سیکولر برادری کو مستعدی سے کام کرنا ہوگا

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

یہ ہمارے لئے خوش بختی کی بات ہیکہ ہم ایک جمہوری ملک اور سیکولر آئین کے سائے تلے رہ رہے ہیں۔ اس کا مطلب واضح کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس کی اہمیت وافادیت سے ملک کا ہر شہری بخوبی واقف ہے۔  اگر ہم ان ممالک پر نظر ڈالیں جہاں آمریت اور بادشاہت کا بول بالا ہے تو اندازہ ہو گا کہ وہاں کی عوام اپنے حکمرانوں سے بڑی حد تک مطمئن نہیں ہے، آپ کو  بادشاہت کے خلاف  کچھ کہنے کا بھی حق نہیں ہوتا اگر آپ نے حکومت کی غلط پالیسیوں پر حرف اٹھایا تو آپ کی خیر نہیں ہے اس کا خمیازہ بھگتنا لازمی ہے، چاہے ان چاہے آپ کو حکومت کی جملہ نقل و حرکت سے اتفاق کرنا پڑتا ہے، اسی صدیوں پرانی گھٹن کے سبب  مشرق وسطی میں جمہوریت  کے قیام کے لئے آواز بلند ہوئی جس کے نتیجہ میں مظاہرین اور اپنے ممکنہ حقوق کی بازیافت کرنے والی عوام کو وقت کے بے رحم حاکموں نے بری طرح سے قابل عتاب ٹھہرایا اور نہ جانے کتنے افراد کو جمہوری نظام کے قیام کے لئے اپنی جان تک دینی پڑی، حتی کہ مشرق وسطی کے بعض ممالک میں  یہ سلسلہ ابھی بھی جاری وسار ی ہے۔

چنانچہ یہ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہت اور آمریت کے مد مقابل عوام جمہوری نظام کو زیادہ پسند کرتی ہے، نیز جمہوریت میں رعیت کو حکومت کی غلط پالیسیوں پر تنقید کرنے کی بھی اجازت ہوتی ہے علاوہ ازیں جمہوری نظام  امن و امان، سلامتی ، خوشحالی کے اعتبار سے بھی ملک کے لئے زیادہ مفید ہوتا ہے۔  جمہوریت میں سب سے بڑی طاقت جنتا کی ہوتی ہے۔  جمہوری نظام کی حکومت سازی میں  عوام کا جو کردار ہے وہ ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہے، البتہ آمریت یا  بادشاہت میں حکومت سازی کا اختیار باشندگان ملک کو نہیں ہوتا ہے بلکہ وہاں ان کا یہ اختیار تقریبا سلب ہو جا تا ہے، پھر اس کے جو مضر نتائج مرتب ہوتے ہیں یا ماضی قریب میں ہوئے ہیں اس سے ہم سب اچھی طرح واقف ہیں۔  خیر ہندوستان جمہوریت اور سیکولرزم جیسی پاکیزہ صفات سے متصف ہے، ملک کے نظام  کو چلانے میں جن اداروں اور شعبوں کو کلیدی حیثیت حاصل ہے ان میں سب سے نمایاں رول عوام کا ہی ہے ، یہی وجہ ہے  ہر پانچ سال بعد حکومت سازی کا دور آتا ہے اور پبلک اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرکے  حکومتوں کے بنانے یا گرانے میں پوری طرح آزاد ہوتی ہے۔  چنانچہ وطن عزیز میں  آئندہ سال عام انتخابات ہونے جارہے ہیں اس کے لئے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے لنگوٹ کس لیا ہے، اور اپنی اپنی آئیڈیالوجی کے حساب سے عوام کو اپنے اپنے خیمہ میں لانے کی  تابڑ توڑ کاوش جاری ہے۔

2019 میں ملک کی زمام اقتدار کس کے ہاتھ میں ہوگی یہ ابھی یقین سے کہنا قبل از وقت ہو گا، ہاں موجودہ صورت حال کے تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت ملک میں جس طبقہ کی حکومت ہے اس سے ملک   کی اکثریت مطمئن نہیں ہے، اس کے پس پردہ جو عوامل و عناصر ہیں ان میں بنیادی عنصر یہ ہیکہ  2014  میں عوام کو جو سنہرے خواب دکھائے گئے تھے ان کی تعبیر کا  انتظار ابھی بھی ہے ، حکمراں طبقہ نے جو وعدے اور دعوے کئے تھے تقریبا وہ سب فیل ہو چکے ہیں، عوام کی ناراضگی کا اظہار اس سے بھی بآسانی لگا یا جا سکتا ہے کہ رواں سال میں ملک کے کئی مقامات پر ضمنی انتخابات ہوئے جس میں بی جے پی کو حزب مخالف پارٹیوں نے دھول چٹادی اور حکومت کے  مشن  2019 میں سیندھ لگانے کا کام کیا ہے، یہاں رک کر یہ بھی سمجھتے چلئے کہ ان ضمنی انتخابات میں دو سیٹیں انتھائی اہم تھیں ایک گورکھپور کی کیونکہ یہاں کی کرسی پر گزشتہ پچیس سال سے یو پی کے وزیر اعلی یوگی  اور انکے گرو براجمان تھے یکا یک یوگی کے گھر میں گھس کر انہیں شکشت دینا بڑی بات ہے۔

اس کا سیدھا مطلب یہ نکالا جاسکتا ہیکہ یوگی کی کارکردگی سے عوام خوش نہیں ہے اگر عوام راضی ہوتی تو صورت حال کچھ اور ہوتی، دوسری سیٹ کیرانہ کی ہے یہاں بھی حسب روایت بی جے پی کی تمام کاوشوں کے باوجود راشٹریہ لوکدل اور اس کی ہمنوا جماعتوں کا پرچم بلند رہا اور تبسم حسن کو فتحیابی نصیب ہوئی،  یہ سیٹ بھی گونا گوں وجوھات کی بنیاد پر غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہاں فرقہ پرست طاقتوں نے ہندو مسلم فساد کراکر اپنا سیاسی مستقبل بنانے کی  مکروہ حرکت کی تھی اور اس کے اثرات کہیں نہ کہیں باقی تھے، اس کے باوجود ایک مسلم امیدوار کو کامیاب بنا نا اس بات کی واضح علامت ہے کہ ملک میں نفرت، تشدد، اور مذہب کے نام پر سیاست کا گندہ کارو بار پنپنے نہیں دیا جائے گا، کیرانہ کی عوام  نے ایسے نازک دور میں  انتھائی خوش آئند  اور مثبت قدم اٹھاکر  پوری دنیا خصوصا پورے ملک میں  امن کا  پیغام دیا ہے اس کی جتنی ستائش کیجائے وہ کم ہے۔

وہیں اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ اس وقت ملک میں حکمراں جماعت کی فکر اور اس سے وابستہ افراد کے منفی منصوبوں نے ملک میں مسلمانوں کے خلاف ایک فضا ہموار کردی ہے گزشتہ چار برسوں میں جگہ جگہ اس کا ظہور بھی ہوا ہے کبھی لوجہاد، گھر واپسی، بیف، اور حب الوطنی کو مشکوک ٹھہرا کر مسلم اقلیت کو زدو کوب کیا گیا جو ملک کی جمہوریت پر بد نما داغ ہیں۔ لھذا مسلمانوں کی ہمدردی کرنے والوں کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے، اسی وجہ سے  ملک کی دیگر سیکولر جماعتیں بھی   مسلم اقلیت کی تسلی اور سہارہ دینے سے ڈرنے لگی تھیں کہ کہیں ان کا ہندو ووٹ ہاتھ سے نہ چلا جائے۔

گویا گزشتہ چار سالوں میں مسلمانوں کی سیاسی حیثیت معدوم ہو چکی تھی حتی کہ اتر پردیش سے ملک کے پارلیمینٹ میں ایک بھی مسلم نمائندہ ابھی تک نہیں تھا اور آئندہ نہ ہونے کا اندیشہ مستقل بنا ہوا تھا مگر اس موہوم  خدشہ  کا ازالہ ہوا، اور سماجوادی پارٹی کے قومی صدر اور راشٹریہ لوکدل کے قومی صدر نے تاریخ مرتب کی اور ایسے نازک وقت میں مسلم کنڈیدیٹ کو ٹکٹ دیکر کامیابی کا  علم بلند کیا جب کہ مسلمانوں کے نا م تک لینے کو فرقہ پرست طاقتیں گناہ سمھجتی ہیں یقینا یہ تمام سیکولر برادر ی کی حد درجہ جرات اور ہمت کی بات ہے۔

 اس سے یہ بات صاف ہوگئی کہ وطن عزیز میں نفرت نہیں محبت کی ضرورت ہے مندر، مسجد  اور جناح کی تصویر میں عوام کو مستقل الجھا کر سیاسی بازی حاصل نہیں کیجا سکتی ہے بلکہ عوام کو تشفی دلانے کےلئے وکاس اور خوشحالی کے پروجیکٹ چلانا بھی انتھائی ضروری ہے ، عوام کو اعتماد میں لینے کے لئے صر ف  ہندو مسلم منافرت اور جملے بازی  کافی نہیں ہے بلکہ زمینی سطح پر ترقیاتی منصوبوں اور یوجناؤں کو نافذ کرکے عام آدمی کے گھر تک پہنچانے  کی بھی  ضرورت  ہے ،ادھرکسانوں کا طبقہ بھی موجودہ حکومت سے انتھائی ناراض ہے اس وقت کسا نوں کی گاؤں بند تحریک چل رہی ہے جو 10/ جون 2018 تک جاری رہے گی، اس سے  قبل بھی کسانوں نے اپنا دکھ درد جتایا تھا اور احتجاج کررہے کسانوں نے پیشاب تک پی لیا تھا گویا  حکومت کی موہوم پالیسیوں سے کسانوں کا طبقہ کافی پریشان ہے۔

 مگر حکومت کمزور طبقات کے بنیادی حقوق دبانے   کے لئے نئے نئے مدعے تلاش کر کے لاتی رہی ہے۔  اس لئے  ہندوستانی معاشرہ اب اس بات کو سمجھ گیا ہے کہ موجودہ حکومت نے ابھی تک ہمیں مسلمانوں کا خوف دکھاکر ووٹ حاصل کرنے کی گھناؤنی چال چلی ہے، اگر گزشتہ چار برسوں کی کار کردگی پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ نیوز چینلوں سے لیکر حکومت کے ٹکڑوں پر گزر بسر کرنے والے افراد سب نے ملک میں امن و شانتی کوپامال کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے اسی پر بس نہیں بلکہ کئی مرتبہ  جمہوریت جیسے مقدس نظام اور سیکولر آئین کے صاف شفاف چہرہ کو مسخ کرنے کی سازش تک رچی ہے اور اس پر ابھی بھی کام جاری ہے۔  اس لئے میں پورے وثوق سے کہرہا ہوں کہ اگر ملک میں ہم دستوری قدروں کی حفاظت چاہتے ہیں تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہونے والے عام انتخابات میں سیکولر جماعتوں کو اقتدارتک پہنچایا جائے تکہ ملک میں بھائی چارگی، سماجی ہم آہنگی  اور گنگا جمنی تھذیب کا فروغ ہو سکے، الغرض    حالیہ ضمنی انتخابات نے یہ کھلا اشارہ دیا ہے کہ اگر 2019 میں حزب مخالف جماعتیں اور سیکولر برادری یکجٹ ہوتی ہے تو مثبت نتائج بر آمد ہونے کے قوی امکانات ہیں۔

 لیکن اتحاد کے باوجود بھی سیکولر برادری کو فتح نصیب ہو جائے یہ کوئی پکی بات نہیں ہے، صرف ضمنی انتخابات کے نتائج کے بھروسے پر نہیں رہنا چاہئے بلکہ اس کے لئے مستقل لگن، سنجیدگی اور مصلحت وحکمت کے ساتھ کام کرنے کی سخت ضرورت ہے، ساتھ ہی اس اتحاد کو پائدار بنانے کی بھی ضرورت ہے، کرناٹک میں کانگریس اور جنتا دل سیکولر  نے باہم ملکر لوکسبھا الیکشن لڑنے کا باضابطہ اعلان کردیا ہے جو یقینا ملک کی بقاؤ سالمیت کے لئے مفید ثابت ہوگا  اسی طرح اتر پردیش میں سماجوادی اور بہوجن سماج  نیز راشٹریہ لوکدل نے ایکتا جٹا کر بڑا کام کیا ہے امید یہی ہے کہ کانگریس بھی اس گٹھبندن میں شامل ہوجائے گی۔ اس اتحاد کے علاوہ جو کرنے کا کام ہے وہ یہ کہ تمام سیکولر جماعتیں اپنا محاسبہ کریں اور یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ گزشتہ انتخابات میں کن غلطیوں کی بنیاد پر عوام نے اقتدار سے دور کیا اگر اپنی گزشتہ خامیوں کا تجزیہ کرکے اس پر تدارک حاصل کرلیا جائے تو بہت ممکن ہے کہ ملک سے زعفرانی طاقتوں کے  تسلط کا محل زمیں بوس ہوجائے۔

دوسری اہم بات یہ ہیکہ 2014 کے بالمقابل مودی لہر کا سحر کم ہو ا ہے اس کی طرف بعض نیوز چینل بھی اشارہ کررہے ہیں، اور ملک کے مختلف ضمنی انتخابات نے بھی مودی لہر کے اثر کو کم ہونے کا عندیہ دیا ہے، لھذا اس موقع کا فائدہ اٹھا کر تمام سیکولر جماعتوں کو انتھائی مستعدی کے ساتھ مشن 2019  کی تیاری میں لگنا ہو گا اور بڑی بڑی ریلیاں منعقد کرنے کے بجائے گاؤں گاؤں جاکر عوام کو اپنی مثبت کار کردگی کا اطمینان دلایا جائے وہیں حکمراں طبقہ کی ناکامی سے بھی پردہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔  اس لئے خوشیاں منانے کے بجائے زمینی سطح پر محنت کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ وقت تمام سیکولر برادری کےلئے امتحان کا ہے اور اس کا رزلٹ 2019 میں آئیگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔