راجستھان میں شکست کے خوف سے پریشان وسندھرا راجے سندھیا

ڈاکٹر سیدّ احمد قادری

بد عنوانیوں کا ریکارڈ قائم کرنے اور ہجومی تشدد میں پہلو خاں، اکبر خان وغیرہ کی بے رحمی سے قتل کئے جانے کی گواہ رہی ریاست راجستھان میں گزشتہ پندرہ برسوں سے بر اقتدار رہنے والی وسندھرا راجے سندھیا کی حکومت کی واپسی اس بار ممکن نظر نہیں آ رہی ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ یہاں کی حکومت نے مہنگائی، بے روزگاری، نظم و نسق اور دیگر بنیادی سہولیات سے چشم پوشی کرتے ہوئے اپنی ریاست میں بدعنوانیوں اور فرقہ واریت  کو ہوا دینے میں زیادہ ملوث رہی۔ لیکن اب جبکہ یہاں اسمبلی انتخاب میں چند روز رہ گئے ہیں اور عوام اپنی بنیادی مسائل کی بابت سوال کر رہے ہیں، تو بات بات میں کانگریس کو مورد الزام قرار دیا جا رہا ہے کہ کانگریس نے اس ریاست میں ’’وکاس‘‘نہیں ہونے دیا۔ اسے ذہنی دیوالیہ پن ہی کہا جائے گا کہ جس ریاست میں گزشتہ پندرہ سال سے جس بی جے پی کی حکومت قائم ہو اور مرکز میں بھی وہی پارٹی ساڑھے چار سے اقتدار میں ہو، اسے وکاس کرنے اور عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے میں کانگریس نے کیسے اور کیونکر روک دیا۔

اپنی حکومت کی بدعنوانیوں  میں ملوث سیاسی رہنماوں، افسران اور دیگر کارندوں کے تحفظ کے لئے راجستھان کی وسندھرا راجے سندھیا کی حکومت اپنی ریاست میں ایک ایسا قانون نافذ کئے جانے پر مصر  رہی ہے، جس کے تحت بدعنوانی میں ملوث نہ صرف ریاست سے تعلق رکھنے والے ممبران پارلیامنٹ، بلکہ ریاستی اسمبلی کے ممبران اور وہاں کے نوکر شاہ کے ساتھ ساتھ وہاں کے جج کو بھی حکومت چاہے تو محفوظ رکھ سکتی ہے۔ حکومت کی اجازت کے بغیران لوگوں پر انگلی اٹھانے والے کو دو سال کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔  اس ریاست سے تعلق رکھنے والے کااگرکوئی بدعنوانی کا معاملہ سامنے آتا ہے توان کرپٹ لوگوں پر بولنے، لکھنے اور کسی طرح کی پوسٹ سوشل میڈیا پر لگانے کے ساتھ ساتھ اخبارات میں اس کی خبر دینے اور الیکٹرانک چینلوں پر اس طرح کی کسی بھی خبر کو نشر کیا جانا جرم تصور کیا جا ئے گا۔ وسندھرا راجے سندھیا حکومت کے اس کالے قانون کو وسندھرا کے آمرانہ رویۂ کا نام دیاگیا۔ لیکن میرے خیال میں وسندھرا حکومت کا یہ آمرانہ رویۂ نہیں ہے، بلکہ دراصل یہ وہ خوف ہے، جو، اسمبلی انتخاب میں شکست اور اس کے بعد برسراقتدار نہیں آئے، تو میری جگہ کہاں ہوگی؟

اس لئے وسندھرا راجے سندھیا حکومت کی پریشانی کافی بڑھی ہوئی ہے، جو بجا ہے۔ بجا اس لئے ہے کہ اس حکومت نے اپنی پوری مدّت کار میں کوئی ایسا عوامی فلاحی کام نہیں کیا، جن کا ڈھنڈورا پیٹ پیٹ کر ریاست کے عوام سے ووٹ کی بھیک مانگی جائے۔ اس حکومت نے اپنی مدت کار میں سوائے ہندو، مسلمان کے درمیان نفاق پیدا کرنے او ربدعنوانیوں کا ریکارڈ بنانے میں وقت گزار دیا۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وسندھرا راجے سندھیا پر نہ صرف للت مودی گیٹ اسکینڈل، بلکہ مائننگ سے منسلک کئی بدعنوانیوں کے الزامات بھی عائد ہیں۔ للت مودی اسکینڈل کے ضمن میں ’دی نیؤ یارک ٹائمز‘ نے لکھا تھا کہ ’ویاپم گھوٹالہ تو جیسے للت اسکینڈل سے ہوڑ لگاتے ہوئے سامنے آیا ہے۔ یہ دونوں گھوٹالے ان ریاستوں میں ہوئے ہیں، جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی  اقتدار میں ہے اور مودی دونوں معاملوں میں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ‘۔ منی لانڈرنگ اور دیگر کئی بدعنوانیوں میں ملوث سابق بی پی ایل کمشنر للت مودی کامعاملہ جب سامنے آیا تھا تو  17جولائی15ء کو  کانگریس کے رہنماراہل گاندھی نے کہا تھا کہ راجستھان میں وسندھرا یا بھاجپا کی نہیں بلکہ للت مودی کی حکومت ہے۔

اسی زمانے میں کانگریس نے راجستھان میں 653 مائنس الاٹمنٹ کے معاملے میں 45000 ہزار کروڑ روپئے کا الزام لگاتے ہوئے راجستھان کی وزیراعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا سے فوری طور پر استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا۔ للت مودی بدعنوانی معاملے میں وسندھرا کے متنازعہ مائننگ گھوٹالہ میں گھرنے کا یہ دوسرا بڑا معاملہ تھا۔ کچھ عرصہ قبل  راجستھا  ن سمیت چار ریاستوں میں آر ٹی او کے ذریعہ  80,000 ہزار کروڑ روپئے کی ناجائز وصولی کے خلاصے پر مرکزی وزیر نتن گٹکری نے اس بدعنوانی کا اعتراف کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ اگلے تین ماہ میں یہ کرپشن ختم کر دینگے۔ ان بدعنوانیوں کے علاوہ نوٹ بندی کے بہت بڑے گھوٹالے کی پرتیں راجستھان کے سُمیر پور کی کھلیں، جہاں کے کوآپریٹیو بینک میں بہت بڑا گھوٹالہ سامنے آیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اس وقت میں صرف راجستھا ن کے گھوٹالوں کی تفصیل نہیں، بلکہ صرف ذکر بھی کروں تو یہ صفحہ پُر ہوجائیگا اور کرپشن کی داستان ختم نہیں ہوگی۔ یہ چند مثالیں میں نے ا س لئے بھی دی ہیں کہ بھاجپا کے لیڈران یہ کہتے نہیں تھکتے کہ وہ، ان کی پارٹی اور ان کی حکومت کرپشن سے پاک ہے۔ للت مودی اور مائننگ اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد وزیراعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا  کے ملوث ہونے کے الزامات لگے تھے، اور ان کے خلاف راجستھان سے لے کر دہلی تک جس طرح زبردست احتجاج اور مظاہرے ہوئے تھے، اور ان سے استعفیٰ کا پُزور مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ اس وقت جمہوری اور آئینی تقاضہ یہ تھا کہ وسندھرا وزیراعلیٰ کے عہدہ سے سبکدوش ہو جاتیں۔ لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا اور ان بدعنوانیوں کے معاملے میں وزیراعظم کی خاموشی نے انھیں مذید حوصلہ بخشا کہ وزیراعظم انھیں کرپشن میں ملوث پائے جانے کے باوجود عہدہ سے برطرف کئے جانے کی بجائے پوری طرح خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم کے اس عمل سے اور پھر اقتدار کا نشہ ایسا تھا کہ وسندھرا نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی نے انھیں اس قدر مغرور کر دیا کہ بہت کچھ آزادانہ چھوڑ دیا، جس کے نتیجے میں راجستھا ن سے بدعنوانیوں کی خبریں آئے دن اخبارات کی سرخیاں بنتی رہیں۔

  بھاجپا کی حکومت دراصل ہر جگہ اپنی عوامی مقبولیت کھو چکی ہے، یہی وجہ ہے کہ اب اسے صرف اپنے خزانے بھرنے کی فکر ہے کہ ممکن ہے یہی خزانے کھول کر اور لوگوں کا سودا کر، ان کے ضمیر کو خرید کر ایک بار پھر اقتدار پر قابض ہو جائے۔ ابھی ابھی سابق الیکشن کمشنر نے جو انکشاف کیا ہے کہ نوٹ بندی کے درمیان کالا دھن واپس نہیں آیا۔ بلکہ یہ سارے کالے دھن ابھی  ہو رہے اسمبلی انتخاب میں لگائے جا رہے ہیں، انھوں نے دو سو کروڑ سے زائد رقم کے ضبط کئے جانے کی بھی بات قبول کی ہے۔ کالے دھن کا ستعمال اور ضبط کئے جانے کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔

ایسی بدعنوانیوں اور کالے دھن کے استعمال کئے جانے پر جس طرح بھاجپا اور اس سے منسلک لیڈران کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں، وہ یقینی طور پر بھاجپا حکومت کے لئے بہت ہی لمحئہ فکریہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بقول بھاجپا رہنمأ ارون شوری یہ ڈھائی افراد کی حکومت نے ملک کوایک ایسے دو راہے پر کھڑا کر دیا ہے، جہاں سے ہر ترقی اور خوشحالی کے راستے معدوم نظر آ رہے ہیں۔ ملک کی معیشت اور اقتصادی صورت حال چرمرا کر رہ گئی ہے۔ ملک کے بینکوں سے بڑے بڑے صنعتکاروں کے اتنے ارب روپئے قرض معاف کئے گئے ہیں کہ بینکوں کی حالت خستہ ہو گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک کا سارا نظام درہم برہم ہو گیا ہے۔ موجودہ حکومت نے  عوام کو بد حالی کے اس مقام پر پہنچا دیا ہے، جہاں ہر طرف اندھیرا اور مایوسیاں ہیں۔ کسان، جوان، نوجوان، غریب، بے روزگار، سب کے سب پریشان ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔  ہم کون سی ترقی اور خوش حالی کے راستے پر جا رہے ہیں، یہ کیسا وعدہ تھا کہ اچھے دن آئینگے۔ یہ کیسے اچھے دن ہیں۔ ؟

میرا خیال ہے کہ اگر موجودہ حکومت  پورے ملک میں منافرت، عدم رواداری، گائے، گؤ مانس، گؤ رکشا، مدرسہ، وندے ماترم، لو جہاد، گھر واپسی، پاکستان جاؤ وغیرہ  جیسے فروعی معاملات کی بجائے ملک کے عوام کے بنیادی مسائل پر توجہ دیتی، تو شائد اتنی جلد انھیں عوام سے اتنا زیادہ خائف نہیں ہونا پڑتا۔ بیرون ممالک میں جس طرح ملک کی شبیہ بن رہی ہے اور بیرون میڈیا جس طرح ملک کے حقائق کو اجاگر کر رہا ہے، ا س سے یقینی طور پر مستقبل قریب میں بہت زیادہ نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔ یوں بھی کرپشن، لا قانونیت، منافرت، بہت تیزی سے گرتی معیشت وغیرہ پر بیرون ممالک میں تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ہر سال کے سروے میں ملک پچھڑتا جا رہا ہے، لیکن ملک پر حکومت کرنے والوں کوان مسائل کی قطئی پرواہ نہیں۔

  راجستھان کی وزیراعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا کا خوف ان کے چہرے سے بھی اب پوری طرح عیاں ہونے لگا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔