول چلا آتا ہےVox Populi Vox Dei  یعنی عوام کی آواز خدا کی آواز ہے۔ اس  قانون ِ فطرت کے بیّن ثبوت بھی، خود سلطنت ِ روم کے زوال سے لیکرسامراجیت کے استیصال اور انقلاب ِ فرانس سے گذرتے ہوئے ہندوستان کی آزادی تک، تاریخ کے بے پایاں خزانے میں محفوظ ہیں۔ سلطانی ِ جمہور ہی قدرت کا منشا رہا ہے اور ہے۔ خلاف ِ جمہور واقعات اور حالات کا غلبہ ہوتے ہی کوئی غیر مرئی قوّت بر سر ِ عمل آجاتی ہے اور خود بخود ایسے اسباب پیدا ہو نے لگتے ہیں کہ آ خرش ان واقعات و حالات کا سدّ ِ باب ہو جاتا ہے۔ اسی کو انقلاب کہتے ہیں۔ ہندوستان کی سیاست میں بھی ایک بڑے انقلاب کی آمد آمد ہے اور اس کی آواز ِجرس بھی اب حسّاس کانوں تک پہنچنے لگی ہے۔

  2014   میں جب محض اکتیس فی صد ووٹ لے کر بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں آئی تو اس کا واحد سبب یہ تھا کہ دوسری سیاسی پارٹیوں کا ووٹ مختلف وجوہات خصوصاً آپسی افتراق اور معمولی سیاسی تنازعات کی بنا پر منتشر ہو گیا تھا۔ لیکن یہ تو  طے شدہ حقیقت ہے کہ اکثریتی یعنی انہتّر فی صد ووٹ حامل ِ اقتدار جماعت کے خلاف گیا تھا۔ اس صورت ِحال میں جو  مرکزی حکومت قائم ہوئی اس کی تعمیر میں ہی خرابی کی صورت مضمر تھی۔ اپنے زوال کے بقیہ اسباب حکومت نے اپنے طرز ِعمل سے خود پیدا کر لئے۔ آئین ِ ہند میں جس ریاست کے قیام کا منصوبہ اور خاکہ درج کیا گیا ہے اس میں ایماندارانہ اور شفّاف انتخابی عمل، اس جمہوری عمل سے تشکیل شدہ پارلیامنٹ، سیاسی اور دیگر خارجی اثرات سے مبرّا عدلیہ، آزاد ذرائع ابلاغ اور شہریوں کے بنیادی حقوق (جو مقدّم ہیں ) اہم ترین اجزائے ترکیبی شمار کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ آئین ہندوستان کو ایک فلاحی ریاست  یعنی  Welfare State  کا طرّہ ِ امتیاز عطا کرتا ہے۔ فلاحی ریاست میں حکومت کا بنیادی فرض ہوتا ہے کہ وہ ملک کی اقتصادی ترقّی اور عوام کی خوشحالی کے واسطے ہر ممکن عمل کرے اور ان کے زیادہ سے زیادہ مسائل اور بنیادی ضرورتوں  جیسے صحت، تعلیم اور با عزّت روزگار کے مطلوبہ مواقع اور ذرائع فراہم کرے۔

پارلیامنٹ، عاملہ(یعنی کار گزا  ر حکومت  ) اور عدلیہ تینوں کا محور ِ کار آئین اور صرف آئین ہے جس کا ایک غیر معمولی وصف ہے اس کا سیکولر کردار۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شہری کو اپنے مذہب و مسلک پر عمل پیرا ہونے کی مکمل آزادی ہے لیکن ریاست (حکومت) ان معنی میں مذہب سے معرّیٰ ہے کہ وہ مذہب، رنگ، نسل اور ذات پات کی بنیاد پر شہریوں میں تخصیص یا امتیاز نہیں کر سکتی۔ ان آئینی اوصاف کے تحت تشکیل یافتہ معاشرے اور طرز ِ حکومت کی بنا پر ہندوستان کو دنیا کی عظیم ترین جمہوریت تسلیم کیا گیا۔ لیکن ہوا یہ کہ موجودہ حکومت نے اپنی چار سالہ مدّت ِ کار میں ان تمام آئینی اداروں بشمول عدلیہ کو تحس نحس کر دیا جو جمہوریت کے اصل الاصول مقرّر ہیں۔ فرقہ واریت کو ہوا دی گئی، لاقانونیت کو اس حد تک روا کر دیا گیا کہ معمولی معمولی بات اور موقعہ پڑنے پر بلا وجہ مسلمانوں کے ہجومی قتل ہونے لگے۔ گئو رکشا کے نام پر غیر ہندووں کے گھروں میں گھس کر بھی ان کو زدو کوب اور قتل تک کر دینا عام ہو گیا جبکہ گائے کا گوشت بر آمد کرنے والی آٹھ بڑی ہندوستانی کمپنیاں ہندووں کی ملکیت ہیں۔ سرکاری محکموں میں بدعنوانی حدود سے تجاوز کر گئی، مہنگائی آسمان چھونے لگی، مہنگائی بھی بنیادی اشیائے خوردنی جیسے  دال، چاول، پیاز، ٹماٹر اور چولہے کی گیس جن کے پچھلی حکومت میں معمولی طور پر مہنگا  ہو جانے سے بی۔ ٔجے۔ پی نے واویلا مچا دیا تھا۔

نوٹ بندی نے عام اور درمیانے درجے کے کاروبار تباہ کر دیئے اور اس کا کوئی جواز آج تک سامنے نہیں آیا۔ نہ تو کالا دھن واپس آیا اور نہ ہی دہشت گردی میں کوئی کمی آئی جس کو  نوٹ بندی کا مقصد بتایا گیا تھا۔ تمام انتخابی وعدے کھوکھلے  اور جھوٹے ثابت ہوئے اور بڑی بے شرمی سے اس بات کا اعتراف بھی کر لیا گیا کہ وہ وعدے نہیں بلکہ ووٹروں کو رجھانے کے جملے تھے۔ یہ تمام چیزیں تو اپنی جگہ تھیں ہی لیکن ایک قدم اس حکومت نے ایسا بھی اٹھایا جس کی سنگینی کو آئین، قانون اور سیاست کے ماہرین ہی پورے طور پر سمجھتے ہیں۔ ہندوستان میں مسلّح افواج کو شروع سے ہی سیاست  دور اور لا تعلق رکھا گیا ہے۔ دوسرے تمام جمہوری ممالک میں بھی یہی وطیرہ اپنایا گیا ہے۔ موجودہ حکومت میں پہلی بار یہ ہوا کہ ایک ریٹائرڈ  فوجی جنرل کو نہ صرف سیاست میں خوش آمدید کہا گیا بلکہ اس کو حکومت میں براہ ِراست وزارت کا عہدہ دیا گیا۔ اس کے علاوہ پچھلی تمام فوجی روایات کو پامال کرتے ہوئے دیگر سینیٔر جرنیلوں کو نظر انداز کر کے جنرل بپن راوت کو فوج کا سربراہ بنا دیا گیا۔ کرناٹک میں حکومت سازی کے ڈرامے نے ثابت کیا کہ گورنر کے عہدے کا کس طرح استحصال کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ گورنر کرناٹک پی۔ ایم مودی کے مقرّب ِ خاص رہ چکے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ چیف الیکشن کمشنر جس کی ذمّہ داری ہے کہ انتخابات صاف شفّاف طریقے سے ہوں وزیر ِ اعظم کے گجرات کے دنوں کے پسندیدہ افسر ہیں لہذٰا ان پر بھی جانبداری کا لزام آ چکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ابتدا سے ہی حکومت کی کوشش اور منشا یہ تھا کہ سارے آئینی ادارے بشمول سپریم کورٹ آئین کے بجائے اقتدار کی اقتدا میں رہیں۔ لیکن  یہ سب کچھ جمہوریت کی روح کے منافی ہے لہذٰا ہو ا یہ کہ خون ِ اسرائیل آخر جوش میں آیا اور اس طلسم ِ سامری کو توڑنے کے لئے موسیٰ بھی سپریم کورٹ سے ہی اٹھے۔

چار جج حضرات نے بے باک حملہ کرتے ہوئے پریس کانفرنس بلا کر عوام کو متنبّہ کیا کہ جمہوریت خطرے میں ہے کیونکہ عدلیہ پر سیاسی دباو آ رہا ہے۔ اور پھر اسی سپریم کورٹ نے کرناٹک میں حکومت سازی کے خلفشار کو جس ڈھنگ سے فرو کیا اس نے نہ صرف جمہوری اقدار میں عوام کے اعتماد کو بحال کیا بلکہ پورے حزب ِ مخالف کو اتحاد اور اتفاق کا ایسا موقع اور جواز فراہم کیا جس کی ہماری جمہوری تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ چند ماہ پیشتر رام مندر اور دیگر کئی حسّاس مسائل پر سیاست کر کے پورے ملک میں فرقہ وارانہ منافرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، اور چار صوبوں میں ہوئے انتخابات میں شرمناک شکست کے بعد اس کوشش میں مزید شدّت آ گئی، لیکن اب عوام الناس اس گندے کھیل سے واقف ہو چکے ہیں لہذٰا کسی بھی سطح یا پیمانے پر فسادات بپا کرانے کی تمام کوششیں ناکام ہوئیں۔

رام مندر اور بابری مسجد کے قضیے کو ہمارے سپریم کورٹ نے آنے والے عام انتخابات کا مدّعا نہیں بننے دیا۔ اب حال ہی میں پیش آئے پلوامہ سانحے کی وجوہات اور اس سے وابستہ بنیادی مسائل کو بڑی بے شرمی سے نظر انداز کر کے بے ضمیر الیکٹرونک میڈیا نے شور ِ محشر بپا کر کے پوری قوم کو جنگی جنون میں مبتلا کرنے کی سازش کی جو ملک کی خوش قسمتی سے بری طرح ناکام ہوئی اور اب تو بعض ٹی۔ وی چینلوں کے خلاف عوامی مظاہرے تک کئے جا رہے ہیں۔

ان تمام حالات و واقعات کو بجا طور پر 2019  میں آنے والی فلم کا ٹریلر کہا جا سکتاہے۔ کیونکہ نہ صرف 2014  کا منتشر ووٹ متحد ہونے کے آثار ہیں بلکہ حکومت کی ناکامیوں، شرمناک کرتوتوں  اور عوام کے مسائل کے تئیٔں بے حسی کو جو کچا چٹھا عوام کے سامنے آیا ہے اسے دیکھتے ہوئے امید ِ واثق ہے کہ 2019  میں پھر بقول فیض

  ’’اٹھے گا انا الحق کا نعرہ۔ ۔ ۔ جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو۔ ۔ ۔ اور راج کرے گی خلق ِ خدا۔ ۔ ۔ ۔ جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سب دیکھیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔