قوم کا معمار: زیرعتاب بھی نشانہ ٔعذاب بھی

محمد شفیع میر

حال ہی میں یو م اساتذہ کے موقع پر ٹیچروں کو سرمائی اور گرمائی راجدھانیوں میں میں یوم ِ اساتذہ کو بوجوہ ’’یوم ِ سیاہ‘‘ مناتے ہوئے دیکھنا انتہائی شرم کی بات ہے۔ ا س روزہزاروں خواتین ومرداساتذہ نے سڑکوں پر آکرشدید احتجاج اور سینہ کوبی سے اپنے حل طلب مسائل کے حوالے سے انصاف مانگا۔اساتذہ کو کسی بھی قوم اورمعاشرے کا معمار سمجھا جاتاہے اور اساتذہ کے دم سے ہی کسی قوم اور ملک کا مستقبل بنتابگڑتا ہے۔ چونکہ اساتذہ ہی فرداور سماج کی ترقی کے ضامن ہوتے ہیں، اس لیے ہر معاشرے میں ان کا کردار اہم ہوتا ہے۔استاد کو دین ِ اسلام میں بہت اعلیٰ مقام حاصل ہے لیکن ہماری ریاست جموں و کشمیر میں اساتذہ حکام بالا کے ہاتھ میں ایک کھلونے سے زیاد ہ اہمیت رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ اُستاد اپنی مانگیں منوانے کے لئے اب کلاس رومز میں کم اور سڑکوں چوک چوراہوں پر زیادہ نظر آتے ہیں۔علم کے نور سے منور کرنے والے ایک استاد کی قدر و منزلت اب کسی ایس پی او کی بھی نہیں رہی ہے۔

ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ ایس پی اوز تنخواہوں کی واگزار ی کے لئے سڑکوں پر امڈ آئے ہوں جب کہ علم کا اُجالا عام کرنے والے استاد کو بار بار اپنی تنخواہ کے لئے سڑکوں کی دھول چاٹنا پڑ تی ہے۔ معلمین ومدرسین کوجس طرح سڑکوں پر اپنے مسائل کا دکھڑا لئے آنے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور ناحق لاٹھیاں کھانا پڑتی ہیں، وہ انتہائی افسوس ناک اور نا قابل ِ برداشت جرم قرارپاتاہے۔ پتہ نہیںپولیس کو کیونکر یہ کھلی چھوٹ ملی ہے کہ جب جب اساتذہ اپنے جائز مطالبات لے کر سڑکوں پرواویلا مچائیں تو ا ن کا سواگت مجرموں کی طرح کرو۔ لگتا ہے کہ ارباب ِ حل و عقد نے چالیس ہزار سے زائد اساتذہ کی جائزمانگیں نہ سننے کی جیسے قسم کھا رکھی ہے، انہوں نے کانوں میں روئی ٹھونسی ہے، آنکھوں پر پٹی باندھی ہے تاکہ حق کی آواز دب کر رہ جائے۔ شاید اسی لئے پولیس کو مکمل اختیار دیا گیاہے کہ تعلیم وتدریس کے جگمگاتے ستاروں پر جب چاہو جہاں چاہو ٹوٹ پڑو، علم وآگہی کی شمعوںکوبجھانے سے گریزنہ کرو، ان کی ہڈی پسلی ایک کر دو، ان کی تذلیل کرو، ان کے گریبان پھاڑد و مگر اپنے گریبان میں جھانکنے کی ذرا بھی کوشش مت کرنا۔ریاست کو علم کے زیورسے آراستہ کرنے والے مخلص اساتذہ کے ساتھ یہ دشمنانہ طرز عمل اپنانے پر پوری ریاست میں غم اور غصہ پایا جانا قابل فہم بات ہے۔ بلاشبہ دنیا اس بوسیدہ تعلیمی نظام پر انگلی اٹھاتی ہے جس کے سائے میں استاد کی اوقات سے کھلواڑ کیا جارہا ہے۔ اخلاق اورانصاف کی تمام حدیں پھلانگنے والے ارباب ِ حل و عقد سے پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا اساتذہ کے جائز اور مبنی برانصاف مانگوں پر ہمددانہ غور وفکرکر نا آپ کے شایان ِ شان نہیں ؟ کیااساتذہ کے ساتھ اس ناموافق رویے سے اشارہ نہیںملتا کہ اعلیٰ حکام ریاست جموں و کشمیر میں علم کی شمعیں بجھا نے کے د رپے ہیں؟

اساتذہ کے مسائل کے تئیں حکومتی غیر سنجیدگی نے اُستاد وں کے عظیم مرتبے کو خاک میں ملایاہے۔ افسوس یہ کہ ایک استاد جسے قوم کا معمار اور مستقبل کا ضامن سمجھا جاتا ہے، اُس کی مسلسل معاشی ناآسودگی پر کسی کے ماتھے پر شکن نہیں پڑتی۔ نتیجہ یہ کہ تعلیمی سال کے دورانیہ میں کبھی اپنی تنخواہوں کی واگزاری اور کبھی ساتویں تنخواہ کمیشن کی مراعات دئے جانے کے لئے انہیںسڑکوں پر سر اپا احتجاج بننے پر مجبور کیا جاتاہے۔ اس قصۂ طولانی کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ سال ہا سال سے متواتر دیکھا جارہاہے کہ اساتذہ کی آ ہ وبکا اور چیخ وپکار کے باوجود حکام بالا ٹس سے مس ہوتے ہیں اور نہ اساتذہ کے مسائل کے دائمی حل کے لئے کو ئی روڑ میپ ترتیب دیتے ہیں۔

ظاہر ہے جہاں ایک طرف حکومتی عدم دلچسپی سے ٹیچروں کو بے انصافی کا سامنا کر نا پڑرہاہو، وہاں ٹیچروں کے متعدد مسائل کی موجودگی میںسرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم طلباء کی پڑھائی لکھائی بھی متاثر ہونا فطری بات ہے مگر اربابِ اقتدار ہیں کہ ٹیچروں کے مسائل سن کر اور ان کا موزوں حل نکال کر تعلیم وتدریس کانظام طلبہ دوست بنانے کی کوئی فکر لاحق ہی نہیں۔ کیا ا س سے یہ اخذ نہیں ہوتا کہ ریاست جموں و کشمیر کو تعلیمی لحاظ سے پسماندہ اور بے جہتی کا شکار بنانے کے لئے کوئی گھناونی سازش عملائی جار ہی ہے ؟ریاست کے سیاسی و سماجی اور معاشی خیرخواہوں کواس منفی صورت حال کو بر وقت بھانپ لینا چاہیے تاکہ ہم لوگ تعلیمی میدان میںیتیم ویسیر بننے سے بچ سکیں۔یاد رہے کہ اساتذہ کی تعظیم وتوقیر لازم وملزوم ہے اور جو لوگ قوم کے معماروں کو بھر پور انداز میں اپنا مقام ومرتبہ نہیں دیتے گیا تو وہ وبری طرح سے ذہنی غلامی کی زنجیروںمیں قید ہو کررہ جاتی ہے۔ لہٰذا اعلیٰ ریاستی حکام سے استدعا ہے کہ وہ ٹیچروں کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کر کے ریاست کو علمی طاقت سے تہی دامن ہونے (Educational dis-empowermwnt)سے بچائیں تا کہ ہمارے طلبہ میں ستارے چھونے کی ہمت اور عزم بھر جائے۔

سیاہ رات نہیں نام لیتی ہے ڈھلنے کا

یہی تو وقت ہے سورج تیرے نکلنے کا

آخر پر دوباتیں اپنے مکرم ومحترم اساتذہ صاحبان سے ! دراصل قوم کا ہر ایک استاد عملی طور گروہ ِانسانی کا مخلص معمار ہونا چاہیے لیکن آج کل بعض اساتذہ اپنے پیشے کے تقدس اور عظمت سے نابلد دکھائی دیتی ہے۔ ان کی کار کردگی دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ہمارے پاس معماروں کے بجائے اب زیادہ تر قوم کی تعمیرمسمار اور منہدم کرنے والے زیادہ ہیں۔ پیشۂ اُستادی کی اونچائیوں سے ناواقف ان لوگوںکو اپنی تنخواہ اور مراعات سے غرض ہوتی ہے، ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو زندگی میں اور کچھ نہ بن سکے تو مجبوراً استاد بن گئے۔ یہی ایک گندی مچھلی سارے تالاب کو گندا کر تی ہے۔ آج تک جتنی بھی قوموں نے ترقی کی اونچائیں چھوئی ہیں، اُس کا سارا کریڈٹ ٹیچروں کو جاتا ہے کیونکہ وہ ایک بڑا کلیدی رول اداکر کے اْس قوم کو اپنی تقدیر آپ بنانے پر گامز ن کر تے ہیں۔ لہٰذااساتذہ کو چاہیے کہ گندی مچھلیوں کو یا تو صاف کریں یا خود ان کے برے اثرات سے محفوظ رہیں۔ نیز ان کارکشا وکارساز اساتذہ کے ساتھ بگڑا سماج کیا برتاؤ کر ے کیا نہ کرے، اْس سے متاثر ہوئے بنا اگر یہ خود اپنے ملک وملت کو ا?گے لے جانا چاہتے ہیں تو انہیں با صلاحیت، بہترین کردار کے حاملین اوراور خلوص والے اساتذہ کا روپ دھارن کر نا ہوگا۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب ہراستا د اپنے دل وجان میں خوف ِ خدا اور حُب انسانیت کی کائنات بسائے اور سجائے۔

ہم میں سے ہر کوئی اس حقیقت سے باخبر ہے کہ موجودہ دورِ پُرآشوب قوم وملک کے لئے انتہائی خطرات سے لبریز ہے، ا س لئے اساتذہ کو چاہیے کہ اس دور کے چلنجز قبول کر کے اپنے فرائض اور ذمہ داریاں بطریق اِحسن ا داکریں تاکہ وہ دونوں دنیاؤں کا اجر وثواب کماسکیں۔ سرکار کو بھی فوراً ٹیچروںکے مسائل کا ازالہ کر نے کے لئے ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ حاکمین ِ بالا کو سمجھناچاہیے کہ وہ خود بھی اساتذہ کی بے لوث خدمات کے مرہون ِ منت ہیں اور اساتذہ بہترین حالات ِکار سے مزین ہوں تو سماج اور قوم کو بہترین حاکم، مصلح، ڈاکٹرز، انجینئرز، سائنسدان اور باقی پیشہ ور ہاتھ مہیا ہوتے ہیں۔اساتذہ کی تعلیمی کاوشوں اور تدریسی خدمات کے سبب ہی یہ سب معزز پیشے سماج کی تعمیر وترقی کے لئے بنیادیں فراہم کر تے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔