بی جے پی کی ہندوروایت کے پیچھے کارفرما ذہنیت

عادل فراز

خود کو حق بجانب ثابت کرنے کے لئے دوسروں کو غلط ثابت کرنا ضروری ہوتاہے۔ بی جے پی آج کل اسی فارمولے پر عمل پیراہے۔ انکے نزدیک ہندوستان کی تمام سیاسی جماعتیں مفاد پرست اور انکے نظریات فاسد ہیں۔ بی جے پی اکلوتی ایسی پارٹی ہے جو ملک کے حق میں کام کررہی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی پارٹی نہ تو وطن پرست ہے اور نہ کسی جماعت نے ملک و قوم کی خدمت میں حصہ لیاہے۔ در اصل یہ سنگھ ہیڈکوارٹر کے تربیت یافتہ افراد کی حکمت عملی ہے کہ دوسروں کی وطن پرستی اور خدمات کو اس قدر مشکوک اور بدنام کردیاجائے کہ انکے علاوہ کوئی محب وطن اور ملک کے لئے محنت کش نظر نہ آئے۔ وہ جھوٹ بھی دلیرانہ بولتے ہیں کہ سننے والے کو اس کے سچ ہونے کا گمان گزرتاہے۔ حال ہی میں کانگریسی رہنما ششی تھرو کے ذریعہ دیے گئے’’ہندو پاکستان‘‘ والے بیان پر بی جے پی چراغ پا ہے۔ انکے بیان سے ہم بھی پوری طرح متفق نہیں ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ اگر بی جے پی اسی طرح آرایس ایس کی تھیوری پر عمل کرتے ہوئے ’’ہندوتوو‘‘ کے نظریہ کو نافذ کرنے پر تُلی رہی تو وہ دن دور نہیں کہ جب ہندوستان کا داخلی نظام پاکستان کی طرح تباہ و برباد ہوجائے گا۔

ششی تھرور کے بیان کے بعدمورخہ 16 جولائی کو معروف ہندی اخبار’’ہندوستان‘‘ میں بی جے پی کے قومی ترجمان سدھانشو ترویدی کا کالم شایع ہوا۔ کالم میں انکی بوکھلاہٹ، ہندوتوو کے نظریہ کے نفاذ کی عجلت پسندی اور مسلمانوں کو نیچا دکھانے والی آئیڈیالوجی کارفرماہے۔ وہ لکھتے ہیں’’دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان(آزادی کے بعد) ایک مذہبی ریاست بنا مگر ہندوستان نہیں۔ ہندوستان کے منثور میں نا ’’ہندو‘‘ لفظ تھا نہ ’’سیکولر‘‘۔ یہ دونوں باتیں ہندوستان کی روایت میں آزادانہ طورپر داخل ہیں۔ عالمی سطح پر فقط ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں سارے مذاہب پائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ پارسی، جو اپنی مادر وطن میں ناپید ہوچکے ہیں، مگر ہندوستان میں باعزت زندگی گزار رہے ہیں۔ اسرائیل کی منضبط تاریخ کے مطابق دنیا کا واحد ملک ہندوستان وہ ہے جہاں یہودیوں کے ساتھ کبھی ظلم و تشدد تو کیا بھید بھائو بھی نہیں ہوا۔ عیسائیت کی جڑیں ہندوستان میں ویکٹن سے بھی پرانی ہیں۔ دنیا میں جہاں اسلام کے سبھی ۷۲ فرقے پائے جاتے ہیں وہ کوئی اسلامی ملک نہیں ہے بلکہ ہندوستان ہے۔ دنیا میں بودھ مذہب کے سب سے بڑے مذہبی رہنما دلائی لاما کی پناہ گاہ ہندوستان ہی ہے۔ یہ سب ایمرجنسی کے دوران ۴۲ ویں قانون ترمیم کے پرستائو کے ذریعہ قانون میں شامل کئے گئے ’’سیکولر‘‘  لفظ کی بنیاد پر نہیں ہے اور نا ہی ۱۹۵۰ میں نافذ آئین کی وجہ سے ہوا، بلکہ ہندوستان کی ہزار سالہ قدیمی ’ہندو روایت‘ کی بنیاد پر ممکن ہوا جسے آج طرح طرح کے الزامات سے بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ‘‘۔

سدھانشو ترویدی ’’ہندوروایت ‘‘ کی آفاقیت اور ہمہ گیریت کو ثابت کرنے کی دھن میں ’’ہندوستانی آئین‘‘ کی ہمہ گیریت اور آفاقیت کو مجروح کرنے میں بھی دریغ سے کام نہیں لیتے۔ اگریہ تسلیم کرلیا جائے کہ ہندوستان میں مختلف مذاہب اور قوموں کا وجود دیرینہ ہندو روایت کی بنیاد پر ہے تو پھر آج اسی روایت کے امین انہی مذاہب اور قوموں کے خلاف متشدد نظریہ کے حامی کیوں ہیں؟۔ کیوں دلتوں اور پسماندہ طبقوں پر زیادتی روا رکھی گئی ہے۔ کیابرہمن واد کی تاریخ ہندوروایت کو شرمسار نہیں کرتی، اگر نہیں تو کیوں؟کیا اس برہمن واد کے خلاف بھی کبھی ہندوروایت کے امین کھڑے ہونگے ؟۔ ہندوستان میں برہمنوں کے ذریعہ ہندوروایت کے نام پر آج تک جو کچھ ہوتا آیاہے اسکی ذمہ داری کس کے سرتھوپی جائے گی۔ یا پھر بھارت کے آئین میں ترمیم کے خواہشمند ’’ہندوروایت ‘‘ میں بھی ترمیم کے حا می ہیں؟۔ انکے نزدیک ہندوستان میں مختلف مذاہب اور قوموں کا باہمی میل جول اور آپسی بھائی چارہ ہندوستان کی سیکولر روح کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ ملک کی ’’ہندوپرمپرا‘‘ کی بنیاد پر ہے۔ سدھانشوترویدی یہ تو فخریہ بیان کرتے ہیں کہ ہندوستان میں اسلام کے سبھی ۷۲ فرقے موجود ہیں، مگر ان فرقوں کے ماننے والوں کے ساتھ انکا سلوک کیاہے یہ بیان نہیں کرتے۔ اسرائیل کی تحریری تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں یہودیوں کے ساتھ کبھی تشدد اور بھیدبھائو نہیں ہوا۔ مگر وہ اسلام کے ۷۲ فرقوں کے قتل و خوان کی روایت کو پردۂ خفا میں رکھتے ہیں۔ گجرات کا قتل عام، مظفر نگر کی نسل کشی، اخلاق کا بہیمانہ قتل، دہشت گردی کے نام پر بے گناہ مسلمانوں کی گرفتاریاں، ہجومی دہشت گردی اور اقلیتوں پر ہورہی زیادتیوں کی تاریخ پر روشنی نہیں ڈالتے کیونکہ اگر وہ اقلیتوں کی نسل کشی کی تاریخ بیان کرتے تو ’’ہندوروایت ‘‘ کے امین ’’ترویدی روایت‘‘ کو ہی ختم کردیتے۔

سدھانشو ترویدی کے مطابق آئین میں کبھی ’’سیکولر ‘‘ کا لفظ نہیں تھا اس لفظ کو ایمرجنسی کے دنوں میں آئین میں داخل کیا گیا۔ یعنی وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہندوستان ایک سیکولر ریاست نہیں ہے بلکہ ’’ہندوروایت‘‘ کی بنیاد پرقائم کی گئی ریاست ہے جسمیں کانگریس نے تبدیلی کرکے سیکولر لفظ کو شامل کردیا۔ سدھانشو ترویدی کا یہ الاپا ہوا راگ کوئی نیا نہیں ہے۔ آرایس ایس اور اسکے تربیت یافتہ سیاسی لوگ ایک عرصے سے یہ راگ الاپ رہے ہیں۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے ایوان میں سیکولر لفظ کی پری بھاشا بتاتے ہوئے کہاتھا کہ سیکولر کا مطلب ’’دھرم نرپیکش‘‘ ہونا نہیں ہے بلکہ اس کا ارتھ ’’پنتھ نرپیکش ‘‘ ہونا ہے۔ یعنی ملک میں دھر م کی آزادی نہیں ہے بلکہ عقیدہ کی آزادی ہے۔ انکے قول کے مطابق ہندوستان کا آئینی اور روایتی دھرم صرف ’’ہندو‘‘ ہے۔ رہی عقیدہ کی بات تو عقیدہ کا تعلق انسان کے دل سے ہے جس پر کسی حکومت یا آمر کا اختیار نہیں ہوسکتا۔

حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی آرایس ایس کے ایجنڈہ کے مطابق یہ چاہتی ہے کہ آئین میں ’’سیکولر‘‘ لفظ کی جگہ ’’ہندوتوو‘‘ لفظ کو شامل کیا جائے، یعنی یہ تسلیم کرلیا جائے کہ ہندوستان ایک ’’ہندو ریاست‘‘ ہے جسکے ہر شہری کا مذہب ایک ہے۔ ’ہندوتوو‘ کے ایجنڈہ کو سمجھنے کے لئے طویل بحث کی ضرورت ہے مگر سدھانشو ترویدی کے لکھے کالم کے ایک جملہ سے اس ایجنڈہ کی شکل صاف ہوجاتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں’’تاریخ میں ہندو مذہب کے تحفظ کی دو کوششیں ہوئیں۔ ایک شمالی ہندوستان میں گرو گوند سنگھ کے ذریعہ ’’خالصہ عقیدہ‘‘ کی بنیاد گزاری، جسکی توسیع مہاراجہ رنجیت سنگھ کی قیادت میں افغانستان تک ہوئی۔ دوسری کوشش چھترپتی شواجی مہاراج کے ذریعہ قائم کی گئی ’’ہندو پد پادشاہی‘‘ ہے جسکی توسیع پیشوا دور حکومت میں ہندوستان کے بیشتر علاقوں تک کی گئی ‘‘۔ سدھانشو ترویدی ’’خالصہ عقیدہ‘‘ کے ماننے والے سکھوں کو ’’ہندو‘‘ لکھتے ہیں جبکہ سکھ خود کو ’’ہندو‘‘ مذہب کا پیرو تسلیم نہیں کرتے۔ انکے نزدیک ’’سکھ ازم‘‘ بذات خود ایک آزاد مذہب ہے جس کا اپنا الگ عقیدہ اورقانون ہے۔ اس کالم سے سدھانشو ترویدی کی منشا ظاہر ہوجاتی ہے کہ وہ فقط مسلمانوں کو ’’ہندو‘‘ نہیں مانتے بلکہ ’’سکھ ازم‘‘ کے پیروکاروں کو بھی ’’ہندو‘‘ تسلیم کرتے ہیں کیونکہ جس طرح آرایس ایس کا یہ نعرہ ہے کہ مسلمانوں کے آباءو اجداد ہندوتھے، اسی بنیاد پر انکی گھرواپسی کی مہم چلائی جارہی ہے، اسی طرح سکھوں کے آباء واجداد بھی ہندو تھے لہذا انکی گھرواپسی بھی ضروری ہے۔ آج نہیں تو کل آرایس ایس سکھوں کی گھرواپسی کی مہم بھی ضرور چلاتی نظر آئے گی جسکے لئے سکھوں کو پہلے سے آمادہ رہنا ہوگا۔

آگے سدھانشوترویدی لکھتے ہیں’’۔ ۔ ۔ ہندو ایک ایسا مسلک ہے جو مذہبی تفریق اور مذہبی تشدد میں یقین نہیں رکھتا اسی لئے ہندو مذہب میں نہ ’’جہاد‘‘ کا تصور ہے اور نہ ’’ہاروسٹنگ آف سول‘‘ہے۔ سدھانشو ترویدی اور ان جیسے متعصب افراد آج تک ’’جہاد‘‘ کا صحیح مفہوم نہیں سمجھ پائے اور نہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیونکہ ’’جہاد ‘‘ کے لفظ کو ’’نام نہاد جہادیوں‘‘ کی طرح بدنام کرکے انہیں اپنا مقصد حاصل کرنا ہوتاہے۔ ورنہ سدھانشو تروید ی سمجھ جاتے کہ جس مذہب میں ’’جہاد ‘‘ نہیں ہے وہ اپنے پیروکاروں کو بزدلی اور خوف کے عالم میں ’’کمپرومائز‘‘ کی تعلیم دیتاہے۔ کیا ہندومذہب میں ’’مہا بھارت کی جنگ‘‘ کو ایک حقیقت نہیں سمجھا جاتا۔ اگر مہا بھارت کی جنگ ایک سچائی ہے تو پھر ’’جہاد ‘‘ کیاہے ؟جہاد کو اسلامی اصطلاح سے ہٹ کر دیکھیں تو فقط جنگ اور خونریزی نظر آتی ہے۔

اسلامی تعلیمات کے پس منظر میں لفظ جہاد کو سمجھیں گے تو اس کا ایک الگ ہی آفاقی مفہوم سامنے آئے گا۔ جو کچھ سدھانشو ترویدی آرایس ایس کے ایجنڈہ کے نفاذ کے لئے کررہے ہیں یہ کوشش بھی ’’جہاد ‘‘ ہے(اگریہ کوشش صحیح ہے)۔ اس لفظ جہاد کے مفہوم کو واضح کرنے کے لئے میں یہ کالم لکھ رہاہوں یہ بھی ایک ’’جہاد ‘‘ ہے۔ لہذا کسی بھی مذہب کی تعلیمات کو باطل ثابت کرنےسے پہلے اسکے مبادیات اور بنیادی پہلوئوں کی معلومات حاصل کرنا ضروری ہے۔ افسوس یہی ہے کہ ادھوری معلومات کی بنیاد پر عوام اور نوجوان نسل کو گمراہ کرکے اپنا سیاسی مفاد حاصل کیا جارہاہے۔ آرایس ایس بھی یہی چاہتی ہے کہ نوجوان نسل کو ہندوستان کی صحیح تاریخ کا علم نہ ہو بلکہ انہیں وہی تاریخ رٹائی جائے جو آرایس ایس کے منصوبے میں شامل ہے۔ اسی مہم پر انکے تربیت یافتہ اسکالرز لگے ہوئے ہیں۔ جن میں ایک نام سدھانشوترویدی کا بھی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. زاہد کہتے ہیں

    ماشا اللہ

    بہت عمدہ

تبصرے بند ہیں۔