بی جے پی کی کامیابی سیکولرازم کے لیے خطرہ

رشید انصاری

        آخر وہی ہوا جس کا اندیشہ راقم الحروف اور دوسرے چند کالم نویسوں نے ظاہر کیا تھا کہ بظاہر ناکامی سے دوچار ہونے والی بی جے پی کوئی ایسا حربہ استعمال کرسکتی ہے کہ اسے حیرت انگیز کامیابی ملے لیکن بی جے پی نے تمام تجزیہ نگاروں اور کالم نویسوں کے تجزئے غلط ثابت کئے کیونکہ بی جے پی شروع ہی سے وہ حربہ استعمال کررہی تھی جس کے استعمال کئے جانے کا اندیشہ ہم نے لکھنے والوں نے ظاہر کیا۔ کانگریس کے 70 سالہ دورِحکومت کی خرابیوں کو بیان کرنے، عوام کو مذہب اور ذات کی بنیاد پر تقسیم کرنے فرقہ پرستی کو فروغ دینے، قوم پرستی کے نام پر ہندو فرقہ پرستی کا فروغ، قومی سلامتی کے نام پر پاکستان کے خطرے کو بڑھا چڑھاکر بیان کرنا اور اپنی دومعمولی فوجی کارروائیوں کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینا وغیرہ جیسے ان حربوں کو استعمال کرکے بی جے پی نے اپنے پانچ سالہ دورِ حکومت میں کچھ نہ کرکے بھی کامیابی حاصل کرلی۔

        بی جے پی نے اپنے پانچ سالہ دورِ حکومت میں نااہلی اور وعدہ خلافی کی ایک تاریخ رقم کی۔ اس کے دور میں عوام کو جو تکالیف پہنچیں اس میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں ۔ پٹرول کی قیمت میں اضافہ، روپے کی قدر میں کمی، نوٹ بندی، جی ایس ٹی کی وجہ سے چھوٹے اور متوسط کاروبار بند، بے روزگاری کی شرح میں اضافہ، کسانوں کے احتجاج، صنعتی پیداوار میں کمی، برآمدات میں کمی واقع ہونا اور سب اہم بات یہ ملک میں بیروزگاری اس قدر بڑھ چکی ہے کہ گزشتہ 45 سال میں اتنی بیروزگاری کبھی نہیں تھی نیز کسان اپنے مسائل سے تنگ آکر روزآنہ اچھی بھلی تعداد میں خودکشی کرنے پر مجبور ہیں ۔ ملک میں خودکشی کی اتنی وارداتیں شائد ہی کبھی ہوئی ہوں ۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سیاسی قائدین اپنی حکمت ِ عملی کی وجہ سے ملک کے اہم مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے ان کے جذبات کو ابھارنے کے لئے وقتی طور پر قابل توجہ مسائل رکھ دیتے ہیں ۔ عوام اس میں الجھ جاتے ہیں اور سیاسی قائدین اور جماعتیں اپنے مقاصد کو حاصل کرلیتے ہیں ۔ اس کام میں بی جے پی خاص طور پر نریندر مودی کو بڑی مہارت حاصل ہے۔ 2014ء میں وہ کانگریس پر لعن تان کرکے اور ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کا خوشنما نعرہ لگاکر اقتدار حاصل کیا۔ اس پر کیونکہ انہوں نے ملک میں وکاس یعنی ترقی برائے نام کروائی تھی۔ اس لئے وکاس کی باتیں وہ کرنہیں سکتے تھے اس لئے انہوں نے کانگریس کے سابقہ دورِحکومت پرتبرہ بازی کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کے جذبات سے کھیلتے ہوئے قومی پرستی، قومی سلامتی اور پاکستان کے خطرہ کا ذکر کرتے ہوئے عوام کو اپنے ہی مسائل پر توجہ کرنے سے باز رکھاتو دوسری طرف اپنے چند معمولی کاموں کو بڑھاچڑھاکر بتاکر خودستائی کی انتہاء کرتے ہوئے عوام کو پھر جھانسہ دیاکہ ملک کو دشمنوں سے بچانے، قومی سلامتی پر بھرپور توجہ دینے، عوام میں جذبہ ٔ  قومی پرستی پیدا کرنے کا کام خود نریندر مودی اور بھاجپا ہی کرسکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ صرف 18 ہزار دیہاتوں میں بجلی لگواکر اس کو انہوں نے ایک کارنامہ بناکر پیش کیا۔ انہوں نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ ملک میں دیہاتوں کی موجودہ تعداد کیا ہے؟ (جوکہ غالباً ڈھائی لاکھ کے لگ بھگ) ان 18 ہزار دیہاتوں میں سینکڑوں دیہات ایسے ہیں جہاں تک بجلی پہنچی نہیں ہے صرف کھمبے لگانے پر اکتفاء کیا گیا ہے۔ مودی جی اپنا دوسرا کارنامہ ملک کے غریب عوام کا بینکوں میں اکاونٹ کھولنا بتاتے ہیں مگر یہ بات کبھی نہیں بتاتے کروڑوں عوام کے لئے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ وہ اپنے بینک اکاونٹ میں پیسے جمع کرواسکے یا نکال سکے۔ اس وجہ سے بینکوں میں ہزاروں اکاونٹ اپنے طرف سے ہی منجمد کرلئے۔ اسی طرح پاکستان پر پہلی سرجیکل اسٹرائیک کرنے کے بعد جو دعوے کئے گئے تھے اس میں سے اہم دعویٰ یہ تھا کہ اب پاکستانی درانداز ہندوستانی علاقہ میں داخل ہوکر دہشت گردی کی کارروائیاں کرنا بند کردیں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اسی طرح بالاکوٹ پر ہندوستانی فضائیہ کے حملے (ایر اسٹرائیک) کے مقاصد کو بڑھ چڑھ کر بیان کئے گئے اس کے ساتھ ہی زبردست اور شاندار کامیابی کے دعوے کئے گئے لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس ایر اسٹرائیک کی کامیابی متنازع ہے۔ ہندوستانی میڈیا کے دعوؤں کی تصدیق بالاکوٹ جانے والے غیر ملکی میڈیا والوں نے نہیں کی ہے۔ اسی طرح بالاکوٹ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بھی شک و شبہات کے دائرے میں ہیں کیونکہ مختلف مرکزی وزیروں اور وزیر اعلیٰ یوپی کے بیانات میں اس تعلق سے بہت تضادپایا جاتا ہے لیکن اس قسم کی باتوں کا بھرپور فائدہ اٹھانے کا فنڈ مودی کو خوب آتا ہے۔ انہوں نے جانتے بوچتے ہوئے ان تمام مسائل کو جو ان کی کمزوری ظاہر کرتے تھے نظرانداز کرتے ہوئے معمولی باتوں پر توجہ دیتے ہوئے ایک بار پھر خود کو ملک اور قوم کا مسیحا ظاہر کرکے کامیابی کی راہموار کی۔

        مودی یا بی جے پی کی کامیابی کے دو اہم پہلو ہیں ایک تو بی جے پی نے اپنی تمام کمزوریوں کو چھپاتے ہوئے دوسری جماعتوں کی کمزوریوں کو اجاگر کرتے ہوئے عوام کی توجہ اصل مسائل سے بڑی کامیابی سے ہٹالی۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بی جے پی نے اپنی روایات کے مطابق مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر اور پاکستان کے خلاف عوامی جذبات بھڑکاکر، پاکستان سے تعلقات اتنے کشیدہ کرنے میں کامیابی حاصل کی کے ایسا لگتا تھا کہ دونوں ملکوں میں مسلح تصادم بھی ہوسکتا ہے۔ اس لئے بھولے بھالے عوام اور پہلی یا دوسری بار ووٹ دینے والے نوجوانوں نے مودی کی باتوں کو قبول کیا اور مودی کو ووٹ دیا۔ اس طرح اصل مسائل سے عوامی توجہ ہٹاکر اپنی کمزوریوں اور نااہلی کو چھپاکر ساتھ ہی چند دوسرے معمولی مسائل پر عوام کی توجہ مرکوز کرواکے کامیابی حاصل کرلی۔

        لیکن ہم یہ نہیں بھول سکتے کے دوسری سیاسی جماعتیں (بھاجپا اور امت شاہ اور مودی پر مشتمل جس کو دونفری فوج کہا جاتا تھا) کی چالوں کو سمجھنے میں ناکام رہی۔ متحدہوکر مودی ہٹائو یا مودی کو اقتدار میں آنے سے روکو کا نعرہ تو سیاسی جماعتوں اور قائدین نے ایک پلیٹ فارم پر آکر لگایا لیکن حقیقی معنوں میں بی جے پی کے خلاف حقیقت میں کوئی ’’مہاگٹھ بندھن ‘‘بن ہی نہیں سکا۔ دوسری طرف کے حامیوں اور پرستاروں نے جب یہ دیکھا کہ مودی کے مخالفین کا ایک ہی نکتہ پر مشتمل ایجنڈہ مودی ہٹائو مودی کو روکو ہے تو وہ سب حقیقی معنی میں متحد ہوگئے اور مودی کو بچانے اس طرح کام کیا کہ مودی نے کامیابی کے ریکارڈ قائم کردئے جبکہ مودی کے حامی اپنی خودستائی اور آپسی تنازعات میں گھرے رہے۔ ملک کی سب سے پرانی جماعت کانگریس اور دلتوں کی اہم قائد مایاوتی کی خودرائی اور خودپرستی بھی مودی کے خلاف حقیقی معنی میں کسی مضبوط گٹھ بندھن کو قائم کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹیں تھیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔