عوام میں سیاسی شعور بیدار کرنا وقت کی اہم ضرورت

ندیم احمد انصاری

دنیوی نظام ’سیاست و حکومت‘ کے ذریعے طے پاتاہے، اس لیے سیاست بھی نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی طرح اسلام کا ایک اہم جزوہے۔ یہ اور بات ہے کہ فی زمانہ مفاد پرست عناصر نے اسے گندہ اور آلودہ کر دیا ہے۔ لیکن اسے صاف کرنے کا طریقہ محض تماشائی بن کر اس میں کیڑے نکالنا یا سیاست دانوں کو کوسنا نہیں، بلکہ خوفِ خدا کے حامل باصلاحیت افراد کو میدانِ عمل میں اتارنا ہے۔ ایک وقت تھا کہ بھارت کی سیاسی افق پر مولانا محمود حسن دیوبندی، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا حفظ الرحمن سیوہاری، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا حسرت موہانی جیسی مسلم شخصیات چھائی رہتی تھیں، مگر افسوس آج میدان تقریباً خالی ہے۔ ہمارے زمانے میں چند ٹکوں کے عوض ایسے افراد کو ایوان کی باغ ڈور سونپ دی جاتی ہے، غنڈہ گردی جن کا عام پیشہ ہے، جس کا اثر ہر سو عیاں ہے۔

اس کے باوجودعوام جب آپس میں مل بیٹھتے ہیں تو اکثر سیاسی معاملات پر گفتگو کرتے ہیں، خواہ انھیں اس کے بارے میں معلومات ہو یا نہ۔ چائے کی چسکیوں کے ساتھ گرما گرم بحث کی، سیاسی لیڈران کو موردِ الزام ٹھہرایا اور بس! اس بات پر غور کرنے سے اکثر گریز کیا جاتا کہ یہ حضرات اس مقام تک پہنچے کیسے ہیں ؟ اور آیندہ نااہلوں کو اس مقام سے دور رکھنے کے لیے کیا تدبیر اختیار کی جائے ؟ ظاہر ہے ان چند لوگوں کو حاکم بنانے والے کروڑوں کی تعداد میں عوام ہی ہیں، جو کسی دنیوی فایدے، لالچ یا بہکاوے میں آکر ملک کے مستقبل کو آگ لگانے سے نہیں چوکتے۔ جو عوام انتخابات کے دوران سنجیدگی کا مظاہرہ کیے بغیر ایک دوسرے کا دیکھا دیکھی، کسی صالح شخص کے بجائے کسی پارٹی کو ووٹ دے گی، اس کا حال بد سے بد تر ہونا طے ہے۔ واضح رہنا چاہیے کہ حکومت و سیاست کوئی بری چیز نہیں، بلکہ یہ تو انبیاے کرام علیہم السلام اور خلفاے عظام کا طریق ہے، اس لیے عوام میں سیاسی شعور بیدار ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

بنی اسرائیل میں سیاست

ابوحازم سے روایت ہے: میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پانچ سال بیٹھا۔ میں نے انھیں بیان کرتے ہوئے سناکہ حضرت نبی کریم ﷺنے فرمایا: بنی اسرائیل میں انبیا حکومت کیا کرتے تھے، جب ایک نبی کا وصال ہوتا تو دوسرا اس کا جانشین ہوجاتا۔ میرے بعد تو کوئی نبی نہیں ہوگا،البتہ خلفا ہوں گے اور بہت ہوں گے۔ صحابہ نے عرض کیا: پھر آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ ﷺنے فرمایا: یکے بعد دیگرے ہر ایک کی بیعت پوری کرنا اور انھیں ان کا (حق ) دیتے رہنا اور اللہ نے انھیں جن پر حکمراں بنایا ہے اس کے بارے میں وہی ان سے باز پرس کرے گا۔(بخاری)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی پیشین گوئی

یہ تو ہماری کوتاہی و بد عملی کا نتیجہ ہے کہ ہم اس خیر و برکت سے محروم ہیں۔ جس کی طرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اشارہ فرما دیا تھاکہ عن قریب بستی سرسبز و شاداب ہونے کے باوجود ویران ہوگی۔ لوگوں نے کہا: سرسبز و شاداب ہونے کے باوجود کیسے ویران ہوگی؟ آپ نے فرمایا: جب فاسق وفاجر نیک لوگوں پر بلند ہوجائیں اور دنیا کی سیاست منافقین کے ہاتھوں میں ہو۔ (کنزالعمال)

مسلم سیاسی پارٹی

بھارت میں مسلمانوں کی آبادی اِس طرح بکھری ہوئی ہے کہ ملکی سطح پر خاص مسلم سیاسی پارٹی سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا، ان حالات میں دیگر اقلیتوں اور سیکولر ذہنیت کے اَفراد کو ساتھ لے کر محاذ بنانے میں کامیابی کی زیادہ اُمید رہتی ہے۔ یہ بھی دھیان رہے کہ اندھوں میں کانا ہی راجا ہوتا ہے ! نیز ووٹ دیتے وقت شخصی کے بجائے قومی مفادات کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے، خواہ امید وار مسلم ہو یاغیر مسلم۔

انتخابات اور دوٹر کی صفاتِ اہلیت

ہمارے ملک میں خلفا ہیں نہ اسلامی حکومت۔ اور جمہوری نظام میں یہ ضروری ہے کہ حکومت انتخابات کے نتیجے میں بر سرِ اقتدار آئے، اس غرض کے لیے شروع میں پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے انتخابات ہوتا ہے، پھر پارلیمانی نظامِ حکومت میں جو جماعت اکثر ارکانِ پارلیمنٹ کی حمایت حاصل کر لے، وہ حکومت بناتی ہے۔ عام طور سے جمہوریت میں انتخابات کے دو طریقے ہیں :بلا واسطہ یا بہ راہِ راست انتخاب،بالواسطہ انتخاب۔بہ راہِ راست انتخاب کا مطلب یہ ہے کہ ہر بالغ باشندے کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا جائے، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، بوڑھا ہو یا جوان، تعلیم یافتہ ہو یا جاہل۔ اور جو وامید وار اپنے حلقے کے باشندوں کے زیادہ ووٹ حاصل کرلے، وہ منتخب ہو جائے۔ بالواسطہ انتخاب کا مطلب یہ ہے کہ عوام اپنے ووٹوں کے ذریعے انتخاب کرنے والوں کا انتخاب کریں، یعنی عوام پہلے ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جو پارلیمنٹ کے ارکان منتخب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، پھر وہ منتخب شدہ افراد مقنِّنہ کے لیے ممبران کا انتخاب کریں۔ پھر بلا واسطہ انتخابات میں بھی ووٹروں کی صفاتِ اہلیت، جس کی بنا پر ووٹر کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہوتا ہے، اس بارے میں یہ بھی مختلف نظام رائج رہے ہیں۔ مثلاً سوئٹزر لینڈ میں چند سالوں پہلے تک عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق نہیں تھا، صرف مَردوں کو ووٹ دینے کا حق تھا۔ جب اس پر بحث ہوئی کہ عورتوں کو بھی ووٹ کا حق ملنا چاہیے تو خود عورتوں نے اس حق کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ حق نہیں چاہیے، اس لیے کہ اس کے بعد گھروں میں لڑائی جھگڑے ہو جائیں گے اور گھروں کے اندر سیاست گھس آئے گی، کیوں کہ مرد ایک شخص کو ووٹ دینا چاہے گا اور عورت دوسرے کو ووٹ دینا چاہے گی، تو لڑائی شروع ہو جائے گی۔ لیکن بعد میں بالآخر عورتوں کو بھی وہاں ووٹ دینے کا حق دے دیا گیا اور اب اس وقت پوری دنیا میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کرانے کا نظام رائج ہے، لہٰذا جو بھی شخص بالغ ہو، وہ ووٹ دینے کا حق رکھتا ہے۔

عام طریقۂ انتخاب

پھر عام طریقۂ انتخاب میں جو شخص بھی اکثریت سے ووٹ حاصل کر لے، وہ کامیاب قرار پاتا ہے، لیکن اگر امید وار بہت سے ہوں تو اس کا نتیجہ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ وہ شخص بھی کامیاب قرار پاتا ہے، جس نے اپنے حلقے کے ووٹروں میں سے صرف پندرہ فی صد ووٹ حاصل کیے ہوں، اور باقی پچاسی فی صد لوگوں کے ووٹ اس لیے بے کار چلے گئے کہ انھوں نے مختلف امید واروں کو ووٹ دیے، جن میں سے کوئی بھی پندرہ فی صد ووٹ حاصل نہ کر سکا، اور صرف ایک امیدوار کو سب سے زیادہ یعنی پندرہ فی صد ووٹ ملے۔ اس طرح صرف پندرہ فی صد لوگوں کے ووٹ سے ایک شخص پورے علاقے کا نمائندہ بن کر سامنے آگیا۔ حالاں کہ پچاسی فی صد لوگ اس شخص کو اپنا نمائندہ بنانا نہیں چاہتے تھے، لیکن وہ اس وجہ سے کامیاب قرار پایا کہ اس نے باقی تمام امیدواروں کے مقابلے میں زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔ لہٰذا عام طریقۂ انتخاب عوام کی حقیقی نمایندگی کا عکّاس نہیں ہوتا، اور بسا اوقات اقلیت والی پارٹی اکثریت پر حکم رانی کرتی ہے۔ (اسلام اور سیاسی نظریات،ملخصاً)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔