اورنگ آباد فساد: کیا پولیس ہی اصل دنگائی ہے؟

شہاب مرزا

جمعہ کی شب اورنگ آباد شہر کے موتی کارنجہ علاقہ میں نل کنکشن کو موضوع بنا کر دو گروپوں میں شروع ہوئی مارپیٹ کے واقعہ نے پورے شہر کی پر امن فضا کو مکدرکردیا تھا۔اس معمولی بات کی وجہ سے شروع ہوا جھگڑا فساد میں تبدیل ہوگیا۔بے خوف فرقہ پرست عناصر ہاتھوں میں ننگی تلواریں لئے رات بھر مسلمانو ںکی املاک کو نقصان پہنچاتے رہے۔ کئی بستیوں کو آگ کی نذر کردیا کئی دکانیں نذر آتش کی گئی۔ اس ایک رات کے ہنگامے  نے ۲ لوگوں کی جانیں لی جسمیں ایک ۱۷؍ سالہ نوجوان حارث قادری کو پولیس کی گولی کی وجہ سے موت ہوگئی وہی ایک بزرگ ۷۲ سال کے جگناتھ دوکان کے ساتھ آگ کے شعلوں کی نذر ہوگئے۔

اسی طرح ۳۰ سے ۴۵نوجوان شدید زخمی ہوئے ہیں۔ جو زیر علاج ہیں ان سبھی کا الزام ہے کہ ان سبھی کو پولیس نے نشانہ بنایا ہے اور گرفتارکرکے ان کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔ ان میں کم عمر لڑکوں کی تعداد زیادہ ہے فسادات کے دوران پولیس پوری طرح بے بس رہی فسادی رات بھر قانون کی دھجیاں اڑاتی رہی لیکن ان حالات میں پولیس پوری طرح ناکام رہی وہیں صبح کی اولین ساعتوں میں نوجوانوں کی گرفتاریاں انجام دی گئی وہ سبھی کم عمر اور نابالغ ہیں اس ایک رات میں لگ بھگ۴۰؍دکانیں اور ۱۰۰ کے قریب گاڑیوںکو جلادیاگیا کروڑوں روپئے کی املاک کو آگ لگادی گئی شاہ گنج میں غریب چپل مارکیٹ والوں کی دکانیں انکا اصل نشانہ بنی اور رات بھر پولس تماشائی کی طرح فرقہ پرست عناصر کی پشت پناہی کرتی رہی اس جانب ماحول کو ڈھیلا چھوڑاگیا اوراس جانب آنسو گیس پٹرول بم اور ہوائی فائرنگ کی گئی جس کا شکار حارث قادری ہوا۔

اس ایک دن کے واقعات سے کئی قسم کے سوالات گردش کررہے ہیں اور پولس کے اس یکطرفہ کاروائی اور دنگائیوں کو کھلی چھوٹ دینے پر سوال کھڑے کررہے ہیں۔ جو قانون کے رکھوالے تھے وہیں قانون کا کھلواڑ کرتے ہوئے نظر آئے۔بھیما کورے گائوں اور پڑے گائوں میں بھی فسادات ہوئے تھے پولیس نے جب فائرنگ نہیں کی پھر نواب پورہ میں ایسا کیا ہوگیا تھا جو پولیس کو حالات قابو میں کرنے کے لئے فائرنگ کرنی پڑی؟ انھیں فائرنگ کرنے کی اجازت کس نے دی؟ فائرنگ کرنا ہی تھا تو کمر کے نچلے حصہ میں گولی کیوں نہیں ماری گئی؟ ۳۰؍ سے زائد مسلم نوجوان پولیس کے اس یکطرفہ عتاب  کا شکار ہوئے ایک مسلم نوجوان اپنی جان گنوا بیٹھا فرقہ پرست عناصر کے کتنے نوجوان زخمی ہوئے؟ پولیس نے ان پر کاروائی کیوں نہیں کی؟ کیا پولیس کی گولیاں صرف مسلمانوں پر ہی چلیں گی؟ فسادات بھڑکانے والے فرقہ پرستوں پر کاروائی سے پولیس کیوں قاصر ہیں؟ کیا ۲۰۱۹ الیکشن سے پہلے فرقہ پرست لیڈروں کی یہ ایک قسم کی تیاری تھی؟اور بھی ایسے کئی سوالات ہیں جو اس فساد کو ایک سوچی سمجھی سازش کی طرف لے کر جارہے ہیں؟

اس فسادات میں پوری ناکامی پولیس انتظامیہ کی ہیں جس نے وقت پر مستعدی نہیں دکھائی ورنہ اتنا بڑا حادثہ نہیں ہوتا۔ پچھلے کئی سال کی تاریخ پر نظر ڈالیں جائیں تو ایک بھی جگہ پورے مہاراشٹر میں کبھی فائرنگ نہیں کی گئی۔ اس سے قبل بھیما کورے گائوں میں فسادات ہوئے تھے۔ ۳؍ یوم مہاراشٹر بند تھا جب بھی فائرنگ نہیں کی گئی پھر مسلم اکثریتی علاقوں میں فائرنگ پولیس کے تعصب پسندانہ مزاج پر سوال کھڑے کررہی ہیں۔ اب باری مسلم قائدین اور شہریان کی ہے جو جواں سال حارث قادری کے انصاف کے لئے کس طرح لڑتے ہیں اسی طرح نواب پورہ کے ایک بزرگ بھی پولیس کی تعصب پسند گولی کا نشانہ بنے۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ پولیس نے حالات کو قابو میں کرنے کے لئے دونوں جانب یکساں کاروائی کرنا چاہئے تھا لیکن پولیس  نے صرف یکطرفہ کاروائی کی اور مسلمانوں پر ت شدد کیا اگر پولیس غیر جانبدار ہو کر فسادیوں ہو کر فسادیوں کے خلاف بھی کاروائی کرتی تو اتنا تشدد برپا نہیں ہوتا اور کروڑوں روپئے کی املاک کو آگ کی نذت نہیں کیا جاتا تھا۔ا س طرح کی فائرنگ دھولیہ فسادات کے وقت کی گئی تھی جب ۶؍ فٹ کے پرانے گھروں میں ۵؍فٹ تک گولیوں کے نشانا ت ملے تھے۔ شائد اب بندوق بھی اب لفظ مسلم سنتے ہی اپنا کام شروع کردیتی ہے۔اور مسلمانوں کے نصیب میں بندوق کی گولیا ںہیں۔ جو صرف نہتے مسلمانوں پر ہی چل پڑتی ہیں۔وجہ بالکل صاف ہے انہیں مسلمانوںسے سخت نفرت ہے بغض ہے حسد ہے مسلمانوں کی ہر قسم کی ترقی کو وہ برداشت نہیں کرسکتے وہ مسلمانوں کو ہر جگہ اور ہر شعبہ میں لاچار وبے بس دیکھنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب بھی اس ملک عزیز میں فسادات ہوئے ہیں صرف مسلمانو ںکی ہی بستیاں اجاڑی گئی ہیںاور انہیں کی املاک کو تباہ وبرباد کیا گیا ہے۔

 مہاراشٹر میں تشدد کے کئی واقعات پیش آئے ہیں جسمیں کئی پولیس ملازمین زخمی ہوئے لیکن وہاں فائرنگ نہیں کی گئی پھر یہاں ایسا کیا ہوا تھا جو پولس اتنا بے قابو ہوکر ہوش گنواکر فائرنگ شروع کردی تھی۔لوگوں میں اس بات کی قیاس آرائیاں جاری ہے کہ اگر جانچ ایجنسیوں میں جب تک گندی ذہنیت کے لوگ براجمان ہیں تو انصاف کی پکار لگانا فضول ہے۔ بہر کیف بہت افسوس ہوا دیکھ کر جو نوجوانوں کی عمر ابھی قلم تھامنے کی ہیں وہ ہاتھوں میں ننگی اور وزنی تلواریں ہاتھ م یں لئے املاک کو نقصان پہنچارہے تھے۔ اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی اور نوجوان بغیر سوچے سمجھے کی کو سیاسی فائدہ پہنچارہے تھے۔ جو بھی واقعات ہوئے ایسی جگہ پر کیا جہاں پچھلے ۵۰سالوں سے امن تھا بھائی چارگی تھی اور انھوں نے کبھی فسادات دیکھے ہی نہیں تھے۔ نقصان مسلمانوں کا ہوا زخمی مسلمان ہوئے اور الزامات بھی مسلمانوں پر لگائے گئے۔ اور اس پورے معاملے میں انتظامیہ سست اور فسادی چست رہے۔ اب امید کی جاسکتی ہے کہ خاطیوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ جن کی املاک جلی انہیں معاوضہ دیا جائے گا اور شہید نوجوان کے گھر کو دلاسہ دیا جائے گا سب ہوگیا جسے جو کرنا تھا وہ کرگئے اب امن وامان کی اپیل کی جائے گی۔

شیشے کی عدالت میں پتھر کی گواہی ہے

قاتل ہی محافظ ہے قاتل ہی سپاہی ہے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔