سنگھ پریوار اپنی چِتا خود روشن کر رہا ہے!

عالم نقوی

سہ روزہ دعوت کے یکم جون کے شمارے میں صفحہ اول   پر اس کے ایڈیٹر شفیق ا لرحمن کے کالم کی سرخی ہے : ’’عالم ِ انسانیت جان کنی کے عالَم میں ہے ‘‘!اور ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ کے ایک اسکالر محمد عبد اللہ  نے  ماہنامہ’ زندگی نو‘ دہلی  کے  شمارے جون ۲۰۱۸ء میں ’’دور ِ غلامی کی واپسی ‘‘ کو موضوع بنایا ہے !دونوں مضامین حقیقت حال کی درست ترجمانی پر مشتمل ہیں۔ برادر شفیق ا لرحمن کا یہ تجزیہ بڑی حد تک  صحیح ہے کہ ’’وہ گروہ (اہل ایمان ) خود سب سے زیادہ بیمار ہے جس سے اصلاح حال کی اُمید اِس بِنا پر تھی کہ اُس کے پاس نسخہء شفا (القرآن ) موجود ہے مگر وہ خواب ِغفلت میں پڑا ہوا ہے۔‘‘ (اور قرآن کو مہجور بنا رکھا ہے )۔

مضمون ’دورِ غلامی کی واپسی‘ کا اِختتام اِن اَلفاظ پر ہوتا ہے کہ ’’۱۹۲۴ میں ہٹلر کے نازی ازم کے طرز پر ایک تحریک آر ایس ایس کے نام سے وجود میں آئی جس کا مقصد ہی ملک سے مسلمانوں کا خاتمہ ہے۔ آج یہ ملک پھر سے اُنہیں ہاتھوں میں چلا گیا ہے جنہوں نے اِس ملک کے کمزور طبقے (مستضعفین) کو اپنا غلام بنا لیا تھا اور ان پر ظلم کی انتہا کر دی تھی (آج پھر) دلتوں (عیسائیوں) اور مسلمانوں کو غلامی کے اشارے دیے جا رہے ہیں۔ حالات بتا رہے ہیں کہ اگر(ہم) ہندستانی  اب بھی نہ جاگے اور سنجیدگی نہیں دکھائی اور متحد ہوکر کوئی دانشمندانہ قدم نہیں اُٹھایا تو آنے والا وقت ہماری سوچ سے زیادہ بد تر ہو سکتا ہے۔ اِس لیے ایک محب وطن ہونے کے ناطے آپ کی (اور ہماری، ہم سب کی) ذمہ داری ہے کہ اس منفی سوچ کا جم کر مقابلہ کریں۔ نفرتوں کے جواب میں محبتوں کو عام کریں۔ (ہر برائی۔ سئیہ ) کا بدلہ اچھائی، نیکی (حسنہ) سے دینے کی کوشش کریں )، مذہبی رواداری کی عملی مثالیں پیش کریں۔ کچھ لوگ عوام کو گمراہ کر رہے ہیں تو آپ (اور ہم) لوگوں کو صحیح صورت حال سے واقف کرائں۔ذرائع ابلاغ جو(ہمیں اور ) آپ کو میسر ہیں ان کا بھر پور استعمال کریں  اور ہر ہندستانی تک (اپنے عمل و کردار سے)  امن و شانتی کا (قرآنی اسلامی) پیغام پہنچائیں ۔ ملک کو (نئی ) غلامی سے بچانا  (خیر امت اور امر و نہی کا فریضہ ادا کرتے رہنے والی امت وسط  کی حیثیت سے) ہمارا اولین فریضہ ہے۔ (زندگیٔ نَو، جون ۲۰۱۸ صفحہ ۸۶)‘‘

ویسے تو وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے چار سالہ دور اقتدار میں جھوٹ بولنے، جھوٹے وعدے اور جھوٹے دعوے کرتے رہنے اور دلتوں اور مسلمانوں کے خلاف ظلم پر’مَون‘( خاموش )رہنے کے سوا اور کچھ نہیں کیا ہے لیکن انہوں نے شاید اپنی پوری زندگی میں جو دو چار سچ بولے ہیں اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ۔ ۔’’ہندستان کا مسلمان ملک کے لیے جیے گا اور ملک کے لیے  مرے گا، ملک کا بُرا ہو ایسا کچھ بھی نہیں چاہے گا، یعنی غداری نہیں کرے گا۔ ۔‘‘نریندر مودی کے یہ الفاظ  اُن کے اُس انٹرویو کے ریکارڈ پر ہیں جو انہوں نے ۲۲ ستمبر ۲۰۱۴ کو سی این این کو دیے تھے اور صبغت اللہ ندوی نے سہ روزہ  دعوت  دہلی کے یکم جون ۲۰۱۸ کی اپنی خاص خبر ’’اسلامی  دہشت گردی پر (جے این یو میں )کورس گہری سازش ‘‘ میں  نقل کیے ہیں۔ نریندر مودی نے سی این این سے جو کچھ کہا تھا وہ سب حق ہے لیکن مودی خود جھوٹے اور منافق ہیں کہ منافق کی خصوصیت یہی ہے کہ اس کے قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے، اس کی زبان پر جو ہوتا ہے وہ اس کے دل میں نہیں ہوتا۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں نام نہاد اسلامی دہشت دہشت گردی پر کورس شروع کیے جانے پراپنے تبصرے کے آخر میں  صبغت اللہ ندوی نے لکھا ہے کہ ’’ایک تو ملک میں نفرت کی تعلیم دینے والے آر ایس ایس کے اداروں کی کوئی کمی نہیں۔ ۔جس کی وجہ سے آج سماج میں نفرت، دشمنی اور دوری بڑھتی جارہی ہے۔ ۔اب یونیورسٹیوں میں مطالعے کے نام پر اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کا کام بھی کیا جائے گا۔ ریسرچ ورک اور باقاعدہ کورس میں بہت فرق ہوتا ہے اور اعتراض کورس پر ہے۔‘‘

لیکن ان تمام دل خراش باتوں سے قطع نظر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ آر ایس ایس کا آخری   زمانہ ہے۔ بقول مولوی محمد  اسمعیل ؔمیرٹھی؎

ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں

ناؤ کاغذ کی سدا چلتی نہیں

سنگھ پریوار جو کچھ کر رہا ہے اور پچھلے چار برسوں کے دوران با لخصوص اُس نے’’سَیَّاں بھئے کُتوال تو پھر ڈر کاہے کا ‘‘ کے تحت جو کچھ کیا ہے اور ۲۰۱۹  کے عام انتخابات کی تیاریوں کے لیے وہ جو کچھ پلان کر رہا ہے وہ خود اپنی چتا میں آگ دینے کے مترادف ہے۔

 دیش اور دنیا کے حالات بے شک خراب ہیں لیکن یہ ۱۲۵۸ء(سقوط بغداد) ۱۸۵۷ءسقوط ہند ۱۹۲۴ء (سقوط خلافت عثمانیہ)  ۱۹۴۷ء(تقسیم ہند ) اور ۱۹۹۰ء (بوسنیا کے قتل عام ) کے حالات سے بہر حال، زیادہ خراب نہیں !

 صرف مسلمان ہی نہیں پوری دنیا کے ’مستضعفین ‘ خواب غفلت سے بیدار ہو رہے ہیں اور حالات، اسلام دین فطرت و رحمت و رافت کے ’اظہار ‘(لیظھرہ علی ا لدین کلہ) اور مستضعفین فی الارض کی امامت  (القصص ۵)کی جانب اشارہ کر رہے ہیں!

 اسلام دین عدل و قسط ہے۔ سورہ بقرہ آیت ۲۱۔۲۲۔۱۷۷،سورہ آل عمران ۱۰۴، سورہ بنی اسرائل ۱۵تا ۳۷،سورہ نساء۳۶۔اور۱۳۵،اور سورہ مائدہ۔ ۸ وغیرہ آیات قرآنی ’’سماج کا ایک ایسا واضح اور روشن  منظر نامہ پیش کرتی ہیں جو حق و انصاف  کا، عدل و قسط کا، عزت و احترام کا، مساوات کا، آزادی کا، خلق خدا کی خیر خواہی کا، امن و شانتی کا بے خوف سماج ہے۔ ۔(حق و انصاف سماج کی بنیادی ضرورت۔ نوید ابن فیضی۔ زندگی نو۔ مئی ۲۰۱۸ ص ۳۷۔ ۴۳)۔

ظاہر ہے کہ موجودہ منظر نامہ اس کے خلاف صورت حال کا مظہر ہے۔ لیکن کب تک ؟ ظلم کو عدل و انصاف سے اور بد امنی کو امن و سکون سے با لآخر بدل کے رہنا ہے۔ لیکن اللہ کسی قوم کی حالت اسچ وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ اس کے افراد خود اپنے آپ کو نہیں بدلتے۔ (لا یغیروا ما بقوم حتی یغیروا ما بانفسھم )! اور ہمارے بس میں اِس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ہم  پہلے خود کوویسا بنانے کی کوشش کر یں جیسا ہم دوسروں کو دیکھنا چاہتے ہیں !پہلے ہم دوسروں کے ساتھ وہ سلوک کریں جس کے دوسروں سے ہم خود اپنے لیے  ہمہ دم متمنی رہتے ہیں ! فھل من مدکر؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔