بھاجپا کے انتخابی منشور میں رام مندر بنانے کا وعدہ

 اتر پردیش میں بھاجپا نے رام مندر بنانے کی بات اپنے انتخابی منشور میں پھر شامل کیا ہے تاکہ ووٹروں کی صف بندی ہو، جس سے بھاجپا کی فرقہ پرستی کو تقویت ملے اور آسانی سے ہندو ووٹروں کا رخ اپنی طرف موڑ سکے۔ بیس بائیس سال سے جو پارٹی مندر کے نام پر اتر پردیش میں ووٹ لینے کی کوشش کر رہی ہے۔ کیا اس بار بھی اسے رام مندر کے نام پر ووٹ ملے گا۔ مرکز میں دوسری بار بھاجپا حکومت برسر اقتدار آئی ہے۔ 2014ء کے لوک سبھا الیکشن میں اس کا نعرہ اچھی حکمرانی اور ترقی کا تھا اور ملک کے لوگوں کو یہ یقین دلانے کی بھی کوشش کی گئی تھی کہ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی مندر جیسے مدعا کو نہیں اٹھائے گی۔ ’سب کا ساتھ، سب کا ویکاس‘ پر زیادہ زور دے گی۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اچھی حکمرانی اور ترقی کا نعرہ اب بھاجپا کیلئے پرانا ہوگیا اور چونکہ بہتر حکمرانی کی جگہ بدتر حکمرانی اور ترقی کے بجائے تنزلی ہی ملک کو دے سکی۔ اس لئے اب اسے رام مندر کا مدعا پھر سے تازہ کرنے کی ضرورت آن پڑ۔ تین طلاق اور یونیفام سول کوڈ کی باتیں بھی منشور میں کی گئی ہیں۔ اس طرح بھاجپا نے فرقہ پرستی کی بنیاد پر اتر پردیش میں الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

اچھی بات یہ ہوئی کہ کانگریس سماج وادی پارٹی نے ایک ساتھ فرقہ پرستی کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ مایا وتی کی بہوجن سماج پارٹی بھی بھاجپا کی فرقہ پرستی کو اجاگر کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہی ہے۔ اس طرح اتر پردیش کا الیکشن ملک کا الیکشن کی تمہید ثابت ہوگا۔ اگر خدانخواستہ بی جے پی کی جیت ہوتی ہے تو فرقہ پرستی کی جیت ہوگی اور ملک میں پنپنے اور بڑھنے کا موقع ملے گا، لیکن اگر ہار ہوتی ہے جس کی پوری امید ہے تو فرقہ پرستی کی ہار ہوگی اور بھاجپا کو بھی یقین ہوچلے گا کہ وہ فرقہ پرستی کے نام پر الیکشن جیتنے میں کامیاب نہیں ہوگی تو حوصلہ پست ہوگا۔ مودی بظاہر ترقی اور اچھی حکمرانی کی بات کرتے تھے مگر جو مودی کی حرکتوں سے واقف تھے وہ جانتے تھے کہ مودی فرقہ پرستی کے سب سے بڑے ہیرو ہیں۔ ان کو آر ایس ایس یا سنگھ پریوار نے 2014ء کے لوک سبھا الیکشن میں اسی بنیاد پر وزیر اعظم کے عہدے کیلئے امیدوار بنایا تھا گر اندر کچھ تھا باہر کچھ شاید عوام اب بھاجپا کے فریب کے جال میں دوبارہ نہیں پھنسیں گے اور جو لوگ بیس اکیس فیصد افراد فرقہ پرستی کی بیماری میں مبتلا ہیں ان کو چھوڑ کر دوسرے لوگ اس بیماری سے شاید ہی متاثر ہوں، اس لئے اتر پردیش میں بہار کی طرح شاید کراری ہار بی جے پی کو نہ ہو مگر ہار یقینی ہے۔ یہ بھی نظر آرہا ہے کہ بی جے پی اتر پردیش میں تیسرے نمبر پر آئے گی۔

 ہر ریاست میں غریب عوام خاص طور سے نوٹ بندی کی وجہ سے پریشان و بدحال ہوگئے۔ لاکھوں افراد بے روزگار ہوگئے۔ سیکڑوں کی موت واقع ہوگئی۔ کاروبار پر بھی بڑا برا اثر پڑا ہے۔ مودی پر غریبوں کی آہ بھی پڑسکتی ہے۔ اس لئے امید ہے کہ مودی اور مندر بھاجپا کو فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ مودی لہر کی بات کچھ چینل زبردستی پیدا کرنے کی کوشش میں اب بھی لگے ہوئے ہیں مگر اتر پردیش کی زمین پر ایسی کوئی لہر نہیں ہے۔

  ایس پی اور کانگریس کے اتحاد سے پہلے اس بات کا خدشہ تھا کہ مسلمانوں کا ووٹ تقسیم ہوجائے گا، جس سے بی جے پی کو فائدہ ہوگا۔ اب شاید یہ بات نہیں ہوگی کیونکہ اتحاد پر مسلمانوں کا بھروسہ یہ ضرور ہوجائے گا کہ یہ اتحاد بھاجپا کو شکست فاش دے سکے گا۔ جہاں اس کے امیدوار کمزور ہوں گے اور بہوجن سماج پارٹی کے امیدوار مضبوط ہوں گے وہاں مسلمان یقینا بھاجپا کو ہرانے کیلئے بی ایس پی کو ووٹ دیں گے۔ یہی حکمت عملی فرقہ پرستوں کو ہرانے کیلئے صحیح ہوگی۔ اسی حکمت عملی پر مسلمانوں کو عمل کرنا چاہئے جو مسلمانوں کی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں انھیں ایک دو سیٹ کے لالچ میں کسی طرح بھی بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے کیونکہ جو مسلم سیاسی جماعتیں مسلم پرستی کے نام پر الیکشن لڑیں گی اس سے براہ راست بی جے پی ہی کو فائدہ پہنچائے گی۔ یہ بات مسلمانوں کو اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہئے کہ ایسی مسلم پارٹیوں کی حمایت کرنا یا ووٹ دینا بی جے پی کی حمایت کرنے یا ووٹ دینے کے مترادف ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔