حکمراں جماعت کے وعدوں کو عوام دیکھتی رہ گئی 

ڈاکٹرظفردارک قاسمی

ہندوستان کو انگریزوں کے تسلط  و استبداد سے آزاد ہوئے ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے اس بیچ ہندوستانی مسلمانوں نے اتار و چڑھاؤ کی کئی داستانیں دیکھی ہیں؛  ان گنت مصائب و آلام سے دوچار ہوئے ہیں؛  تعصب و تنگ نظری  نے بارہا ادبار و پستی کے عمیق گار میں دھکیلا ہے؛  تاریخ شاہد ہیکہ ان تمام روح فرسا ں حالات کے باوجود ہندوستان کے مسلمانوں نے ہر موڑ پر حب الوطنی؛ ملکی مفاد؛ بقائے باہم؛  قومی و ملی ہمدردی کو زندگی کا نصب العین سمجھا ہے؛ نیز ملک کی آئینی و جمہوری قدروں کی حفاظت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے – مگر گزشتہ چند برسوں میں نفرت و عداوت  کی جس طرح آندھی چلی ہے اس نے نہ صرف گزشتہ حادثات و زخموں پر نمک پاشی کا کام کیا ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا ہر دن جدید طریقے سے آتش و آہن کا کھیل کھیلا گیا ہے اور آلام و مصائب کی نہ ختم ہونے والی رات شروع کردی گئی  ہے؛افسوسناک امر یہ ہیکہ آج مسلمانوں کو سیاسی طور پر مفلوج کرنے کی سعی کیجا رہی ہے؛ ان کی وطن دوستی  ؛ بھائی چارگی اور اخوت و محبت کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جارہا ہے؛ جنگ آزادی میں مسلم مجاہدین کی قربانیوں کو  تاریخ کے صفحات سے خردبرد کیا جارہا ہے؛  آئے دن مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا جارہا ہے؛ مسلم اقلیت کی تاریخ و تہذیب کو محو کیا جارہا ہے؛ تعلیمی اداروں خصوصا اقلیتی اداروں پر نظر بد مرتکز ہے؛  پرسنل لاء کے خلاف قانون سازی ہو رہی ہے؛ اور مزید حیرت یہ کہ  مذہب کے نام پر سیاست کا گندہ کاروبار اپنی انتھاء کو پہنچا ہوا ہے – اسی پر بس نہیں بلکہ جب ہم ملک کے منظر نامے پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ سر پھرے آئے دن اشتعال انگیز بیان دیتے رہتے ہیں جن سے اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کے جذبات و احساسات مجروح ہوتے ہیں؛ حیرت اس بات کی ہے کہ زعفرانی طاقتوں نے اقلیتوں؛  دلتوں خصوصا مسلمانوں کے خلاف ایسا ماحول تیار کردیا ہے کہ اگر ملک میں مسلم اقلیت اپنی وفاداری یا ملک سے محبت کا اظہار کرتی ہے تو وہاں بیٹھے برادران وطن کو اچھا نہیں لگتا ہے؛  کیونکہ شر پسند عناصر نےرواں حکومت کے دور اقتدار مہں عام ہندؤں کے دل و دماغ میں  مسلما نوں کے خلاف زہر گھول رکھا  ہے اور اس وقت ہندو یہ سوچنے لگتا ہے کہ مسلمانوں کا ہندوستان کی تعمیر و ترقی اور یہاں کی جمہوری قدروں کے تحفظ میں کوئی خاص کردار نہیں ہے؛  یہ سوچ ملک میں عام ہوتی جارہی ہے لھذا اس کو بے اثر بنانے کے لئے ایک بار پھر ہندو مسلم یکجہتی  کی بوسیدہ ہوتی روایت کو زندہ کرنے کی سخت ترین ضرورت ہے-

  کیا  ان ضرررساں واقعات کا سیکولر کہے جانے والے معاشرہ میں جواز ہے؟ کیا ان  عوامل کی وجہ سے ہندوستانی معاشرہ ترقی سے ہمکنار ہوپائے گا؟ کیا یہ چیزیں ہندوستان جیسے عظیم ترین جمہوری ملک میں روا رکھنا درست ہیں ؟  وطن عزیز میں اس وقت  کے جو حالات ہیں وہ کسی کی نظروں سے مخفی نہیں؛ چہار سو نفرت کا ماحول بپا کیا جارہا؛ وحشت و بربریت بام عروج پر ہے؛ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں جن کا ابھی تک کسی نے تصور تک نہیں کیا تھا  مضحکہ خیز بات یہ ہیکہ ڈفینس منسٹری سے رافیل معاملہ کی دستاویزات چوری ہوگئیں!  راقم کھلے الفاظ میں یہ تو نہیں کہنا چاہتا کہ رافیل کے حوالہ سے سب کچھ ٹھیک نہیں البتہ جو  شواہد و حقائق اور واقعات سامنے آئے ہیں  ان کے تناظر میں یہ وثوق سے کہا جاسکتا ہے رافیل کے معاملہ میں حکومت کی نیت میں کھوٹ ہے؛  ورنہ کیا وجہ ہیکہ حزب مخالف جماعتوں کے سامنے حکمراں جماعت صاف گوئی سے  کام نہیں لے رہی ہے؛اور اچانک  یہ کہا جانا کہ رافیل معاملہ کے  کاغذات چوری ہوگئے ؛ بڑ ی ہی شرمناک بات ہے-

 یہاں یہ بھی گوش گزار کردوں کہ اپوزیشن نے خصوصا گانگریس نے اس کو انتخابی مدعا بنایا تو مگر اتنی مضبوطی سے نہیں پیش کیا جس طرح پیش کرنا چاہئے یعنی گانگریس میں وہ گرمجوشی نہیں نظر آرہی ہے جس کی ضرورت تھی؛  اس لئے حزب مخالف جماعتوں کو بڑی بے باکی اور جرات و ہمت کے ساتھ ان تمام سماجی؛ قومی اور ملی مسائل کو عوام کے سامنے لانا ہوگا جن پر حکمراں جماعت ابھی تک جھوٹ کی سیاہ چادر اڑھاتی رہی ہے -یہی وجہ ہیکہ جن دعووں اور وعدوں کے بل بوتے حکمراں جماعت نے 2014 کے عام انتخابات میں اکثریت سے فتح حاصل کی تھی  ان کو شرمندہ تعبیر نہیں کیا گیا صرف اعلانات ہوئے یوجنائیں مرتب کی گئیں اور میڈیا میں تشہیر کراکے ان تمام ترقیاتی منصوبوں کو کاغذوں میں دفن کردیا گیا؛ زمینی حقائق بتارہے ہیں کہ عوام ان تمام انتخابی منشور میں  کئے گئے  وعدوں کو دزدیدہ نگاہوں سے گزشتہ پانچ برسوں سے  دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی –

 عام انتخابات کے اب بہت دن نہیں بچے ہیں بلکہ یوں کہئیے کہ اب لوکسبھا الیکشن کے لئے تمام سیاسی محاذ ٹال ٹھوک کر میدان میں اتر چکے ہیں – اور الیکشن کمیشن نے رواں سال میں ہونے والے لوکسبھا چناؤ کی تاریخوں کا اعلان بھی  کردیا ہے؛   اب دیکھنا یہ ہیکہ اس میدان کار زار کا فاتح کون ہوتا ہے ؛ سیاسی پنڈتوں؛  سماجی تجزیہ نگاروں اور مذہبی رہنماؤں کے مطابق رواں سال میں ہونے والے عام انتخابات میں حکمراں جماعت کے لئے دوبارہ حکومت سازی کی راہ آسان نہیں ہے ؛ کیونکہ ان پانچ برسوں میں وہ تمام امور ا نجام دینے کی سعی کی گئی جن سے جمہوریت مخدوش و مجروح ہوئی ؛ سب کا ساتھ سب کا وکاس اور اس جیسے دیگر تمام پر فریب وعدے محض جملہ ثابت ہوئے؛ اسی طرح ملک کی سب سے قدیم سیاسی جماعت اور حزب مخالف  کانگریس کے تئیں بھی  پورے طور پر زمین ہموار نہیں ہے ؛البتہ گزشتہ انتخاب کے مد مقابل کانگریس میں اس مرتبہ  دم خم زیادہ دکھ رہا ہےاور گزشتہ سال ہوئے ریاستی  انتخابات میں تین ریاستوں میں حکومت سازی میں بھی کامیاب رہی ہے ادھر پرینکا کی شمولیت  کا بھی کانگریس اور اس کی ہمنوا جماعتوں کو فائدہ، حاصل ہوگا؛ چنانچہ اس وجہ سے عین ممکن ہے کہ حکمراں جماعت کو اس مرتبہ ہار کا سامنا  کرنا پڑے-

 جس طرح ہندوستان میں  جمہوریت کو داغدار کیا گیا ہے  اس کے متعلق درج ذیل رپورٹ کا مطالعہ ضروری معلوم ہوتا ہے-

 سیاسی ماہرین  نے جمہوری عمل کی صورت حال اور ترویج سے متعلقہ موضوعات کا احاطہ کرنے والے جریدے ’ڈیموکریٹائزیشن‘ (Democratization) میں اپنی ایک نئی تحقیق کے نتائج پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ گزشتہ برس دنیا کی آبادی کا زیادہ تر حصہ جمہوری معاشروں میں ہی رہتا تھا۔ تاہم 2017ء میں دنیا کے 24 ممالک ایسے بھی تھے، جن کی مجموعی آبادی 2.6 ارب بنتی ہے لیکن جہاں جمہوریت کا سفر آگے کے بجائے پیچھے کی طرف جاری تھا۔

ان ماہرین کے مطابق ان دو درجن ممالک میں جمہوریت کو جس تنزلی کا سامنا ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ وہاں جمہوری اقتدار بتدریج خود پسندانہ طرز حکومت میں بدلتی جا رہی ہیں اور مقتدر سیاستدانوں کی طرف سے اختیارات اور طاقت کے استعمال کی نگرانی کا عمل کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ یہ عمل خاص کر دنیا کے ان خطوں میں دیکھنے میں آ رہا ہے، جہاں جمہوریت کوئی نیا یا مقابلتاﹰ کم عمر طرز حکومت بھی نہیں ہے۔

ان ممالک میں خاص کر مغربی اور مشرقی یورپی ممالک اور امریکا اور بھارت جیسی ریاستیں بھی شامل ہیں۔ اس رپورٹ کے مصنفین کی ٹیم کی سربراہ اور سویڈن کی گوتھن برگ یونیورسٹی کی ماہر سیاسیات آنا لُوہرمان نے بتایا، ’’ان جمہوری معاشروں میں ذرائع ابلاغ کی خود مختاری، آزادی رائے، آزادی اظہار اور قانون کی حکمرانی ایسے شعبے ہیں، جنہیں واضح طور پر زوال کا سامنا ہے۔

آنا لُوہرمان کے بقول، ’’اس حقیقت کا ایک تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں جمہوری انتخابی عمل کی اہمیت بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ بہت سے ممالک میں عام شہری جمہوری حوالے سے بڑی پیش رفت بھی کر رہے ہیں لیکن مختلف ممالک میں ایسے انسانوں کی تعداد کہیں زیادہ بنتی ہے، جو ترقی پسندانہ جمہوریت کی سفر میں آگے کے بجائے اب پیچھے کی طرف جا رہے ہیں۔

کئی ماہرین کی روایتی توقعات کے برعکس افریقہ وہ واحد براعظم ہے، جسے عام طور پر تو غیر ترقی یافتہ اور سب سے کم جمہوری سمجھا جاتا ہے، لیکن یہی وہ براعظم ہے جہاں عالمی سطح پر جمہوری سوچ، اقدار اور جمہوریت کی ترویج میں گزشتہ برس سب سے زیادہ ترقی دیکھنے میں آئی۔

اس رپورٹ میں دنیا کے بہت سے ممالک سے متعلق لبرل جمہوریتوں، انتخابی جمہوریتوں اور کئی دیگر حوالوں سے بہت سے اعداد و شمار شامل کیے گئے ہیں۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ گزشتہ برس دنیا کی مجموعی آبادی کا نصف سے کچھ زائد حصہ بظاہر جمہوری طرز حکومت والے معاشروں میں رہ رہا تھا لیکن وہ انسان، جو لبرل جمہوریتوں میں رہ رہے تھے، ان کی تعداد عالمی آبادی کا محض 14 فیصد بنتی تھی۔

اسی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دنیا کے جن 24 ممالک میں جمہوریت کو زوال کا سامنا ہے، ان میں امریکا، روس، بھارت، ترکی، پولینڈ اور برازیل جیسے بڑے ممالک بھی شامل ہیں۔ ان میں سے آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک بھارت تو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھی قرار دیتا ہے-رپورٹ میں واضح الفاظ میں ان چیزوں پر تنقید کی گئی ہے جن کی وجہ  سے جمہوریت کمزور ہوتی ہے اور خود مختاری مستحکم ہوتی ہے ؛

آخر میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ شر پسند عناصر نے ملک میں جس طرح جمہوری قدروں کو ارباب سیاست کی سرپرستی میں پامال کیاہے ان شفاف اور پاکیزہ اوصاف کو بحال کرنے کی ضرورت ہے نیز اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہندوستان کا ہر شہری ملک کی تمام اقدارو روایات کا پاس و لحاظ کرے تاکہ ملک میں سیکولر اقدار کو تقویت پہنچے-

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔