کانگریس صدارت سے کیسری کیوں ہٹائے گئے تھے؟

سید منصورآغا

 مودی جی کی سرکار کو پانچ سال پورے ہورہے ہیں۔ لیکن حالیہ دنوں میں انہوں نے جو تقریریں کی ہیں ان میں اپنے وعدوں کے نفاذ کے حوالے کے بجائے کانگریس اوراس کے صدر اوران کے خاندان کو نشانہ بنانے پرزیادہ زور دیا ہے۔ پیلی بھیت سے بھاجپا ایم پی مسٹرورن گاندھی کے مطابق جواہرلعل نہرو نے جدوجہد آزادی کے دوران ساڑھے پندرہ سال جیل میں گزارے اوراس حالت میں کہ اس کا کوئی انعام ملنے کے آثار نہیں تھے۔اپنی قائدانہ صلاٰحیت، لیاقت، قربانیوں،  شرافت اور وضعداری کی بدولت ان کو عوام وخواص میں مقبولیت ملی۔ گاندھی جی کی تجویز اوردیگرلیڈروں کی تائید سے وہ ملک کے پہلے وزیراعظم بنے۔لگاتار تین بارچنے گئے اور17سال اس منصب پررہے۔1964میں ان کی وفات کے بعد ان کی بیٹی اندرا گاندھی نہیں، بلکہ لال بہارد شاستری وزیراعظم منتخب ہوئے جنہوں نے اپنا کیریر اسکول ٹیچراور پارٹی کے زمینی ورکر سے شروع کیا تھا۔انکساری ان کی شناخت تھی۔ جنوری 1966 میں ان کی تاشقند میں اچانک وفات کے بعد پارٹی نے اندراگاندھی کو وزیراعظم چنا گیا، جن کو اس وقت’ گونگی گڑیا ‘کہا جاتا تھا۔ لیکن بعد میں وہ ایک آہنی لیڈرثابت ہوئیں۔ انہوں نے قوم کے لئے جو کام کیا اس پر اٹل بہاری باجپئی جی نے ان کو ’ درگا کے اوتار‘کا خطاب دیا تھا لیکن ان کو گاندھی جی کی طرح بے رحمی سے قتل کردیا گیا۔ اس خاندان کے تیسرے وزیراعظم راجیو گاندھی بنے ان کو بھی شہید کردیا گیا۔ پالیسیوں سے اختلاف اپنی جگہ مگران کی قربانیوں کو ٹھکرانا سخت گھٹیا حرکت ہے۔

ہندستان میں اب تک 18وزیراعظم ہوئے ہیں، جن میں نہروخاندان کے یہ تین افرادمجموعی طورسے 37سال اقتدار میں رہے۔1947اور2018کے ہندستان میں جو فرق نظرآتا ہے، اس میں بڑا کردار ان تینوں کا ہے۔ نہروجی لوک سبھا کے لئے تین بار چنے گئے۔باقی وزرائے اعظم میں نرسمہاراؤ اوراٹل جی کے سوا کوئی بھی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کرسکا۔مگریہ دونوں بھی دوبارہ وزیراعظم نہیں چنے جاسکے۔ ایک جمہوری ملک میں وہی لیڈر ٹک سکتا ہے جس کو پارٹی اورعوام قبول کرے۔ اب اگر کسی اور کو ایسی قبولیت نہیں ملی تونہروخاندان کیا کرے؟

وزیراعظم نریندرمودی نے مہاسمند(چھتیس گڑھ) کے ایک انتخابی جلسہ میں پارٹی کے منصب صدارت سے سیتارام کیسری جی کے ہٹائے جانے کا حوالہ اس انداز میں دیا گویا ان کو اس لئے ہٹادیا گیا کہ وہ دلت پریوارکے تھے۔ یہ بات خلاف واقعہ ہے۔ اورخلاف واقعہ سیاسی کہانیاں بیان کرنے میں مودی جی کا جواب نہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ کیسری جی دلت نہیں تھے، بلکہ ’ویش‘ برادری سے تھے جس کو عرف عام میں ’بنیا‘ یا’ بانیا‘ کہتے ہیں۔ یہ تجارت پیشہ برادری ہے۔ ساہوکاری بھی کرتی ہے۔
کیسری جی کو ان کی کم عمری سے کانگریس نے جس طرح نوازا، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔1967میں ان کو لوک سبھاکا ٹکٹ دیا گیا۔ کٹیہارسے چنے گئے۔ 1973میں بہار کانگریس کا صدربنایا گیا۔ اے آئی سی سی میں لایا گیا اور پارٹی کا خازن بنادیا گیا۔ ان کے دورمیں مشہورتھا، ’کھاتا نہ بہی، جو کہہ دے کیسری،  وہی سہیَ‘۔پانچ بار ان کو پارٹی نے راجیہ سبھا میں بھیجا۔ گویا 30سال پارلیمنٹ کے رکن رہے۔اندارگاندھی، راجیو گاندھی اورنرسمہاراؤ کی سرکاروں میں وہ وزیررہے۔ان کے ساتھ تعصب ہوتا تو یہ سب کچھ نہ ہوتا۔

بابری مسجد کے انہدام سے سیاسی حالات بدل گئے۔ 1996کے چناؤ میں کانگریس کی شکست ہوئی۔ ان حالات میں جب پارٹی سخت مشکلات سے گزررہی تھی، نرسمہا راؤ نے پارٹی صدارت چھوڑدی۔ تب اتفاق رائے سے کیسری جی کو پارٹی صدربنایا گیاتھا۔ لیکن اس کو کیا جائے کہ ان کی پارٹی میں تو بہت عزت تھی مگرطویل سیاسی کیریر کے باجودان کی عوام میں کوئی اپیل نہیں تھی۔اپنے دور صدارت میں انہوں نے دوسخت ناگوار کام کئے۔ نرسمہا راؤ سرکار کی شکست کے بعد کانگریس کنارے لگ گئی تھی۔ مگر تبھی ایک صورت یہ نکلی کہ غیرکانگریسی اورغیربھاجپائی علاقائی پارٹیوں کاایک اتحا د’یونائیٹڈ فرنٹ‘ بنا جس کو کانگریس نے باہر سے حمایت دیدی۔ چنانچہ محاذ کے منتخب لیڈر، جن سے کانگریس نے بھی اتفاق کیا تھا، مسٹرایچ ڈی دیوگوڑایکم جون 1996 کو وزیراعظم بنے۔ یہ سرکار ٹھیک ٹھاک چل رہی تھی۔ لیکن اپریل 1997میں جب وزیراعظم روس کے سرکاری دورے پرتھے، کیسری جی نے پارٹی قیادت کو اعتماد میں لئے بغیر عین اس وقت ان کی حمایت واپس لینے کا اعلان کردیا جب وہ سرکاری سطح کے مذاکرات کے لئے ہوٹل سے نکلے تھے۔کیسری جی کے اس اقدام سے لوگ حیران رہ گئے۔ پھر ایک راہ نکالی گئی۔ مسٹراندرکمارگجرال، جو عرصہ تک اندراگاندھی کی معتمدرہے، نظریاتی اعتبار سے سیکولراورنہایت باقار شخصیت تھے، وزیر اعظم بنا دئے گئے۔ کچھ ہی دنوں بعد مسٹرکیسری نے مطالبہ شرو ع کردیاکہ’ ڈی ایم کے‘پارٹی کے و زیروں کوسرکارسے ہٹادیا جائے۔ وجہ یہ بتائی کہ پارٹی پر راجیوگاندھی قتل معاملہ میں شک کیا جارہا ہے۔ وزیراعظم گجرال نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ کیسری صاحب نے پھرپارٹی کواعتماد میں لئے بغیریوایف سرکارکی حمایت واپس لے لی اور ملک پر وسط مدتی چناؤ مسلط کردیا۔ کانگریس اس کے لئے قطعی تیار نہیں تھی۔

ان حالات میں بڑی مشکل سے سونیا گاندھی کو، جو سیاست سے قطعی کنارہ کئے ہوئے تھیں، انتخابی مہم میں حصہ لینے پرآمادہ کیا گیا۔ اگرچہ پارٹی چناؤ نہیں جیت سکی مگرسونیاجی کے انتخابی جلسوں میں بھاری ہجوم سے یہ ظاہر ہوگیا کہ عوام میں ان کی مقبولیت ہے۔ کسیر ی جی پارٹی کی قیادت میں ناکام ہوگئے تھے۔انہوں نے غیرجمہوری طریقہ اختیارکیا اوراپنے غلط اقدامات سے مشکلات پیدا کر دیں،  جس کی وجہ سے پارٹی لیڈراورکارکن ان سے بددل ہوگئے۔ انہوں نے خود بھی کہہ دیاکہ اگرسونیا گاندھی آمادہ ہوجائیں، تو وہ ان کے حق میں صدارت چھوڑ دیں گے۔ یہ بات شاید اس خیال سے کہی تھی کہ سونیا جی ساس اور شوہرکی ناگہانی موت سے سخت صدمہ میں تھیں۔ اس لئے سیاست میں نہیں آئیں گی۔ مگرپارٹی کے اصراراورحالات کے پیش نظر جب وہ آمادہ ہوگئیں توکیسری جی نے استعفا دینے سے انکار کردیا۔ اس پر کارکنوں میں سخت اشتعال پیداہوگیا۔ کچھ نوجوان اس قدرغصہ میں تھے کہ یہ اندیشہ پیدا ہوگیا کہ کہیں کیسری جی کے ساتھ کوئی نازیبا حرکت نہ کربیٹھیں۔ چنانچہ بطوراحتیاط ان کے کمرے کے دروازے کو بند کردیاگیا۔ کئی سینئر لیڈرخود دروازے کے سامنے دیواربن کرکھڑے ہوگئے۔ عاملہ کی میٹنگ میں اتفاق رائے سونیا کو صدربنانے تجویز کو بھی جب کیسری جی نے نہیں مانا، تب ان کوصدرکے کمرے سے اٹھا کرمحفوظ گھرپہنچایا گیا۔میں کہتا ہوں کہ ان کی جگہ اگرکوئی برہمن یا راجپوت ہی کیوں نہ ہوتا، اسی انجام کو پہنچتا۔ یہ ہے حقیقت جس کو مودی جی نے افسانہ بنادیا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔