انتشار پیدار کرکے اقتدار کا حصول بی جے پی کا مقصد

جاوید جمال الدین

حال میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی )نے مرکز میں نریندرمودی کی قیادت میں دوسرے دورمیں اقتدار حاصل کرنے کے سودن مکمل ہونے پرملک بھر میں جشن منایا اوراس درمیان تقریباً تین مہینے کی کارکردگی کو عوام کے روبروپیش کرنے کی کوشش کی گئی، جن میں جموں کشمیر سے آرٹیکل 370ہٹانے، تین طلاق کا قانون نافذ کرانے، موٹروہیکل کا سخت ترین قانون وغیرہ سرفہرست رہے ہیں،این آرسی میں بی جے پی کو تھوڑی سی ہزیمت کا ضرورسامنا کرنا پڑا ہے، اس کے باوجود شمالی ہند کی متعددریاستوں اور مہاراشٹر میں این آرسی کونافذ کیے جانے کی باتیں سامنے آرہی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ برقی ذرائع ابلاغ کی کوششوں اور طرح طرح کے مفروضات کو رنگ برنگے انداز میں پیش کرنے میں انہوںنے کامیابی حاصل کرلی ہے، جس سے عوام میں یہ تاثر پیدا ہوچکا ہے کہ حکومت کاہر قدم ملک کے تحفظ، یکجہتی اور فلاح وبہبودکے لیے اٹھایا جارہا ہے اورصرف مودی کے رہتے یہ ممکن ہے۔

دراصل بی جے پی لیڈر شپ اس بات کو بھانپ چکی ہے اور انہوںنے اپنی حکمت عملی بھی تیارکرلی ہے، البتہ کانگریس لیڈرشپ شدید بحران کی شکار ہے اور گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں شکست سے ہوئے صدمہ سے ابھر نہیں پائی ہے، وہیں زعفرانی پارٹی نے این آرسی اور ہندی کا مسئلہ اٹھا کر 2024کے لوک سبھا انتخابات کے لیے کمر کس لی ہے، اس کے ساتھ ساتھ بابری مسجد۔ رام جنم بھومی قضیہ بھی سپریم کورٹ کے زیرسماعت ہے اوراس کا فائدہ اٹھانے کا کوئی موقعہ بی جے پی نہیں چھوڑنے والی ہے۔ کشمیر ان کے لیے ہمیشہ ترپ کا پتہ رہیگا۔

واضح رہے کہ 2014میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات نے عالمی سطح پر ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کا بھر پور اثر لیا تھااور جسے نئے دور کی علامت کے طورپر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی رہی تھی۔ نئی لیڈرشپ اور سابق سیاسی خدمتگاروں کو سبکدوش کرنے کی باتیں عام فہم کی جارہی ہیں۔ غور کیا جائے تو محسوس ہوگا کہ 2014میں نرمی اور ہلکے انداز میں اندازے لگا لگا کربی جے پی نے کام کیا اور ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس ‘کے نعرے کے ساتھ کیا گیا،مگر دوسرے دور میں بے بانگ دہل کرنے کی مکمل کوشش شروع کردی ہے اور اس میں انہیں کامیابی بھی مل رہی ہے۔ کیونکہ ’ہم اور وہ‘ کی فرقہ ورانہ افیون لوگوں کو گھول کرپلائی جاچکی ہے اور اس کے بعد ارباب اقتدار کوسب ہرا ہرا ہی نظرآرہا ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو، دراصل انتخابات میں کئی محاذ پرمسلسل عوامی حمایت نے ان کے حوصلے بلند کردیئے ہیں اور ان کی کامیابی کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ راجیہ سبھا میں پارٹی کی نشتسوں میں اضافہ ان کے حوصلوںکو مزید مستحکم کرے گا اور مستقبل کے منصوبوں کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے وہ بھرپور عمل کریں گے، جس کا انہوں نے ایک صدی پہلے خواب دیکھاتھا۔

 بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی 2014کی پہلی مکمل اکثریت کے ساتھ کامیابی اور حالیہ 2019 کی دوسری انتخابی کامیابی نے کوئی شک نہیں ہے کہ ہندوستانی سیاست کے رنگ کو بدل کررکھ دیا ہے اور اس کے کئی پہلو سامنے آئے ہیں۔ 2014 میں نیا تجربہ ہاتھ لگا تھا، زیادہ کچھ کرنے کا موقعہ نہیں ملا تھا، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کا نفاذ جیسے فیصلے صحیح وقت پر نہیں لیے گئے اور منہ کی کھانی پڑی تھی حالانکہ بی جے پی کی نظر میں اہم ترین کامیابیاں تھیں۔

اس دور میں کوشش کے باوجود حزب اختلاف پھوٹ کا شکار نظرآیا اور اقتدار حاصل کرنے کے بعد بی جے پی نے اپنی کارکردگی کا بھر پور جائزہ لیا اور مستقبل میں بہتر نتائج کی فراہمی کے لئے نئے نظام کو قائم کیے جانے کے بارے میں حکمت عملی تیار کرنا شروع کردی ہے،بی جے پی نے سب سے پہلے نظام حکومت کے مختلف شعبوں کو زیر کرنے کی منصوبہ بندی کی، تاکہ معمولی سی بھی خامی نہ رہے اور باگ ڈور اس کے ہاتھوں میں ہی رہے۔ عدلیہ تک کے بارے میں بی جے پی پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ وہ بھی گھس پیٹھ کی جارہی ہے۔

اگر ہم گزشتہ سودنوں کا جائزہ لیں تو واضح نظرآرہا ہے کہ قومی سیاست میں بی جے پی نے اپنی جڑیں مضبوط کرلی ہیں اور دوسری مدت کے سودنوں میں کئی ایسے فیصلے لیے گئے ہیں کہ خود حزب اختلاب بوکھلا گیا ہے اور ان میں انتشار پیداہوگیا، کانگریس کے کئی قدآور رہنماﺅں کے منہ سے مودی کی تعریف کے بول نکلے ہیں اور کم از کم 370کے سلسلہ میں انہوںنے پارٹی کی پالیسی کے برعکس بیان بازی کی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ ” بی جے پی نے ان سودنوں میں جوکچھ کیا ہے، وہ آئندہ لوک سبھا انتخابات میں تیسری مرتبہ عوام کا ’آشیرواد ‘لینے کی تیاری میں ہے۔ “جہاں تک کانگریس کا معاملہ ہے وہ ہر ایک محاذ پر اب بھی شکست سے دوچار ہے۔ بلکہ ”صدمہ سے دوچار “ نظرآرہی ہے، 2014 میں کانگریس نے جوکچھ کھویا ہے اسے جیتنے کے لئے جان توڑ کوشش میں لگی ہے، لیکن کوئی لائحہ عمل اور حکمت عملی دور دور تک نظرنہیں آرہی ہے اور دور دورتک سنناٹا چھایا ہوا ہے۔ کانگریس دورحکومت میں دوسرے سب سے زیادہ طاقتور رہنماءچدمبرم کی گرفتاری پر لیڈرشپ بغلیں جھانکتی نظرآرہی ہے، ملکی سطح پر ایسا کو ئی احتجاج اور دھرنا نظرنہیں آیا، جس سے پتہ چلے کہ کانگریس ان کی گرفتاری پر غمزدہ ہے۔ چدمبرم وزیرداخلہ اور مالیات جیسے عہدوںپر فائز رہ چکے ہیں۔

جبکہ بی جے پی نے کئی معاملات میں حزب اختلاف کو زیر کرنے کے لیے مختلف حربوں کا استعمال باآسانی شروع کردیا ہے اور اپنے مخالفین پر فتح حاصل کرنااس کا مقصد ہے، مہاراشٹرنونرمان سینا (ایم این ایس) کے فائربرانڈ لیڈر راج ٹھاکرے کی ای ڈی دفتر میں آٹھ گھنٹے کی تفتیش نے زبان بندی کردی ہے، بظاہر یہ سب 2024کی تیاری نظرآتی ہے کیونکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے چند ماہ پہلے ہی بی جے پی کے ممبروں سے کہہ دیا ہے کہ وہ ابھی سے 2024 کے انتخابات میں کامیابی پر توجہ دیں، لیکن شکست خوردہ کانگریس تو 2019 کی دوڑ میں کافی پیچھے دھول چاٹتی نظرآرہی ہے۔ مہاراشٹر میں کانگریس اور اس کی اتحادی این سی پی سخت بحران کا شکار ہیں، ان کے قدآوررہنماءایک ایک کربھگوا پارٹیوں کی زینت بن چکے ہیں۔

 بی جے پی نے نہ چاہتے ہوئے کرناٹک میں سیاست کا گندہ کھیل کھیل لیا کیونکہ اسے جنوبی ہند میں خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی ہے، اور وہ جنوبی ہندمیں پاﺅں جمائے رکھنا چاہتی ہے۔ تلنگانہ میں کافی امیدیں وابستہ رہیں، لیکن تلنگانہ کے ساتھآندھرااور کیرالا میںاس کی ناقص کارکردگی سے کافی پریشانی کا باعث ہے، آندھرا پردیش میں ووٹوں کاحصہ ایک فیصد سے نیچے آ گیا۔ سبری مالا معاملہ کے تناظر میں کیرالا میں بھی اسے اچھی کامیابی نہیں ملی ہے۔، جس کی پارٹی کو امید تھی۔ اس کی کوشش ہوگی کہ جنوبی ہند کی سیاسی پالیسی میں تبدیلی لائی جائے اور امید ہے کہ اسے 2024تک رائے دہندگان کو رام کرنے میں کامیابی بھی مل جائے گی۔ جہاں تک ملکی سطح کا سوال ہے کہ بی جے پی نے آر ایس ایس کے ساتھ اپنے رابطوں کو مستحکم کرنا شروع کردیا اور اپنے کام کاج کو پھیلانے میں اس کی مدد اور تعاون لیا جارہا ہے، جیسا کہ ماضی میں لیا جاچکا ہے۔ یہ سب خاموشی سے بڑے پیمانے پر جاری ہے، کئی ریاستوں میں گورنرس کی سبکدوشی کے بعد وہ پھر بی جے پی کے سرگرم ورکر بن چکے ہیں، جن میں کلیان سنگھ اور مہاراشٹر کے رام نائےک بھی شامل ہیں۔ اس سے برعکس کانگریس نے مسلسل دوبارلوک سبھا انتخابات میں شکست سے دوچار ہونے کے بعدبھی کوئی سبق نہیں سیکھاہے اورکافی تاخیر سے راہل گاندھی کے جانشین کے طوران کی والدہ سونیا گاندھی کو ذمہ داری سونپ دی گئی ہے، راہل گاندھی کو لوک سبھا انتخابات کے بعد ڈٹ کر میدان میں کھڑے رہنا تھا اور پارٹی کی ناکامی کے اسباب کو جاننے کی بھر پور کوشش کرنا تھا،لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے کہ وہ راہِ فرار اختیار کررہے ہیں، انہوںنے جو طریقہ اپنا یا ہے، وہ قابل ستائش نہیں ہے بلکہ میدان جنگ سے اپنے سپاہیوں کو بے یارومددگار چھوڑ کر بھاگنا ہے، بذدلی ہوتا ہے۔ جس کا خمیازہ کانگریس کو مستقبل میں بھگتنا پڑے گا۔ کیونکہ پہلے ہی ذکر کیا جاچکا ہے کہ قومی سطح کے قدآوررہنماءآرٹیکل 370اور دیگر امور میں این ڈی اے حکومت کے حامی نظرآئے اور کئی اہم لیڈر مہاراشٹر میں بی جے پی اورشیوسینا کا دامن تھام چکے ہیں۔ اس صورتحال کی وجہ سے کانگریس ورکروں میںکچھ کرنے کا جنون وجوش کہیں نظر نہیں آتا ہے۔

دراصل کانگریس نے اقتدار کے لیے اپنے اصولوں اور پالیسیوں کو بالائے طاق رکھ دیا ہے اور بی جے پی کے دام میں پھنس کر سیکولرزم کی دھجیاں اڑادی ہیں، کانگریس نے جب سے سیکولرزم اور قومی ہم آہنگی کا دامن چھوڑا ہے، وہ پیچھے کی جانب چلی گئی ہے، کیونکہ بی جے پی نے قوم پرستی کا بگل بجانے کے ساتھ ساتھ میڈیا کے ذرائع کانگریس کے سیکولرزم کو اقلیتی فرقہ کے مفاد میں اپنانے کی بات کو عام کرنے سے کافی فائدہ اٹھایا ہے اور کانگریس کو اس سے نقصان پہنچا ہے۔ کانگریس لیڈر شپ نے اگرآئندہ ماہ مہاراشٹر،ہریانہ سمیت ضمنی انتخابات میں خود کو بھرپور انداز میں نہیں پیش کیا اور ہم خیال سیکولرپارٹیوں کو ساتھ نہیں لیا توبہتری کی کوئی امید نہیں نظر آرہی ہے، کانگریس کو اسمبلی انتخابات کو آسان نہیںسمجھنا ہے بلکہ ازسرنواپنی حکمت عملی پرغورکرتے ہوئے پارٹی میں نئی روح پھونکنی ہوگی ورنہ مستقبل میں بہت جلد کچھ حاصل ہوجائے، اس کی کوئی امید نظرنہیں آرہی ہے اور کانگریس کو آس بھی نہیں لگانا چاہئیے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔